ديکھا آپ نے!کفن دَفن بلکہ تعمير مسجِدميں بھی حيلہ شَرعی کے ذَرِيعہ زکوٰۃ ا ستِعمال کی جاسکتی ہے۔ کيونکہ زکوٰۃ تو فقير کے حق ميں تھی جب فقير نے قَبضہ کر ليا تو اب وہ مالِک ہوچکا، جو چاہے کرے۔ حیلہ شَرعی کی بَرَکت سے دینے والے کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور فقیر بھی مسجِد میں دیکر ثواب کا حقدار ہو گیا ۔ فقیرِشَرعی کو حِیلے کا مسئلہ بے شک سمجھا دیا جائے ۔حِیلہ کرتے وقت ممکِن ہو تو زیادہ
افراد کے ہاتھ میں رقم پِھرانی چاہے تا کہ سب کو ثواب ملے مَثَلاً حِیلہ کیلئے فقیرشَرعی کو ۱۲ لاکھ روپے زکوٰۃ دی، قَبضہ کے بعد وہ کسی بھی اسلامی بھائی کو تُحفۃً دیدے یہ بھی قبضے میں لیکر کسی اور کو مالِک بنا دے، یوں سبھی بہ نیّتِ ثواب ایک دوسرے کو مالک بناتے رہیں، آخِر والا مسجِد یا جس کام کیلئے حِیلہ کیا تھا اُس کیلئے دیدے تو اِن شآءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ سبھی کو بارہ بارہ لاکھ روپے صَدَقہ کرنے کا ثواب ملیگا ۔ چُنانچِہ حضرتِ سيدنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، تاجدار ِرسالت ، شَہَنْشاہِ نُبُوَّت ، پیکرِ جُودو سخاوت، سراپا رَحمت، محبوبِ ربُّ العزّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ، اگر سو ہاتھوں ميں صَدَقہ گزرا تو سب کو وَیسا ہی ثواب ملے گا جيسا دينے والے کيلئے ہے اور اس کے اَجر ميں کچھ کمی نہ ہو گی ۔ ( تاریخ بغداد،ج۷،ص۱۳۵)