۶ چھٹا سال نبوت
اس سال آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا امیر حمزہ ایمان لائے اور ان کے تین دن بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی مشرف باسلام ہو ئے۔ جو لوگ حبشہ سے واپس آئے تھے قریش نے ان کو اور دوسرے مسلمانوں کو زیادہ ستا نا شروع کیایہاں تک کہ ہجرت پر مجبور ہو ئے۔ چنانچہ اس دفعہ ۸۳مرداور ۱۸ عورتیں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اجازت سے ہجرت کر کے حبشہ چلی گئیں ۔ (1)
جب آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی تو مہاجرین حبشہ میں سے کچھ لوگ فوراً واپس آگئے۔حضرت جعفربن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ جو وہاں رہ گئے تھے وہ فتح خیبر کے وقت مدینہ میں واپس آئے۔جب حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہو ئے تو حضور نے ان سے معانقہ کیا اور پیشانی کو بو سہ دے کر فرمایا: (2) ’’ میں نہیں بتاسکتا کہ فتح خیبر سے مجھے زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے آنے سے۔ ‘‘
حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی بار ادۂ ہجرت حبشہ کی طرف نکلے تھے۔ برک الغِماد تک جو مکہ سے یَمَن کی طرف پانچ دن کی راہ ہے، یہ پہنچے تھے کہ قبیلہ قارَّہ کا سر دار ابن الدغنہ ملا، اس نے پوچھا: کہاں جارہے ہو ؟ آپ نے جواب دیا کہ میری قوم نے مجھے نکلنے پر مجبور کر دیا، میں چاہتا ہوں کہ کہیں الگ جاکر خدا کی عبادت کروں ۔ ابن الدغنہ نے کہا : یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ سافیاض ومہمان نواز، اپنوں سے نیک سلوک کر نے والا، غریب پر ور اور حوادث حق میں لوگوں کا مدد گار مکہ سے نکل جائے یا نکالا جائے، میں آپ کو اپنی پنا ہ میں لیتا ہوں ۔اس لئے آپ ابن الدغنہ کے ساتھ مکہ میں واپس آگئے۔ (3)
جب قریش کو یہ خبر پہنچی تو انہوں نے مشور ہ کر کے ایک سفارت بسر کر دگی عمرو بن العاص اور عبد اللّٰہ بن ابی ربیعہ
(یا عمارہ بن ولید ) نجاشی کی خدمت میں مع تحائف بھیجی۔سُفرَ اء (1) وہاں پہنچ کر پہلے بادشاہ کے بطارِقہ (2) سے ملے اور نذریں پیش کرکے کہاکہ ہم میں چند نا دان لونڈوں نے ایک نیاد ین ایجاد کیا ہے جو نصر انیت وبت پر ستی دونوں سے جدا ہے، وہ بھاگ کر یہاں پنا ہ گز ین ہو گئے ہیں ہمیں اشراف قریش نے آپ کے بادشاہ کے پاس بھیجا ہے کہ ان کو واپس کردے درخواست پیش ہونے پر آپ ہماری تائیدکردیں ۔ چنانچہ سُفَراء نے نجاشی کی خدمت میں حاضرہوکرتحائف پیش کیے اور سارا قصہ بیان کیا، بادشاہ نے مہاجرین کو طلب کیا۔ بطارقہ نے کہا: ’’ حضور ! یہ لوگ ان کے حال سے بخوبی واقف ہیں آپ ان کے حوالہ کرد یں ۔ ‘‘ بادشاہ نے کہا: ’’ نہیں پہلے ہم ان سے دریافت کرلیں ۔ ‘‘ چنانچہ جب مہاجرین دربار میں حاضر ہوئے تو حضرت جعفربن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان کی طرف سے اس طرح تقریر شروع کی: (3)
’’ شاہا! ہم لوگ ایک جاہل قوم تھے، بتوں کو پو جتے تھے، مردار کھاتے تھے، بد کاریاں کرتے تھے، اپنوں سے دشمنی رکھتے تھے، پڑ وسیوں سے بر اسلوک کرتے تھے، قوی لوگ کمزوروں کو کھا جاتے تھے، ہم اس حالت میں تھے کہ اللّٰہ تعالٰی نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف بھیجاجس کے نسب اور صدق وامانت اور پرہیزگاری سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے، اس نے ہم کو یہ دعوت دی کہ ہم خدا کو ایک جانیں ، اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ، بتوں کی پو جاجو ہم اور ہمارے باپ داداکیا کر تے تھے چھوڑدیں ، سچ بولا کریں ، امانت ادا کریں ، اپنوں سے محبت و سلوک رکھیں ، ہمسایوں سے نیک سلوک کریں ، محارم اور خونریزی سے بازآئیں ، یتیموں کا مال نہ کھائیں ، عفیف عورتوں (4) پر تہمت نہ لگائیں ، نماز پڑھیں ، صدقہ دیں ، روزے رکھیں ، پس ہم اس پر ایمان لے آئے، اللّٰہ کی عبادت کرنے لگے، شرک وبت پر ستی چھوڑ دی، حرام کو حرام اور حلال کو حلال جاننے لگے، اس جرم پر ہماری قوم ہم پر ٹوٹ پڑی اور اذیت دے کر مجبور کر نے لگی کہ ہم اللّٰہ کی عبادت چھوڑ کر پھر بتوں کو پو جنے لگ جائیں اور خبائث کو بدستور سابق حلال سمجھیں ۔ جب انہوں نے ہم پر قہر وظلم کیا اور ہمارے فرائض مذہبی کی بجاآوری میں سدِّراہ (5) ہوگئے تو ہم آپ کے ملک میں آپ کی پناہ میں آگئے، ہمیں امید ہے کہ آپ کے ہاں ہم پر ظلم نہ ہوگا۔ ‘‘
یہ تقریر سن کر نجاشی نے کہاکہ تمہارے پیغمبر پر جو کلام اتر اہے اس میں سے کچھ سنا ؤ۔ حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُنے سورۂ مریم کی چند آیتیں پڑھیں ۔نجاشی سن کر اتنا رویا کہ اس کی ڈاڑ ھی آنسوؤں سے ترہو گئی اور اس کے اساقفہ (1) بھی روئے۔پھر نجاشی نے کہا: ’’ یہ کلام اور انجیل دونوں ایک ہی چراغ کے پر تو ہیں ۔ ‘‘ اس کے بعد سفیروں سے کہا کہ تم واپس چلے جاؤ، اللّٰہ کی قسم! میں ان کو تمہارے حوالہ نہ کروں گا۔
دوسرے دن عَمرْوبن العاص نے حاضر دربار ہو کر عرض کیا: ’’ حضور! یہ لوگ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کی نسبت بُراعقیدہ رکھتے ہیں ۔ ‘‘ نجاشی نے مسلمانوں کو طلب کیا، جب وہ حاضرہوئے تو ان سے پوچھا کہ ’’ تم حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامکی نسبت کیا عقیدہ رکھتے ہو؟ ‘‘ حضرت جعفر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا : ہم اعتقاد رکھتے ہیں جیسا کہ ہمارے پیغمبر نے فرمایا ہے کہ عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام خدا عَزَّوَجَلَّ کے بندے اور پیغمبر اور روح اللّٰہ اور کلمۃ اللّٰہ ہیں ۔یہ سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھالیا اور کہا: ’’ واللّٰہ! جو تم نے کہاحضرت عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام اس سے اس تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں ہیں ۔ ‘‘ جب نجاشی کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو بطار قہ حاضر ین کے نتھنوں سے خرخراہٹ کی آواز آنے لگی مگر نجاشی نے پروانہ کی اور سفارت بالکل ناکام واپس آئی۔ (2)
________________________________
1 – المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،اسلام الفاروق،ج۲،ص۳والہجرۃ الثانیۃ۔۔۔الخ،ج۲،ص۳۱ملخصاً ۔ علمیہ
2 – مشکوٰۃ شریف بحوالہ شرح السنہ، باب المصافحۃ والمعانقۃ۔ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب المصافحۃ والمعانقۃ،
الحدیث: ۴۶۸۶۔۴۶۸۷،ج۲،ص۱۷۰۔۱۷۱ملتقطاً۔ علمیہ)
3 – تفصیل کے لئے دیکھو صحیح بخاری ،باب ہجرت مدینہ۔۱۲منہ (صحیح البخاری،کتاب مناقب الانصار،باب ہجرۃ النبی و
اصحابہ الی المدینۃ، الحدیث:۳۹۰۵،ج۲، ص۵۹۱ملخصاً۔ علمیہ)