ہمیشہ دیدارِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کرنے والا لڑکا:
حضرتِ سیِّدُناابراہیم خوَّاص رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں شدید گرمی والے سال حج کے ارادے سے نکلا۔ ایک دن جبکہ ہم حجازِ مقدَّس میں تھے، میں قافلے سے بِچھڑ گیا اور مجھے ہلکی سی نیند آنے لگی، مجھے اتنا ہی علم تھا کہ میں جنگل میں تنہا ہوں۔ اچانک ایک شخص میرے سامنے ظاہر ہوا، میں جلدی سے اسے جا ملا،وہ ایک کم سِن لڑکا تھا جس کا چہرہ چودہویں کے چاند یا دوپہر کے سورج کی طرح چمک رہا تھا، اس پر خوشحالی و رہنمائی کے آثار نمایاں تھے۔میں نے اسے سلام کیا تو اس نے یوں جواب دیا: ”وعلیکمُ السَّلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، یا ابراہیم!”مجھے اس سے بڑا تعجب ہوا، میں نے پوچھا: ”تم مجھے کیسے پہچانتے ہو حالانکہ اس سے پہلے تم نے مجھے کبھی نہیں دیکھا؟”تو وہ کہنے لگا:”اے ابراہیم!جب سے مجھے معرفت نصیب ہوئی ہے تب سے میں ناواقف نہ رہااور جب سے مجھے اللہ تعالیٰ کے وصال کی دولت ملی ہے تب سے میں جدائی سے نہ آزمایا گیا۔”میں نے پوچھا: ”اتنی شدید گرمی والے سال اس جنگل میں کیسے آگئے ہو؟”تو اس نے جواب دیا: ”اے ابراہیم !میں نے اللہ عَزِّوَجَلَّ کے علاوہ کبھی کسی سے محبت نہ کی، نہ اس کے غیر سے کبھی ملاقات کی ہے اور مکمل طور پر اسی کی طرف متوجہ رہتا ہوں اور اس کا بندہ ہونے کا اقرار کرتا ہوں۔” میں نے اس سے پوچھا: ”کھاتے پیتے کہاں سے ہو؟ ”تو بولا: ”میرا محبوب میری کفالت کرتا ہے۔” جب اس نے مجھے یہ جواب دیا تو اس کے آنسوؤں کی لڑی رخسار پرموتیوں کی طرح اُمَنڈ آئی۔ پھر اس نے چند اشعار پڑھے، جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:
”کون ہے جو مجھے چٹیل میدان میں جانے سے ڈرارہاہے، میں تو ضروراس زمین سے گزر کراپنے محبوب تک پہنچوں گا اور میں اس پرپہلے ہی ایمان لاچکاہوں، محبت وشوق مجھے مضطرب کئے ہوئے ہیں اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کا محب ہو وہ کسی انسان سے نہیں ڈرتا، کیا آج آپ میری کم سنی کی وجہ سے مجھے حقیر جان رہے ہیں، میرے ساتھ جو بیتی ہے اس کی وجہ سے مجھ پر ملامت کرنا چھوڑ دیں ۔”
اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا:”اے ابراہیم!کیا تم قافلے سے بچھڑ گئے ہو؟”میں نے جواب دیا: ”جی ہاں ۔ ‘ ‘ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کم سن لڑکے کو دیکھا کہ وہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اُٹھا کر کچھ پڑھنے کاارادہ کر رہاتھا، اسی وقت مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا۔جب آنکھ کھلی تو میں نے اپنے آپ کو قافلے میں پایااور مجھے میرا رفیق کہہ رہا ہے: ”اے ابراہیم ! خیال رکھنا، کہیں سواری سے گر نہ جاؤ۔” مجھے معلوم بھی نہ ہوا کہ وہ کم سن لڑکا کہا ں گیا، آسمان پر چڑھ گیا یا زمین میں اُتر گیا۔ جب میں میدانِ عرفات پہنچا اور حرمِ پاک میں داخل ہوا تو اس لڑکے کو کعبہ شریف کے پردوں سے لپٹ کر روتے ہوئے یہ
مناجات کرتے دیکھا:”میں کعبۂ مکرمہ زَادَھَا اللہُ تَعَالٰی شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً کے غلاف سے چمٹا ہوا ہوں، اے میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ !تو دلوں کے بھید اور پوشیدہ باتوں کوخوب جانتا ہے،میں تیری بارگاہ میں پیدل چل کر حاضر ہوا ہوں کیونکہ میں تیری محبت میں مبتلا ہوں، میں تو بچپن سے ہی تیری محبت و چاہت میں گرفتار ہو گیا تھاجس وقت مجھے محبت کا صحیح مفہوم بھی معلوم نہ تھا۔ اے لوگو ! مجھے ملامت نہ کروکیونکہ میں توابھی محبت کے اصول سیکھ رہا ہوں اوراے میرے محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ ! اگر میری موت کا وقت قریب آچکا ہے تو پھر مجھے اُمید ہے کہ میں تیرا وصال پا کراپنی محبت کا حصہ حاصل کر لوں گا۔”پھر وہ سجدے میں گر گیا۔ میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔جب اس کا سجدہ بہت طویل ہو گیا تو میں نے اس کو حرکت دی تو معلوم ہوا کہ اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی ہے۔مجھے بہت افسوس ہوا،میں اپنی سواری کے جانور کی طرف گیا اور کفن کے لئے ایک کپڑا لیا اور غسل دینے والے کی مدد طلب کی ۔جب واپس اس لڑکے کے پاس پہنچا تو وہاں کوئی موجود نہ تھا۔ اس کے متعلق تمام حاجیوں سے پوچھامگر مجھے کوئی ایسا شخص نہ ملا جس نے اُسے زندہ یا مُردہ دیکھا ہوتومیں سمجھ گیا کہ وہ لڑکا مخلوق کی نظروں سے پوشیدہ تھا اور اُسے میرے علاوہ کسی نے نہ دیکھا، میں اپنی قیام گاہ میں آکر سو گیا۔
خواب میں، مَیں نے اُسے ایک بہت بڑی جماعت کے آگے آگے دیکھا کہ اس پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔میں نے اس سے پوچھا:”کیا تم میرے ساتھ نہ تھے؟” تو اس نے جواب دیا: ”یقینا میں آپ کے ساتھ ہی تھا۔”میں نے اس سے پوچھا: ”کیا تم مر نہیں گئے تھے؟” تو اس نے جواب دیا: ”ایسا ہی ہے۔”میں نے کہا: ”میں تو تمہیں کفن دینے کے لئے تلاش کر رہاتھاتاکہ تجہیز وتکفین کے بعد تمہاری تدفین عمل میں لاؤں،مگر جب میں واپس آیا تو تم موجود ہی نہ تھے۔”تو اس نے جواب دیا: ”اے ابراہیم! جس ذات نے مجھے شہر سے نکالا اور اپنی محبت کا شوق عطاکیااور میرے گھر والو ں سے مجھے دور کردیا،اسی نے مجھے سب کی نظروں سے چھپاکر کفن بھی دے دیا۔”
پھر میں نے پوچھا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” اس نے جواب دیا:” مجھے میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا:”تجھے کیاچاہے؟”میں نے عرض کی: ”یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ!تو خوب جانتاہے۔” اس نے ارشاد فرمایا: ”تو میرا سچا بندہ ہے، میرے نزدیک تیرامقام یہ ہے کہ میرے اور تیرے درمیان کبھی حجاب نہ ہو گا۔”پھر مزید ارشاد فرمایا:”اور بھی کچھ چاہے؟”میں نے عرض کی:”میں جس بستی میں رہتا تھا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔”ارشاد فرمایا: ”میں نے اس بستی کے حق میں تیری شفاعت بھی قبول فرمائی۔” حضرتِ سیِّدُناابراہیم خواص رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ پھر اس نے مجھ سے مصافحہ کیا۔ اس کے بعدمیں بیدار ہو گیا اور ارکانِ حج ادا کرنے کے بعد قافلے والوں کے ساتھ چل پڑا۔جس
سے بھی میری ملاقات ہوتی وہ یہی کہتا:”آپ کے ہاتھوں کی پاکیزہ خوشبو سے سب لوگ حيران ہیں۔”اس واقعہ کے ناقِل کا کہنا ہے کہ حضرتِ سیِّدُناابراہیم خواص علیہ رحمۃ اللہ الرزاق کے ہاتھ سے مرتے دم تک وہ خوشبو آتی رہی۔
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّم ۔