کوئی چیز فی نفسم بری نہیں :
دیکھئے عالم کی چیز خواہ اچھی ہو یا بری اس کے ساتھ جب تک مشیت ،ارادہ اور قدرت متعلق نہ ہو وجود میں نہیں آسکتی ۔ اس درجہ میں کسی چیز کو بری نہیں کہہ سکتے کیونکہ جس طرح صفات موصوفہ اچھی چیز کے ساتھ متعلق ہو تے ہیں بری کے ساتھ بھی متعلق ہو تے ہیں ،احسبن کل شیء خلقہ ثم ہدی ۔ الحاصل نفس تخلیق میں برائی کا کوئی شائبہ نہیں بلکہ حسن و قبح اضافی امور ہیں ،ایک ہی چیز کسی کے حق میں اُس کے اعتبار سے اچھی ہوتی ہے توکسی اور کے حق میں بری ۔
اہل تناسخ جو کہتے ہیں کہ آدمی اچھے کام کرے تو اس کی روح برہمن اور گائے کے جسم میں جئے گی ،اور برے کا م کر ے تو برے جانورں کے جسد میں ،یہاں یہ لیں دیکھنا چاہئے کہ اچھا یا برا کس اعتبار سے کہا جائے ؟ اگر کتیّ کو براکہیں تو وہ ہمارے حق میں برا ہے ’’کتے ‘‘ اس کو برا نہیں سمجھتے ۔ علی ہذا
القیاس جس جانور کو دیکھئے وہ اپنی حالت میں مست ہے کبھی اس کو خیال بھی نہ آتا ہوگا کہ میں آدمی یا دوسرا کوئی جانور بن جائوں ۔ دیکھئے جانور آدمی کے نزدیک آنا بھی گوارا نہیں کرتے جب تک ان کو بہلا یا یا پھسلایا او رچمکا ر انہ جائے یا ان کی خوشامد نہ کی جائے اور ان کی تمام حوائج پوری نہ کی جائیں ۔پھر برہمن جو بحسب اصولِ تناسخ ’’ترقی یافتہ جانور ‘‘ ہیں ان کو خبر بھی نہیں کہ قبل ازیں وہ کس قسم کے جانور تھے؟!
جواب اہل تناسخ :
بہت سے براہمن اپنے سے کم درجہ لوگوں کے پاس بطور باورچیوں کے نوکر ہوتے ہیں اورحالت افلاس میں رہتے ہیں ،وہ اپنے دل میں ضرور کہتے ہوںگے کہ ایسی ترقی سے تو جانور ہی رہنا بھلا تھا نہ نوکری کی فکر ہوتی نہ جو روبچوں کو پانے کی مصیبت ۔اس سے ظاہر ہے کہ حکماء نے تناسخ کی بنیاد جس غرض سے ڈالی تھی کہ لوگ برے کاموں سے احتراز کریں اس خیال سے کہ اگر برے کام کریں گے تو برے جنم گے، وہ اس قابل نہیں کہ کوئی عقلمند اس کاقائل ہوسکے ۔
غرض کہ موجود ہونے کے اعتبار سے کوئی چیز بری نہیں ہوسکتی کیونکہ شر محض عدم ہے ،اورنفس وجود خیر محض ہے ۔البتہ صفات و حالات کے اعتبار سے برائی آتی ہے ،مگر وہ بھی عام نہیں ہوتی بلکہ بعض کی نسبت وہ چیز بری ہوتی ہے اور بعض کی نسبت اچھی،مثلاً نجاست انسان کے حق میں بری ہے اور اسی کو خنزیر وغیرہ اسی رغبت سے کھاتے ہیں کہ جیسے انسان حلوائے بے دودھ کو کھا تا ہے ،ایک ہی چیز کسی کے حق میں زہر ہے اور کسی کے حق میں تریاق اس سے معلوم ہو اکہ کوئی موجود چیز شر محض اور ہر طرح سے بری نہیں ہوسکتی ورنہ خالق عزوجل اسے پیدا ہی نہ فرماتا ۔
غرض کہ ایک (۱)جو اعداد نانے والا ہے جس طرح اس کوکل اعداد کے ساتھ الفت و معیت ہے اسی طرح خالق عالم کو اپنی مصنوعات کے ساتھ بحیثیت خالقیت محبت اور تعلق خاص اور معیت ہے ، اسی وجہ سے ربوبیت الٰہی عام ہے خواہ مومن ہو یا کافر سب کورزق دیتا ہے ۔
گزشتہ صفحات کی تقریر میں معلوم ہوا تھا ک الف (۱) بالذّاب تما م عالم حروف پر محیط ہے اور اس عالم کا کوئی فرد ایسا نہیں جس کو اس اعتبار سے تعلق خاص اس کے ساتھ نہ ہو ،مگر اس کو لام (ل) سے جو خصوصیت ہے وہ کسی کو نہیں ،کیونکہ اس کے دل میں الف ہے جس طرح الف کے دل میں لام ہے ۔ دل خصوصیت کے لحاظ سے جب الف و لام ملتے ہیں تواقسام کے لطائف و ظرائف پید ا ہوتے ہیں ،مثلاً ’’لا‘‘ میں لام با وجود یکہ مقدم ہے مگر کتابت میں الف ہی مقدم ہے اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہو کہ گویا لام نے کمال محبت سے الف کی عظمت کو پیش نظر رکھ کر اپنی صدارت اس کو
دیدی اور یہ مقتضیٰ دلی محبت کا ہے ،بخلاف اس کے آج کل دیکھا جاتاہے کہ دوستوں میں کیسی ہی خصوصیت باہمی ہو مگر جب بھی کوئی بات خلاف مرضی ہوئی کہ لام کاف بکنے لگے ۔ الف لا م کی اس ترکیب سے گویا ایک مقراض تیار ہوئی جس سے اہل ایمان ما سویٰ کے اللہ کے تعلقا ت کو قطع کر دیتے ہیں اور لا الہ اللہ میں ایسے مستغرق ہو جا تے ہیں کہ ما سویٰ اللہ کی باکل نفی ہو جا تی ہے ۔ ع لمؤلفہ
اگر خواہی پیوند باکبر یا
بمقراض ’’لا‘‘ قطع کن ما سویٰ
الف ،لام کے ساتھ جب ملتا ہے تو ان دونوں کے ملنے سے عجیب عجیب حالات پیدا ہو تے ہیں،کبھی تو اسم جنس پر دخل ہو کر اس کو ایک معین شخص بنا دیتے ہیں،کبھی تو افراد و اشخاص سے کوئی تعلق نہیں صرف جنس یا ماہیت کے معنیٰ میں اس کوخاص کر دیتے ہیں ،اور کبھی تمام افراد کے معنیٰ اس میں پیداکر دیتے ہیں ،جیسا کہ علم معانی میں مصرح ہے ۔ ان کی یہ قوت تصرف زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ جب دو شخصوں میں اتحاد قلبی ہو تو وہ بہت کچھ تصرفات کرسکتے ہیں :
دو دل یک شوند بشکنند کوہ را
پرا گندگی آرد انبوہ را
دیکھئے مسلمانوں کی جب یہ حالت تھی کہ ہر ایک کو دوسرے کے ساتھ محبت تھی ان کا بڑھتا قدم کبھی پیچھے نہ ہٹا ،اور جب سے یہ صفت جاتی رہی پیچھے ہٹتا قدم آگے نہ بڑھا ۔
غرض کہ الف لام کے اتحاد قلبی سے اگر کوئی سبق حاصل کرے تو فلاح دارین حاصل کرسکتا ہے ۔لام کو الف کے ساتھ جو اتحاد قلبی ہے اس کایہ اثر ہواکہ باوجود یکہ حروف تہجی میں لام الف سے بہت دور واقع ہے لیکن اس کی محبت قلبی نے الف کے ساتھ اس کوملا دیا اور ان دونوں سے وہ کارِنما یاں وقوع میں آئے کہ تمام حروف تہجی اگرملیں تو بھی اس قسم کا ایک کام نہیں کر سکتے ۔
اسی پر قیاں کیجئے کہ جس بندہ کے دل میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل محبت قلبی ہو اور ہمیشہ اس کا خیال ان سے وابستہ رہے تو اس کے فیوض و برکات اعلیٰ درجے کے ہو ں گے ۔ اسی وجہ سے جب بندہ ترقی کر تا ہے تو حق تعالیٰ اس سے وہ کام لیتا ہے جو خاصہء جناب کبریا ہے یعنی خوراق عادات اس سے صادر ہونے لگتے ہیں ۔