کشفِ مستقبل

کشفِ مستقبل

 

حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنی وفات اقدس سے صرف چند دن پہلے رومیوں سے جنگ کے لئے ایک لشکر کی روانگی کا حکم فرمایا اوراپنی علالت ہی کے دوران اپنے دست مبارک سے جنگ کا جھنڈا باندھااورحضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ہاتھ میں یہ نشان اسلام دے کر انہیں اس لشکر کا سپہ سالار بنایا۔ ابھی یہ لشکر مقام ”جرف ”میں خیمہ زن تھااورعساکراسلامیہ کااجتماع ہوہی رہاتھاکہ وصال کی خبر پھیل گئی اوریہ لشکرمقام ”جرف” سے مدینہ منورہ واپس آگیا۔وصال کے بعد ہی بہت سے قبائل عرب مرتد اوراسلام سے منحرف ہوکر کافر ہوگئے نیز مسیلمۃ الکذاب نے اپنی نبوت کا دعویٰ کر کے قبائل عرب میں ارتداد کی آگ بھڑکادی اوربہت سے قبائل مرتد ہوگئے۔

اس انتشار کے دور میں امیر المؤمنین ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے یہ حکم فرمایا کہ ”جیش اسامہ ”یعنی اسلام کا وہ لشکر جس کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیر قیادت روانہ فرمایا اوروہ واپس آگیا ہے دوبارہ اس کو جہاد کے لیے روانہ کیا جائے ۔ حضرات صحابہ کرام بارگاہ خلافت کے اس اعلان سے انتہائی متوحش ہوگئے اورکسی طرح بھی یہ معاملہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسی خطرناک صورتحال میں جبکہ بہت سے قبائل اسلام سے منحرف ہوکر مدینہ منورہ پر حملوں کی تیاریاں کر رہے ہیں اور جھوٹے مدعیان نبوت نے جزیرۃ العرب میں لوٹ ماراوربغاوت کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ اتنی بڑی اسلامی فوج کا جس میں بڑے بڑے نامور اورجنگ آزما صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم موجود ہیں ملک سے باہر بھیج دینا اورمدینہ منورہ کو بالکل عساکر اسلامیہ سے خالی چھوڑکر خطرات مول لینا کسی طرح بھی عقل سلیم کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک منتخب جماعت جس کے ایک فرد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں ، بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئی اورعرض کیا کہ اے جانشین پیغمبر!ایسے مخدوش اورپر خطر ماحول میں جبکہ مدینہ منورہ کے چاروں طرف مرتدین نے شورش پھیلا رکھی ہے یہاں تک کہ مدینہ منورہ پر حملہ کے خطرات درپیش ہیں ۔ آپ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کو روانگی سے روک دیں تاکہ اس فوج کی مدد سے مرتدین کا مقابلہ کیا جائے اوران کا قلع قمع کردیا جائے ۔
یہ سن کر آپ نے جوش غضب میں تڑپ کر فرمایا کہ خدا کی قسم ! مجھے پرندے اچک لے جائیں یہ مجھے گوارا ہے لیکن میں اس فوج کو روانگی سے روک دوں جس کو اپنے دست مبارک سے جھنڈا باندھ کر حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے روانہ فرمایا تھا یہ
ہرگز ہرگزکسی حال میں بھی میرے نزدیک قابل قبول نہیں ہوسکتا میں اس لشکر کو ضرور روانہ کروں گا اوراس میں ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہیں کروں گا ۔ چنانچہ آپ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے منع کرنے کے باوجود اس لشکر کو روانہ کردیا ۔ خدا کی شان کہ جب جوش جہاد میں بھرا ہوا عساکر اسلامیہ کا یہ سمندر موجیں مارتا ہوا روانہ ہوا تو اطراف وجوانب کے تمام قبائل میں شوکت اسلام کا سکہ بیٹھ گیا اورمرتد ہوجانے والے قبائل یا وہ قبیلے جو مرتد ہونے کا ارادہ رکھتے تھے، مسلمانوں کا یہ دل بادل لشکر دیکھ کر خوف ودہشت سے لزرہ براندام ہوگئے اورکہنے لگے کہ اگر خلیفہ وقت کے پاس بہت بڑی فوج ریزروموجود نہ ہوتی تو وہ بھلا اتنا بڑالشکر ملک کے باہر کس طرح بھیج سکتے تھے؟اس خیال کے آتے ہی ان جنگجو قبائل نے جنہوں نے مرتد ہوکر مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کا پلان بنایا تھا خوف ودہشت سے سہم کر اپنا پروگرام ختم کردیا بلکہ بہت سے پھر تائب ہوکر آغوش اسلام میں آگئے اورمدینہ منورہ مرتدین کے حملوں سے محفوظ رہا اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کالشکرمقام ”اُبنی”میں پہنچ کر رومیوں کے لشکرسے مصروف پیکار ہوگیا اور وہاں بہت ہی خوں ریزجنگ کے بعد لشکر اسلام فتح یاب ہوگیا اور حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شمار مال غنیمت لے کر چالیس دن کے بعد فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ مدینہ منورہ واپس تشریف لائے اوراب تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم انصار ومہاجرین پر اس راز کا انکشاف ہوگیا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لشکر کو روانہ کرنا عین مصلحت کے مطابق تھا کیونکہ اس لشکر نے ایک طرف تورومیوں کی عسکری طاقت کوتہس نہس کردیا اوردوسری طرف مرتدین کے حوصلوں کو بھی پست کردیا۔ (1)

یہ امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک عظیم کرامت ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات آپ پر قبل از وقت منکشف ہوگئے اورآپ نے اس فوج کشی کے مبارک اقدام کو اس وقت اپنی نگاہ کرامت سے نتیجہ خیز دیکھ لیا تھا جبکہ وہاں تک دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا وہم وگمان بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔

(تاریخ الخلفاء ، ص۵۱ومدارج النبوۃ ،ج۲،ص۴۰۹تا۴۱۱وغیرہ)

Exit mobile version