کراماتِ اولیاء رَحِمَہُمُ اللہُ
حمد ِ باری تعالیٰ:
تمام خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جو دلیل کے ساتھ غالب ہوا اور اپنےمُحِبِّیْن پر تجلِّی فرمائی۔ ساری کائنات میں تصرُّف فرماتا ہے، والی مقرَّر کرتا اور معزول کرتا ہے۔ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے راہِ خداعَزَّوَجَلَّ میں بڑھ چڑھ کر جہاد کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے پھر وہ پیٹھ نہیں پھیرتا، اور اپنے بندے کو قیامُ اللیل کی توفیق عطا فرماتا ہے تو وہ اس کی اطاعت و عبادت میں خوب کوشش کرتا ہے اوراللہ عَزَّوَجَلَّ سے سرگوشیوں میں لذت حاصل کرتا ہے۔ اور خوش بخت وہ ہے جو مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کے مشاہدے سے کیف وسرور میں راتیں گزارتا ہے۔ رب تعالیٰ اسے محبت کے پیالوں سے قرب کے جام بھر بھر کر پلاتا ہے توعاشقِ صادق کا دل غلبۂ شوق سے بے چین ہوجاتا ہے پس وہ زبانِ ذوق سے پکار اُٹھتا ہے:
”سحری کے وقت ساقی نے جامِ محبت کے ساتھ تجلِّی فرمائی۔اس کے قرب سے وحشت دور ہو گئی اور کہا گیا:”اے وہ شخص جو وصالِ الٰہی کی طلب میں بے چین ہے، سُن لے!ہجر و فراق کا زمانہ گزر گیا، جدائی کا وقت ختم ہوگیااور دور کئے ہوئے کو قرب مل گیا۔ اے میرے محبوب بندو! اب وقت ہے، اگر تمہارا عزم پختہ ہے تو رات کی اُن تنہائیوں میں روحوں کو تھکاؤ جن میں کوئی ملامت کرنے والا بھی نہ ہو اور محب ِحقیقی کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہیں کرتا ۔”
پاک ہے وہ ذات جس نے نظر حسنِ انتخاب سے اپنے اولیاء کو دیکھا اور انہیں اپنی عطا سے نعمتوں اور فضیلتوں سے نوازا۔ اس نے ان پر عطائیں اور احسانات فرمائے پھرانہیں مصائب میں مبتلاکیااورانہیں آزمائش میں ڈالا تو انہوں نے اس کی عطاؤں پرشکر اور آزمائشوں پر صبرکا دامن تھامے رکھا۔ارادۂ ازلی میں ان کے لئے سعادت مندی سے سرفرازی لکھ دی گئی ۔چنانچہ،وہ ان بھلائی والوں میں سے ہوگئے جن کے لئے بھلائی(یعنی جنت)اوراس سے بھی زائدنعمت(یعنی دیدارِالہٰی عَزَّوَجَلَّ)ہے کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اس کا اہل بنا دیاہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس گروہ میں سے حضرت سیِّدُنامعروف کرخی علیہ رحمۃ اللہ القوی کوبھلائی کے ساتھ خاص فرمایاتووہ اس کی محبت میں صفوں کی صفیں چیرکرآگے نکل گئے اورہلاکتوں کی جولان گاہ میں گھومتے رہے ۔مگراس کی محبت سے پیچھے ہٹے نہ ہی پیٹھ پھیری۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنی محبت کی توفیق دی اور اپنی پاک بارگاہ کا قرب و وصال بخشا۔اور جب ان کومرتبۂ اتصال کی طرف ترقی دی تو جام وصال سے سیراب فرمایا پس وہ اس کا قرب پانے میں کامیاب ہوگئے اور کیف سرور میں زبان حال سے کچھ یوں گویاہوئے:
”جب سے میں نے اپنے محبوب کے زیورِحسن سے آراستہ جلوؤں کوآشکاردیکھاتواپنے شوق کی بے چینی کوبڑھادیا اور قرب و وصال کوپالیاپس اسی لئے اس معاملہ میں وجودمحبت کے سبب مجھے کھلی معرفت حاصل ہو گئی اورمیراپیمانہ بھرگیا۔”
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا ابو یزیدعلیہ رحمۃ اللہ المجید پردوسروں سے بڑھ کرکرم فرمایاتو انہوں نے دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اورمیٹھے چشمے کے ہرمتلاشی ومریدپراپنے احوال کوڈال دیااوراپنے وجدکی ترجمانی کرتے ہوئے ،اپنی زندگی کے حاصل پر حیرت کرتے ہوئے اوراپنے احوال سے آگاہی دیتے ہوئے زبان حال سے کہنے لگے:
”کتنا بد نصیب ہے وہ شخص جو تیرے وصال کا اہل نہیں ہے۔وہ اپنے مقصد سے دور اور بے خبر ہے اگر وہ حقیقی عشق و محبت کا مزہ چکھ لیتا تو عشق ومحبت کی آگ سے بے چین و بے قرار ہو جاتا۔”
عنایت الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی کرنیں حضرت سیِّدُنا شیخ ابوبکرشبلی علیہ رحمۃ اللہ القوی کے لئے روشن ہوئیں تو وہ ہدایت کے انوار اور محبت کے اسرار کے خواہش مندہوئے کیونکہ انہیں لوگوں کے درمیان جام محبت پلایاگیاتھااور خلوت وتنہائی میں محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ نے ان کومخاطب کیاتھااوروہ اپنے دل میں اس سے کہنے لگے : ”مَرْحَبا اَہْلًا وَّسَہْلًا ”
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر خاص فضل فرمایاتووہ اس کی عبادت میں مستعدہوگئے اورراہِ طریقت کوطے کرکے حق آشنائی کے لئے ثابت قدم ہوگئے اورحقیقی منفعت کے عوض اپنے قلبی رازوں کوظاہرفرمادیا۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا منصورحلاج رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پرمزاج کی تبدیلی کودائرفرمایاتووہ عشقِ حقیقی کے نشے میں مست ہوگئے ۔اورظاہرشریعت سے نکل گئے اور شوقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ کی آگ میں راتوں کواُلٹ پلٹ ہونے لگے اورجب انہوں نے ساقی شہود کو اپنے وجودمیں تجلِّی فرمادیکھاتوزبانِ وجدسے ایسی بات ظاہرہوئی کہ ظاہری حدودسے باہرہوگئے ۔