کثرتِ خوف
سلف صالحین کی عاداتِ مبارکہ میں سے یہ بھی تھاکہ وہ اپنے ابتدائی حال اور انتہائی حال میں اللہ تبارک و تَعَالٰی سے بہت ڈرتے تھے ۔ ابتدا میں گناہوں سے اور انتہا میں اللہ تَعَالٰی کی جلالت اور تعظیم کے خوف سے اور دونوں حالتوں میں حق سبحانہ و تَعَالٰی سے نادم رہتے تھے ۔حضرت ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں چار چیزیں ہیں جب کوئی آدمی اس میں افراط کرے وہ اس کو ہلاک کردیتی ہے ۔ ایک کثرت جماع دوسری کثرت شکار تیسری کثرت جوا بازی ، چوتھی کثرتِ گناہ ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، خوفہم من اللّٰہ دائم، ص۵۳)
حضرت ابو تراب نخشبیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کہتے ہیں کہ جب آدمی گناہ ترک کرنے
کا ارادہ کرلیتا ہے تو اللہ تَعَالٰی کی امداد ہر طرف سے اس کی ممدہوتی ہے ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، خوفہم من اللّٰہ دائم، ص۵۳)
حضرت ابو محمد مروزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ابلیس اس لئے مردود ہوا کہ اس نے اپنے گناہ کا اقرار نہ کیا نہ اس پر ندامت کی نہ اپنے نفس کو ملامت کی نہ توبہ کی طرف مبادرت کی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت سے ناامید ہوگیا ۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کا اقرار کیا اور اس پر نادم ہوئے اور اپنے نفس پر ملامت کی اور توبہ کی طرف مبادرت فرمائی اور اللہ تَعَالٰی کی رحمت سے مایوس نہ ہوئے ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۳)
تواللہ تَعَالٰی نے ان کو مقبول فرمایا ۔ حضرت حاتم اصم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جب تواللہ کی بے فرمانی کرے تو جلدی تائب ہوکر نادم ہو۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۳)
حضرت ابراہیم بن ادہم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے تھے کہ میں مطیع ہوکر دوزخ میں جاؤں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں عاصی ہوکر جنت میں جاؤں ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۳)
حضرت احمد بن حرب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے: کیا گناہ گار کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ وہ توبہ کرے ۔ اس کا گناہ تو اس کے دفتر میں لکھا گیا اور وہ کل اپنی قبر میں اس کے سبب مبتلائے سختی ہوگا ۔ اور اسی گناہ کے سبب دوزخ میں ڈالاجائے گا۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۳)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے تھے کہ کسی عاقل کو مناسب
نہیں کہ اپنے محبوب کو ایذا دے ۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیسے ہوسکتاہے؟ فرمایا: اپنے خالق اور مالک کی بے فرمانی کرنے کے سبب انسان اپنے نفس کو ایذا دیتا ہے۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۳)
اور اس کا نفس اس کا محبوب ہے یعنی اپنی جان کو مبتلائے عذاب کرنا عقلمندی نہیں ، ایک عربی شاعر کہتا ہے ۔
ایا عاملا للنار جسمک لین فجربہ لتمرینا بحر الظھیرۃ
ودرجہ فی لسع الزنابیر تجتری علی نھش حیات ہناک عظیمۃ
یعنی اے وہ شخص کہ تو دوزخ کے لئے تیاریاں کررہا ہے، تیرا جسم تو بہت نازک ہے پھر وہ دوزخ میں عذاب کیسے برداشت کرے گا ، تو دوپہر کی سخت گرمی میں کھڑے ہوکر اپنے جسم کی آزمائش کر کہ وہ اس میں صبر و تحمل کرسکتا ہے!پھر تو زنبوروں کے چھتوں میں ان کے ڈنکوں کو برداشت نہیں کرسکتا تو دوزخ کے بڑے بڑے اژدہا پر کیوں جرأت کرتا ہے ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’’العمل الصالح مع قلۃ الذنوب احب الی اللّٰہ من کثرۃ العمل الصالح مع کثرۃ الذنوب‘‘ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۴)
کہ عمل صالح گناہوں کی کمی کے ساتھ اللہ تَعَالٰی کو زیادہ پسند ہے اس سے کہ اعمال کی کثرت کے ساتھ گناہوں کی بھی کثرت ہو۔حضر ت محمد بن واسع رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہم گناہوں میں غرق ہوگئے اگر کوئی شخص میرے گناہوں کی بدبو سونگھے تو میرے پاس نہ بیٹھ سکے ۔(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، سعادۃ آدم وشقاوۃ ابلیس، ص۵۴، ملخصًا)
حضرت حسن بصری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ جن لوگوں نے حضرت امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قتل کیا ہے اگر وہ اللہ تَعَالٰی کے فضل وکرم سے بخشے بھی جائیں تووہ رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ خدا کی قسم! اگر حضرت حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے قتل میں میرا دخل ہوتا اور مجھے جنت اور دوزخ کا اختیار دیا جاتاتو میں دوزخ اختیار کرتااس خوف کے سبب کہ جنت میں رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سامنے کس منہ سے جاؤں ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، الحسن البصری وقتلۃ الحسین، ص۵۴ملخصًا)
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : جس شخص نے اللہ تَعَالٰی کی اطاعت کی اس نے اس کو یاد کیا اگرچہ اس کی نماز اور روزے اور تلاوتِ قرآن کم ہو اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے اس کو بھلادیا ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۵)
حضرت سفیان بن عیینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے پوچھا گیا کہ ملائکہ بندہ کا ارادہ کس طرح لکھتے ہیں ؟ یعنی وہ فرشتے جو نیکی بدی لکھنے پر مامور ہیں جب کسی بندہ نے نیکی یا بدی کا ارادہ کیا اور ابھی عمل نہیں کیا تو وہ ارادہ کو کس طرح معلوم کرلیتے ہیں ؟آپ نے فرمایا:جب بندہ نیکی کرنے کا ارادہ کرتاہے تو اس سے کستوری کی سی خوشبو نکلتی ہے اوروہ خوشبو سے معلوم کرلیتے ہیں کہ اس نے نیکی کا ارادہ کیا اورجب برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے بدبو نکلتی ہے تو ان کو معلوم ہوجاتاہے کہ اس نے بدی کا ارادہ کیا ہے ۔ میں کہتا ہوں یہاں ارادہ سے عزم مصمم مراد ہے۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۵ملخصًا)
جو عزم مصمم نہ ہو وہ لکھا نہیں جاتا ۔ حضرت بشر حافی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے اعمال صالحہ پہاڑوں کے برابر تھے پھر بھی وہ غراں نہیں تھے لیکن اب تمہارا وہ حال ہے کہ عمل کچھ بھی نہیں اور اس پر غراں ہو۔خدا کی قسم!ہماری باتیں تو زاہدوں کی سی ہیں اور ہمارے کام منافقوں کے کام ہیں ۔
(تنبیہ المغترّین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
حضرت حاتم اصم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :جب تواللہ تَعَالٰی کی نافرمانی کرے اوراس حالت میں صبح کرے کہ حق سبحانہ و تَعَالٰی کی نعمتیں تجھ پر گھیرا ڈالنے والی ہوں تو ڈرجا کہ یہ استدراج ہے۔(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
یعنی حق سبحانہ و تَعَالٰی کی طرف سے تجھے ڈھیل دی گئی ہے اس پر مغرور نہ ہو اور جلد تائب ہوکہ اللہ تَعَالٰی جب پکڑے گا سخت پکڑے گا مولانا روم فرماتے ہیں ؎
بیں مشو مغرور بر حلم خدا دیر گیردسخت گیرد مر ترا
حضرت حاتم اصم رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :ہم نے ایسے لوگوں کو پایاجو کہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کو بڑا خیال کرتے تھے اور تم بڑے بڑے گناہوں کو بالکل چھوٹا خیال کرتے ہو ۔( تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
حضرت ربیع بن خیثمرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ عید کی صبح کو فرمایا کرتے تھے:مجھے تیری عزت وجلالت کی قسم ہے اگر میں معلوم کروں کہ تیری رضا میرے نفس کے ذبح کرنے میں ہے تومیں آج اپنا نفس تیرے لئے ذبح کردوں ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
حضرت کہمس بن حسن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ چالیس سال روتے رہے صرف اتنی
بات کے خوف سے کہ انہوں نے ایک دن ہمسایہ کی مٹی سے اس کی اجازت کے بغیر ہاتھ دھوئے ۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
حضرت کہمس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہم کو یہ خبرپہونچی ہے کہ حق سبحانہ و تَعَالٰی نے حضرت داود علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ اے داود!(علیہ السلام ) بنی اسرائیل کوکہہ دیجئے کہ تم کو کس طریق سے یہ خبر پہونچی ہے کہ میں نے تمہارے گناہ بخش دئیے کہ تم نے گناہوں پر ندامت چھوڑ دی ہے ۔ مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم ہے کہ میں ہر گناہگار سے قیامت کے دن اس کے گناہ پر حساب لوں گا ۔ حضرت امام شعرانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اللہ تَعَالٰی اپنے فضل وکرم دکھائے گاتاکہ گناہ گار اپنے گناہوں کو دیکھ کر نادم ہو پھر اللہ تَعَالٰی کا فضل وکرم دیکھے ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۶)
حضرت عتبہ غلام ایک دن ایک مکان پر پہنچ کر کانپنے لگے اور پسینہ پسینہ ہوگئے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس مکان میں میں نے بچپن کی حالت میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے فرمانی کی تھی ۔ (تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۷)
آج وہ حالت یاد آگئی ہے ۔ حضرت مالک بن دینار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حج کے لئے بصرہ سے پاپیادہ نکلے کسی نے عرض کی کہ آپ سوار کیوں نہیں ہوتے ۔ آپ نے فرمایاکہ بھاگا ہوا غلام جب اپنے مولاکے دربار میں صلح کے لئے حاضر ہو تو کیا اسے سوار ہوکر آنا چاہیے؟ خدا کی قسم! اگر میں مکہ معظمہ میں انگاروں پر چلتا ہوا آؤں تو بھی کم ہے۔
(تنبیہ المغترین، الباب الاوّل، ما بعد الذ نب شر منہ، ص۵۷)
میرے دینی بھائیو! غور کرو بزرگان دین کو کس قدر خشیت الٰہی غالب تھی ۔
آپ صاحبان صرف اتنا ضرورخیا ل کیاکریں کہ وقوع معصیت تو ہم سے یقینا ہے لیکن وقوع مغفرت مشکوک ہے کیونکہ اللہ تَعَالٰی نے اپنی مغفرت کو مشیت پر موقوف رکھا ہے جس کاہمیں علم نہیں اس لئے ہمیں رات دن استغفار میں مشغول رہنا چاہیے ۔