ویلَنٹائن ڈے
( قرآن و حدیث کی روشنی میں )
کیا فرماتے ہیں علماءِ دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ویلنٹائن ڈے (Valentine Day)جو اَب رائج ہوتا جارہا ہے مسلمانوں کو اسے منانا کیسا ہے ؟ اس دن نا محرم لڑکے اور لڑکیاں آپس میں محبت کے تحائف (سرخ پھول، ویلنٹائن کارڈ وغیرہ) کا آپس میں تبادلہ کرتے ہیں ، محبت کے اقرار اور اس تعلق کو برقرار رکھنے کے وعدے کرتے اورقسمیں کھاتے ہیں تو کیا ایک مسلمان کو اسطرح کے تہوار منانا زیب دیتا ہے؟ کیا اسلام اسے ایسے تہواروں کو منانے کی اجازت دیتا ہے؟ اگر نہیں تو مسلمانوں کو معاشرہ میں رائج ایسے تہواروں میں کیا انداز اختیار کرنا چاہئے؟
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اَلْجَوَاب بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّاب اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَ الصَّوَاب
انسان چونکہ فطرتاً جلد باز اور جدت پسند ہوتا ہے اگر اپنی عقل سے احکامِ شریعت کو سمجھ کر اس کے دائرہ میں زندگی بسر نہ کرے تو یہ دو عادتیں اسے قدم قدم پر بُرائی میں مبتلا کرتی رہتی ہیں اور اسے اپنے کئے کا احساس بھی نہیں ہوتا اور بُرائی کے
بَھنوَر میں ایسا پھنسا رہتا ہے کہ اس سے نکلنا اس کے لئے بے حددشوار ہوجاتا ہے پھر ایک فطر ی عادت چونکہ مل جل کر زندگی بسر کرنے کی بھی ا س میں موجود ہے اس لئے دوسروں کے ساتھ رہنا بھی اس کے لئے ضروری ہے اور دنیا میں چونکہ مسلمانوں کے علاوہ کافر بھی بستے ہیں اور بڑی تعداد میں بستے ہیں اور مسلمانوں میں بھی نیک بھی اور نافرمان بھی دونوں طرح کے ہوتے ہیں اس لئے معاشرتی زندگی میں اس کو بگاڑ کے اسباب زیادہ اور سدھار کے کم دستیاب ہوتے ہیں اور موجودہ گلوبلائزیشن کے اس دور میں جب میڈیا کی بڑی کمپنیوں کے مقاصد میں بُرائیاں، بد کرداریاں، بد اخلاقیاں عام کرنا شامل ہے اور نفسانی لذات و شہوات کو دِکھا دِکھا کر لوگوں کا سکون برباد کرنا اور ان کی طبیعتوں میں ہیجان برپا کئے رکھنا ان کے اَہداف میں سے ایک بڑا ہدف ہے اور اس پر بھر پور و مُنَظَّم طریقہ سے بُرائی کی نشر و اشاعت کا کام بہت تیزی سے ہو رہا ہے جس سے کافروں کے طور طریقہ اور نافرمانوں کی نت نئی نافرمانیاں منٹوں، سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں اس لئے معاشرہ میں تباہ کن اثرات زیادہ ظاہر ہورہے ہیں اور یہ باتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔
پھر خرابیوں اور اخلاقی بُرائیوں میں مبتلا ہونے والے زیادہ تر دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں:(1) جو مالی لحاظ سے آسُودَہ حال، تَعَیُّش پسند، کَرّ و فَر، جاہ و حَشَمَت کے ساتھ رہنے والے ہوں۔ (2) جوعقل کے لحاظ سے کمزور اور غیر سمجھدار واقع ہوں۔
عقل کے لحاظ سے کمزور لوگ اس لئے اخلاقی بُرائیوں کا زیادہ شکار ہوتے
رَسُوۡلًا ﴿۱۵﴾وَ اِذَاۤ اَرَدْنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرْیَۃً اَمَرْنَا مُتْرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰہَا تَدْمِیۡرًا ﴿۱۶﴾
والے نہیں جب تک رسول نہ بھیج لیں اورجب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اسکے خوشحالوں(امیروں) پر احکام بھیجتے ہیں پھر وہ اس میں بے حکمی کرتے ہیں تو اس پر بات پوری ہوجاتی ہے تو ہم اسے تباہ کرکے بربادکردیتے ہیں ۔
اس آیت ِمبارَکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بگاڑ و فساد اور نافرمانیوں میں مبتلا ہونے کی ایک وجہ بے حد خوشحالی اور جاہ و حشمت کیساتھ حکمرانی بھی ہوتی ہے ایسے لوگوں کے نافرمانیوں میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے اور عام مشاہدہ سے بھی اس کا بخوبی پتا چلتا ہے۔
اب ایک طرف تو فطری عادتوں کی یہ صورتِ حال ہے دوسری طرف مسلمان چونکہ عام انسان نہیں ہوتا بلکہ بنسبت کافروں کے حقیقی سچی انسانیت کا تاج اس کے سر پر ہوتا ہے اس لئے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دولت ِایمان اسے نصیب ہوتی ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے اس کا دین و ایمان اسے جدت پسندی کے ساتھ ضروری حد تک قدامت پسند، جلد بازی کی فطری عادت کے باوجود تحمل پسند اور عقل سے کام لیتے ہوئے حدودِ شریعت میں رہتے ہوئے زندگی گزارنے والا اور لوگوں سے مل جل کر رہنے کی ناگزیریت کے ساتھ برائیوں سے مُجتنب رہنے
اور متاثر نہ ہونے کا درس بھی دیتا ہے، اس لئے مذہبی پابندیوں کے ساتھ اس کا زندگی گزارنا ضروری ہے۔
ضروری حد تک قدامت پسند اس طور پر ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ قدیم ہے یعنی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گااور ہمارے نبی ٔمکرم شاہِ بنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دنیا سے ظاہری پردہ فرمائے ہوئے بھی چودہ سو سال سے زیادہ ہوچکے ان پر رب کا کلام بھی اسی محبوب زمانے میں نازل ہوا تھا اور آپ نے اپنی اسی ظاہری حیاتِ طیبہ میں اس کی تفہیم و تشریح اپنی احادیث کی صورت میں امت کو عطا فرمائی تھی تو جب یہ سب کچھ بھی پراناہے تو مسلمان کا اس معنی میں قدامت پسند ہونا ضروری ہوا، ورنہ وہ مسلمان کب رہے گا پھر قرآن و حدیث کی واضح نصوص اور ائمۂ مجتہدین کے اِجماع سے ثابت شدہ ضروری احکامات بغیر کسی حیل و حجت کے ماننا اور اس پر عمل پیرا رہنا یونہی ائمۂ اربعہ میں سے جو کسی امام کا مُقَلِّد ہے اس کا اپنے امام کے قول کو حق تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطابق عمل کرنا سچا مسلمان ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ سب باتیں آج کی نہیں صدیوں پہلے ثابت و مقرر ہوچکی ان میں سے کسی بات پر عمل میں کوتاہی اور رَد و انکار کرنے سے نوبت فسق و فجور سے لیکر کفر و گمراہی تک پہنچتی ہے اسلئے جدید دنیا میں رہنے والا مسلمان بھی اپنے ایمان اور دینی ضروری احکام کے لحاظ سے قدامت پسند ہوتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے یہ اس کی مذہبی زندگی کیلئے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔
الغرض خدائے ذو الجلال اور اس کے بھیجے ہوئے نبی ٔبے مثال صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جن کا اس نے کلمہ پڑھا ہے ان کے فرامین میں اسے دینی محتاط زندگی گزارنے کا طریقہ کار اور اس کی حدیں چونکہ بیان کردی گئی ہیں اسے شُترِ بے مہار کی طرح من مانیوں کے لئے آزاد نہیں چھوڑا گیا لہٰذا مسلمان اور کافر کے درمیان یہی بنیادی فرق ہوتا ہے کہ مسلمان صاحبِ ایمان اور احکامِ شریعت کا پابند ہوتا ہے کافر ان دونوں باتوں سے محروم اور مادر پدر آزاد رہتا ہے۔
مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے بہت سے کلمہ پڑھنے والے دین کے دائرہ میں رہنا قبول کرنے کے باوجود ماحول کے بگاڑ اور کافروں کی آزادیوں سے متاثر ہوکر بے عملی کا شکار ہوجاتے ہیں ، تہواروں کے معاملے میں خوشی منانے اور اس کے اظہار کے طریقوں کو اختیار کرنے میں بھی ایسے ہی مسلمان غلطی کا شکار ہوکر شریعت کی حد پھلانگتے ہوئے گناہوں کا ارتکاب کربیٹھتے ہیں ، بنیادی وجہ وہی فطری کمزوریوں کو اسلامی رخ سے نہ سمجھنا اور ان کمزوریوں سے بچنے کے لئے اسلامی اخلاق و آداب عقائد و اعمال سے دوری اختیار کئے رہنا ہوتی ہے۔
اس لئے جدت پسندی، جلد بازی، ناسمجھی، غیر ضروری میل جول اور بُری صحبت کے اثرات سے وہ بچ نہیں پاتے یا اسی طرح خوش رہنا پسند کرتے ہیں اور بچنا نہیں چاہتے۔
الغرض غیر مسلموں کی طرف سے جو بھی چیز آئے ان کی دنیاوی مادی ترقیاں دیکھ دیکھ کر ایسے مرعوب ہوجاتے ہیں کہ ان کی ہر چیز انہیں اچھی لگنے لگتی ہے، غیر مسلم ممالک کی اسٹیمپ دیکھ کر چیزیں خریدتے ہیں ، انہیں کے کلچر کے ہوٹلوں
میں کھانا کھانا، تقریبات میں جانا پسند کرتے ہیں ، اپنے گھر اور پورا گھرانہ، اپنے مکمل لباس اور کردار و گفتار تک سے وہ اپنے آپ کو اسی کلچر کا ایک فرد قرار دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ، کسی حد تک کامیاب ہوجائیں تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی، یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نئی چیز وہاں سے آتی ہے اگر چہ کیسی ہی ناپاک و ناجائز کیوں نہ ہو کلچر میں شامل ہونے کی وجہ سے اس سے دور ہوجانا ان کے لئے دشوار ہوتا ہے اور دور رہنے کا خیال بھی آئے تو فوراً یہ اندیشہ ان کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ ہمارے اسٹیٹس کے لوگ پھر کیا کہیں گے ؟ کیا تمہیں کلچر کے فیشن کے نئے تہواروں کا نہیں پتا چلتا؟ ساتھ ساتھ چلو ورنہ ہمارے ساتھ نہ چل سکو گے، پیچھے رہ جاؤگے۔ اس طرح کی باتیں سُن کر ان کا ناسمجھ دِل اور ضدی ہوجاتا ہے اور انہیں دین کے راستہ سے نافرمانی کی راہ کی طرف کھینچتا ہوا لے جاتا ہے۔
اسی بناء پراسلام دشمن قوتیں ، کفر وشرک میں مبتلا قومیں ، مسلمانوں کی اکثریت کے مزاج و نفسیات کو بھانپ کر وقتاً فوقتاً تجربات کرتی رہتی ہیں کہ انہیں پتا چلتا رہے کتنے فیصد مذہبی لحاظ سے پابند رہتے ہیں اور پابند رہنا پسند کرتے ہیں اور کتنے فیصد ایسے ہیں جنھوں نے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا اور ان کی ہر ایک بات پر لَبَّیْک کہنے کے لئے بے قرار بیٹھے ہیں ، اور ذہنی اعتبار سے ان کے شکنجے میں مکمل طور پر جکڑے ہوئے ہیں ۔
جب اپنے مطیع و فرمانبردار مسلمانو ں کے ٹولے میں اضافہ دیکھتے ہیں تو
انہیں میں سے اسلام دشمنی کے لئے میر جعفر و میر صادق جیسے افراد کو چن چن کر اِفتراق و اِنتشار اور شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے اور مُسَلَّمَہ احکاماتِ شرعیہ کو بے جا تاویلوں کے ذریعہ رَد کرنے کا ہدف دے کر کام میں لگادیا جاتا ہے۔
یہ کچھ واقعی صورتِ حال عرض کی ہے ابھی حال ہی میں کچھ ایسا تازہ تازہ نہیں ہوا بلکہ سلطنت ِاسلامیہ کے زوال سے بلکہ اس سے بھی پہلے سے اس قسم کی سازشوں اورحماقتوں کا مِن حَیثُ الْقوم مسلمان شکاررہے ہیں ۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی عَلَیْہِ الرَّحْمَہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’بہارِ شریعت‘‘ میں ایک مقام پر مسلمانوں کی اسی ابتر حالت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
مسلمانوں کی جو ابتر حالت ہے اس کا کہا ںتک رونا رویا جائے یہ حالت نہ ہوتی تو یہ دن کیوں دیکھنے پڑتے اور جب ان کی قوتِ مُنْفَعِلَہ (اثر قبول کرنے کی قوت) اتنی قوی ہے اور قوتِ فاعِلَہ (دوسروں پر اثر انداز ہونے کی قوت) زائل ہو چکی تو اب کیا امید ہو سکتی ہے کہ یہ مسلمان کبھی ترقی کا زینہ طے کرینگے غلام بن کر اب بھی ہیں اور جب بھی رہیں گے۔وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ تَعَالٰی(1)
چند ضروری باتیں تمہیداً بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے جیسا بے ہودہ گناہوں بھرا دن، مادر پدر آزادی کے ساتھ رنگ رلیوں کے ساتھ منانا، جو نوجوان لڑکے لڑکیوں میں مقبول ہوتا جارہا ہے اس کے پس ِپردہ بھی اسی
قسم کے اسباب موجود ہیں جو اوپرذکر کئے گئے یعنی فطری کمزوریاں، جدت پسندی، جلد بازی، نفسانی و شیطانی لذات کی اسیری، دین سے دُوری، نہ خود پابند رہنا نہ اپنی اولاد کی تربیت کرکے اسلامی اخلاق و آداب کا انہیں پابند بنانا، نہ ملی قومی سطح پر مسلمانوں کے حکمرانوں کا معاشرے میں خلافِ اسلام رسم و رواج و تہواروں کے خلاف سخت اقدامات اُٹھانا یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے مسلمانوں میں اس بے ہودہ دن کا منانے کا آغاز ہوچکا ہے بلکہ حکمران طبقہ تو اس طرح کے خلافِ اسلام نظریات اور کھلم کھلا گناہوں کی روک تھام کے اقدامات کرنے کی بجائے اسے فروغ دینے اور اس قسم کے برائی پھیلانے والوں کو تحفظ اور کھل کر کام کرنے کا موقع دینے میں آگے آگے دِکھائی دیتا ہے، الغرض ان بیان کردہ بُرائی کے اَسباب میں سے ہر سبب اس قسم کی برائی کا خنجر مسلمانوں کے سینے میں پیوست کرنے میں اپنا زور لگا رہا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
2…پ۱۵،بنی اسرائیل:۱۵،۱۶۔