وفات شریف وحلیہ مبارک کا بیان

:وفات شریف وحلیہ مبارک کا بیان

ماہ ِصفر ۱۱ ھ کے اَخیر عشرہ میں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بیمار ہو گئے اور ماہ ِرَبیع الاوَّل میں وِصال فرماگئے۔ وِصال شریف کی تا ریخ میں اِ ختلاف ہے۔ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وَفات شریف ماہِ رَبیع الاوَّل میں دو شنبہ کے دن ( 1) ہوئی۔ جمہور کے نزدیک ربیع الاوَّل کی بار ھویں تاریخ تھی۔ ماہِ صفر کی ایک یادوراتیں باقی تھیں کہ مرض کا آغاز ہو ا۔ بعضے تا ریخ وصال یکم ربیع الا وَّل بتا تے ہیں ۔ بنا بر قولِ حضرت سلیمان تَیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ابتدائے مرض یومِ شنبہ ( 2) ۲۲ماہِ صفر کو ہو ئی اور وفات شریف یومِ دو شنبہ ( 3) ۲ربیع الاوَّل کو ہوئی۔ حافظ ابن حجر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ابومِحْنَف (4 ) کا قول ہی معتمد ہے کہ وفات شریف ۲ ربیع الاوَّل کو ہوئی۔ دوسروں کی غلطی کی وجہ یہ ہو ئی کہ ثانی (5 ) کو ثانی عشر ( 6) خیال کر لیا گیا، پھر اسی وہم میں بعضوں نے بعض کی پیر وی کی۔ (7 )
حضرت زید بن حارثہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جنگ مو تہ میں شہید ہو گئے تھے۔ ان کے انتقام کے لئے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایامِ مرض ہی میں فوج تیار کی اور اپنے دست مبارک سے جھنڈا تیارکیا اور حضرت زید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے صاحبزاد ے حضرت اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس فوج کا سر دار مقرر کر کے حکم دیا کہ مقامِ اُبنٰی میں پہنچ کر رومیوں سے جہاد کر و۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ایام مرض ہی میں حضرت فَیر وز دَیلمی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اَسوَ د عَنسِی مدعی نبوت کو قتل کر ڈالا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مدینہ میں اس حال کی خبر دی اور فرمایا: ’’ فَازَ فیروز ‘‘ (فیروزکامیاب ہوگیا) ۔

وفات شریف سے پہلے جو پنجشنبہ (2 ) تھا اس میں قصۂ قر طاس وقوع میں آیا جس کو فقیر نے تحفہ شیعہ میں بالتفصیل لکھاہے۔ (2 ) اسی روز حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو تین چیز وں کی وصیت فرمائی:
{1} … مشرکین کو جز یرۂ عرب سے نکال دینا۔
{2} … ملوک وامر اکے ایلچی جو تمہارے پاس آیا کریں ان کو جائز ہ وانعام دیا کر نا جیسا کہ میں دیا کر تا تھا۔
…تیسری چیز کا ذکر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ فرمایا، یا راوی ( سلیمان اَحوَل) بھول گیا۔ ( 3) اسی روز حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنا خلیفہ ٔ نماز مقرر فرمایا اور وہ وفات شریف تک نماز پڑ ھا تے رہے۔ چھ یا سات دینا رجو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس تھے وہ بھی حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایام مرض میں تقسیم فرمادیئے اور کچھ باقی نہ چھوڑ ا۔ ( 4) وفات شریف کا وقت عین قریب

آپہنچا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثریوں وصیت فرماتے تھے: (1 ) اَلصَّلٰوۃُ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَا نُکُمْ۔ ( 2) نماز اور غلام۔
جب روح پاک نے جسم اطہر سے اعلیٰ عِلِّیِّین کی طرف پر واز کی تو الفاظ اللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی زبان مبارک پر تھے۔ (3 )
واضح رہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال شریف دو شنبہ کے دن دو پہر ڈھلے ہوا۔ وصال شریف کے بعد زمین تا ریک ہو گئی۔ اس صدمہ سے صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا جو حال ہوا وہ بیان نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو غسل دیا۔ حضرت عباس وفضل بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پہلو بد لنے میں حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی مدد کر رہے تھے اور قُثَم بن عباس اور اُسامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا غلام شُقْران رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پا نی ڈال رہے تھے۔ سوائے ـحضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے باقی سب آنکھوں پر رو مال با ند ھے ہوئے تھے تا کہ جسد شریف پر نظر نہ پڑے۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کفن میں تین سو تی کپڑے سُحُول کے بنے ہو ئے تھے جن میں قمیص وعمامہ نہ تھا۔
شب چہار شنبہ میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دفن کیا گیا۔ تا خیر کی وجہ کئی امور تھے چنانچہ مہاجرین و انصار میں بیعت کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا، اس اختلاف کا فیصلہ ہو تے ہی اس امر میں اختلافِ آراء ہوا کہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو کہاں دفن کیا جائے۔ قبر شریف میں لحد چاہیے یا شق۔ آخر کا ر حضرت ابوطلحہ انصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے لحد کھودی۔ نماز جنازہ حجر ہ شریف کے اندر ہی بغیر امامت الگ الگ پڑ ھی گئی۔ پہلے مردوں نے پھر عورتوں نے پھر بچو ں نے پھر غلاموں نے نماز پڑھی۔ بعد ازاں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بالاتفاق حجرہ شریف ہی میں جہاں وصال شریف ہو ا تھادفن کر دیا گیا۔ بنا بر قول اصح حضرت عباس وعلی و قُثَم وفضل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم
قبر شریف میں اترے۔ لحد کی اینٹیں کچی نو تھیں ۔ حضرت قُثَم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سب سے اَخیر میں قبر مبارک سے نکلے۔
حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بطور میراث کچھ نہیں چھوڑ اجو کچھ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چھوڑ اوہ صدقہ ووقف تھا اور اس کا مصرف وہی تھا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی حیات شریف میں تھا، چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد مبارک ہے: لَا نُوْرِثُ مَا تَرَکْنَا صَدَقَۃٌ۔ (1 ) ہم (انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) کسی کو وارث نہیں بنا تے جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ووقف ہے۔ (بخاری شریف، کتاب الجہاد)
حضرت عمرو بن حارث رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے جوام المؤمنین جُوَیْرِیَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بھائی تھے، یوں روایت ہے: مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِیْنَارًا وَّ لَا دِرْھَمًا وَّ لَا عَبْدًا وَّ لَا اَمَۃً وَّ لَا شَیْئًا اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَآئَ وَ سِلَاحَہٗ وَ اَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَۃً ۔ (2 ) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی موت کے وقت نہ کوئی دینار چھوڑ انہ در ہم نہ غلام نہ لونڈی نہ کچھ اور مگر اپنا سفید خچر اور اپنا ہتھیار اور کچھ زمین جسے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے صدقہ وو قف بنا دیا۔ (بخاری، کتاب الو صایا)
ابو داود میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی روایت اس طرح ہے: مَا تَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دِیْنَارًا وَّ لَا دِرْھَمًا وَّ لَا بَعِیْرًا وَّلَا شَاۃً (3 ) رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ کوئی دینا ر چھوڑ ا نہ در ہم نہ اونٹ نہ بکری۔
روایات مذکورہ بالا سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے متروکا ت میں ایک سفید خچر (دُلدُل ) کچھ ہتھیار اور زمین ( خیبر وفِدَک) تھی۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ار شاد مبارک کے مطابق ان میں سے کسی میں قاعدۂ اِرث (4) جاری نہیں ہوا۔ اسی واسطے دُلدُ ل اور ذُوالفقار دونوں حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ

الْکَرِیْم کے پاس تھے۔ ورنہ بجا ئے علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے حضرت عباس وفاطمہ زہرا اور از واج مطہرات حقدار تھیں ۔ اَموالِ بنو نَضِیر وغیرہ پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا قبضہ مالکانہ نہ تھا بلکہ مُتَوَلِّیَانَہ تھا۔ابو داؤد میں مالک بن اوس کی روایت میں حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں تین صفایا تھیں ۔ (1 ) ایک اموال بنونضیر، دوسرے خیبر، تیسرے فدک۔ اموال بنو نضیر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حوادث وحوائج (2 ) کے لئے محبوس وموقوف تھے۔ فدک مسافروں کے لئے مخصوص تھا۔خیبر کی آمد نی کے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین حصے کیے تھے۔ دوحصے مسلمانوں کے لئے اور ایک حصہ اپنی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّکے لئے مقرر کر دیا تھا۔اپنے اہل کے نفقہ میں سے جو کچھ بچ رہتاوہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فقراء ومہاجرین میں تقسیم فرمادیتے۔
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بعد یہ جائیداد یں بحیثیت وقف حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زیر اہتمام رہیں ۔ انہوں نے ان میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرح تصرف کیا۔ حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ ان پر اسی حیثیت سے دوسال قابض رہے پھر حضرت عباس وعلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے اصر ار پر مال بنو نضیر ان دونوں کی تولیت میں کر دیا اور خیبر وفدک کو اپنی تحویل میں رکھا۔ کچھ دنوں کے بعد تو لیت وتصرف میں شرکت حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر ناگوار گز ری، وہ چاہنے لگے کہ تو لیت میں تقسیم ہو جائے تاکہ ہر ایک اپنے حصہ کے تصرف میں مستقل بن جائے۔ حضرت علی مرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مانع ہوئے۔ اس لئے فیصلہ کے لئے دونوں دربار فاروقی میں حاضر ہوئے مگر حضرت فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے تقسیم تو لیت سے انکار کر دیا۔ بعد از اں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ پر غلبہ پا کر مال بنو نضیر کو اپنے تصرف میں کر لیا۔ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے بعد حسن بن علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور پھر حسین بن علی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے ہاتھ میں رہا۔ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد علی بن حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور حسن بن حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا دونوں کے ہاتھ میں رہا۔ دونوں نوبت بہ نوبت اس میں تصرف
کرتے تھے۔ پھرزید بن حسن کے ہاتھ آیا۔ (1 ) (صحیح بخاری )
حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بعد خیبروفدک بحیثیت وقف عام حضرت عثمان غنی وعلی مرتضیٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے تصرف میں رہے۔ جب ۴۰ھ میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی امارت ( 2) پر اِجماع ہو گیا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فدک مروان حاکم مدینہ کو دے دیا۔ شایدبدیں تاویل (3 ) کہ جو امر آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مختص ہو وہی آپ کے خلیفہ کے لئے ہو تا ہے، چونکہ حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُکو خود تو ضرورت نہ تھی لہٰذا اپنے بعض اقرباء کے ساتھ سلوک کیا۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ آخرالا مر خلیفہ عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اپنی خلافت میں فدک کواسی حالت پر بحال کر دیاجس پر وہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور خلفا ئے راشدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے عہد میں تھا۔ (طبقات ابن سعد) مزید تفصیل کے لئے تحفہ شیعہ مولفہ خاکسار دیکھو۔
متروکات مذکو رہ بالا کے سوااور اشیاء بھی تھیں جو بطور تبرک مختلف اشخاص کے پاس تھیں ۔ ان کا ذکر آثار شریفہ میں آئے گا۔ ان شَآء اللّٰہ تَعَالٰی ۔
ارباب سیّر نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گھوڑ وں ، خچروں ، درازگوشوں ، اونٹوں اور بکریوں کی جو لمبی فہرست دی ہے وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ہاں مختلف اوقات میں موجود تھے۔ مگر وفات شریف سے پہلے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو حسب عادت شریف ہبہ یا خیر ات کر دیا تھا۔ وفات شریف کے وقت صرف ایک سفید خچر یعنی دُلدُ ل باقی تھا جیسا کہ روایات مذکورہ بالا سے ظاہر ہے۔

 

Exit mobile version