نکاح کرنے والے کے آداب
اگرنکاح کاارادہ ہو تو پہلے دین پھرحسن وجمال اورمال ودولت دیکھے، لڑکی والے جو کچھ اُسے دیں گے اُس کاانہیں پابندنہ کرے، نکاح کا ارادہ ہو تو اسے پوشیدہ نہ رکھے، کسی مسلمان کے پیغامِ نکاح پرنکاح کا پیغام نہ دے، اپنی مملوکہ چیزوں اورشادی وغیرہ میں (کسی کوایسے کام کی) اجازت نہ دے جو اسے رحمتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ سے دُور کر دے اور اس کی عزت کو داغ دارکرنے کا باعث بنے، تنہائی میں بیوی کے ساتھ ایسی جگہ نہ بیٹھے جہاں کوئی دوسرا اس کی بیوی کودیکھے، اپنے گھروالوں کے سامنے اس کا بوسہ نہ لے۔ جب تنہائی میں ہو توعورت کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کرے، اس کا قاصد جھوٹا نہ ہو اور جس سے لڑکی کے متعلق پوچھا جائے وہ بھی چغل خور نہ ہوبلکہ اس کے خاص رشتہ داروں میں سے ہو اور اس شخص سے لڑکی کے دین، نماز روزے کی پابندی، شرم و حیاء، پاکیزگی، حُسنِ کلام وبد کلامی، خانہ نشین رہنے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے متعلق پوچھے، عقد ِنکاح سے پہلے اسے دیکھ لے (۱) اور نکاح کے بعداچھی گفتگو کرتے ہوئے ان باتوں کے متعلق پوچھے جو اسے پہنچی ہیں اور اس سے والدین کی عادتوں، حالات وکیفیات اور دین واعمال کے متعلق پوچھ گچھ کرے۔
(۱)۔۔۔۔۔۔حکیم الامت حضرتِ سیِّدُنا مفتی احمدیارخان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس حدیث کہ ”ایک شخص نبئ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں آیابولامیں نے ایک انصاری عورت سے نکاح لیناہے۔فرمایا:اسے دیکھ لوکیونکہ انصار کی آنکھ میں کچھ ہوتاہے۔”کی شرح میں فرماتے ہیں:”دیکھنے سے مرادچہرہ دیکھناہے کہ حسن وقبح(یعنی خوبصورت و بدصورت ہونا)چہرے ہی میں ہوتاہے اوراس سے مرادوہی صورت ہے جوابھی عرض کی گئی یعنی کسی بہانہ سے دیکھ لینا یاکسی معتبرعورت سے دکھوالینانہ کہ باقاعدہ عورت کاانٹرویو کرناجیساکہ آج کل کے بے دینوں نے سمجھا۔”
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصبیح،ج۵،ص۱۲،مطبوعہ ضیاء القرآن)