نجران کے نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ

نجران کے نصاریٰ کے ساتھ مباہلہ

نجران مکہ مشرفہ سے جانب یمن سات منزل کے فاصلہ پر ایک بڑا شہر ہے جو نجران بن زید بن یشجب بن یعرب کے نام سے موسوم ہے۔ یہ شہر ملک عرب میں عیسائی مذہب کا مرکز تھااور 73گاؤں اس سے متعلق تھے۔ جناب سرورِ دَو عالم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصال سے ایک سال پیشتر یہاں کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ منورہ میں آیا۔

جب وہ عصر کے بعد مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو ان کی نماز کا وقت آپہنچا مسجد میں انہوں نے شَرْق رُو ہوکر ( 1) نماز ادا کی۔ صحابہ کرام رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن منع کرنے لگے مگر حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تالیف قلوب (2 ) اور توقع اسلام کو مد نظر رکھ کر ان سے تعرض کرنے (3 ) سے منع فرمایا۔ اس وفد میں ساٹھ آدمی تھے جن میں چوبیس ان کے اشراف (4 ) میں سے تھے اور ان چوبیس میں سے تین مَرْجع کُل تھے۔ (5 ) عَبْدُ الْمَسِیْح جن کا لقب عاقب تھا اور سید جس کانام ا یہم اور بقول بعض شرحبیل تھااور ابو حارثہ بن علقمہ جو ان کا اسقف (بڑاپادری) تھا۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کو دعوت اسلام دی مگر وہ رُوبَراہ نہ ہوئے ( 6) بلکہ مباحثہ کرنے لگے اور آخر کار کہنے لگے کہ اگر عیسیٰ (عَلَیْہِ السَّلام) خدا کا بیٹا نہیں تو بتاؤ ان کا باپ کون تھا؟ اس کے جواب میں یہ آیتیں نازل ہوئیں :
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ (۵۹) اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ (۶۰) فَمَنْ حَآجَّكَ فِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ (۶۱) (آل عمران، ع۶)
بے شک عیسیٰ کی مثال اللّٰہکے نزدیک جیسی مثال آدم کی بنایا اس کو مٹی سے پھر کہا کہ ہوجا وہ ہو گیا حق بات ہے تیرے رب کی طرف سے پس تو مت رہ شک میں پھر جو جھگڑا کرے تجھ سے اس بات میں بعد اس کے کہ پہنچ چکا تجھ کو علم تو تو کہہ آؤ بلائیں ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کواپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنی جانوں کو اور تمہاری جانوں کوپھر دعا کریں اور لعنت ڈالیں اللّٰہ کی جھوٹوں پر۔ (7 )
ان آیات کا خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا نہ باپ تھا نہ ماں ۔اگر حضرت عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کا باپ نہ ہو تو کیا عجب ہے۔اگر نصاریٰ اس قدر سمجھا نے پر بھی قائل نہ ہوں تو ان

کے ساتھ قسم کرو کہ یہ بھی ایک صورت فیصلہ کی ہے کہ دونوں اپنی جان سے اور اولاد سے حاضر ہوں اور دعا کریں کہ جو کوئی ہم میں سے جھوٹاہے اس پر لعنت اور عذاب پڑے۔
اہل اسلام اس طرح کے فیصلے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ کیا خوب فیصلے کا ڈھنگ ہے کہ صرف عادِل حقیقی جو بے رُوْورِعایت اور بغیر بھول چو ک کے فیصلہ کر نے والا ہے فیصلہ کر دے۔اس ار شاد الٰہی کے مطابق حضور ِاقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان علمائے نصاریٰ سے مباہلہ کے لئے کہا۔انہوں نے مہلت مانگی۔ دوسرے روز صبح کو حضرت نے حضرت امام حسن اور امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کو جو خورد سال (1 ) تھے ہاتھ سے پکڑا آپ کے پیچھے حضرت فاطمۃ الزہرارَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور ان کے پیچھے حضرت علی المر تضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکِرِیْم مقامِ مباہلہ کو روانہ ہوئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا کہ جب میں دعا کروں تم آمین کہنا۔ پنجتن پاک کو دیکھ کر ابو حارِثہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا :
’’ میں (2 ) وہ صورتیں دیکھتا ہوں کہ اگر وہ خد ا سے دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو بیشک ان کی دعا سے ٹل جائے گا اس لئے تم مباہلہ نہ کرو، ورنہ ہلاک ہو جاؤگے اور رُوئے زمین پر قیامت تک کوئی عیسا ئی نہ رہے گا۔ اللّٰہ کی قسم ! تمہیں اس کی نبوت معلوم ہو چکی ہے اور وہ تمہارے صاحب (عیسیٰ ) کے بارے میں قول فیصل لایا ہے۔ اللّٰہ کی قسم ! جس قوم نے پیغمبر سے مباہلہ کیا وہ ہلاک ہوگئی۔ ‘‘
یہ سن کر عیسائی ڈر گئے اور مباہلہ کی جرأت نہ کر سکے بلکہ صلح کرلی اور جزیہ دینا قبول کیا۔حضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اگر وہ مباہلہ کر تے تو بند راور سوربن جاتے اور یہ جنگل ان پر آگ بر ساتا، اللّٰہ نجران اور اس کے باشند وں کو تباہ کر دیتایہاں تک کہ کوئی پر ندہ بھی درخت پر باقی نہ رہتا۔ (3 )
نصاریٰ کا اس طرح مباہلہ سے گریز صاف بتا رہا ہے کہ اَعد ائے اِسلام بھی حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم کی دعاکی اجابت کے قائل تھے۔اس مباہلہ سے ایک اور بڑا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر دین اسلام خدا کی طرف سے نہ ہو تا اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نبی بر حق نہ ہو تے تو ہر گز اپنے دعویٰ پر خدا کے حضور جھوٹے پر لعنت اور غضب الٰہی نازل ہو نے کی بد دعا کرنے کا حوصلہ اور جرأت نہ کر سکتے کیا کوئی اپنی چالاکی سے خدا کو بھی دھو کہ دے سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہو سکتا تو پھر عیسا ئی علماء کیوں دعا مانگنے کی جرأت نہ کر سکے۔

________________________________
1 – مشرق کی طرف منہ کرکے۔
2 – دل جوئی۔
3 – روکنے۔
4 – معززین۔
5 – یعنی تمام عیسائی انہیں کی طرف رجوع کرتے تھے۔
6 – آمادہ نہ ہوئے۔
7 – ترجمۂکنزالایمان:عیسیٰ کی کہاوت اللّٰہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے اسے مٹی سے بنایا پھر فرمایا ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا پھر اے محبوب جو تم سے عیسیٰ کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو آ ؤ ہم تم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت ڈالیں ۔(پ۳، اٰل عمرٰن:۵۹۔۶۱) ۔علمیہ

________________________________
1 – کم سن۔
2 – زرقانی علی المواہب بروایت ابن ابی شیبۃ وابی نعیم وغیرہما، جزء رابع، ص۴۳۔
3 – ابن سعد کی روایت میں ہے کہ عاقب اور سید کچھ مدت بعد جلد مدینہ آئے اور حضور کے دست مبارک پر مشرف باسلام ہوئے۔۱۲منہ (المواھب اللدنیۃ وشرح زرقانی،المقصد الثانی،الوفدالرابع عشر،ج۵،ص۱۸۶-۱۹۰ ملتقطًاوملخصًا ۔علمیہ)

Exit mobile version