مُحَدِّث(۱) کے آداب
(حدیث بیان کرنے والے کوچاہے کہ) ہمیشہ سچ بولے، جھوٹ سے بچے، مشہور احادیث(۲) ثقہ(۳)راویوں سے روایت کرے، منکراحادیث(۴) بیان نہ کرے اور (احادیث کے متعلق) سلف صالحین کا اختلاف ذکر نہ کرے، زمانے کی پہچان رکھتا ہو، تحریف (الفاظِ حدیث میں ردوبدل یا تبدیلی کرنے)، اعرابی غلطی، حروف میں اشتباہ کی وجہ سے غلط لکھنے، پڑھنے اور لغزش وغیرہ سے بچے۔ہنسی مذاق اورفتنہ وفسادبرپانہ کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس نعمت پر شکر ادا کرے کہ اسے رسولِ پاک، صاحبِ لولاک،سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی احادیث بیان کرنے کا منصب عطا فرمایاگیا اور عا جزی وانکساری اپنائے۔ اکثر وہ احادیث بیان کرے جن کے ذریعے مسلمانوں کو فرائض،سنتیں ،آداب اورقرآن پاک
کے معانی و مطالب سمجھنے میں آسانی ہو۔ علم کو وزراء کے پاس لئے لئے نہ پھرے اورامراء (امیرلوگوں) کے دروازوں کے چکر نہ لگاتا پھرے کہ یہ چیزیں علماء کی رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔جب وہ اپنے علم کو سرمایہ داروں اور بادشاہوں کے پاس لئے لئے پھرتے ہیں تو ان کے علم کی رونق ختم ہوجاتی ہے۔ جس حدیث کی اصل سند نہ جانتا ہو اسے بیان نہ کرے، محدِّث کے سامنے وہ حدیث بیان نہ کی جائے جس کے متعلق اس نے اپنی کتاب میں کہاہو کہ ”میں اس کے بارے میں نہیں جانتا۔” جب اس کے سامنے حدیث پڑھی جائے تو گفتگو نہ کرے اورحدیثوں کوآپس میں ملانے سے بچے۔
1۔۔۔۔۔۔مُحَدّ ِث:جواحادیثِ نبوی میں مصروف ومشغول ہواُسے مُحَدّ ِث کہاجاجاتاہے۔
(شرح النخبۃ:نزہۃ النظرفی توضیح نخبۃ الفکر،ص۴۱،مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)
2۔۔۔۔۔۔حدیث ِمشہور وہ ہے جس کے راوی ہرطبقہ میں دوسے زائدمگرتواترکی تعداد سے کم ہوں۔
(المرجع السابق،ص۴۶)
3۔۔۔۔۔۔ثقہ راوی: وہ ہے جو اپنی روایت میں عادل وضابط ہو(اس کی مزید وضاحت الفیۃ السیوطی میں ہے)۔
(الفیۃ السیوطی، من تقبل روایتہ ومن ترد، ص۸۵، مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ مکۃ المکرمۃ)
4۔۔۔۔۔۔منکرحدیث: ”اگرضعیف راوی کابیان ثقہ راوی کے خلاف ہے توضعیف راوی کے بیان کو ”منکر” اور ثقہ کے بیان کو”معروف” کہیں گے۔”منکرکی ایک تعریف یہ ہے:”وہ حدیث جو کسی ایسے راوی سے مروی ہو جو فحشِ غلط یاکثرتِ غفلت یافسق کے ساتھ مطعون ہو (خوا ہ اس کی روایت ثقہ کی روایت کے خلاف ہو یا نہ ہو) ۔”
(شرح النخبۃ:نزہۃ النظرفی توضیح نخبۃ الفکر،ص۷۲،مطبوعہ مکتبۃ المدینۃ)