معراجُ النَّبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وسلَّم
حمد ِباری تعالیٰ:
سب خوبیاں اللہ عَزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے اپنے برگزیدہ بندوں کو اپنی محبت کے لئے اختیار فرمایا اور ان کو اپنا محبوب بنایا جو اس کی بارگاہِ قرب میں حاضر ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے،انہیں خالص شراب ِ طہور پلائی،اور پھر اپنی مخلوق میں سے منتخب ہستیوں میں سے بعض کو انبیاء ، بعض کو اصفیاء ، بعض کو اولیاء اور بعض کو خلفاء کا مقام عطا فرمایا۔پھر ان سب میں اپنی بارگاہِ ناز کے لئے جس ہستی کا انتخاب فرمایاوہ ہمارے آقا ومولیٰ، حبیبِ خدا، حضرت سیِّدُنا محمد ِ مصطفٰے عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہیں۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو پاک پشتوں میں رکھنے سے پہلے ہی ساری مخلوق پر ممتاز فرما کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر اپنے انعامات کی برسات کر دی، اور اپنے کرم سے مقامِ فخر عطا فرمایااوراپنی تائید و نصرت فرمائی۔ حضرت سیِّدُنا آد م صفیُّ اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ و السلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وسیلہ سے دُعا کی تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی ۔
حضرت سیِّدُنا نوح نجیُّ اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وسیلہ سے دعا مانگی تو سمندرکے طوفان سے نجات پائی،جبکہ آپ علیہ السلام کی باقی قوم غرق ہو گئی۔ حضرت سیِّدُنا ابراہیم خلیل اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی کی برکت سے نارِنمرود سے عافیت عطا فرما کر نہ صرف قیدو بند کی صعوبتوں سے نجات عطا کی گئی بلکہ آگ کے شُعلوں کو بھی ٹھنڈا کر دیا گیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہی کے وسیلے سے حضرت سیِّدُنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ الصلٰوۃ و السلام کے فدیے میں جانور کی قربانی دی گئی اور آپ علیہ السلام کو ذبح ہونے سے بچا لیا گیا۔ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وسیلے سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا لطف وکرم طلب کیا تو اُن پربھی اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مہربانی فرمائی۔ جب حضرت سیِّدُنا عیسیٰ رُوح اللہ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام محبوبِ خدا، احمد ِ مجتبیٰ، محمد ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بشارت دیتے ہوئے تشریف لائے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی برکت طلب کی تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے انہیں اپنے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا امتی ہونے کا شرف عطا فرما دیا۔
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تمام کائنات کے سردار اور جن وانس کے امام ہیں،جنہیں (رات کے تھوڑے حصے میں) مسجد ِ حرام سے مسجد ِ اقصیٰ تک ،پھر وہاں سے ”سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی”تک، اور وہاں سے قَابَ قَوْسَیْن تک سیر کرائی گئی۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سواری بُراق تھی،حضرت سیِّدُناجبریل امین علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام لگام پکڑے ہوئے تھے اور تمام نوری مخلوق آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی راہ دیکھ رہی تھی۔جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی سواری مسجد ِ اقصیٰ پہنچی تو انبیاء کرام علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ و
السلام کو صفوں میں کھڑے پایا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے امامت فرمائی تو ہر نبی ورسول علیہم السلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے دعا کی اورمعراج کرانے والا رب عَزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سفرِ معراج کے متعلق قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(1) سُبْحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الۡاَقْصَا
ترجمۂ کنزالایمان:پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک۔(۱)(پ15،بنی اسرائیل:1)
یہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے عزت و فخر کی بات ہے۔ پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خاطر آسمان میں زینہ لگایا گیا، جس پر چڑھے تَو بلند ہوتے گئے ،اور آ پ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سب سے معظَّم ،معزَّز، محتَرَم، مکرَّم اورمقدَّم ہو گئے۔ حضرت سیِّدُنا جبریل امین علیہ السلام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ہم رکاب تھے، انہوں نے لمحہ بھر بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا دامن نہ چھوڑا۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کی خاطر آسمان کے دروازے کھول دئيے گئے، پوچھا گیا:” اے جبریل امین (علیہ السلام)!یہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟” تو آپ علیہ السلام نے ارشادفرمایا : ”یہ حضرت سیِّدُنامحمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہیں۔”پھر عرض کی گئی: ”کیا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بلایا گیا ہے؟” ارشاد فرمایا: ”جی ہاں۔” تَوسارے فرشتے کہنے لگے:”خوش آمدید! آنے والی ہستی کتنی مبارک ہے!” پھر تمام ملائکہ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تعظیم کی ۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے تمام انبیاء کرام علٰی نبیناوعلیہم الصلٰوۃوالسلام کو احتراماً سلام پیش کیا، ان سب نے بھی مرحبا کہا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سحاب ِ جود وسخا سے برکتیں لوٹنے لگے۔
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آگے بڑھتے گئے یہاں تک کہ مقامات کی حدود وقیود سے بھی گزر گئے ، نہ تو کسی جگہ قیام کیا اور نہ ہی پڑاؤحتیٰ کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے قلموں کے لکھنے کی آوازاور فرشتوں کی تسبیح کی آواز سماعت فرمائی،جنت ودوزخ کو ملاحظہ فرمایا اور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نیکوکاروں اوربَدکاروں کے لئے جو جزا وسزا تیار کر رکھی ہے اس کا بھی مشاہدہ کیا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قدمَینِ شریفَین کی برکت سے جہنم کی آگ ٹھنڈی پڑ گئی، خازنِ جنت رضوان علیہ السلام نے جنت کے محلاَّت اور بالاخانوں کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خوشبو سے معطَّرکر لیاپھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بیت ُ المعمور کی طرف بلند ہوئے ،ضیاء و
نورکو ملاحظہ فرمایا اور یہ بھی دیکھا کہ ہر روز ستر ہزار فرشتے اس میں داخل ہوتے ہیں (جو ایک بار داخل ہوجائے) دوبارہ اُس دن تک اس کی باری نہیں آئے گی: ”یَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیْہِ ترجمۂ کنزالایمان:جس دن ظالم اپناہاتھ چباچبالے گا۔”(پ۱۹، الفرقان:۲۷)
حضرت سیِّدُناجبرائیل امین علیہ السلام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ”سِدْرَۃُ الْمُنْتَہٰی”پر پہنچے تو پیچھے ہٹ گئے۔ حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اے جبریل!کیا یہاں پر دوست دوست کو چھوڑ دے گا؟” جبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی: ”اے تمام رسولوں کے سردار اور ربُّ العالمین کے حبیب (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! آپ تو پوشیدہ رازوں اور لکھے ہوئے علم کو جانتے ہیں کہ اس مقام پر حدود ختم ہو جاتی اور علوم مٹ جاتے ہیں۔ میرا یہی مقام ہے اور ہم میں سے ہر ایک کا مخصوص مقام ہے۔ لہٰذا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آگے تشریف لے چلئے اور اپنے عزت و وقار کے انوارمیں مزیداضافہ فرمائیے۔”
چنانچہ نبی مختار، رسولوں کے سالارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم انوار کے حجابات سے تجاوز کرتے گئے حتیٰ کہ وہاں پہنچ گئے جہاں کوئی مقام نہیں، جدائی ختم ہو گئی اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حسنِ ادب کے راستے پر چلتے ہوئے ،اس ذاتِ حق کے جمال کا مشاہدہ کرنے لگے جس کی پہچان، وحدانیت اور وصف ،یکتائی ہے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہو کرا نوا ر وتجلِّیات کاحُلَّہ سجالیاپس وصال کی رسی مل گئی اور دُوری ختم ہو گئی۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے گفتگو کی ابتدا ء سلامتی بھیجنے سے کی اور لطف فرماتے ہوئے انعام و اِکرام عطا فرمائے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے محبوب سے ارشاد فرماتا ہے:
(2) یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿45﴾ۙوَّ دَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیۡرًا ﴿46﴾وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ مِّنَ اللہِ فَضْلًا کَبِیۡرًا ﴿47﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے(نبی)بےشک ہم نے تمہیں بھیجاحاضرناظراورخوش خبری دیتا اورڈرسناتا۔اوراللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتااورچمکادینے والاآفتاب اور ایمان والوں کو خوشخبری دوکہ ان کے لئے اللہ کابڑافضل ہے۔(پ22،الاحزاب:45تا47)
یعنی آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی نبوت کا چراغ قیامت تک آنے والے لوگوں پراسی طرح روشن رہے گا۔ نہ اُس کی روشنی کم ہو گی اور نہ ہی وہ بجھے گا،اور یہ کہ آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)شاہد یعنی گواہی دینے والے ہیں اور میں وہ ہوں جس کی آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)گواہی دیں گے ۔”کیونکہ آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)سب سے اعلیٰ ذات کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔نیز شاہد کو اپنی شہادت میں کسی قسم کا ترددو تذبذب نہیں ہونا چاہے۔لہٰذا معراج کی رات جو کچھ آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)نے دیکھا اس کی گواہی دیں تاکہ لوگ میری وحدانیت کا عرفان حاصل کریں اور میری بندگی کا اعتراف کریں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)سے کلام کیا اور آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو فضیلت عطا فرمائی کہ میں نے
آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کے اشتیاق کی وجہ سے جمال کا مشاہدہ کروایا اور آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو اپنے خطاب کی لذت سے بہرہ مند کیا۔اب یہ خطاب آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی قوتِ سماعت کو دوسرے تمام خطابات سے محفو ظ کر دے گا۔میں نے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو اپنے قرب کی شرابِ طہور کا جام پلا دیا ہے۔لہٰذا اب آپ (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) واپس جا کر ان لوگوں کو بتا دیں جو مجھ سے غافل اور میرے وصال سے دور ہیں۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری علیہ رحمۃاللہ القوی تفسیرطبری میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ” جب حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی عمر مبارک اکیاون (51) برس نو ماہ ہوئی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو چاہِ زمزم اور مقامِ ابراہیم کے مابین مقام سے لے کربیت المقدس تک رات کے وقت سیر کرائی گئی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حکم سے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا سینۂ مبارکہ چاک کیا گیا اور قلب ِ اطہر نکال کر بیماریوں سے شفا دینے والے آب ِزمزم سے دھویا گیا، اور ایمان و حکمت سے بھر نے کے بعد واپس اپنی جگہ رکھ دیا گیا،اس کے بعد آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو سب سے زیادہ عزت والے مقام کی سیر کرائی گئی۔
رات کے وقت سیر کرانے میں جوراز ہے وہ عقلوں سے مخفی اور مخلوقِ خدا کی سمجھ سے بالاتر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کا یہ مبارک فرمان نازل ہوا:
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ﴿45﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوش خبری دیتااورڈر سنا تا۔(پ22،الاحزاب:45)
توشہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحب ِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عرض کی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ!تونے میرے لئے تو یہ قانون بنایا ہے کہ گواہ بغیر دیکھے گواہی نہیں دے سکتا۔”تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی جانب وحی فرمائی کہ ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو رات کے وقت اپنی بارگاہ کی سیر کرائیں گے، تاکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ملکوتِ اعلیٰ کا مشاہدہ کر لیں اور لوگوں کومشاہدہ کی ہوئی چیزوں کی خبر دیں جنہیں آنکھیں جنت یا دوزخ میں دیکھیں گی۔”
منقول ہے کہ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آسمان کی جانب بلند ہوئے تواللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی ذات کا مشاہدہ کرایا اور ارشاد فرمایا:”اے میرے نبی! تم نے میری ذات کا مشاہدہ کر لیا،لہٰذا اب میری خدائی کے گواہ بن جاؤ ۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عرض کی: ”اے میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ! میں کیسے تیری گواہی دوں ؟” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:”تم (میری طرف سے)یوں کہو: ” جومیری بارگاہ میں حاضر ہو اور اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے خاص رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہیں تو میں اس کے ظاہری و باطنی تمام گناہ معاف کر دوں گا۔”
ایک قول یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے تمام حجابات اُٹھا دئيے، زمین کو لپیٹ دیا، اور مسجداقصیٰ کو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قریب کر دیا۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اپنی بارگاہِ مقدَّسہ میں حاضری کا شرف بخشا۔پھر ارشاد فرمایا: ”اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)!میرا دیدار کرو اور لوگوں کو میرے متعلق خبر دو۔”اس کے بعد جب بھی لوگ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے جو بھی بات پوچھتے تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوجاتے اور آنکھوں سے دیکھ کر اور مشاہدۂ حق کرکے جواب دیتے،یقینااللہ عَزَّوَجَلَّ ہر چاہے پر قادر ہے۔ لوگوں کی زبانیں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بات سن کر گُنْگ ہو گئیں۔
پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں بیت المقدس سے آسمانوں تک بلند ہونے کا واقعہ سنایا۔ پس جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا رات کی آنِ واحد میں مکۂ مکرمہ سے بیت المقدس تک سفر کرنا ثابت ہوگیاحالانکہ دونوں مقامات کے درمیان تیز رفتار مسافرکی ایک ماہ کی مسافت ہے تووہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے آسمانی سفر کو ماننے پربھی مجبور ہو گئے۔ کیونکہ وہ ذات جو سخت زمین کو سمیٹنے پر قادر ہے ، وہ ہلکی فضاکو لپیٹنے پر کیونکرقادر نہ ہو گی؟
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب سینہ ،با عث ِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی گئی:” یا رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!ہم نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے سنا ہے کہ حضرت سیِّدُنا عیسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام پانی پر چلاکر تے تھے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:” ہاں، واقعی،ایسا ہی ہے، اور اگر وہ ہوا پر چلنا چاہتے تو ایسا بھی کرسکتے تھے لیکن صَاحِبُ الْاَسْرَاء (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کا ادب لازم تھا۔”کیونکہ آسمانی سفرمصطفی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ خاص تھا، جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آسمانوں کی طرف بلند ہوئے اور جنگلوں، بیابانوں کو طے کر گئے اور آپ کی خاطر اندھیرے کے ایک ہزار حجابات اورروشنی کے ایک ہزار حجابات اٹھادیئے گئے۔ اور ہوا پر چلناپانی پرچلنے سے زیادہ تعجب انگیز ہے کیونکہ ہوا پانی سے زیادہ ہلکی ہے، نیز پانی پر تونیک وبداور مؤمن و کافر سبھی کسی لکڑی،تختے یاکشتی کے ذریعے چل سکتے ہیں،لیکن ہوا پران چیزوں کے ذریعے وہی چل سکتا ہے جس پر رب کی خاص عنایت ہو۔
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نبئ کریم، ر ء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رفیق حضرت سیِّدُناجبرائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام تھے، اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بُراق کی رکاب حضرت سیِّدُنامیکائیل علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پکڑ رکھی تھی جبکہ دامنِ رحمت حضرت سیِّدُنا اسرافیل علیہ الصلٰوۃوالسلام کے دستِ اقدس میں تھا اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آسمانوں پر بلا نے والا خود ربِّ جلیل عَزَّوَجَلَّ تھااور جن کو بلایا گیاتھا وہ حضرت سیِّدُنامحمدمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم تھے، دعوت کا مقام قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی تھا،اورخلعت(خِل ْ۔ عَت) گنہگارانِ اُمَّت کی شفاعت تھی، اسی لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(3) وَ لَسَوْفَ یُعْطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی ؕ﴿5﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اوربیشک قریب ہے کہ تمہارارب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤگے۔(2)(پ30،الضحی:5)
حضرت سیِّدُناشیخ امام ابو الفَرَج بن جوزی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی ایک کتاب میں ذکر فرماتے ہیں کہ ”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سیِّدُنا جبرائیل امین علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اپنی عبودیت کے قدموں پر رُک جا اور میری ربوبیت کے مرتبہ کا اعتراف کر اور میرے شکر کے میدان میں خوشی سے جھوم جااور میری قدرت وشان کی عظمت جان۔ اب میں تجھ پرایک احسان کرنے والا ہوں لہٰذا جو کچھ میں وحی کروں اسے تو جہ سے سن۔توحضرت سیِّدُناجبرائیل امین علیہ السلام نے عرض کی:” اے میرے مولیٰ عَزَّوَجَلَّ! تُومہربان ہے اور میں کمزور و بے بس ہوں،تُوطاقت وقدرت والاہے اور میں محتاج و مغلوب ہوں۔”
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”اے جبریل(علیہ الصلٰوۃ والسلام)! ہدایت کا جھنڈا، عنایت کا بُراق،قبولیت و ولایت کی پوشاک، رسالت کا لباس اور عظمت وجلالت کی زبان لے کر ستر ہزار ملائکہ کے ساتھ رسولوں کے سالار، شفیع روز شمار،دو عالم کے مالک ومختار (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کے دربار میں حاضر ہو جا اوراُن کے دروازے پر کھڑا رہ اور اُن کی بارگاہ سے فیض حاصل کر کہ
آج رات تُو ان کا ہم رکاب ہو گا۔اور اے میکائیل(علیہ الصلٰوۃ والسلام)! تو بھی عَلمِ قبولیت کو تھام لے اور ستر ہزار فرشتوں کو لے کر حضورصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے درِ دولت پر حاضر ہو جاکہ آج رات تو بھی ان کی خدمت پر مامور ہے۔اے اسرافیل و عزرائیل (علیہماالسلام)! تم دونوں بھی ویسے ہی کروجیسے جبرائیل ومیکائیل کر رہے ہیں۔ آج رات تم سب نے سیِّدُ الاوّلین و الآخرین (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے۔ اے جبرائیل (علیہ السلام)! سورج کی روشنی کے ذریعے چاند کی روشنی میں کچھ اضافہ کردے اور چاند کے نور کے ذریعے ستاروں کے نور میں زیادتی کر دے۔ پھرشمس وقمرکو شمع بنا کر بارگاہِ نبوی میں پیش کر دے۔”
جبرائیل امین علیہ الصلٰوۃ والسلام نے عرض کی: ”یا الٰہی عَزَّوَجَلَّ! کیاقیامت قریب آ گئی ہے ؟” اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ اپنے حبیب(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو اپنا قرب عطا کروں اور انہیں اپنے اسرار سے آگاہ فرما کر انہیں انوار و تجلیات کا خلعتِ نور پہناؤں اور وہ محمد مصطفی(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)ہیں،جنہیں صدق و وفا کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جا اور اس رات ان کا خدمت گار اور ہم رِکاب ہونے کا شرف حاصل کر لے۔”
چنانچہ حضرت سیِّدُناجبرائیل علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں بشارت و مبارکباد کے پیغامات لے کر حاضر ہو گئے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سیِّدَتُنااُمِّ ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے کاشانۂ اَقدس میں محو ِآرام تھے۔ حضرت سیِّدُناجبرائیل امین علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ندادی: ”اے نبئ مختارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے لئے تیار ہو جائيے کہ فرشتے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے انتظار میں صف بستہ ہیں۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دیدارِالٰہی عَزَّوَجَلَّ کے شوق میں اُٹھ کھڑے ہوئے۔حضرت سیِّدُنا جبرائیل امین علیہ الصلٰوۃ و السلام نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوبُراق پر سوار کرایااور پھر خود بھی سوار ہو کر مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ جا پہنچے، بے حد و بے حساب سفر طے کیااور ملائکہ بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے دُرود و سلام کے نذرانے پیش کر رہے تھے اور یوں عرض کر رہے تھے : ”اَیُّھَا السَّیِّدُ الْکَرِیْمُ وَالرَّسُوْلُ الْعَظِیْمُ اِلْتَفِتْ بِنَظَرِکَ اِلَیْنَا وَتَفَضَّلْ بِحُسْنِ عَطْفِکَ عَلَیْنَا یعنی اے محترم و مکرَّم اور عظیم ر سول! ہم پر نظرِ کرم کے ساتھ توجہ و التفات فرمائیے اور شفقت ومہربانی فرمائیے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ”جان لو! جس نے اپنے محبوب کے غیر کی طرف ایک قدم بڑھایا یقینا اس نے اپنے آپ کو تھکایا اور جو غیرِ مطلوب کے لئے ایک قدم چلا اس نے محض مشقت اُٹھائی اور جو محبوب و مطلوب کو پانے میں کامیاب ہو گیاوہ کیسے غیر اللہ کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے؟ اور جب اس کے ارادے کی پختگی صحیح ہوگئی اور وہ تمام مخلوق سے غافل ہوکر صرف خالق عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہو گیا تو اس نے شکر کی زبان حاصل کر لی اور اب وہ کسی قسم کی سستی نہ کریگا۔”
نیز ارشاد فرمایا: ” اگرمیں بھی اس کی عبادت میں کوتاہی کروں تو میری بھی کوئی حیثیت نہیں۔” اورجب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم علم و ادب کی صفات سے مکمل طور پر متَّصف ہوگئے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو مراتب ِ تعظیم کے مزید قریب کیا۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(4) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿8﴾فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿9﴾
ترجمۂ کنزالایمان :پھروہ جلوہ نزدیک ہواپھرخوب اتر آیا تواس جلوے اوراس محبوب میں دوہاتھ کافاصلہ رہابلکہ اس سے بھی کم۔(3)(پ27،النجم:8۔9)
اس کے بعدآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوپکارا گیا:”اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) آج رات آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)ہمارے مہمان ہیں کہ آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)ہماری بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ہمارے قرب کی لذَّت حاصل کی۔اب آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)ہی بتائیں کہ آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی مہمان نوازی کیسے کی جائے؟اور آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم) کیا چاہتے ہیں ؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عرض کی :”یاالٰہی عَزَّوَجَلَّ! مجھ سے پہلے انبیاء کو انعام واکرام کی جو پوشاکیں عطا فرمائی گئیں، میں ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے پوچھا گیا: ”اے میرے حبیب (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! پھر کون سی چیز تمہیں راضی کرے گی؟ اورتم کس چیزسے خوش ہوگے؟” جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو یقینی طور پراپنی تمنائیں بر آتی دکھائی دیں تو زبانِ حال سے عرض کرنے لگے: ”اے جودوکرم والے مالک ِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ!تُوبہتر جانتا ہے کہ میرا مقصود و مطلوب کیا ہے۔”تو ارشاد فرمایا گیا :”اے شفاعت کرنے والے اور وہ جس کی شفاعت مقبول ہے! اگرتم چاہتے ہوکہ تمہیں انوار وتجلیات کا ایسا حُلَّہ عطا کروں جو کسی کو نہ ملا، نہ کسی نے اس کی خواہش کی اور نہ ہی کسی کان نے اس کے متعلق سنا تو ٹھہرجاؤاور ہمارے کرم کے خزانوں میں داخل ہو کر ہمارے دیدار کی پوشاک زیب ِ تن کرلو۔
اوردیدار الٰہی عَزَّوَجَلَّ کے وقت محبوب ِ خدا صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی ثابت قدمی کو قرآنِ پاک یوں بیان فرماتاہے:
(5) مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی ﴿17﴾
ترجمۂ کنزالایمان:آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حدسے بڑھی ۔(4)(پ27، النجم: 17)
اوراُس محبوب صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی شان تویہ ہے:
(6) لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی ﴿18﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بے شک اپنے رب کی بہت بڑی نشانیا ں دیکھیں۔ (5) (پ27،النجم:18)
حضور نبئ پاک، صاحب ِ لولاک صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو دیدارِ خداوندی کی نعمتِ عظمی کا تاج پہنایا گیا(اور دل نے اس کی تصدیق کی)۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(7) مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی ﴿11﴾
ترجمۂ کنزالایمان:دل نے جھوٹ نہ کہا جودیکھا۔(6) (پ27، النجم: 11)
پھر کہا گیا :”اے محمد(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! کیا تم جانتے ہوکہ اس وقت کہاں ہو؟اور کس مقامِ رفیع پر فائز ہو؟” عرض کی: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ !تُوہی بہتر جانتا ہے اور تُوہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔”تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”(اے محبوب!) تمہارا یہ مقام ومرتبہ مخلوق میں سے کسی نے نہیں دیکھا، میں نے تمہیں ایک منزل سے دوسری منزل ،ایک جہاں سے دوسرے جہاں اور ایک معراج سے دوسری معراج تک منتقل فرمایا ، یہاں تک کہ زمین و آسماں کی بادشاہی میں کوئی عجیب وغریب چیزایسی نہیں جس پر میں نے تمہیں آگاہ نہ کر دیا ہواور نہ ہی کوئی ایساکمال و مرتبہ ہے جس تک میں نے تمہیں نہ پہنچایا ہو۔”
جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم بارگاہِ لم یزل میں حاضر ہوئے اوراس کی بے نیازی کاجام نوش کیا توساری کائنات آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی چمک سے منور ہوگئی اور آسمانی فرشتوں نے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کواپنا مقصود پانے پر مبارکباد پیش کی، پھر ایک آواز سنائی دی، لیکن کوئی دکھائی نہ دیا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ ہی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا مالک ومولیٰ ہے۔ لہٰذا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں۔” سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ ” مجھے یہ کلمات الہام کئے گئے: ”اَلتَّحِیَّاتُ المُبَارَکُ الصَّلَوَاتُ الطَّیِّبَاتُ لِلّٰہِ۔ ”تَومجھے جواب ملا: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکَا تُہ، ۔ ”تَومیں نے عرض کی: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عَبِادِ اللہِ الصَّالِحِیْن۔ ”میں نے تمام انبیاء اور اپنی امت کو بھی اس فضلِ کامل اور اجر ِ اعظم میں شریک کر لیا جس کے ساتھ مجھے خاص کیا گیا تھا۔ توملائکہ نے جواباً کہا: ”اَشْھَدُ اَنْ لَّا ۤاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ۔” پھر دوبارہ آوازآئی: ”اے محمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! قریب ہو،تَومیں قریب ہو گیا ۔ ”
ایک قول یہ ہے کہ”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معرفت کے ساتھ اس کے قریب ہوئے اوراس کی محبت کا قرب پا لیا۔ چنانچہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(8) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی ۙ﴿8﴾
ترجمۂ کنزالایمان:پھروہ جلوہ نزدیک ہوا پھرخوب اُترآیا۔ (پ27،النجم:8)
یعنی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم محبت کے ساتھ حق تعالیٰ سے قریب ہوئے اور اللہ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے رحمت و لطافت کے قرب کا نزول ہوا۔ اور یہ قرب کسی قسم کی مسافت طے کرنے کا نہ تھا بلکہ وہاں تَوجدائی و فراق کا سوال ہی ختم ہو گیا تھا۔
کیونکہ ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
(9) فَکَانَ قَابَ قَوْسَیۡنِ اَوْ اَدْنٰی ۚ﴿9﴾
ترجمۂ کنزالایمان:تواس جلوے اوراس محبوب میں دو ہاتھ کافاصلہ رہابلکہ اس سے بھی کم۔ (پ27،النجم:9)
وہاں زمان و مکان ختم ہو گئے، بلکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایسی جگہ تھے ،نہ اس کی جہت تھی، نہ مکان ،نہ وقت، نہ زمان،
نہ سامانِ حیات ،نہ ہی افلاک و کائنات۔ بلکہ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سفرِمعراج سے واپس تشریف لائے ،تو بہت زیادہ خوش وخرم اور مسرور تھے،اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ہر طرح کی سعادت سے بہرہ مند ہوگئے۔
واپسی پر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ملاقا ت حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہ علٰی نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام سے ہوئی توانہوں نے عرض کی : ”اے کریم نبی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ! اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی امت پر کتنی نمازیں فرض فرمائیں؟” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جواب دیا:”دن رات میں پچاس نمازیں ۔” انہوں نے پھر عرض کی:”اے ساری مخلوق کے سردار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے پاس دوبارہ جائیے اور اپنی امت کے لئے تخفیف کا سوال کیجئے،یقینا ان میں کچھ عاجز و کمزور بندے بھی ہوں گے۔”حضرت سیِّدُنا موسیٰ علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃ والسلام آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اسی طرح اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں واپس بھیجتے رہے ،یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمیشہ کے لئے صرف پانچ نمازیں فرض فرما دیں۔ حضرت سیِّدُنا موسیٰ علیہ السلام کے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں بار بارجانے کے لئے عرض کرنے میں ایک راز یہ بھی تھا کہ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس ازلی ولازوال حسنِ خداوندی کا مشاہدہ کر کے آئیں اوراس کی چمک آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے چہرۂ اقدس میں ظاہر ہوتَووہ بھی اس حسن کا جلوہ دیکھ لیں۔
جب اللہ کے پیارے حبیب ،حبیبِ لبیب عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی مراد پالی او ر خَلْوَت میں اپنے رب تعالیٰ کے حسن کامشاہدہ کرلیا تَو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے ارشاد فرمایا گیا:”خواہش کااظہار کیجئے اور جو چاہتے ہیں ہم سے طلب کیجئے، ہم نے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کو ہر شئے طلب کرنے اور ہر مقصد تک پہنچنے کی اجازت دے دی ہے۔” آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے عر ض کی:”میں چاہتا ہوں کہ میری اُمَّت کو بھی ویسا ہی شرف عطا کیا جائے جس کی پوشاک مجھے پہنائی گئی ہے تاکہ وہ بھی میری رحمت سے اپنا انعام پا لیں۔” تَوآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرمایا گیا : ”اے کائنات کے سردار (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)! اے وہ ذات جس کے قدمو ں کی برکت سے زمین وآسماں نے شرف پایا ہے! ہم نے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی اُمَّت کو پانچ خلعتیں عطا کر دی ہیں لہٰذا ان کی سعادتوں کے ستارے بزرگی کے اُفق پر جگمگائیں گے،اور وہ پانچ خلعتیں، پانچ نمازیں ہیں۔ جن سے آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی اُمَّت، خَلْوَت میں راحت پائے گی۔”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ
وآلہ وسلَّم نے عرض کی: ” جن خلعتوں کا نور کائنات میں پھیلا ہوا ہے اور چمک رہاہے، ان کی پہچان اور اوصاف کیا ہیں؟ دُنیا میں ان کے نام کیا ہیں؟”جو اب ملا :”اے حبیب ِمحترم(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)!قرب کے مراتب پر تشریف رکھئے،یہ سب آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کے سامنے ایک ایک کر کے اپنے جلوے ظاہر کریں گی۔”
سب سے پہلے جو دلہن آئی اس پر روشن و چمکدار انوار واضح تھے ،جس کی خوشبو تمام جہان میں پھیلی ہوئی تھی، اس کا نور اہلِ عقل وبصیرت کے سامنے واضح طور پر چمک رہا تھا۔ اس وقت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو پکارا گیا :”اے وہ ہستی جو ہمارا وصال پا کر ہجروفراق کے غم سے محفوظ ہو گئی اوراے وہ ہستی جس کی برکت سے اس کی اُمَّت کوبہت بڑا اجر وثواب حاصل ہوا! اس خِلْعت کو نمازِ فجر سے پہچانا جائے گا۔ اس کے بعد آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)نے سفید و روشن لباس میں دوسری دُلہن کو ملاحظہ فرمایا تَو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آواز دی گئی: ”اے اعلیٰ مراتِب کے مالک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اور وہ ذات جس کی امت کو نماز ( کے لئے ساری زمین کو مسجد بنا کر)اور (پاک زمین سے) طہارت کا حکم دے کردیگر تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے! اس نورانی پوشاک کا نام نمازِ ظہر ہے۔”پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے واضح نورانی لباس میں ملبوس تیسری دلہن ظاہر ہو ئی۔ اس کے چمکتے چہرے کے نور سے کائنات جگمگا اُٹھی، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوبتایاگیا:”اے وہ ذات جس کی صفات کی کوئی حد نہیں!اور جسے رُعب ودبدبہ اور نصرتِ خداوندی کی تلوار عطا کی گئی ہے! اس جگمگاتے حُلِّے کانام نمازِعصر ہے۔”پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ اقدَس میں باکمال لباس میں ملبوس چوتھی دُلہن ظاہر ہو ئی تَو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوکہاگیا”اے مُقرَّب و مہذَّب افراد میں سب سے زیادہ قرب و شرف پانے والے!اس خِلعت کانام نمازِمغرب ہے۔” پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سامنے وفا کے حُلِّے زیب بدن کئے ہوئے پانچویں دلہن آئی۔ اور بلاشبہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نہایت عزت و شرف کے مقام پر فائز ہوئے اور مجتبیٰ ومصطفی بن گئے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بتایاگیا :”اے تمام مخلوق میں سب سے بہتر اورحسین ہستی(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)!اس خِلعت فاخرہ کانام نمازِعشاء ہے۔پس آپ(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کی امت ان پانچ نمازوں کی پابند ہو گی لیکن اجر وثواب پچاس کا پائے گی ، اوراے حوض و کوثر کے مالک(صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)!میں تجھے اس سے بھی زیادہ عطا کروں گااور اسی کا ذکر قبول کروں گا جو میرے ذکر کے ساتھ تیرا ذکر بھی کرے۔”
جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر پانچوں نمازیں دلہنوں کے لباس میں ظاہر ہوچکیں تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ایک آواز سنی: خوشخبری ہے اس کے لئے جو ان نمازوں کی پابندی کرے،پس وہی اپنے مقصود و مراد کو پہنچے گا۔ جس نے آج تک اپنی خواہش کی قید سے چھٹکارا حاصل نہ کیااور اس سے بچنے کی کوئی راہ تلاش نہ کی، اس سے کہہ دو کہ وہ اپنے گذشتہ اعمال پر افسوس کرتے ہوئے اپنے نفس پر روئے ،اور اگرآنسو نہیں بہا سکتا توکم از کم رونے والی شکل بنالے۔
جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم معراج سے واپس تشریف لائے تو کائنات آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے نورسے روشن ہو گئی،اور تمام موجودات آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی مہک سے مُعطَّر ہو گئیں۔ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی عطا کردہ فضیلت اورجاہ و مرتبہ کی خبر لوگوں کو دی توامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی تصدیق کی اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو بشارت ومبارکباد پیش کی اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کی بات میں ذرہ بھر شک نہ کیا۔
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے حبیب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو شرف و قرب کے خِلْعتِ فاخرہ سے نوازا اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو اطاعت کا مرکز بنایااورجہنم اور اس کی آگ سے چھٹکارے کے لئے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کوشفاعت کا محور بنایا اور وعدہ فرمایا کہ جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر دُرود پاک پڑھے گا اس کی دعا قبول کرلی جائے گی اور سینہ کشادہ کر دیاجائے گا۔ کیونکہ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ ترجمۂ کنز الایمان: اوراے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتاہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے۔ ”(پ۲، البقرۃ: ۸۶ ۱)
یااللہ عَزَّوَجَلَّ! تیرے پیارے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مرتبۂ کمال اور اس تعلق و واسطے کا صدقہ ، جومعراج کی رات تیرے اور تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے درمیان ظاہرہوا، ہمارے کبیرہ گناہ معاف فرما دے اور ہمیں قبولیت کی پوشاکیں عطا فرما دے۔ ہماری مُرادوں اور اُمنگوں کو پورا فرما دے۔ ہم سب کو دُنیاو آخرت کی بھلائیاں عطا فرما اور اپنی رحمت سے عذابِ نار سے گُلو خلاصی عطا فرما۔اور اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے! ہم پر اپنی خاص رحمت نازل فرما۔
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَ صَحْبِہٖ وَ سَلَّم
1 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”جس کا فاصلہ چالیس منزل یعنی سوا مہینہ سے زیادہ کی راہ ہے۔ شانِ نزول: جب سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم شب ِمعراج درجاتِ عالیہ و مراتب ِ رفیعہ پر فائز ہوئے تو رب عَزَّوَجَلَّ نے خطاب فرمایا: ”اے محمد (صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم)! یہ فضیلت و شرف میں نے تمہیں کیوں عطا فرمایا۔ حضورنے عرض کیا :اس لئے کہ تو نے مجھے عبدیت کے ساتھ اپنی طرف منسُوب فرمایا۔ اس پر یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی۔”
2 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”اللہ تعالیٰ کا اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے یہ وعدۂ کریمہ ان نعمتوں کو بھی شامل ہے جو آپ کو دُنیا میں عطا فرمائیں۔ کمالِ نفس اور علومِ اوّلین و آخرین اور ظہورِ امر اور اعلائے دین اور وہ فتوحات جو عہد ِمبارک میں ہوئیں اور عہد ِ صحابہ میں ہوئیں اور تاقیامت مسلمانوں کو ہوتی رہیں گی اور دعوت کا عام ہونا اور اسلام کا مشارق و مغارب میں پھیل جانا اور آپ کی اُمت کا بہترین امم ہونا اور آپ کے وہ کرامات و کمالات جن کااللہ ہی عالم ہے اور آخرت کی عزّت و تکریم کو بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفاعتِ عامہ و خاصہ اور مقامِ محمود و غیرہ جلیل نعمتیں عطا فرمائیں۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے دونوں دستِ مبارک اُٹھا کر اُمت کے حق میں رو کر دُعا فرمائی اور عرض کیا: اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ۔ اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا کہ محمد(مصطفی صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم ) کی خدمت میں جا کر دریافت کرو، رونے کا کیا سبب ہے باوجود یہ کہ اللہ تعالیٰ دانا ہے۔ جبریل نے حسب ِ حکم حاضر ہو کر دریافت کیا۔ سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں تمام حال بتایا اور غمِ اُمت کا اظہار فرمایا، جبریلِ امین نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ ”تیرے حبیب یہ فرماتے ہیں باوجود یہ کہ وہ خوب جاننے والا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جبریل کو حکم دیا، جاؤ اور میرے حبیب ( صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم ) سے کہو کہ ہم آپ کو آپ کی اُمت کے بارے میں عنقریب راضی کریں گے اور آپ کو گراں خاطر نہ ہونے دیں گے ۔حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی سیّدِ عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے فرمایا کہ” جب تک میرا ایک اُمتی بھی دوزخ میں رہے میں راضی نہ ہوں گا۔ آیت کریمہ صاف دلالت کرتی ہے کہ” اللہ تعالیٰ وہی کریگا جس میں رسول راضی ہوں اور احادیث ِ شفاعت سے ثابت ہے کہ” رسول صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی رضا اسی میں ہے کہ سب گنہگارانِ اُمت بخش دیئے جائیں ۔ تو آیت و احادیث سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کی شفاعت مقبول اور حسب ِمرضئ مبارک گنہگار انِ اُمت بخشے جائیں گے ۔سبحانَ اللہ! کیا رُتبہ عُلیا ہے کہ جس پروردگار کو راضی کرنے کے لئے تمام مقرَّبین تکلیفیں برداشت کرتے اور محنتیں اُٹھاتے ہیں وہ اس حبیب ِ اکرم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو راضی کرنے کے لئے عطا عام کرتا ہے۔”
3 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”اس(دَنَا) کے معنٰی میں بھی مفسّرین کے کئی قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ حضرت جبریل کا سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم سے قریب ہونا مراد ہے کہ وہ اپنی صورت اصلی دکھادینے کے بعد حضور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے قرب میں حاضر ہوئے ۔ دُوسرے معنٰی یہ ہیں کہ سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت حق کے قرب سے مشرّف ہوئے۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کو اپنے قرب کی نعمت سے نوازا اور یہ ہی صحیح تر ہے۔ (فَتَدَ لّٰی) میں چند قول ہیں ایک تویہ کہ نزدیک ہونے سے حضور کا عروج و وصول مراد ہے اور اُتر آنے سے نزول ورجوع۔ تو حاصل معنٰی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے قرب میں باریاب ہوئے، پھر وصال کی نعمتوں سے فیض یاب ہو کر خلق کی طرف متوجہ ہوئے۔ دُوسرا قول یہ ہے کہ حضرت ربُّ العزَّت اپنے لطف و رحمت کے ساتھ اپنے حبیب سے قریب ہوا اور اس قرب میں زیادتی فرمائی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ سیَّد عالَم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے مقرَّبِ درگاہِ ربوبیت ہو کر سجدۂ طاعت ادا کیا۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کہ” قریب ہوا جبار رب العزت۔۔۔۔۔۔ الخ۔( فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰی)یہ اشارہ ہے تاکید ِقرب کی طرف کہ قرب اپنے کمال کو پہنچا اور با ادب احبَّاء میں جو نزدیکی مُتصوَّر ہو سکتی ہے وہ اپنی غایت کو پہنچی۔”
4 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :” اس میں سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے کمال قوت کا اظہار ہے کہ اس مقام میں جہاں عقلیں حیرت زدہ ہیں آپ ثابت رہے، اور جس نور کا دیدار مقصُود تھا اس سے بہر ہ اندوز ہوئے۔ داہنے بائیں کِسی طرف ملتفت نہ ہوئے، نہ مقصُودکی دید سے آنکھ پھیری، نہ حضرت موسٰی علیہ السلام کی طرح بے ہوش ہوئے بلکہ اس مقامِ عظیم میں ثابت رہے۔”
5 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ”یعنی حضور سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے شب ِ معراج عجائب ِ ملک وملکوت کا ملاحظہ فرمایا اور آپ کا علم تمام معلوماتِ غیبیہ ملکوتیہ پر محیط ہوگیا۔ جیسا کہ حدیث اختصامِ ملائکہ (یعنی فرشتوں کا جھگڑنا) میں وارد ہوا ہے اور دُوسری اور احادیث میں آیا ہے ۔”(روح البیان)
6 ۔۔۔۔۔۔مفسِّرِشہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرُالافاضل سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ” یعنی سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کے قلب مبارک نے اس کی تصدیق کی جو چشمِ مبارک نے دیکھا۔ معنٰی یہ ہیں کہ آنکھ سے دیکھا، دِل سے پہچانا اور اس رؤیت و معرفت میں شک وتردُّد نے راہ نہ پائی۔ اب یہ بات کہ کیا دیکھا۔ بعض مفسِّرین کا قول یہ ہے کہ حضرت جبریل کو دیکھا ۔لیکن مذہب ِصحیح یہ ہے کہ سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنے ربّ تبارک و تعالیٰ کو دیکھا اور یہ دیکھنا کس طرح تھا، چشمِ سرسے یا چشمِ دِل سے؟اس میں مفسِّرین کے دونوں قول پائے جاتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قول ہے کہ” سیّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے ربُّ العزت کو اپنے قلب ِ مبارک سے دوبار دیکھا۔(رواہ مسلم) ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ آپ نے رب عَزَّوَجَلَّ کو حقیقتہً چشمِ مبارک سے دیکھا ۔یہ قول حضرت انس بن مالک اور حسن و عکرمہ کا ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو خُلَّت اور حضرت موسٰی علیہ السلام کو کلام اور سیّد عالم محمد مصطفٰی کو اپنے دیدار سے امتیاز بخشا(صلوات اللہ تعالٰی علیہم)۔کعب نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے دوبار کلام فرمایا اور حضرت محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اللہ تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا۔ (ترمذی) لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے دیدار کا انکار کیا اور آیت کو حضرت جبریل کے دیدار پر محمول کیا اور فرمایا کہ جو کوئی کہے کہ محمد (صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم ) نے اپنے رب کو دیکھا اس نے جھوٹ کہا اور سند میں (یعنی دلیل کے طور پر)” لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ”تلاوت فرمائی۔یہاں چند باتیں قابلِ لحاظ ہیں: ایک یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول نفی میں ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماکا اثبات میں اور مُثبِت ہی مُقدَّم ہوتا ہے۔ کیونکہ نافی کِسی چیز کی نفی اس لئے کرتا ہے کہ اُس نے نہیں سُنا اور مثبت اِثبات اس لئے کرتا ہے کہ اس نے سُنااور۔۔۔
جانا تو علم مثبت کے پاس ہے۔ علاوہ بریں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ کلام حضور سے نقل نہیں کیا بلکہ آیت سے اپنی استنباط پر اعتماد فرمایا ۔یہ حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی رائے ہے اور آیت میں ادراک یعنی احاطہ کی نفی ہے، نہ رؤیت کی۔ مسئلہ: صحیح یہ ہے کہ حضورصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم دیدارِ الہٰی سے مشرف فرمائے گئے۔ مسلم شریف کی حدیث ِمرفوع سے بھی یہی ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو بحرُ الاُمَّۃ ہیں، وہ بھی اسی پر ہیں۔ مسلم کی حدیث ہے: ”رَاَیْتُ رَبِّیْ بِعَیْنِیْ وَبِقَلْبِیْ (یعنی )میں نے اپنے رب کو اپنی آنکھ اوراپنے دِل سے دیکھا ۔”حضرت حسن بصری علیہ الرحمۃ قسم کھاتے تھے کہ” محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے شبِ معراج اپنے رب کو دیکھا۔” حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ” میں حدیث ِ حضرتِ ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا قائل ہوں حضو ر نے اپنے رب کو دیکھا اوراُس کو دیکھااوراُس کو دیکھا۔امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا۔”