محکمہء افزائش نسل : کے افسر مولدہ اور مصورہ ہیں ۔
ان کے سوااور بہت سے محکمے اس سلطنت میں قائم ہیں ‘جو بیان کئے گئے ان کو ’’مشتے نمونہ از خزوارے ‘‘ سمجھنا چاہئے۔
اگر تفصیلی نظر ڈالی جائے تو ایک وسیع سلطنت پیش نظر ہو جا ئے گی ۔ دیکھئے فلسفہ جدیدہ با وجود اس کے کہ انسان کے حصے علحدہ علحدہ کر کے ہر حصہ کے معلومات میں روز افزوں ترقیاں کر رہا ہے مگر خود اس کے اعتراف سے ثابت ہے کہ ہنوز روز اول ہے ۔
غرضکہ اس وسیع سلطنت کا بادشاہ نفس ناطقہ ہے ،اور کیسی کیسی متصاد اقوام اس میں سکونت پذیر ہیں ۔ مثلاً آب،آتش ،باد، خاک ، شجاعت ،حلم ،تکبر ، تواضع ،حسد ،خیرخواہی ، محبت ،عداوت ، رقیق ، غلیظ ، سخت ، نرم ،سرد ، جاذبہ ، دافعہ وغیرہ ۔مگر کوئی کسی پر تعدی نہیں کر سکتا ۔ سب اس بادشاہ کے مطیع او رفرماں بردار اور اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں ۔
چونکہ انسان تمام مخلوقات اشرف واقع ہوا ہے اسی لئے ایسے اسباب حق تعالیٰ نے قائم کئے کہ خواہ اس کو تمدن قائم کرنے کی ضرورت ہوئی ، اور ہرملک والے اس بات پر مجبور ہوئے کہ اپنے ہی ہم جنس بادشاہ کی اطاعت کریں، اورا س کو ایسے ذرائع دے گئے کہ سب رعایا و بر ایا اس کے محتاج ہو ں۔چونکہ آدمی کی نظرصورت پر پڑتی ہے اور بذریعہ واھمہ اس کے اوصاف معلوم کر تا ہے اس لئے جو شخص بادشاہ کو دیکھتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ لوگوں کا بادشاہ ہے اور کسی کامحتاج نہیں ، اور جولوگ کامل العقل ہیںوہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ حقیقی کوئی اور ہی ہے ،کیونکہ یہ بادشاہ ظاہر ی بات بات میں اپنے خالق کا محتاج ہے ۔ جس طرح انہوں نے اپنے مملکت ذاتی میںاپنے نفس ناطقہ کو بن دیکھے بادشاہ مان لیا ، اسی طرح خالق عزوجل کوبھی ملک الناس مان لیا
۔اور جس طرح اپنے اعضاء وقویٰ کی حرکات کے نسبت یقین کرلیا کہ بغیر ارادہ نفس ناطقہ کے کوئی ان سے حرکت صادر نہیں ہو سکتی اسی طرح عقل سے یقین کر لیا کہ عالم میں کوئی حرکت بغیر ارادۂ بادشاہ حقیقی کے صادر نہیں ہوسکتی لا تتحرک ذرۃ الا باذن اللہ ۔ یہ ہیں معنی ملک الناس کے ۔
نفس ناطقہ کی سلطنت اور بادشاہوں کی سلطنت میں ہے یہ فرق ضرور ہے کہ ان کے حکم کے نافذ ہونے میں بڑی بڑی دقتیں پیش آتی ہیں ،یہاں تک کہ رعب میں قائم رکھنے کے لئے عدول حکمی کرنے والوں کو پھا نسی تک دینے کی ضرورت ہو تی ہے،اس پر بھی کوئی حکم ان کا اس سرعت سے نافذ نہیں ہوسکتا جیسے نفس ناطقہ کا حکم نافذ ہو تاہے ۔دیکھئے کہ جب کوئی موذی ی اور مفسد سلطنت کی اطلاع باصرہ دیتاہے تو پہلے متعلقہ دفتروں میںتلاش ہو تی ہے کہ اس قسم کے مفسدہ پر واز کی عرض و معروض کبھی ہوئی تھی یا نہیں ،اگر نہیں ہوئی تھی تو واھمہ فوراً جانچ عرض کر دیتاہے کہ مفسد ہے یا نہیں؟ اور مسلیں برآمد ہوں تو متخلیہ فوراً قطعی رائے پیش کر دیتا ہے کہ وہ مثلاً قابل قتل ہے ،اور یہ مسل بھی ان مسلوں کے ساتھ دفتر میں رکھی جا تی ہے ،پھر فوجی افسروں کوحکم نافذ ہوتا ہے چناچہ وہ قتل کیاجا تا ہے ۔
دیکھئے اتنے کام اس سرعت سے ہو تے ہیں کہ ادھر بچھو مثلاً دکھائی پڑا اور ادھر اس پر جوتا پڑا !ابتدائی کا روائی سے نفاذ حکم بلکہ تعمیل حکم یعنی قتل تک ایک سکنڈ کا بھی عرصہ بھی نہیں گزرتا ۔ اسی طرح کسی تعجب خیز بات پر نفس مطلع ہو تا ہے تو اندرونی ایک ایسی کیفیت پیداہوتی ہے جس کا بیان نہیں ہوسکتا اور اس کے ساتھ ہی عضلات وغیرہ اپنے اپنے کامو ںپر مستعد ہوجا تے ہیں ، ادھر تنفس میں ایک غیر معمولی جوش پیدا ہو تا ہے یہاں تک کہ آواز بلند ہوتی ہے اور جلد جلد حرکت کر نے لگتی ہے ،اِدھر اوتار وغیرہ مقامی عملہ ہو نٹوں پر مسلط ہو کر ان کو دانتوں پر سے ہٹا دیتاہے ،چہرہ پر ایسی چیزیں فراہم کر دی جا تی ہیں جو آثار بشاشت ہیں جن سے دیکھنے والوں پر بھی خوشی کے آثار نمایاں ہو تے ہیں اور باہمی انست پیدا ہوتی ہے ۔اور اگر باطن میں غم وغصہ آجائے کاگزاران مقامی آثار بشاشت سے چہرہ کو فوراً پاک وصاف کر کے آنکھوں میں ایک قسم کا انقلاب پیداکر دیتے ہیں یہاں تک کہ کبھی آنسوجاری ہو جاتے ہیں جو کمال غم کی علامت ہے اس قسم کے اور بہت سے حرکات اعضا سے صادر کرا تے ہیں ،بلکہ بساوقت ایسی حرکات صادر کر دیتے ہیں جن سے حیثیت عرفیہ کا ازالہ ہو جا تا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ انقلاب بے سبب نہیںہوتا ،مثلاً نفس میں تعجب کے وقت کوئی کیفیت ضرور پیدا ہوتی ہے ۔مگر یہ نہیں معلوم کہ تعجب ہے کیا چیز ،ہم دیکھتے ہیں کہ کمال درجے کی خوشی سے بھی آدمی ہنستا ہے یہاں تک کہ بعضے شادی مرگ کا شکا ر ہوجا تے ہیں کہ ہنستے ہنستے مرجا تے ہیں جیساکہ مشہور ہے ۔اور گد گد یاں کرنے سے بھی آدمی ہنستا ہے ،اور کبھی کسی کی دل شکنی او ررنج اور مصیبت پر بھی ہنستا ہے ، جیساکہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ ایک بارنماز جماعت سے ہو رہی تھی جس کے امام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے ایک نابینا کمال شوق سے جماعت میں شریک ہونے کو آرہے تھے اتفاقاً گڑھے میں گرپڑے اس پر بعض بے اختیار ہنس پڑے جس کی سزار میں آنخصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :تم لوگوں کی نماز بھی ٹوٹی اور وضو بھی ٹوٹا۔ دیکھئے یہ نابینا بزرگ کس شوق و ذوق سے جماعت میں شریک ہونے کو آرہے ہوں گے اور جوں صف کے قریب ہوتے ہوںگے کس قدر ان کوخوشی ہو تی ہوگی اور شکر کرتے ہوںگے کہ الحمداللہ محنت چیز ہوگئی اب کوئی دم میں اس جماعت سراپا رحمت میں شریک ہوجا تے ہیں جس کے امام خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ،تقریب الٰہی کے دوازے کھلے ہوئے ہیں ،رحمت اور صلاۃ وسلام حق تعالیٰ کی طرف سے اس جماعت پر یہم نازل ہو رہے ہیں ،فرشتے ہر طرف صف باندھے ہوئے دعاگو ئی میں مشغول ہیں حق تعالیٰ خاص طورپر اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس جماعت کی طرف متوجہ ہے اور ہر شخص کو معراج حاصل ہے جس سے اظہار راز و نیاز کا پورا موقعہ مل رہا ہے ایسے وقت جب وہ بزرگ نا بینا گرکر اس دولت سے محروم ہو گئے ہوں گے تو ان کے حسرت بھرے دل کا کیا حال ہوا ہوگا !اگر آٹھ آٹھ پہرآنسو اس پر بہا ئیں تو سزاوراہے ۔ یہ تو ان کی حالت تھی ،ادھر اتقیاء کی جماعت جن کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی ان پر اس گر نے اور محرومی کا اثر یہ ہو رہا ہے کہ بے اختیار ہنس پڑے !اصحابہ کا اس وقت ہنسنامعلوم نہیں کس مصلحت سے تھا ، اور خداجانے اس وقت کس قسم کے معارف ان کے دلوں پر متجلی تھے جن سے فرحت وبشا شت ہوئی اور بے اختیا ر ہنس پڑے ۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ ہنسی ہنسی میں رو
دیتے ہیں اور روتے روتے ہنس دیتے ہیں ۔اسرار خالقیت کا انکشاف ہر کس وناکس پر نہیں ہو سکتا ۔ ع :
بگوشِ گل چہ سخن گفتہ ای کہ خندان است
بہ عندلیب چہ فرمودہ ای کہ گریان است
ہر چند اُن حضرات کی ہنسی کو ہم اپنی ہنسی پر قیاس نہیں کرسکتے ،کیونکہ
کار پاکاں را قیاس از خود دیگر
مگر چونکہ حکمِ شریعت عام ہوتا ہے اس میں خصوصیت باطنی کا لحاظ نہیں ہوتا ا س لئے اس سزا میں وہ حضرات بھی شامل کر دئے گئے ۔دیکھئے صاف ارشاد ہے من تشبہ بقوم فہو منہم یعنی جوشخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ ان میں سے ہے ،یعنی اس کے باطن کا لحاظ نہیں ۔الحاصل ضحک اور غضب وغیرہ سے یہ ثابت ہے کہ نفس ناطقہ ج وحکم کرتا ہے اس کی تعمیل ایسی فوراً ہو تی ہے کہ حکم او رتعمیل میں گویا زمانہ فاصل ہی نہیں ۔
اب دیکھنا چاہئے کہ نفس ناطقہ کی حکومت اس کی سلطنت میں اس درجہ کیوںنافذ ہے کہ اس سے سرتابی کوئی نہیں کرسکتا ،اور سلا طین کی حکومت میں یہ بات نہیں ؟ وجہ اس کی یہ ہے کہ نفس ناطقہ کو خاص قسم کا تعلق اس کی سلطنت سے دیا گیا ہے چنانچہ اس کی مفارقت سے تمام سلطنت درہم وبرہم ہو جا تی ہے ،یعنی جسم فنا ہو جا تاہے،اور یہ تعلق سلاطین کوملک کے ساتھ نہیں ۔
اب غور کیجئے کہ اس عطائی اور عارضی تعلق سے نفس کو یہ بات حاصل ہے کہ اس کا کوئی حکم اس کے ملک میں رد نہیں ہوسکتا ،تو خالق عالم جس کے ساتھ تمام عالم کو ایسا ذاتی تعلق ہے کہ ہر آن وہ اس کا محتاج بنا ہوا ہے ……۔صحابہ کے مذکورہ واقعات کو دکھئے کہ ان پر جب نفس ناطقہ کے پیادے مسلط ہوئے اور وہ انقلاب پیدا کر دیا جو ابھی مذکورہوا توان پر کس قدر شاق گزار ہوگا !اور اس کے رفع کرنے میں کیا کچھ کوششیں نہ کی ہوں گی !مگر کچھ نہ چلی انجام کا رنفس ناطقہ ہی کا حکم چل گیا اور قہقہہ کی آواز کو باہرنکال کو چھوڑ ا یہاں تک کہ ہنسی کا پورا نقشہ قائم کر دیا ۔ معلوم نہیں اس وقت ہنسا نے والی قوت کیوں مسلط ہوگئی تھی ؟!اگر کسی کا نقصان اور دک شکنی ہنسی کے اسباب میںہے تو چاہئے کہ اپنا پیارا لڑکا اور واجب التعظیم بزرگ گریں تو بھی ہنسی آنی چاہئے!حالانکہ نہیں آتی ۔ احمقی کے حرکات دیکھنے سے بھی ہنسی آتی ہے ،مگر اپنے کسی معزز دوست سے دیکھے جائیں تو بجا ئے ہنسی کے رنج ہوتا ہے اور شرم آتی ہے ۔
غرضکہ تعجب جو باعثِ ضحک ہے اس کو معین کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے خصو صاً اس وجہ سے کہ جس بات پر ایک شخص ہنستا ہے دوسرانہیں ہنستا ،بلکہ ہم ہی جس بات پر ایک وقت ہنستے ہیں دوسرے وقت نہیں ہنستے ۔جس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ کسی شے کوہنسانے اور رلانے میں دخل نہیںبلکہ وہ خداہی کا کام ہے جب چاہتا ہے ہنساتا ہے اور جب چاہتا ہے رلاتا ہے ،چناچہ ارشاد ہے قولہ تعالیٰ ہو الذی اضحک و أ بکی ! یعنی وہی خدا ہنسا تا ہے او رلاتا ہے ۔جب ہنسا نا چاہتا ہے تو نفس میں ایسی کیفیت پیدا کر دیتاہے کہ آدمی ہنس دے ،اورجب رلا نا چاہتا ہے تو کوئی بات ایسی پیدا کر دیتا ہے کہ آدمی بے اختیار رو دے ۔یہاں تک کہ ہنسنے کے قابل بات میں بھی کبھی رلا دینے کی خاصیت دی جا تی ہے ۔عقل سے اس کا واقعی سبب ہر گز نہیں معلوم ہوتا جس سے تصدیق آیت موصوفہ کی ہوسکے کہ خدا ے تعالی ہی ہنسا تا ہے اور رلاتاہے اور بظاہر جو اسباب قائم ہوتے ہیں ان کا مسبب وہی ہے ۔
اس قسم کے امور اکثر ناطقہ کی ساخت ہی میں داخل ہو تے ہیں ۔چناچہ تاریخ حکمائے یونان میں لکھا ہے کہ دیمو قراطیس جو بڑا نامی حکیم وفلسفی گزارا ہے وہ بہت ہنستا تھا یہاں تک کہ جس طرح خوشی کی حالت میں ہنستا غم کی حالت میں بھی ہنستا تھا ،اس کے خیر خواہوں نے دیکھا کہ یہ بالکل غیرمعمولی بات ہے ،اس کو جنون پر محمول کیا اور شہر بدیرہ جس میںوہ رہتا تھا وہاں کے لوگوں نے اس کے علاج کے لئے حکیم بقراط کو بلایا چناچہ وہ جنون کی دوائیں ہمرہ لایا پہلے اس نے دودھ پیش کیا دیمو قرا طیس نے غور سے اس دودھ کو دیکھ کر کہا : یہ ایسی بکری کا دودھ ہے جس کا رنگ سیاہ ہے اور وہ باکرہ بھی ہے !فی الواقع اس کی بات صحیح نکلی، بقراط اس کی فرا ست سے متعجب ہوا اور کئی روز وہاں رہ کر مسائل حکمیہ کی تحقیق کی اوراس کی غیر معمولی حکمت سے
متعجب ہوکر کہا کہ : اس شہر کے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کے جنون کا علاج کیا جائے نہ کہ یہ حکیم ۔
غرض کہ فاعل مختارنے جس کو جیسا چاہا پیدا کیا ،کسی کو کثیر الضحک کسی کو کثیر البکار ۔پھر جس کو جب چاہتا ہے ہنسا تا ہے ۔ اسی کی مصلحت وہی جانے اس کا حکم عالم میں کیونکر ردہو سکے ۔ اسی وجہ سے انبیاء علیھم السلام دعاء کیا کر تے تھے کہ الٰہی قوم کو ہدایت دے اور راہ راست پرلا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ کفار کے دل خدا ہی ہاتھ میں ہیں ،اور حکم ایمان جب ان کے ذریعہ سے کفرا کو پہونچتا ہے وہ ایسا ہے جیسے نفس ناطقہ کا حکم اعضاء پر بذریعہ ء کلام و زبان پہونچے کہ حرکت کرو !اگر صبح سے شام تک ہاتھ کو حرکت کرنے کے لئے زبان سے کہا جائے تو ممکن نہیں حرکت کر سکے جب تک کہ نفس ناطقہ کا اندرونی حکم ا س کونہ پہونچے ۔اسی طرح خداے تعالیٰ کا امر تکو ینی جو باطن میں صادرہوتا ہے وہ ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
ًًٓٓ اب رہی بات کہ بغیر امر تکو ینی کے مقصود حاصل نہیں ہوتا تو انبیاء کی ضرورت ہی کیا؟ اس سوال کا حق کسی کونہیں ،خالق مختار ہے جو چاہے کرے بندے کا کام اطاعت ہے، اگروہ ہوسکے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ آثار کچھ اچھے ہیں اور امید بخشا ئش ہے ، ورنہ آثار ٹھیک نہیں جب قیامت میں آنکھیں کھل جائیں گی اس وقت خداکی حجت قائم ہوجا ئے گی کیونکہ وہ ملک الناس ہے اپنی سلطنت میں جوچا ہے کرے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا ۔
دیکھئے نفسن ناطقہ داڑھی کو بلکہ کسی مصلحت سے ہاتھ پائوں کو کٹوادیتا ہے اورکوئی پوچھ نہیں سکتا کہ میرا کیا قصور تھا ۔ اسی طرح خداے تعالیٰ سے کوئی پوچھ نہیں سکتا، جس طرح اس کی مصلحت مقتضی ہوتی ہے عمل میں لا تا ہے ۔