متفرق آداب
(بعض حکماء نے یہ آداب بیان فرمائے ہیں)
اپنے دوست ودشمن کو ذلیل ورسواکئے بغیرخندہ پیشانی سے اُن کے ساتھ ملاقات کر، ان سے خوف زدہ نہ ہو، ان پر بڑائی وبرتری کی تمنّاکئے بغیران کی تعظیم و توقیر کر، اپنے تمام امورمیں میانہ روی اختیارکر، غروروتکبرنہ کر، اِدھر اُدھرتوجہ کرنے سے بچ، لوگوں کے مجمعوں کا معائنہ نہ کر۔جب توکہیں بیٹھے تو بلند ہو کر بیٹھ اور اپنی انگلیوں کو چٹکانے، انگوٹھی کے ساتھ کھیلنے، دانتوں کاخلال(یعنی صفائی) کرنے، بار بار ناک میں ہاتھ ڈالنے (یعنی اُسے صاف کرنے)، چہرے سے مکھیاں اُڑانے اور کثرت سے انگڑائی اور جماہی لینے سے بچ، تیری محفل پرسکون اور کلام پردلیل ہو، جو تجھ سے گفتگو کرے اس کے عمدگئ کلام کی طرف متوجہ ہو کرنہ تو تعجب کر، نہ عاجزی وبیچارگی کا اظہار کر اورنہ ہی اس سے بے تعلق ہونے کی کوشش کر، ہنسی مذاق اورحکایات وغیرہ بیان کرنے پراس کامؤاخذہ نہ کر،اپنی اولاداور خادمہ کے حسن وجمال کے متعلق گفتگونہ کر، نہ توسجی سنوری عورت کی طرح بن ٹھن کر رہ اور نہ ہی غلام کی طرح چھچھوراپن اختیار کر۔ تمام امورمیں میانہ روی اختیارکر،کثرت سے سرمہ لگانے اوربالوں میں تیل ڈالنے میں اسراف کرنے سے بچ، حکایات وغیرہ بیان کرنے میں شوخی نہ جتا،اپنے اہل وعیال کوزیادہ شہرت نہ دے ،حضرتِ سیِّدُناامام مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی :”کیونکہ اگرشہرت کم ہوگی توتمہارے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ ہوگی اوراگرزیادہ ہوگی توپھربھی تواہل وعیال کوراضی نہ کرسکے گا۔”ان سے بغیرکسی لالچ کے محبت کراوربغیرکسی خوف کے ان کے لئے نرم خُوہوجا۔ جب تیری کسی سے تلخ کلامی
ہو جائے توسامنے والے کی عزت کا خیال رکھ اوراپنی دلیل میں غوروفکرکر اورہاتھ سے کسی کی طرف اشارہ نہ کر اورگھٹنوں کے بل نہ بیٹھ۔جب تیرا غصہ ختم ہو جائے تب کلام کر۔
اگرتجھے بادشاہ کی صحبت میسر آئے تواس سے خوف زدہ رہ اوراپنے بارے میں اس کی حالت ورائے کے تبدیل ہونے سے امن میں نہ رہ اوربادشاہ کے ساتھ اس طرح شفقت ونرمی سے پیش آ، جس طرح بچے پر شفقت ونرمی کرتاہے، بادشاہ کی خواہش کے مطابق اس سے کلام کر، اگرچہ بادشاہ تیری بات سن لیتاہے پھربھی اس کے ،اس کے گھر والوں، اس کی اولاداوراس کے رشتے داروں کے معاملات میں دخل اندازی مت کر۔
اپنے پسندیدہ دوستوں سے خاص طور پر بچ کیونکہ وہ تیرے دشمنوں میں سے ایک ہیں اوراپنے مال کواپنی عزت سے زیادہ عزیزنہ جان۔ جب لوگوں کے درمیان ہو تو کثرت سے تھوکنے سے گریز کر کیونکہ ایساکرنے والے کوعورتوں کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اور اپنے دوست کے سامنے اس کی اس چیزکا اظہارنہ کرجس کی وجہ سے تجھے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب وہ تیری کسی نازیباحرکت کو دیکھے گاتوتجھ سے دشمنی کریگا (یعنی بدلہ لے گا)۔ نہ تو کسی عقلمندسے مذاق مسخری کرکہ وہ تجھ سے حسدکرنے لگ جائے، اور نہ ہی کسی بے وقوف کا مذاق اڑا کہ وہ تجھ پرہی جرأت کربیٹھے،کیونکہ ہنسی مذاق رعب ودبدبے کو دور کرتا، مقام ومرتبے کوگرادیتا،چہرے کی رونق اورآب وتاب ختم کرتا،غم کاسبب بنتا، محبت کی مٹھاس ختم کرتا، سمجھ دار کی عقل وفہم کوعیب دارکرتا، بیوقوف کوجری کرتا،عقل ودماغ کو فنا کرتا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے دور کرتا،مذمت وبرائی کاباعث بنتا،ضبط وتحمل ختم کرتا، نیتوں میں فتورڈالتا، دلوں کومردہ کرتا، گناہوں کی کثرت کاسبب بنتااورخامیوں کوظاہر کرتا ہے۔
ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں التجا کرتے ہیں کہ ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں کی طرح ہدایت عطا فرما،عافیت پانے والوں کی طرح عافیت عطا فرما اور ہماری بھی ایسی ہی سرپرستی فرما جیسے دیگر کی فرمائی، ہمیں جو کچھ عطافرمایااس میں برکت دے، جو فیصلہ فرمایااس کے شرسے ہمیں محفوظ فرمائے کیونکہ اس کے فیصلے کو کوئی نہیں ٹال سکتا،جسے اللہ عَزَّوَجَلَّ ذلیل کرے اسے کوئی عزت نہیں دے سکتااورجسے اللہ عَزَّوَجَلَّ عزت دے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا۔ ہمارا پروردگار عَزَّوَجَلَّ بڑی برکت اوربلندی والا ہے، ہم اس سے مغفرت چاہتے،اس کی بارگاہ میں توبہ کرتے اور اس کی جناب میں عرض کرتے ہیں کہ اپنے پیارے محبوب، محمدِ مصطفی،احمدِمجتبیٰ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اور ہدایت کا پرچم بلند کرنے والے آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے آل و اصحاب رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر افضل دُرود اوربہت زیادہ سلام بھیجے۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)
اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن، وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ النَّبِیِّ الْاُمِّی(آمین)