قیامت کے آنے سے پہلے دنیا سے علم اٹھ جائے گا ۔ عالم باقی نہ رہیں گے۔ جہالت پھیل جائے گی۔ بدکاری اور بے حیائی زیادہ ہوگی۔ عورتوں کی تعداد مَردوں سے بڑھ جائے گی ۔ بڑے دجّال (۳) کے سوا تیس دجّال اور ہوں گے ہر ایک ان میں سے نبوت کا دعویٰ کریگا باوجودیکہ حضور پُرنور سیِّد الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم پر نبوت ختم ہو چکی۔ ان میں سے بعضے دجّال تو گزر چکے جیسے مسیلمہ کذّاب، اسود عنسی، مرزا علی محمد باب، مرزا علی حسین بہاء اللہ، مرزا غلام احمد قادیانی (۴)بعضے اور باقی ہیں وہ بھی ضرور ہوں گے۔
مال کی کثرت ہوگی۔ عرب میں کھیتی، باغ ،نہریں ہو جائیں گی۔ دین پر قائم رہنا مشکل ہوگا۔ وقت بہت جلد گزرے گا۔ زکٰوۃ دینا لوگوں کو دشوارہوگا۔ علم کو لوگ دنیا کیلئے پڑھیں گے ۔ مرد ،عورتوں کی اطاعت کریں گے۔ ماں باپ کی نافرمانی زیادہ ہوگی۔ شراب نوشی عام ہو جائے گی۔ نا اہل سردار بنائے جائیں گے۔ نہر فرات سے سونے کا خزانہ کھلے گا۔ زمین اپنے دفینے اُگل دے گی۔ امانت ،غنیمت سمجھی جائے گی۔ مسجدوں میں شور مچیں گے۔ فاسق ،سرداری کریں گے۔ فتنہ انگیزوں کی عزت کی جائے گی۔ گانے باجے کی کثرت ہوگی ۔ پہلے بزرگوں پر لوگ لعن طعن (۱)کریں گے۔ کوڑے کی نوک اور جوتے کے تسمے باتیں کریں گے۔ دَجّال اور دَابَّۃُ الارض اور یاجُوج ماجُوج (۲) نکلیں گے۔ حضرت امام مہدی رضی ا للہ تعالیٰ عنہ ظاہر ہوں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول(۳)فرمائیں گے۔ آفتاب(۴) مغرب سے طلوع ہوگا اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
سوالات
سوال: دجّال کس کو کہتے ہیں، اس کے نکلنے کا حال بیان فرمائیے؟
جواب: دجّال مسیح کذاب (۵) کا نام ہے۔ اس کی ایک آنکھ ہوگی وہ کانا ہو گا اور اس کی پیشانی پر ک ا ف ر (یعنی کافر) لکھا ہوگا۔ہر مسلمان اس کو پڑھے گا ، کافر کو نظر نہ آئے گا۔ وہ چالیس دن میں تمام زمین میں پھرے گا مگر مکّہ شریف اور مدینہ شریف میں داخل نہ ہو سکے گا۔ ان چالیس دن میں پہلا دن ایک سال کے برابر ہوگا، دوسرا ایک مہینہ کے برابر، تیسرا ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن معمول کے دنوں کے برابر ہوں گے۔ دجّال خدائی کا دعویٰ کریگا اور اسکے ساتھ ایک باغ اور ایک آگ ہوگی، جس کا نام وہ جنّت و دوزخ رکھے گا۔ جو اس پر ایمان لائے گا اس کو وہ اپنی جنت میں ڈالے گا ، جو حقیقت میں آگ ہوگی اور جو اس کا انکار کریگا اس کو اپنی جہنم میں داخل کریگا جو واقع میں آسائش کی جگہ ہوگی(۱)۔ بہت سے عجائب (۲) دکھائے گا ۔ زمین سے سبزہ اُگائے گا ۔ آسمان سے مینہ (۳)برسائے گا۔ مُردے زندہ کریگا۔ ایک مومن صالح (۴) اس طرف متوجہ ہوں گے اور ان سے دجّال کے سپاہی کہیں گے کیا تم ہمارے رب پر ایمان نہیں لاتے؟ وہ کہیں گے ۔ میرے رب کے دلائل چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر وہ ان کو پکڑ کر دجال کے پاس لے جائیں گے۔ یہ دجال کو دیکھ کر فرمائیں گے اے لوگو یہ وہی دجال ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم نے ذکر فرمایا ہے۔ دجال کے حکم سے ان کو زدوکوب (۵) کیا جائے گا۔ پھر دجال کہے گاکیا تم میرے اوپر ایمان نہیں لاتے ؟وہ فرمائیں گے تو مسیح کَذَّا ب ہے ۔ دجال کے حکم سے ان کا جسم مبارک سر سے پاؤں تک چیر کے دوحصے کر دیا جائے گا اور ان دونوں حصوں کے درمیان دجال چلے گا۔ پھر کہے گا اٹھ! تو وہ تندرست ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ تب دجال ان سے کہے گا تم مجھ پر ایمان لاتے ہو ؟وہ فرمائیں گے میری بصیرت(۶)اور زیادہ ہو گئی۔ اے لوگو! یہ دجّال اب میرے بعد کسی کے ساتھ پھر ایسا نہیں کر سکتا۔ پھر دجال انہیں پکڑ کر ذبح کرنا چاہے گا اور اس پر قادر نہ ہو سکے گا۔ پھر ان کے دست وپا(۷)سے پکڑ کر اپنی جہنم میں ڈالے گا۔ لوگ گمان کریں گے کہ ان کو آگ میں ڈالا۔ مگر درحقیقت وہ آسائش کی جگہ ہوں گے۔
سوال: دَا بَّۃُ الارض کیا چیز ہے؟
جواب: دَا بَّۃُ الارض ایک عجیب شکل کا جانور ہے جو کوہِ صفا سے ظاہر ہو کر تمام شہروں میں نہایت جلد پھرے گا۔ فصاحت کے ساتھ کلام کریگا۔ ہر شخص پر ایک نشانی لگائے گا۔
ایمانداروں کی پیشانی پر عصائے (۱)موسیٰ علیہ السلام سے ایک نورانی (۲) خط کھینچے گا ۔ کافر کی پیشانی پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگشتری (۳) سے کالی مُہر کریگا۔
سوال: یاجوج ماجوج کون ہیں؟
جواب: یہ یافث(۴)بن نوح علیہ السلام کی اولادمیں سے فسادی(۵) گروہ ہیں۔ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ زمین میں فساد کرتے تھے۔ ایام ربیع (۶) میں نکلتے تھے۔ سبزہ ذرا نہ چھوڑتے تھے ۔آدمیوں کو کھالیتے تھے۔ جنگل کے درندوں، وحشی جانوروں ، سانپوں ، بچھوؤں کو کھا جاتے تھے۔ حضرت سکندر ذوالقرنین نے آہنی دیوار(۷) کھینچ کر ان کی آمد بند کردی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد جب آپ دجال کو قتل کر کے بحکم الٰہی مسلمانوں کو کوہِ طور لے جائیں گے اس وقت وہ دیوار توڑ کرنکلیں گے اور زمین میں فساداٹھائیں گے ۔ قتل و غارت (۸) کریں گے۔ اللہ تعالیٰ انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے ہلاک کریگا۔
سوال: حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کچھ حال بیان فرمائیے۔
جواب: حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۃ اللہ ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی آل (۹)میں سے حسنی سیّد ہوں گے۔ جب دنیا میں کُفر پھیل جائے گا اور اسلام حرمین شریفین (۱۰)کی طرف سمٹ جائے گا ،اولیاء (۱۱) و ابدال(۱۲) وہاں کو ہجرت (۱۳) کر جائیں گے۔ ماہ رمضان میں ابدال کعبہ شریف کے طواف میں مشغول ہوں گے وہاں اولیاء حضرت مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پہچان کر ان سے
بیعت کی درخواست کریں گے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انکار فرمائیں گے۔ غیب سے ندا(۱) آئے گی ھٰذَا خَلِیْفَۃُ اللہِ الْمَھْدِیْ فَاسْمَعُوْا لَہٗ وَ اَطِیْعُوْہٗ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ مہدی ہیں ان کا حکم سنو اور اطاعت (۲)کرو۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے وہاں سے مسلمانوں کو ساتھ لے کر شام تشریف لے جائيں گے ۔آپ کا زمانہ بڑی خیرو برکت کا ہوگا۔ زمین عدل و انصاف سے بھر جائے گی۔
سوال: حضرت مسیح علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نزول کا مختصر حال بیان کیجئے۔
جواب: جب دجال کا فتنہ انتہا کو پہنچ چکے گا اور وہ ملعون (۳)تمام دنیا میں پھرکر ملک شام میں جائے گا اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر شریعت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے حاکم اور امامِ (۴) عادل (۵)اور مجدّدِ (۶)ملت ہو کر نزول فرمائیں گے۔ آپ علیہ السلام کی نظر جہاں تک جائے گی وہاں تک خوشبو پہنچے گی اور آپ علیہ السلام کی خوشبو سے دجال پگھلنے لگے گا اور بھاگے گا۔ آپ علیہ السلام دجال کو بیت المقدس کے قریب مقام لُد میں قتل کریں گے۔ ان کا زمانہ بڑی خیر و برکت کا ہوگا۔ مال کی کثرت ہوگی۔ زمین اپنے خزانے نکال کر باہر کرے گی۔ لوگوں کو مال سے رغبت نہ رہے گی۔ یہودیت ، نصرانیت اور تمام باطل دینوں کو آپ علیہ السلام مٹا ڈالیں گے۔ آپ علیہ السلام کے عہد مبارک میں ایک دین ہوگا، اسلام۔ تمام کافر ایمان لے آئیں گے اور ساری دنیا اہلِ سنّت ہوگی۔ امن وامان کا یہ عالم ہو گا کہ شیر بکری ایک ساتھ چریں گے۔ بچے سانپوں سے کھیلیں گے ۔ بغض (۷) وحسد (۸)کا نام و نشان نہ رہے گا۔ جس وقت آپ علیہ السلام کا نزول ہوگا فجر کی جماعت کھڑی ہوتی ہوگی۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کو
دیکھ کر آپ سے امامت کی درخواست کریں گے۔ آپ انہیں کو آگے بڑھائیں گے اور حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے نماز ادا فرمائیں گے ۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حضور سیّد الانبیاء علیہ و علیہم الصلٰوۃ والسلام کی شان و صفت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کی امت کی عزت و کرامت دیکھ کر اُمت محمد ی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم میں داخل ہونے کی دعا کی ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی اور آپ علیہ السلام کو وہ بقا عطا فرمائی کہ آخر زمانہ میں اُمت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کے امام ہو کر نزول فرمائیں آپ علیہ السلام نزول کے بعد برسوں دنیا میں رہیں گے، نکاح کریں گے پھر وفات پاکر حضور سیّد انبیاء علیہ و علیہم الصلٰوۃ والسلام کے پہلو میں مدفون ہوں گے۔
سوال : آفتاب کے مغرب سے طلوع کرنے اور دروازہ توبہ کے بند ہونے کی کیفیت بیان فرمائیے۔
جواب: روزانہ آفتاب بارگاہ الٰہی میں سجدہ کر کے اِذن (۱) چاہتا ہے اذن ہوتا ہے تب طلوع کرتا ہے۔ قریب قیامت جب دابۃ الارض نکلے گا حسب معمول آفتاب سجدہ کر کے طلوع ہونے کی اجازت چاہے گا ۔ اجازت نہ ملے گی۔ اور حکم ہوگا کہ واپس جا۔ تب آفتاب مغرب سے طلوع ہوگا اور نصف آسمان تک آکر لوٹ جائے گا اور جانبِ مغرب غروب کریگا۔ اس کے بعد بدستور سابق مشرق سے طلوع کیا کریگا ۔ آفتاب کے مغرب سے طلوع کرتے ہی توبہ کا دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر کسی کا ایمان لانا مقبول نہ ہوگا۔
سوال: قیامت کب قائم ہو گی؟
جواب: اس کا علم تو خدا کو ہے۔ ہمیں اس قدر معلوم ہے کہ جب یہ سب علامتیں ظاہر ہو چکیں گی اور روئے زمین پر کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہ رہے گا تب حضرت اسرافیل
علیہ السلام بحکم الٰہی صور (۱) پھونکیں گے۔ اس کی آواز اوّل اوّل تو بہت نرم ہوگی اور دم بہ دم (۲) بلند ہو تی چلی جائے گی۔ لوگ اس کو سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مرجائیں گے۔ زمین و آسمان اور تما م جہان فنا ہو جائے گا۔پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا حضرت اسرافیل کو زندہ کریگا اور دوبارہ صور پھونکنے کا حکم دے گا ۔ صور پھونکتے ہی پھر سب کچھ موجود ہو جائے گا۔ مُردے قبروں سے اٹھیں گے ۔ نامہ اعمال ان کے ہاتھوں میں دےکر محشر میں لائے جائیں گے۔ وہاں جزا (۳) اور حساب کیلئے منتظر کھڑے ہوں گے۔ آفتاب نہایت تیزی پر اور سروں سے بہت قریب بقدر ایک میل ہوگا۔ شدّتِ گرمی سے بھیجے کھولتے ہوں گے۔ کثرت سے پسینہ آئے گا۔ کسی کے ٹخنے تک ،کسی کے گھٹنے تک، کسی کے گلے تک، کسی کے منہ تک مثل لگام کے۔ ہر شخص حسب حال و اعمال ہوگا۔ پھر پسینہ بھی نہایت بدبو دار ہوگا۔
اس حالت میں طویل عرصہ گزرے گا ۔ پچاس ہزار سال کا تو وہ دن ہوگا اور اس حالت میں آدھا گزر جائے گا۔لوگ سفارشی تلاش کریں گے جو اس مصیبت سے نجات دلائے اور جلد حساب شروع ہو۔ تمام انبیاء علیہم السلام کے پاس حاضری ہوگی لیکن کار براری نہ ہوگی (۴)۔
آخر میں حضور پُر نور، سیدانبیاء، رحمت عالم ،محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور میں فریاد لائیں گے اور شفاعت (۵)کی درخواست کریں گے۔ حضور پُر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم فرمائیں گے اَنَا لَھَا میں اس کیلئے موجود ہوں۔ یہ فرما کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم بارگاہ الٰہی عزوجل میں سجدہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہوگا یَا مُحَمَّدُ اِرْفَعْ رَأسَکَ قُلْ تُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَہْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ۔ اے محمد
صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم سجدے سے سر اٹھائیے بات کہے سنی جائے گی، شفاعت کیجئے قبول کی جائے گی۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم کی ایک شفاعت تو تمام اہل محشر کیلئے ہے جو شدّتِ ہول (۱) اور طولِ خوف (۲) سے فریاد کر رہے ہوں گے اور یہ چاہتے ہوں گے کہ حساب فرما کر ان کے لئے حکم دے دیا جائے۔ اَب حساب شروع ہوگا۔ میزان (۳)عمل میں اعمال تولے جائیں گے۔ اعمال نامے ہاتھوں میں ہوں گے۔ اپنے ہی ہاتھ، پاؤں، بدن کے اعضاء اپنے خلاف گواہیاں ديں گے ۔ زمین کے جس حصّہ پر کوئی عمل کیا تھا وہ بھی گواہی دینے کو تیار ہوگا۔ عجیب پریشانی کا وقت ہو گا کوئی یار نہ غمگسار ۔ نہ بیٹا باپ کے کام آسکے گا نہ باپ بیٹے کے۔ اعمال کی پرسش (۴)ہے۔ زندگی بھر کا کیا ہوا سب سامنے ہے۔ نہ گناہ سے مکر سکتا ہے نہ کہیں سے نیکیاں مل سکتی ہیں۔ اس بے کسی (۵) کے وقت میں دستگیرِ بیکساں(۶) حضور پُر نور، محبوبِ خدا، محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ آلہ وسلم کام آئیں گے اور اپنے نیاز مندوں (۷)اور امیدواروں کی شفاعت فرمائیں گے۔
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شفاعتیں کئی طرح کی ہوں گی بہت لوگ تو آپ کی شفاعت سے بے حساب داخل جنت ہوں گے اور بہت لوگ جو دوزخ کے مستحق ہوں گے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ آلہ وسلم کی شفاعت سے دخولِ (۸) دوزخ سے بچیں گے اور جو گناہگار مومن دوزخ میں پہنچ چکے ہوں گے وہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ آلہ وسلم کی شفاعت سے دوزخ سے نکالے جائیں گے۔ اہلِ جنّت بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ آلہ وسلم کی شفاعت سے فیض پائیں گے ان کے درجات بلند کئے جائیں گے۔ باقی اور انبیاء ومرسلین علیہم السلام و صحابہ کرام و شہداء و علماء واولیا ء رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے متوسلین (۹)کی شفاعت کریں گے۔
لوگ علماء کو اپنے تعلقات یاد دلائیں گے۔ اگر کسی نے عالِم کو دنیا میں وضو کے لئے پانی لا کر دیا ہوگا تو وہ بھی یاد دلا کر شفاعت کی درخواست کریگا اور وہ اس کی شفاعت کریں گے۔
سوال: محشر کے اہوال (۱)،آفتاب کی نزدیکی سے بھیجے کھولنے ‘بدبودار پسینوں کی تکالیف اور ان مصیبتوں میں ہزارہا برس کی مُدّت تک مبتلا اور سرگرداں (۲) رہنے کا جو بیان فرمایا یہ سب کیلئے ہے؟ یا ا للہ تعالیٰ کے کچھ بندے اس سے مستثنیٰ بھی ہیں؟
جواب: ان اہوال میں سے کچھ بھی انبیاء (۳) علیہم السلام و اولیاء و اتقیائ(۴)و صلحاء (۵)رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو نہ پہنچے گا وہ اللہ تعالیٰ کے کرم سے ان سب آفتوں اور مصیبتوں سے محفوظ ہوں گے۔ قیامت کا پچاس ہزار برس کا دن جس میں نہ ایک لقمہ کھانے کو میسّر ہوگا، نہ ایک قطرہ پینے کو، نہ ایک جھونکا ہوا کا۔ اوپر سے آفتاب کی گرمی بھون رہی ہوگی، نیچے زمین کی تپش ،اندر سے بھوک کی آگ لگی ہوگی۔ پیاس سے گردنیں ٹوٹی جاتی ہوں گی سالہاسال کی مُدت کھڑے کھڑے بدن کیسا دُکھا ہوا ہوگا شدّت خوف سے دل پھٹے جاتے ہوں گے۔ انتظار میں آنکھیں اُٹھی ہوں گی بدن کا پرزہ پرزہ لرزتا کانپتا ہوگا وہ طویل دن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے خاص بندوں کیلئے ایک فرض نماز کے وقت سے زیادہ ہلکا اور آسان ہوگا۔ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ا (۳) دجّال کا لغوی معنی جھوٹا ،سچائی کو چھپانے والا۔ روایت کے مطابق ایک جھوٹا شخص جو اخیر زمانہ میں پیدا ہوگا مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسٰی علیہ السلام اسے قتل کریں گے۔ (۴) ان سب کے بارے میں تفصیل اسی کتاب کے آخری صفحات پر ملاحظہ فرمائیں ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) برابھلا (۲) تفصیل اس باب کے آخرمیں سوالات میں دیکھئے ۔(۳) اترنا، یعنی آسمان سے اتریں گے (۴)سورج (۵) مسیح بمعنی اسم مفعول ہے یعنی ممسوح العین ،ایک آنکھ کا کانا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو مسیح کہتے ہیں وہا ں مسیح بمعنی اسم فاعل ہے یعنی برکت کے لئے چھونے والے ،مُردوں کو زندہ اوربیماروں کو اچھا کرنے والے۔(یہاں معنی ہوگا شعبدے دکھانے والا بڑا جھوٹا)
(۱) اصل میں راحت وآرام کی جگہ ہوگی (۲) عجیب کی جمع، حیرت انگیز چیزیں (۳) بارش (۴) نیک (۵)مارپیٹ (۶) بینائی ،عقلمندی (۷) ہاتھ اورپاؤں
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) لاٹھی (۲) نوروالا (۳) انگوٹھی (۴) یہ نوح علیہ السلام کے بیٹے ہیں یہ مومن تھے ترکی لوگ انکی نسل سے ہیں (روح المعانی سورہ ھود) (۵) فساد پھیلانے والا ، جھگڑا لو (۶) فصل پکنے کا زمانہ (۷) لوہے کی دیوار (۸) جان سے مارنا اورلوٹ لینا (۹) اولاد (۱۰) مکّہ مکرمہ اورمدینہ منورہ (۱۱) ولی کی جمع (۱۲) اولیاء کرام،اہل تصوف کے نزدیک اولیاء اللہ کا وہ گروہ جس کے سپرد دنیا کا انتظام ہے (۱۳) وطن کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنا
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) آواز (۲) فرماں برداری (۳) جس پر لعنت کی گئی ہو (۴) پیشوا (۵) عدل وانصاف کرنے والا (۶) پرانے کو نیا کرنے والا، وہ کامل بزرگ جو ہر صدی کے شروع میں پیداہوتا ہے اور مسلمانوں میں رائج شدہ بدعات کی اصلاح کرتاہے (۷) نفرت ،دشمنی (۸) کسی کے پاس کوئی نعمت دیکھ کریہتمنا کرنا کہ اس سے یہ نعمت زائل ہوجائے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) اجازت
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ترئی ،بگل، وہ آواز جو حضرت اسرافیل علیہ السلام حشر کے روز ایک دفعہ مارڈالنے کے لئے اوردوسری مرتبہ جِلانے کے لئے نکالیں گے (۲) پے درپے (۳) بدلہ (۴)مطلب پورانہ ہوگا (۵) سفارش
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) ڈر، خوف ، گھبراہٹ (۲) خوف کی زیادتی (۳) ترازو (۴) پوچھ گچھ (۵) اکیلا پن ، بے مدد گاری (۶)بے یارو مددگار کے مددگار (۷) حاجت والے ، خواہش رکھنے والے (۸) داخل ہونا (۹)وسیلہ ڈھونڈنے والے ، وسیلہ بنانے والے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(۱) خوف ،گھبراہٹ (۲) حیران وپریشان (۳) نبی کی جمع رسول ،پیغمبر (۴) پرہیز گارلوگ (۵) صالح کی جمع نیک، متقی