قرض اچھی نیت سے لیجئے
سرکارِ عالی وقار، مدینے کے تاجدارصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا : جو لوگوں کے مال قرض لے جس کے ادا کر دینے کا پختہ ارادہ رکھے تو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس سے ادا کرا ہی دیتا ہے اور جو ان کے بربادکرنے کا ارادہ کرے تواللّٰہ عَزَّوَجَلَّاس پر بربادی ڈالتا ہے ۔(بخاری، کتاب فی الاستقراض الخ، باب من اخذ اموال الناس۔۔۔ الخ، ۲/ ۱۰۵حدیث:۲۳۸۷)
نیک آدمی کا قرض ادا ہو ہی جاتا ہے
مُفَسِّرِشَہِیر، حکیمُ الْاُمَّت، حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی جس کی نیت قرض لیتے وقت ہی ادا کرنے کی نہ ہو، پہلے ہی سے مال مارنے کا ارادہ ہو، ایسا آدمی بے ضرورت بھی قرض لے لیتا ہے اور ناجائز طورپر بھی۔غرضکہ یہ حدیث بہت سی ہدایتوں پر مشتمل ہے اور تجربہ سے ثابت ہے کہ نیک آدمی کا قرض ادا ہو ہی جاتا ہے خواہ زندگی میں خود ادا کرے یا بعد موت اس کے وارِث ادا کریں جیسا کہ حضرت ِابوبکر صدیق (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) نے حضورِ انور(صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم( کی وفات کے بعد حضور کا قرض ادا کیا، زرہ چھڑائی، اگر یہ بھی نہ ہو تو بروزِ قیامت رب تعالیٰ ایسے مقروض کا قرض اس کے قرض خواہ سے معاف کرادے گا یا قرض خواہ کو قرض کے عوض جنت کی نعمتیں بخش دے گا، بہرحال حدیث واضح ہے ۔اس پر یہ اعتراض نہیں کہ حضورِ انور (صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم) پر قرض کیوں رہ گیا تھا، وہ رب نے کیوں ادا نہ کرایا کہ حضرت ِصدیق (رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ)کا ادا کرنا رب تعالیٰ ہی کی طرف سے تھا ۔(مراٰۃ المناجیح ، ۴/ ۲۹۷)