غوث الثقلین ؓ کی سلطنت :
دائر ۃ المعارف میں معلم بطرس بستانی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ : ایک شخص نے حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی ؒ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا : میر ی ایک لڑکی گھر کے چھت پر چڑھی تھی وہاں سے وہ غائب ہوگئی !آء نے فرمایا کہ آج رات کو تم محلہ کر خ کے ویرانہ میں جائو اور پانچویں ٹیلہ کے پاس بیٹھو او رزمین پر یہ کہتے ہوئے ایک دائرہ اپنے اطراف کھینچ لو کہ ’’ بسم اللہ علیٰ نیت عبدالقادر ‘‘ جب اندھیرا ہو جائے گا تو جن کی ٹکڑیاں مختلف صورتوں میں تم پر کزریں گی ان کی ہیبت ناک صورتوں کو دیکھ کر ڈرنا نہیں، صبح کے قریب ان کا بادشاہ ایک بڑے لشکر میں آئے گا اور تم سے پوچھے گا کہ تمہاری کیا حابت ہے ؟ تو کہہ دینا کہ :مجھے عبدالقادر ؓ نے بھیجا ہے !اس وقت لڑکی کا واقعہ بھی بیان کردو ۔ اس شخص نے اس مقام پر جاکر حکم کی تعمیل کی اور کُل واقعات وقوع میں آئے ، جب بادشاہ نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے شیخ عبد القادر ؓ نے بھیجا ہے !یہ سنتے ہی وہ گھوڑے سے اترپڑا اورزمین بوسی کر کے دائرہ کے باہر بٹھ گیا اور اس کی حاجت دریافت کی ؟ جب اس نے اپنی لڑکی کا واقعہ بیا ن کیا تو اپنے ہمراہیوں سے کہا کہ جس نے یہ کام کیا ہے فوراً اسے پکڑ کے لائو!چنانچہ ایک سرکش جن لایا گیا جس کے ساتھ میر ی لڑکی بھی تھی ، حکم دیا کہ اس سرکش کی گردن ماردی جائے ،او ر لڑکی کو میرے حوالہ کر کے رخصت ہو گیا۔
اس سے جنوں کے علم کا بھی حال معلوم ہو تا ہے کہ دائرہ تو کرخ میں کھینچا گیا او رمسا فت بعیدہ پر بادشاہ کو خبر ہوگئی ، کیونکہ رات بھر چل کر قریب صبح اس دائرہ کے پاس پہنونچا جوصرف حضرت شیخ کی نیت پر کھینچا گیا تھا ۔ اور اس سے حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے تصرف کا حال بھی معلوم ہو گیا کہ جنوں پر آپ کا کیا اثر تھا کہ صرف لکیر جو آپ کی نیت پر کھینچی گئی تھی وہاں پادشاہ بذات خود حاضر ہوا اور زمین بوسی کی ۔غرض کہ لکیرکی تاثیر خاص طورپر ہوتی ہے ۔
او ر اسی قسم کی تا ثیرات اور بھی ہیں ۔چنانچہ ’’آکام المرجان فی احکام الجان ‘‘میں لکھا ہے کہ جریر بن عبد اللہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ :جب تسترفتح ہوا تو میں نے کسی موقع پرلاحول ولا قوۃ الا باللہ کہا کسی ہر بذ (خادم آتشکدہ مغان ) نے سن کر کہا جب سے میں نے یہ کلام آسمان پر سنا تھا اس کے بعد سے اب تک کسی سے نہیں سنا !میں نے کہا یہ کیا بات ہے ؟ کہا میں اکثر کسریٰ و قیصر کے پاس بطور وفد جایا کر تا تھا ایک بار کسریٰ کے پاس گیا تھا جب واپس گھر آیا تو اپنی بیوی کو دیکھا کہ جس طرح میرے آنے پرہمیشہ وہ خوش ہوتی تھی جیسے کہ عورتوں کی عادت ہے کہ مرد کے سفر سے واپس ہونے پر خوش ہوا کرتی ہیں اس بار خو ش نہیں ہوئی ، میںنے سبب دریافت کیا ؟اس نے کہا : تم تو سفر پرگئے ہی نہیں روز گھر میں آیا جا یا کر تے تھے ! اس کے بعد وہ شخص ظاہر ہوا اور کہا میں تیری صورت میں اس عورت کے پاس آیا کر تا تھا اگر چاہتا ہے تو اب باری مقرر کر دی جائے ایک روز تو اس کے پاس رہے اور ایک روز میں ! میں نے قبول کیا ، ایک روز وہ میرے پا س آیا او رکمال اخلاص سے کہاکہ ہم لوگ نوبت بنوبت آسمان کی طرف اس غرض سے جاتے ہیں کہ وہاں کی خبریں چرالائیں آج میری باری ہے اگر خواہش ہے کہ تو میرے ساتھ چل !میں نے کہا اچھا ۔ جب رات ہوئی تو وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ مجھ پر سوار ہوجا ! میں اس کی پیٹھ پر سوار ہوا دیکھا کہ خزیر کے سے اس کی گردن پر بال ہیں ، اس نے کہا خبردار اچھی طرح بیٹھنا !اقسام کے خوفناک امور نظر آئیں گے اگر مجھ سے جدا ہوگا تو سمجھ لینا کہ ہلاکت ہے !یہ کہہ کر وہ اوپر کی جانب چلا یہاں تک کہ آسمان کے قریب پہونچا اور وہاں میں نے سنا کہ کوئی کہہ رہا ہے لا حول ولاقوۃ الا باللہ ما شاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن یہ سنتے ہیں جتنے جن وہاں تک پہونچے تھے ان کی عجب حالت ہوئی کوئی کہیں گرا کوئی کہیں ،غرض کہ وہ کلمات میںنے یاد رکھ لئے جب صبح ہوئی میںاپنے گھر آیا ، اس کے بعد جب وہ آتا میں وہ کلمات کہتا اور وہ بے قرار ہو کر بھاگ جا تا ،چنانچہ چند روز کے بعد اس نے آنا موقوف کر دیا ۔ یہ تاثیر صرف الفاظ کی ہے ۔
غرض کہ جس طرح ہمارے اجسام میں سموم وغیرہ کی تاثیرات ہو تی ہیں جنوں کے اجسام میںلطیف چیزوں کی تا ثیرات ہو تی ہیں ۔حضرت غوـث الثقلین ؓ کی سلطنت معنوی کا جو حال لکھا گیا ہے اسی مناسبت سے ایک واقعہ لکھا جاتا ہے جو خالی از دلچسپی نہیں وہ یہ ہے :
میرے ایک دوست ہیں ، جن کو میں چالیس سال سے جانتا ہوں کہ نہایت متقی محتاط اور باخد اشحض ہیں ، جن کے تقدس پر صد ہا شخص گواہی دیتے ہیں ، اور ن کے فرزند جن کی نشو نما صلاح و تقویٰ میں ہوئی ۔ان دونوں سے خود میںنے سنا ہے اور میں یقینا کہتا ہوں کہ ان کی صدق بیانی میں مجھے ذرا بھی شک نہیں ، ان کانام کسی مصلحت سے میں ظاہر نہیں کر سکتا ۔ ان دونوں صاحبوں کا بیان ہے کہ صاحب مرقوم الصدر نے اپنے چھوٹے لڑکے کی شادی کی اس کے ساتھ ہی دولھا بیمار ہوا ،چونکہ صاحب موصوف بھی عامل ہیں انہوں نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ جن مسلط ہوگیا،بہت کچھ تعویذ فلیتے کئے کچھ فائدہ نہ ہوا ،آخر لوگو ں کی نشاندہی پر حضرت میراں داتار قدس سرہ کی خدمت میں مع بیمار حاضر ہوائے جن کا مزار نائوہ شریف اسٹیشن علاقہ اونجا صوبہء گجرات میں واقع ہے ،جب وقتِ مقررہ پر مرزا شریف کے قریب بیمار بغرض علاج لا یا گیا تو اس پر بیہوشی طاری ہو ئی اور تھوڑی دیر کے بعدوہ کہنے لگا کہ : تم نے مجھے بلا کر قید کردیا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ اس بیمار کے واسطے بالا تے ہو تو میں کبھی نہ آتا ! بیمار کی حالت او ردیکھنے کی ھیئت گواہی دے رہی تھی کہ وہ صاحب قبر کو دیکھتا ہے اور خاص ان سے سوال و جواب کر رہا ہے ،اثنا ئے گفتگو میں کچھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتا جا تا تھا جیسے کوئی عامل مخاطب پر اثر ڈالنے کے لئے پھو نکتا ہے ،بیمار کی تقریر سے صاف معلوم ہو رہا تھا کہ حضرت نے ہماری طرف سے اسے کچھ فرمایا جس کا وہ جواب دے رہا ہے ، اس نے کہا کہ میں جومسلط ہوا ہواں اس میں میرا کوئی قصور نہیں میں نے ان سے کئی بار مختلف طریقوں سے کہہ دیا تھا کہ اس لڑکی سے نکاح مت کرو مگر انہوں نے نہیںمانا آخر میں نے اس کی اطلاع میر محمود صاحب کو دی جن کا مزار حیدآباد کے مغرب میں ایک پہاڑی پر ہے ،جس خاندان کی یہ لڑکی ہے وہ لوگ میرا حق اداء کیا کر تے تھے ،یعنی نرسو کے نام پرکچھ نکالتے تھے ۔ حضرت ؒ نے فرمایا یہ لوگ مسلما ن ہیں ان سے کوئی توقع مت رکھ یہ تجھے کچھ نہ دیں گے کہا اگر نہ دیں تو لڑکی میرے حوالے کر دیں ۔حضرت ؒ کی جانب سے کسی قسم کی تہدید ہوئی تو اس نے کہا تم میر اکچھ نہیں بگاڑ سکتے ،جیسے تم ایک عہد ہ دار ہو میں بھی عہدہ دار ہوں اور میرا ماموں محمکہ ء صفائی کاافسر اور صاحب فوج و لشکر ہے ۔چنانچہ اس کاماموں آیا اور یہ بات قرار پائی کہ آج مقدمہ ملتوی کر دیا جائے کل ایک کمیٹی ہ وجس کے چھ اراکین ہوں جن میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ میر مجلس اور اراکین : حضرت بابا شرف الدین صاحب بر ہماوی ،حضرت نصیرالدین چراغ دہلی ، حضرت ابو سعید بغدادی ،حضرت بابا شرف الدین صاحب بھی شریک ہو ں جن کا کا مزار حیدرآباد کے جنوب پہاڑی پرہے ۔چنانچہ مجلس بر خواست ہوئی اور بیمار کو ہوش آگیا ۔ دوسرے روز وقتِ مقررہ پرجب بیمار مزار شریف کے پاس لایا گیاتو تھوڑی دیر میں بے ہوش ہوگیا اور اراکین کی آمد شروع ہوئی ،ہر ایک کو وہ مثل ہنود کے اس صفائی سے ڈنڈوت کر رہا تھا جیسے مہذب ہنود کیا کر تے تھے حالانکہ ا س لڑنے نے عمر بھر ڈنڈوت نہیں کیا ۔ اس کے بعد گفتگو شروع ہوئی ، اس لب و لہجہ سے وہ گفتگو کرنے لگا جیسے کوئی اعلیٰ درجہ کا بیر سٹر کر تا ہے ، اور عبارت ایسی شستہ تھی جیسے ناولوں کی ہو تی ہے جس کے سننے ک وجی چاہتا تھا ، اثنا ئے گفتگو میں مڑکر حکم دیتا تھا کہ فلاں فوج کو آراستہ کر کے لائو ،اور فلاں فوج کو یہ حکم دو ! منجملہ اور دلائل کے ایک دلیل اس نے یہ بھی پیش کی کہ میں نے ان کو کئی بار مختلف قرائن سے کبھی خواب میں کبھی دوسرے طریقوں سے منع کیا اور انہوں نے نہ ما نا تو میں نے میر محمود صاحب کو باضا بطہ اس کی اطلاع دے دی ،اگرشبہ ہو تو اس کی مِسل ان سے طلب کر لی جائے !چنانچہ ایک سوار مِسل لانے کو روانہ ہوااور بیمار خاموش ہو گیا تھوڑی دیر کے بعدمِسَل آئی اور گفتگو شروع ہوئی اور ایسے دلائل اس نے قائم کئے کہ جن کا جواب نہیں ہو سکتا تھا ۔اس کے بعدہر چند اہل کمیٹی نے اس پر زور دیا کہ آئندہ کوئی کسی قسم کا تعارض بیمار سے نہ کرے !مگر اس نے نہیں مانا اور کہاکہ میں اس کمیٹی کے حکم سے راضی نہیں ہوں شہنشاہ کے پاس ا س مقدمہ کی مسل روانہ کر دی جائے !چنانچہ بغداد شریف کو مِسَل روانہ کردی گئی اور مجلس برخاست ہوئی ۔ تیسرے روز جب اجلاس ہوا تو حضرت غوث الثقلین ؓ کا فرمان صادر ہوا جس میں یہ حکم تھا کہ : تو کیا سمجھتا ہے اگرمیں چاہوں تو تجھے جلاکر خاکِ سیاہ کر دوں ،مگر تو نے جب ان کو
اطلاع کر دی تھی تو معاف کیا گیا ،مگر ہمارے لوگوں کی شان میں تو نے جو بے ادبی کی ہے اس کی پاداش میں یہ سزا دی جاتی ہے کہ پابہ زنجیر کر کے اجمیر کے فلاں پہاڑ پر پانچ سال با مشقت مجوس رکھا جائے گا ،اور روشن علی صاحب داروغہ ء مجلس کو حکم دیا گیا کہ دو دفعہ مشقت لی جائے ،اور طرف ثانی پرایک ہزار روپیہ جرمانہ کیا گیا ، اس کے بعد بیڑیاں اور ہتھکڑیاں لائی گئیں اور بیمار کے دونوں ہاتھ مل گئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہتھکڑیاں ڈال دی گئیں اور اس کے بعد بڑیاں پہنا دی گئیں ،اورساتھ ہی بیمار کو ہوش آگیا ۔ اور اس وقت سے اب تک جس کو ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرا بیمار پرکسی قسم کا اثر نہیں۔دیکھئے ہتھکڑیاں بیڑیاں پہننا ایک قسم کا مشاہدہ ہوگیا اور اس کے آثار بھی مرتب ہو ئے کہ بیمار کو صحت ہوگئی ۔اب وہ بیڑیاں وغیرہ معلوم نہیں کہ لوہے کی تھیں یا اور کسی چیز کی ؟ مگر اتنا تو ضرور ثابت ہوا کہ وہ ایسی مضبوط تھیں کہ جن ان کو نہ توڑ سکیں ۔ہر چند یہ واقعہ عقل کے معیار پرقابل تصدق نہیں ، مگر کئی صاحبوں نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت میراں داتار ؒ کی قبرپر ہمیشہ آسیب زدہ آتے ہیں اور صحت پاکر جا تے ہیں،روز انہ اس قسم کے صد ہا واقعات کا مشاہدہ ہو تا رہتا ہے ۔
قطعی نظر اس کے میں نے دیکھا ہے کہ آج کل دنیا ے فلسفہء جدیدہ میں ایک ہل چل مچی ہوئی ہے او رلا کھوں فلا سفر ایسے امور کے قائل ہو تے جا تے ہیں جس کو عقل ہرگز قبول نہیں کرتی ۔جیسے ہوشیار آدمی کے جسم میں سے کل اعضاء آدھے آدھے چرا لے جا نا وغیرہ ۔چنانچہ فاضل فرید وجدی نے لکھا ہے کہ یورپ و امریکہ میں ماہانہ بیں (۲۰) رسالہ ان مسائل سے متعلق نکلتے ہیں جو ایسے واقعات عجیبہ و غریبہ سے بھرے ہو تے ہیں ۔اس لئے میں نے اس بیان پرجرأت کی ہے ۔
اس واقعات سے ظاہر ہے کہ حضرت غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کو اس وقت بھی وہی سلطنت حاصل ہے جو زندگی میں تھی ۔جنوں کو چونکہ بو جہ لطافت رو حا نیت سے مناسبت ہے اس لئے وہ اس عالم کے حالات کو مشاہدہ کر تے ہیں اور انسان نہیں کر سکتے ۔ مگر حضرتِ انسان کو بھی ایک ایسی قوت دی گئی ہے کہ اگر اس میں کمال حاصل کریں تو علاوہ اس عالم کے مشاہد ہ کے ایسے ایسے کرشمے بتائیں کہ ’’جن ‘‘ بھی حیران ہو جائیں ۔وہ قوت یہی خیال ہے ، جب وہ پختہ کیا جا تا ہے تو خیال منفصل کا جو عالم ہے اس میں تصرفات کر نے لگتا ہے چنانچہ اپنی صورت کو خیال منفصل میں قائم کر دیتا ہے ۔ قضیب البان ؒ وغیرہ کو یہی بات حاصل تھی ۔ اس کا حال حضرت شیخ محی الدین ابن عربی ؒ نے فتوحات مکیہ میں خوب تفصیل سے لکھا ہے ۔اولیاء اللہ اس وجہ سے کہ خداے تعالیٰ کے وہ محبوب ہیں ان کو جو قدرت دی جا تی ہے اس کا تو یہ بیان نہیں ہو سکتا،مگرظاہراً اس عالم میں ان کو تصرف ا س غرض سے دیا جا تا ہے کہ ان کی کرامت ظاہر ہو ۔