علماءِ کرام سے مربوط رہیں
بانئ دعوتِ اسلامی ا میرِ اہل سنت علامہ ابوبلال محمد الیاس قادری مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ” علماء کے قدموں سے ہٹے تو بھٹک جاؤ گے۔” لہذا!نگران اسلامی بھائیوں کو چاہے کہ علماءِ اہل سنت سے رابطے میں رہيں۔ بالخصوص دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابسطہ علماء کو اپنی مشاورت کا رکن بنائیں کیونکہ اِن ذمہ داریوں کونبھانے کے شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے وسیع علم درکار ہے،لہذا! عافیت اسی میں ہے کہ خوفِ خدا عزوجل رکھنے والے ،تقویٰ اور پر ہیز گاری سے مزین علماء کو مدنی کاموں کے دوران اپنے ساتھ رکھیں کیونکہ ایسے شخص کو آپ سے کو ئی دنیاوی طمع نہیں ہو گی ،نہ ہی وہ آپ کے ذریعے کسی منصب کا خواہش مند ہو گا ،لہذا! وہ احسن انداز سے نگران کی اصلاح کر تا رہے گا ۔ ہر گز ہر گز خوشامد کر نے والے اسلامی بھائی کو اپنے زیادہ قریب نہ آنے دیں اورنہ ہی لوگوں کی تعریف سے خوش ہو کر تکبر کا شکار ہوں کیونکہ یہ اُمور بالخصوص نگران کے لئے زہرِ قاتل ہیں ۔
منقول ہے ایک مرتبہ خلیفہ ہارون رشید نے اپنے وزیر فضل برمکی کے سامنے، کسی ولی کامل سے ملاقات اور ان سے نصیحت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔فضل
ہارون کوحضرت سیدنا فضیل بن عیاض کی بارگاہ میں لے آیا۔
جب یہ دونوں دروازے کے باہر پہنچے ،تو اندر سے حضرت کے قرآن پڑھنے کی آواز آرہی تھی۔آپ یہ آیتِ پاک تلاوت فرما رہے تھے،” اَمْ حَسِبَ الَّذِیۡنَ اجْتَرَحُوا السَّیِّاٰتِ اَنۡ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ترجمہ کنز الایمان:کیا جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں ان جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے ۔”
(پ۲۵،سورۃ الجاثیۃ:۲۱)
یہ آیتِ کریمہ سن کر ہارون رشیدنے کہا،”اس سے بڑھ کر اور کون سی نصیحت ہو سکتی ہے۔”پھر فضل نے دروازے پر دستک دی۔اندر سے دریافت کیا گیا ، کون؟… فضل نے کہا،”امیر المؤمنین آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لائے ہیں۔”حضرت فضیل رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے جواب دیا،”ان کا میرے پاس کیا کام اور میرا ان سے کیا واسطہ؟آپ حضرات میری مشغولیت میں خلل نہ ڈالیں۔”فضل بولا،”اگرآپ اجازت نہ دیں گے، تو ہم بلا اجازت ہی داخل ہوجائیں گے۔”اندر سے جواب ملا، ”میں تو اجازت نہیں دیتا،ویسے بلااجازت اندرداخل ہونے میں تم دونوں مختار ہو۔”
جب یہ دونوں اندر داخل ہوئے، تو حضرت نے چراغ بجھا دیا تاکہ ان کی صورت نظر نہ آئے اور نماز میں مشغول ہوگئے۔فارغ ہوئے توہارون نے نصیحت کی درخواست کی۔آپ نے ارشاد فرمایا،”تمہارے والد ،سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔جب انہوں نے کسی ملک کا حکمراں بننے کی خواہش کا اظہار کیا، تورحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا،”میں تمہیں ، تمہارے نفس کا حکمران بناتا ہوں،کیونکہ دنیاوی حکومت توبروز ِقیامت ،وجہ ِندامت بن جائے گی۔”یہ سن کر ہارون
نے عرض کیا”کچھ اورارشاد فرمائيے ۔”فرمایا،”جب عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو حکومت حاصل ہوئی تو انہوں نے کچھ ذی عقل لوگوں کو جمع کر کے ارشاد فرمایا کہ”مجھ پر ایک ایسے بار ِگراں کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے،جس سے چھٹکارے کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔”
یہ سن کر ان میں سے ایک نے مشورہ دیا تھا کہ” آپ ہرسن رسیدہ شخص کو اپنا والد،ہرجوان کو بمنزلہ بھائی یا بیٹااور ہر عورت کو ماں یا بیٹی یا بہن سمجھیں ،پھر انہیں رشتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے ان سے حسن سلوک سے پیش آئیں۔”ہارون رشید نے عرض کی ، ”کچھ اور بھی ارشاد فرمائیں۔”آپ نے فرمایا،”مجھے خوف ہے کہ کہیں تمہاری حسین وجمیل صورت نار ِجہنم کا ایندھن نہ بن جائے ،کیونکہ بہت سے حسین چہرے ،بروز قیامت آگ میں جاکر تبدیل ہوجائیں گے،وہاں بہت سے امیر ،اسیر ہوجائیں گے۔اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو۔محشر میں جواب دہی کے لئے ہر لمحہ چوکس رہو کیونکہ وہاں تم سے ایک ایک مسلمان کی بازپرس ہوگی۔اگر تمہاری سلطنت میں ایک غریب عورت بھی بھوکی سو گئی ،تو بروز قیامت تمہارا گریبان پکڑے گی۔”ہارون اس نصیحت کو سن کر رونے لگا ،حتی کہ روتے روتے اس پرغشی طاری ہوگئی۔یہ حالت دیکھ کر فضل نے عرض کی،”حضرت!بس کیجئے،آپ نے تو امیر المؤمنین کو نیم مردہ کر دیا ۔”آپ نے ارشاد فرمایا،”اے ہامان!خاموش ہوجا،میں نے نہیں بلکہ تواور تیری جماعت نے ہارون کو زندہ درگور کر دیا ہے۔”یہ سن کر ہارون پر مزید رقت طاری ہوگئی ۔
جب کچھ افاقہ ہوا تو عرض کی،”حضورآپ پر کسی کا قرض تو نہیں ہے؟”…فرمایا،”ہاں،اللہ عزوجل کا قرض ہے اور اس کی ادائیگی صرف اطاعت سے ہی
ہو سکتی ہے۔لیکن اس کی ادائیگی بھی میرے بس کی بات نہیں،میدان محشر میں میرے پاس کسی سوال کا جواب نہ ہوگا۔”ہارون نے عرض کی ،”میرا مقصد دنیاوی قرض سے تھا۔”آپ نے فرمایا،”اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے میرے پاس اتنی نعمتیں ہیں کہ مجھے کسی سے قرض لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔”
ہارون نے ایک ہزار دینا رکی ایک تھیلی آپ کی خدمت میں بطور ِنذرانہ پیش کرتے ہوئے عرض کی،”یہ رقم مجھے اپنی والدہ کے ورثے میں سے حاصل ہوئی ہے،اس لئے قطعاً حلال ہے،قبول فرما لیں تو کرم نوازی ہوگی۔”آپ نے فرمایا،”تجھ پر بے حد افسوس ہے ،میری ساری نصیحتیں بے کار گئیں۔میں تو تجھے نجات کا راستہ دکھا رہا ہوں اور تو مجھے ہلاکت میں گرانا چاہتا ہے۔یہ مال مستحقین کو ملنا چاہیئے اور تو اسے ایک غیرمستحق کو دے رہا ہے۔”یہ کہہ کر عبادت میں مشغول ہوگئے۔
(تذکرۃ الاولیاء،باب نہم، ص۸۱،مطبوعہ انتشارات گنجینہ تہران ایران)