عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ کی شہادت
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ایامِ تشریق میں ہوئی او ر آپ شنبہ کی شب میں مغرب و عشاء کے درمیان بقیع شریف میں مدفون ہوئے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر بیاسی سال کی ہوئی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کی نمازحضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھی اور انہوں نے آپ کو دفن کیا اور یہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت تھی۔(2)
ابن عساکر نے یزید بن حبیب سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں: مجھے خبر پہنچی ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر یورِش کرنے والوں میں سے اکثر لوگ مجنون و دیوانہ ہوگئے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلا فتنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا شہید کیا جاناہے اور آخرِ فِتَن دجال کا خروج۔(3)
غرض صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت نے ایک عجیب ہِیْجان پیدا کردیا اور وہ اس سے خائف ہوگئے اور سمجھنے لگے کہ اب فتنوں کا دروازہ کھلا اور دین میں رَخْنے پیدا ہونے شروع ہوئے۔ حضرت سَمُرَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک محکم قلعہ میں محفوظ تھاحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت اسلام میں پہلا رَخنہ ہے اور ایسا رخنہ جس کا اِنْسِداد قیامت تک نہ ہوگا۔(1)
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں تشریف نہیں رکھتے تھے،جنگ جمل میں حضرتِ علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یارب! عزوجل میں تیرے حضور میں خون عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے برأ ت کا اظہار کرتاہوں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قتل کے روز میرا طائر ِعقل پرواز کرگیاتھا۔ لوگ میرے پاس بیعت کوآئے تو میں نے کہا کہ بخدا! میں ایسی قوم کی بیعت کرنے سے شرماتا ہوں جنہوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ سے شرم آتی ہے کہ میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دفن سے پہلے بیعت میں مصروف ہوں۔ لوگ پھرگئے۔لوٹ کرآئے پھر انہوں نے مجھ سے بیعت کی درخواست کی تومیں نے کہا: یارب! عزوجل میں اس سے خائف ہوں جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پیش آیا۔ پھر ارادۂ الٰہی غالب آیا اور مجھے بیعت لینا پڑی۔ لوگوں نے جب مجھ سے کہا :یا امیر المومنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ تویہ کلمہ سن کر میرے دل میں چوٹ لگی۔(2) اس وقت حضرت مولیٰ علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت
عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یاد آئے اور اپنی نسبت یہ کلمہ سننا باعث ِملالِ خاطِر ہوا۔ اس سے اس محبت کا پتہ چلتا ہے جوحضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ہے اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ہنگامے کو روکنے کے لئے پوری کوشش فرمائی اور اپنے دونوں صاحبزادوں سیدنا حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر تلواریں لے کر حفاظت کے لیے بھیج دیاتھا لیکن جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا اور جس کی خبریں حضور سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھیں اس کو کون رفع کرسکتا ہے۔
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ، ص۱۲۸۔۱۲۹ملخصاً
3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ،ص۱۲۹
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ،ص۱۲۹
2۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ، فصل فی خلافتہ،ص۱۲۹