عبادت میں جوانی گزارنے والے پر عرش کا سایہ
سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : سات شخص وہ ہیں جنہیں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس دن اپنے (عرش یا رحمت کے ) سایہ میں رکھے گا جب اس کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا : (۱)عادِل بادشاہ (۲)وہ جوان جو اللّٰہ کی عبادت میں جوانی گزارے (۳)وہ شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہے (۴)وہ دوشخص جو اللّٰہک ے لئے محبت کریں جمع ہوں تو اسی محبت پر اورجدا ہوں تو اسی پر(۵)اور وہ شخص جسے خاندانی حسین عورت بلائے وہ کہے : میں اللّٰہ سے ڈرتا ہوں (۶) اور وہ شخص جو چھپ کر خیرات کرے حتی کہ اس کا بایاں ہاتھ نہ جانے کہ داہنا ہاتھ کیا دے رہا ہے (۷)اور وہ شخص جوتنہائی میں اللّٰہ کو یاد کرے تو اس کی آنکھیں بہنے لگیں۔( مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل اخفاء الصدقۃ، ص۵۱۴، حدیث:۱۰۳۱)
مُفَسِّرِشَہِیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃُ الحنّان اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی اپنی رحمت کے سایہ میں یا عرشِ اعظم کے سایہ میں (رکھے گا)تاکہ قیامت کی دھوپ سے محفوظ رہے ۔(’’وہ جوان جو اللّٰہ کی عبادت میں جوانی گزارے ‘‘کے تحت مفتی احمد یارخان علیہ رحمۃُ الحنّان لکھتے ہیں ) یعنی جوانی میں گناہوں سے بچے اور رب کو یاد رکھے ، چونکہ جوانی میں اَعضاء قوی(یعنی مضبوط) اورنفس گناہوں کی طرف مائل ہوتا ہے ، اس لئے اس زمانہ کی عبادت
بڑھاپے کی عبادت سے افضل ہے ؎
دَرْ جَوَانِیْ تَوْبَہْ کَرْدَنْ سُنَّتِ پَیْغَمْبَرِیْ اَسْت
وَقْتِ پِیْرِیْ گُرْگِ ظَالِمْ مِیْشَوَدْ پَرْہِیْزْگَار
(یعنی جوانی میں اللّٰہ کی بارگاہ میں رجوع کرنا پیغمبروں کا طریقہ ہے اور بڑھاپے کے وقت تو ظالم بھیڑیا بھی پرہیزگار بن جاتا ہے )۔(مراٰۃ المناجیح، ۱/ ۴۳۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب!
صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد