عالِمِ مدینہ کون ہيں؟
تابعین و تبع تابعین علیہم ر حمۃاللہ المبین فرماتے ہیں کہ امام مالک علیہ رحمۃ اللہ الرازق وہ عالم ہیں جن کی بشارت حضور سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن،جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دی تھی۔ چنانچہ، حضرت سیِّدُنا امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب ”جَامِعِ تِرْمِذِی” میں حدیث شریف نقل فرماتے ہیں: ”علم منقطع ہو جائے گاتوعالِمِ مدینہ سے زیادہ علم والا باقی نہ رہے گا۔”
(جامع الترمذی،ابواب العلم، باب ماجاء فی عالم المدینۃ،الحدیث۲۶۸0،ص۱۹۲۲،مختصرًا)
دوسری حدیث ِ پاک میں ہے: ”دُنیامیں اس (عالِمِ مدینہ) سے بڑھ کر کوئی عالم نہ ہو گا، لوگ اس کی طرف سفر کر کے آئیں گے۔”
(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،الفصل الاول فی ترجیحہ من طریق النقل،ج۱،ص۱۸)
ایک حدیثِ پاک میں یوں ہے: ”عنقریب لوگ (علم کے لئے )سفر کریں گے توعالِمِ مدینہ سے زیادہ علم والا کوئی نہ پائیں گے۔”
(المستدرک ،کتاب العلم ، باب یوشک الناس ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۳۱۴ ، ج۱ ،ص ۲۸0)
حضرت سیِّدُناابن ِ عُیَیْنَہ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ فرماتے ہیں: ” محدثینِ کرام کے نزدیک ”عالمِ مدینہ ” سے مراد حضرت سیِّدُنا امام مالک بن اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔”
(التمھید لابن عبد البر،زیدبن رباح،تحت الحدیث۱۲۲،ج۲،ص۶۷۴)
حضرت سیِّدُنا عبد الرزّاق رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ”ہماری رائے یہ ہے کہ حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کوئی بھی ”عالمِ مدینہ ” کے نام سے معروف نہیں۔ لوگوں نے حصولِ علم کے لئے آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف جتنا سفر کیا اتنا کسی کی طرف نہیں کیا۔”
(جامع الترمذی،ابواب العلم،باب ماجاء فی عالم المدینۃ،تحت الحدیث۲۶۸0،ص۱۹۲۲،مختصرًا)
حضرت سیِّدُنا ابومصعب علیہ رحمۃ الرب فرماتے ہیں: ”حضرت سیِّدُناامام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر لوگوں کا ہجوم لگارہتا او ر لوگ بہت زیادہ بِھیڑ کی وجہ سے طلب ِ علم کے شوق میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ۔” (سیر اعلام النبلاء،الرقم۱۱۸0،مالک الامام،ج۷،ص۴۲۲،بتغیرٍقلیلٍ)
حضرت سیِّدُنا یحیی بن شعبہ علیہ رحمۃاللہ فرماتے ہیں: ”میں مدینہ منورہ میں سن 144ہجری میں حاضر ہوا۔اس وقت حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی داڑھی اورسر کے بال سیاہ تھے۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گرد خاموش بیٹھے تھے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رُعب کی وجہ سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ تھی۔مسجد ِ نبوی شریف عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ کوئی فتویٰ نہ
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”میں افتاء اور حدیث کے لئے اس وقت تک مسند نشین نہ ہوا جب تک کہ ستر (70) علماءِ کرام ومشائخِ عظام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے میری اہلیت کی گواہی نہ دے دی۔”
(ترتیب المدارک وتقریب المسالک،باب فی ابتداء ظھورہ فی العلم وقعودہ للفتوی والتعلیم،ج۱،ص۳۴)
حضرت سیِّدُناحماد بن زید علیہ رحمۃاللہ الواحد کی خدمت میں ایک شخص کوئی مسئلہ پوچھنے آیا جس میں لوگوں کا اختلاف تھا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”اے بھائی ! اگر تو اپنے دین کی سلامتی چاہتا ہے تو عالِمِ مدینہ سے پوچھ اور ان کی بات توجہ سے سن کیونکہ وہ حجت (یعنی دلیل ) ہیں اور لوگوں کے امام ہیں ۔”
(المرجع السابق،ص۳۷)
حضرت سیِّدُنا حماد بن سلمہ علیہ رحمۃاللہ ارشاد فرماتے ہیں :”اگر مجھے کہا جائے کہ امتِ محمدیہ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے کوئی امام اختیار کروجس سے لوگ علمِ دین حاصل کریں تو میں حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس کا حق دار اور اہل سمجھتا ہوں۔ اور میری یہ رائے امت کی بہتری کے لئے ہے۔” (المرجع السابق،ص۳۶)
حضرت سیِّدُنا لیث بن سعد علیہ رحمۃاللہ الاحد فرماتے ہیں: ”حضرت سیِّدُنا امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم پرہیزگاری کا علم ہے اور اس کے لئے حفظ وامان کا باعث ہے جو اسے حاصل کرے۔”
(ترتیب المدارک وتقریب المسالک، باب شھادۃ السلف الصالح واھل العلم لہ بالامامۃ فی العلم،ج ۱،ص۳۶)
حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن قاسم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرمایاکرتے تھے: ”میں اپنے دین میں دو آدمیوں کی پیروی کرتاہوں: عمل میں حضرت سیِّدُنا امام مالک بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور تقویٰ میں حضرت سیِّدُنا سلیمان بن قاسم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی۔” (حلیۃ الاولیاء،مالک بن انس،الحدیث۸۸۷۸،ج۶،ص۳۵0)
سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ!یہ کیسے عظیم لوگ تھے، جنہوں نے اپنی جانیں لوگوں کے نفع کے لئے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں وقف کر
دیں، انہیں مشکلات میں ڈالا اور طلب ِ علم میں خوب جدو جہد کی تواللہ رحمن عَزَّوَجَلَّ نے انہیں کامیابی عطا فرمائی ۔
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے: ”جو شخص طلب ِعلم کے لئے کسی راستہ پر چلے اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔”
(صحیح مسلم،کتاب الذکر والدعاء،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر،الحدیث۲۶۹۹،ص۱۱۴۷)
حدیث ِ پاک میں ہے،” ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے بھاری ہے۔”
(جامع التر مذی ، ابواب العلم ،باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، الحدیث ۲۶۸۱ ، ص ۱۹۲۲”العالم”بدلہ”فقیہ”)
اگر اسلام میں ایک عابد فوت ہو جائے تو اس میں صرف ایک شخص کی کمی ہوگی اور اگر ایک عالم چل بسے تو گویا لوگوں میں سے ایک قبیلہ فوت ہوگیا۔ روئے زمین پر جب کوئی عالم انتقال کر جائے تو اسلام میں ایک ایسا شگاف پڑتا ہے جسے اس وقت تک کوئی بند نہیں کر سکتا جب تک دن رات آتے جاتے رہیں گے۔
جان لو! ”طالب ِ علم کے عمل سے خوش ہو کر اس کے لئے ملائکہ اپنے پر بِچھا دیتے ہیں ۔”
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،کتاب الطھارۃ،باب المسح علی الخفین وغیرھما،الحدیث ۱۳۱۶،ج۲،ص۳0۷)
علماء کے قلموں کی سیاہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں شہداء کے خون سے افضل ہے۔
(الجامع الصغیر، الحدیث ۹۶۱۹، ص۵۷۱۔ مفھوماً)
بروزِ قیامت جب راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں شہید ہونے والے علماء کی فضیلت دیکھیں گے تو تمنا کریں گے، کاش! اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں بھی علماء میں اٹھاتا۔جس نے علم کو پا لیا تحقیق اس نے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کو پا لیا اورجس نے علماء کو اذیت دی اس نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے اعلانِ جنگ کیا۔
1۔۔۔۔۔۔شیخِ شریعت و طریقت، امیرِ اہل سنت حضرت علاّمہ ابوبلال مولانا محمد الیاس عطّار قادری دامت برکاتہم العالیہ کتاب ”رفیق الحرمین” کے صفحہ۲۱۸ پر تحریر فرماتے ہیں: تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے حجرۂ مبارکہ (جہاں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا مزار پرانوار ہے) اور۔۔ منبرِ اقدس (جہاں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم خطبہ ارشاد فرماتے تھے) کے درمیان کا حصہ ”جنت کی کیاری” ہے۔ چنانچہ،ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:” میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔”