دیکھئے اگر کوئی مسلمان ہمیشہ داڑھی منڈھوا تا ہو تو جب کسی کو اس کا خیال آئے گا اس کے چہرہ کے ساتھ داڑھی کبھی خیال میں نہ آئے گی ،اور اگر بتکلف اس کا خیال کیا جا ئے تووہ ایسے ہوگا جیسے کسی عورت کے چہرہ کے ساتھ داڑھی کا خیال کیا جائے۔ اگرچہ دونوں کی داڑھیوں میں فرق ہے عورت کی فطرت میں داڑھی نہیں رکھی گئی اور مردکی فطرت میں داڑھی ہے مگر بتکلف خواہ اس خیال سے کے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہو یا اور کسی وجہ سے وہ نکال دی گئی مگر دنوں تصور کے وقت اس بات میں برابر ہیں ،یعنی جس طرح عورت کے تصور کے وقت داڑھی خیال میں نہیں آتی اسی طرح مرد ریش تراش کے تصور کے وقت بھی داڑھی خیال میں نہ آئے گی ،کیونکہ عادت کی وجہ سے اس کی داڑھی کی طرف متوجہ نہیں ہوسکتا ،ہرچند اس کے چہرہ میں اس امر کی صلاحیت ہے کہ داڑھی نکل آئے مگر اس کی تصوری صورت میں صلاحیت داڑھی کی نہیں ہے ۔با وجود اس کے اگر اس پر یہ خیال غالب ہو جائے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خو د داڑھی رکھتے تھے اور اس کے منڈ ھوانے سے منع فرمایا اور یہ بھی فرمایاکہ :جو شخص کسی قسم کی مشا بہت پیدا کرے وہ اسی قوم میں ہوگا جس کے ساتھ اس نے مشابہت پیدا کی ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے افعال پر مطلع ہو تے ہیں اور بحسب اعتقاد اہل سنت ہمیں دیکھتے ہیں ،جب حضرت ؐ ہماری صورتوں کومخالفین اسلام کی طرح بے داڑھی دیکھتے ہو ںگے تو کس قدر رنج ہو تا ہوگا کہ اپنی امت کے لوگ مخالفین میں شمار کئے جائیں !!اور قیامت میں حضرت ؐ کو کیا منھ بتائیں گے ۔ غرضکہ اس قسم کے خیالات سے اگر وہ شحص داڑھی رکھ لے تو لوگوں کو تعجب ضرور ہوگا ،اورکوئی رو دارشخص ہو تواس کے احباب متحیر ہ وکر دیکھنے آئیں گے ،ان میں دیندار لوگ مبارکباد دیں گے ،اورجن کو دین سے چنداں تعلق نہیں وہ نفریں کریں گے ،فرشتے جو مسلمانو ں کے خیر خواہ ہیں خوش ہو ں گے اور شیاطین ناخوش اور غمگین ۔غرضکہ ترک عادت کی وجہ سے حیرت ضرور ہوگی ،مگر یہ نہ سمجھا جائے گاکہ اس شخص کی داڑھی غیر ممکن تھی ،وہ تو مرد ہے بعض عورتوں کو بھی داڑھی نکلتی ہے ،چنانچہ خود میں نے ایک داڑھی والی عورت دیکھی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ کوئی مقتدرشخص کسی بات کی عادت کرلے تو یہ لازم نہیں آتا کہ اس عادت کو ترک کر نے پر وہ قادر نہ ہو ۔ جس طرح شخص ریش تراش ترک عادت پر قادر ہے ۔
اسی طرح خداے تعالیٰ نے جن جن اشیاء میں ایک ایک عادت خاص طورپر رکھی ہے اس عادت کو ترک کرنے پر قادر ہے ،اسی کو خرق عادت کہتے ہیں ۔لوگو ںنے خرق عادات ایک بڑی بات بنا رکھی ہے مگر دراصل خدا ے تعالیٰ کے نزدیک عادت اور خرق عادت دونوں برابر ہیں ،کیونکہ جب یہ امرمسلم ہے کہ خدا ے تعالیٰ نے پانی میں پانی میں سردی اور آگ میں گرمی اپنے ارادے اور اختیار سے پیدا کی ہے تواگر پانی میں گرمی اور آگ میں سردی پیدا کرے تو کونسی بڑی با ت ہے ؛نفس تخلیق دونوں کی برابر ہے ،یہ ہر گز ثابت نہ ہوسکے گا کہ پانی کی صورت نوعیہ کی سردی کے ساتھ کوئی خصوصیت ہے ،اگر ایسا ہوتا تو وہ گرم کبھی نہ ہوتا حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں گرمی اس قدر پیدا ہو سکتی ہے کہ آگ کی طرح وہ بھی جلا دیتا ہے ۔غرضکہ پانی کی سردی اور آگ کی گرمی صرف عادت کی وجہ سے خیال میں آتی ہے ،اس کو صورت نوعیہ سے کوئی ذاتی تعلق نہیں ۔
اس تقریر کے بعدمیری دانست میں یہ سمجھنا بہت آسان ہو جائے گا کہ ’’جن‘‘ کی تخلیق خاص طورپر جدا گانہ ہے ۔ کوئی ضروری نہیں کہ آدمی کے پورے لوازم و اوصاف ان میں بھی پائے جائیں ،اور آدمی پر ان کی قیاس کرکے ان کی خصوصیات سے انکار کر دیا جائے۔
آکام المر جان میں لکھا ہے کہ حارث محاسبی ؒ کا قول ہے کہ : مسلمانون جن و انس جب جنت میں داخل ہوں گے تو آدمی جنوں کو دیکھیں گے اور جن آدمیوں کو نہ دیکھ سکیں گے ۔دیکھئے اس مقام کے لوازم وآثار ہی جدا ہوگئے کہ انسان کی بصارت میں ایسی صلاحیت دی جائے گی کہ جنوں کو دیکھ
سکیں گے۔ کیو ں نہ ہو جب خداے تعالیٰ کی رئویت کی صلاحیت ان کے آنکھوں میں دی جائے گی توجن کا دیکھنا کونسی بڑی بات ہے !حق تعالیٰ فرماتا ہے وجوہ مو مئذ ناضرۃ الی ربہا ناظرۃ جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا ے تعالیٰ کی رئویت جنت میں ہو گی ۔اور احادیث میں اس امر کی تصریح ہے کہ وہاں حق تعالیٰ کو اس طرح دیکھیں گے جیسے کوئی چودھویں رات کے چاند کو دیکھتا ہے ۔ آکام المرجان میں ابن عبدالسلام کا قول نقل کیا ہے کہ رئو یت الٰہی صرف اور صرف مسلمان اور مؤ منوں کو ہو گی ،ان کے سوانہ جن کو ہوگی نہ ملائکہ کو۔معلوم ہو تا ہے کہ یہ شرف خاص انسان ہی کے واسطے ہے ،کیونکہ وہ خلیفۃ اللہ ہے،جن کو دنیا میں بہت سی با توں میں انسان پر فوقیت تھی اس کا معاوضہ آخرت میں اسی وجہ سے دیا گیا کہ ا ن تمام فضیلتوں سے جو وہاں دی جائیں گی ابدالآباد متصف رہے ۔