طعامِ قلیل کو کثیر بنادیا

طعامِ قلیل کو کثیر بنادیا
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کے دن ہم خندق کھود رہے تھے ایک سخت زمین ظاہر ہوئی۔ صحابہ کرام نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آئے اور عرض کی کہ خندق میں سخت زمین پیش آگئی ہے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں خندق میں اترتا ہوں ۔ پھر آپ کھڑے ہوئے (حالانکہ بھو ک کی شدت سے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا اور ہم نے بھی تین دن سے کچھ نہ چکھا تھا) حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے کدال لی اور ماری۔ وہ سخت زمین رَیگ رواں ( 4) کاایک ڈھیر بن گئی۔ میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یہ حالت دیکھ کر اپنی بیوی کے

پاس آیا اور اس سے کہا: کیا تیرے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے۔ میں نے نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں سخت بھوک کی علامت دیکھی ہے۔ میری بیوی نے ایک تھیلی نکالی جس میں ایک صاع جو تھے۔ ہمارے ہاں گھر میں پلا ہوا ایک بکری کا بچہ تھا میں نے اسے ذبح کیا۔ میری بیوی نے جوپیس لئے۔ ہم نے گوشت دیگ میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیااور چپکے سے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! ہم نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور میری بیوی نے ایک صاع جو پیسے ہیں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مع چند صحابہ کے تشریف لائیں ۔ یہ سن کر نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آواز دی: اے اہل خندق! جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ضیافت تیارکی ہے جلدی آؤ۔ پھر نبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھ سے فرمایا: تم میرے آنے تک دیگ نہ اتارنا اورخمیر کو نہ پکانا۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے تو میری بیوی نے آپ کے سامنے خمیر نکالا آپ نے اس میں اپنے دہن مبارک کا لعاب ڈال دیا اور دعائے برکت فرمائی پھرہماری دیگ کی طرف آئے۔ اس میں بھی لعاب مبارک ڈال دیااور دعائے برکت فرمائی پھرمیری بیوی سے فرمایا: روٹی پکانے والی کو بلا کہ تیرے ساتھ روٹی پکائے اور تو اپنی دیگ میں کفگیر سے گوشت نکالنااور دیگ کو چولہے پر سے نہ اتارنا۔ راوی کابیان ہے کہ اہل خندق جو ایک ہزارتھے اللّٰہ کی قسم! سب کھا چکے یہاں تک کہ اسے باقی چھوڑگئے مگر دیگ اسی طرح جوش مار رہی تھی اور خمیر اسی طرح پکایا جارہا تھا۔ ( 1)
قصہ مذکورہ بالا میں روایت ِاحمد ونساءی میں ہے کہ جب حضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سخت پتھر پر بسم اللّٰہ کہہ کر کدال ماری تو اس کی ایک تہائی ٹوٹ گئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللّٰہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئیں ۔ اللّٰہ کی قسم ! میں اس وقت شام کے سرخ محلات دیکھ رہاہوں ۔ پھر آپ نے دوسری بار کدال ماری تو دوسری تہائی ٹوٹ گئی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: اللّٰہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں دی گئیں ۔ خدا کی قسم ! میں اس و قت مدائن کسریٰ کاسفید محل دیکھ رہاہوں ۔ پھر تیسری بارکدال ماری تو باقی تہائی بھی ٹوٹ گئی۔ آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اللّٰہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں ۔ خدا کی قسم ! میں اس وقت یہاں سے

ابواب صنعاء کو دیکھ رہاہوں ۔ ‘‘ (1 )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ فرماتے ہیں کہ غزوۂ تبوک کے دن لوگوں کو بھوک لگی۔ حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُنے آنحضرت صَلَّیاللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عرض کیا کہ آپ ان کوحکم دیں کہ جس کے پاس بچا ہوا توشہ ہے لے آئے پھرآپ اس پر دعائے برکت فرمائیں ۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے منظور فرمایااور چمڑے کا فرش طلب کیاوہ بچھا دیا گیا تو آپ نے صحابہ کرام کا بچاہوا توشہ طلب فرمایا۔ کوئی چنے کی مٹھی لارہا تھا، کوئی چھواروں کی مٹھی بھر ے آرہا تھا، کوئی روٹی کا ٹکڑا لارہاتھا یہا ں تک کہ فرش پر تھوڑا سا توشہ جمع ہوگیا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعائے برکت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ اپنے برتنوں میں ڈال کرلے جاؤ۔ چنانچہ لوگ اپنے برتنوں میں لے گئے یہاں تک انہوں نے لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جسے بھرا نہ ہو۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ تمام لشکر ( 2) نے پیٹ بھر کر کھایااور بچ بھی رہا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں اس امر کی کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس امر کی کہ میں اللّٰہ کا رسول ہوں ان د و شہادتوں میں شک نہ کرنے والا کوئی بندہ اللّٰہ سے نہ ملے گاکہ وہ بہشت سے روک دیاجائے۔ (3 )
حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر صدیق رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ہم ایک سو تیس شخص تھے۔ آپ نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس طعام ہے۔ ایک شخص کے پاس ایک صاع طعام نکلا وہ گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک دراز قد، ژَولِیدہ مو، (4 ) بکریاں ہا نکتا آیا آپ نے اس سے ایک بکری خریدی۔ ( 5) اسے ذبح کیا گیااور آ پ کے حکم سے اس کا کلیجہ بھونا گیا۔ آ پ نے اس کلیجہ کی ایک ایک بوٹی سب کودی۔ پھر گوشت دو پیالوں میں ڈال دیا۔ سب نے سیر ہو کر کھایا اور دونوں پیالے بھرے کے بھرے بچ رہے ہم نے بچے ہوئے کھانے کو

اونٹ پر رکھ لیا۔ (1 ) واضح رہے کہ اس قصہ میں دو معجزے ہیں ایک تکثیرکلیجہ (2 ) دوسرے تکثیر صاع و گوشت۔ ( 3)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں بھوک کی شدت سے کبھی اپنے پیٹ کو زمین سے لگایا کرتا تھااور کبھی پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ ایک دن میں اس راستے میں بیٹھ گیا جہاں سے رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم اور آپ کے صحابہ کرام گزرا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُپاس سے گزرے میں نے ان سے قرآن کی آیت پوچھی تاکہ آپ میرا پیٹ بھردیں مگر انہوں نے کچھ توجہ نہ کی اور گزرگئے۔ اسی طرح حضرت عمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُآئے میں نے ان سے بھی ایک آیت پوچھی مگر انہوں نے بھی کچھ توجہ نہ کی اور گزرگئے۔ اس کے بعد حضرت ابوالقاسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پاس سے گزرے تو میری حالت کو دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا کہ میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ آپ دولت خانہ میں تشریف لے گئے تو ایک پیالہ میں کچھ دودھ دیکھا۔ آپ نے دریافت کیا کہ یہ دودھ کیسا ہے؟ جواب ملا کہ ہدیہ ہے۔ مجھ سے فرمایا کہ اہل صفہ کو بلالاؤ۔ آپ کا معمول تھا کہ آپ کے پاس صدقہ آتا تو اسے اہل صفہ کے لئے بھیج دیتے اور اس میں سے خود کچھ نہ کھاتے۔ اگر ہدیہ آتا تو اہل صفہ کو بلاکر اس میں شریک کرلیتے۔ میں نے اپنے جی میں کہا کہ اتنے دودھ سے اہل صفہ کا کیا ہوگا اس کا تو میں ہی زیادہ مستحق تھا مگر ارشادِ تعمیل سے چارہ نہ تھا میں ان سب کو بلالایا۔ آپ صَلَّیاللّٰہُتَعَالٰیعَلَیْہِوَاٰلِہٖوَسَلَّم نے مجھے وہ پیالہ دیا اور فرمایا کہ ان کو پلاؤ۔ میں ایک ایک کو پلاتا رہا یہاں تک کہ وہ سب سیر ہوگئے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پیالہ لے کر اپنے دست مبارک پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ پھر فرمایا: ابو ہریرہ ! میں اور تم دونوں باقی ہیں ۔میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ نے سچ فرمایا۔ آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ اور پیو! میں نے ایسا ہی کیا پھر فرمایا: اور پیو! میں نے پھر پیا اسی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے عرض کیا کہ اب پیٹ میں گنجائش نہیں ۔ بعد ازاں باقی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پی لیا۔ ( 4)

حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ (1 ) ذکر کرتے ہیں کہ ایک بدوی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے طعام کا سوال کیا۔حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے آدھا وسق (2 ) جو عنایت فرمائے وہ اور اس کی بیوی اور اس کے مہمان ان کو کھاتے رہے (اور وہ کم نہ ہوئے) یہاں تک کہ ایک روز اس نے ان کو ماپ لیا ( تووہ کم ہونے لگے) اس نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اس واقعہ کی اطلاع دی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا اگر ان کو نہ ماپتا تو تم عمر بھر کھاتے رہتے اور وہ کم نہ ہوتے۔ (3 )
حضرت اَنس (4 ) بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کابیان ہے کہ ابو طلحہ ( 5) ( والد انس) نے ام سلیم (والد ۂ انس) سے کہا کہ میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں بھوک کی شدت سے ضعف کے آثار دیکھے ہیں کیا گھر میں کچھ ہے؟ ام سلیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے جو کی چند روٹیاں کپڑے میں لپیٹ کر میرے ہاتھ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں بھیجیں ۔ میں رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پہنچا۔ آپ مع اصحاب مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ ام سلیم کے گھر چلو۔ میں گھر میں پہلے پہنچ گیا اور ابو طلحہ رَضِیَاللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہُ سے صورت حال بیان کردی۔ ابو طلحہ نے راستے میں رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا استقبال کیا۔ جب حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم گھر میں داخل ہوئے توام سلیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ ماحضر ( 6) لے آؤ۔ آ پ کے ارشاد سے روٹیوں کے ٹکڑے کرکے ان میں کچھ گھی ڈال دیاگیا۔ پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا فرمائی اوراصحاب میں سے دس کو طلب کیا، وہ سیر ہوگئے تو پھر اور دس کو طلب کیا۔ اسی طرح ستریااسی اصحاب نے سیر ہوکر کھایا۔ (7 )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ میں چند کھجوریں آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں لایا میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان میں دعائے برکت فرمائیں ۔ آپ نے

دست مبارک میں لیکر دعائے برکت فرمائی اور فرمایا کہ لو ان کو اپنے توشہ دان میں رکھ لو جس وقت ان میں سے کچھ لینا چاہو تو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرنا اور توشہ دان کو نہ جھاڑنا۔ ہم نے ان میں سے اتنے اتنے وسق (1 ) راہِ خدا میں دے دئیے۔ خود کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے رہے۔ وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوتا تھا یہاں تک کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کادن آیا تو وہ گم ہوگیا۔ (2 ) کہتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اس دن فرماتے تھے:
لِلنَّاسِ ھَمٌّ وَّلِیْ ھَمَّانِ بَیْنَھُمْ ھَمُّ الْجِرَابِ وَھَمُّ الْشَّیْخِ عُثْمَانًا (3 )
لوگوں کوایک غم ہے اور مجھے دو غم ہیں توشہ دان کے گم ہونے کا غم اور حضرت عثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے شہید ہونے کاغم۔
حضرت جابر بن عبداللّٰہانصاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما کا بیان ہے کہ میرے والداُحد کے دن شہید ہوگئے اور چھ لڑکیاں اور بہت ساقرض چھوڑگئے۔ جب کھجوروں کے توڑنے کا وقت آیا تو میں نے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کو معلوم ہے میرے باپ احد کے دن شہید ہوگئے او ر بہت سا قرض چھوڑگئے میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ کی زیارت کریں ۔ ‘‘ آپ نے فرمایا کہ تم جاؤ اور ہر ایک قسم کی کھجور کا الگ الگ ڈھیر لگادو۔ میں نے تعمیل ارشاد کی اور آپ کو بلانے آیاجب قرض خواہوں نے آپ کو دیکھاتو مجھے اور تنگ کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر آپ سب سے بڑے ڈھیر کے گرد تین بار پھر ے پھر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ قرـض خواہوں کو بلاؤ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ماپ کران کو دیتے رہے یہاں تک کہ میرے باپ کی امانت اللّٰہ نے ادا کردی۔ میں اسی پرراضی تھا کہ اللّٰہ تعالٰی میرے والد کی امانت ادا کردے۔ خواہ میری بہنوں کے لئے ایک کھجور بھی نہ بچے مگر اللّٰہ کی قسم! وہ تمام ڈھیر سالم رہے۔ میں نے اس ڈھیر کو دیکھا جس پر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف رکھتے تھے۔ اس میں سے ایک کھجور بھی کم نہ ہوئی تھی۔ ( 4)
تکثیر طعام کی طرح حضور کی دعا و برکت سے قلیل پانی کا کثیر ہوجانا بھی بہت سی احادیث میں آیا ہے۔ اس قسم کا تکثیر طعام اور تکثیر آب جناب سید کائنات عَلَیْہِ اُلُوْفُ التَّحِیَّۃ وَالصَّلٰوۃ کے مربی او ر وَلی نعم ہونے کا اثر ہے کیونکہ جس طرح حضور انور بحسب روحانیت قلوب وارواح کے مربی و مکمل ہیں عالمِ جسمانیت میں اَبدان واَشباح کے پرورش فرمانے والے بھی ہیں ۔ ؎
شکر فیض تو چمن چوں کند اے ابر بہار
کہ اگر خار و اگر گل ہمہ پروردۂ تست
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ’’ اشعۃ اللمعات ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک روز میں صفا و مروہ کے درمیان بازار میں سے گزررہاتھا وہاں میں نے ایک سبزی بیچنے والے کو دیکھا کہ سبزی پر پانی چھڑک رہا ہے اور یوں کہہ رہا ہے : یَا بَرَکَۃَ النَّبِیِّ تَعَالِیْ وَ اَنْزِ لِیْ ثُمَّ لَا تَرْتَحِلِیْ ا ے نبی کی برکت! آاور میرے مکان میں اتر پھر کوچ نہ کر

 

________________________________
1 – یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ،باب فی المعجزات)۱۲منہ (مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۸۷۷،ج۲،ص۳۸۲ ۔ علمیہ)

________________________________
1 – المسند للامام احمد بن حنبل،الحدیث:۱۸۷۱۶،ج۶،ص۴۴۵ ۔ علمیہ
2 – کہتے ہیں کہ غزوۂ تبوک میں لشکر کی تعداد ایک لاکھ کو پہنچ گئی تھی۔ کذافی اشعۃ اللمعات۔۱۲منہ
3 – مشکاۃ المصابیح،کتاب الفضائل والشمائل،باب فی المعجزات،الحدیث:۵۹۱۲،ج۲،ص۳۹۱ ۔ علمیہ
4 – بکھرے بالوں والا۔
5 – صحیح بخاری، باب قبول الہدیۃ من المشرکین۔

________________________________
1 – مواہب لدنیہ بحوالہ صحیح مسلم۔
2 – تیس صاع۔
3 – المواہب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی،المقصد الرابع۔۔۔الخ،تکثیر الطعام القلیل۔۔۔الخ،ج۷،ص۵۷ ۔ علمیہ
4 – صحیح بخاری، باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔
5 – حضرت سیدنا ابو طلحہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جن کا نام زید بن سہل تھا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے سوتیلے والد تھے حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے والد کا نام مالک بن نضر تھا جو کہ مشرک تھا اس کے قتل کے بعد حضرت سیدتنا ام سلیم (والدۂ انس) مشرف بااسلام ہوئیں انہی کی دعوت پر حضرت سیدنا ابو طلحہ نے اسلام قبول کیا اور پھر آپ کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔(عمدۃ القاری،کتاب العلم،باب الحیاء فی العلم،تحت الحدیث:۱۳۰،ج۳،ص۲۹۸)
6 – جو کچھ موجود ہے۔
7 – صحیح البخاری،کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام،الحدیث:۳۵۷۸،ج۲،ص۴۹۴-۴۹۵ملخصاً ۔علمیہ

________________________________
1 – وسق بار شترو شصت صاع۔۱۲منہ
2 – الخصائص الکبری للسیوطی،باب معجزاتہ فی تکثیر الطعام۔۔۔الخ،ج۲،ص۸۴ ۔ علمیہ
3 – مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفضائل،باب فی المعجزات،الفصل الثانی، تحت الحدیث:۵۹۳۳،ج۱۰،ص۲۷۰ ۔ علمیہ
4 – صحیح بخاری، باب قضاء الوصی دیون ا لمیت۔ (صحیح البخاری،کتاب الوصایا،باب قضاء الوصی دیون المیت۔۔۔الخ، الحدیث:۲۷۸۱،ج۲،ص۲۴۷ ۔ علمیہ)

Exit mobile version