ضرورتِ ترغیب و ترہیب :
آج کل کے بعض مہذب مسلمان اس قسم کی احادیث سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ اوہام پر ستی ہے کہ جنت اور دوزخ کے خیال سے عبادت کی جائے ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ عقلاء بالطبع اچھے کام کرتے ہیں اور برے کاموں سے احتراز کر تے ہیں تو یہ درست ہے مگر سب آدمی یکساں اور اس خیال کے نہیں ہو سکتے ،شاید ہزار میں ایک آدمی ایسا بلند خیال ہوگا ،باقی اپنی شہوات اور خواہشیںپوری کرنے میں اس کا خیال ہی نہیں کرتے کہ کو نسا کام مقتصائے عقل کے مطابق ہے اور کونسا خلاف عقل ، انہیں لوگوں سے تمدن خراب ہوتا ہے ۔ چونکہ ان لوگوں کی ہمت نفسانی خواہشوں کے پوری کرنے او رجسمانی لذات حاصل کرنے کی طرف مصروف ہے ، اس لئے ان کو وعدہ دیا گیا کہ جتنی خواہشیں تمہاری تھیں جنت میںایسے طور پر پوری ہوں گی کہ وہ تمہارے خیال میں بھی نہیں ہے بشرطیکہ جن کاموں کا حکم کیا گیا ہے وہ بجا لائیں اوربرے کاموں سے احتراز کریں ، اور اگر اس کے خلاف کروگے تو دوزخ میں ڈالے جائو گے جہاں ایسے اقسام کے عذاب ہیں کہ دنیا میں ان کا خیا ل تک نہیں آسکتا ۔
جن لوگوں کو خدا ے تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا ایمان ہے اور کلام الٰہی اور احادیث نبوی کو سچا جاتے ہیں وہ یقین کرکے اسیے کام کرتے ہیں جن سے جنت کا استحقاق پیداہوتا ہے ، اور جو یقین نہیں کرتے وہ دوزح کے مستحق ہو تے ہیں ۔ غرضکہ یہ ترغیب و تخویف اسیے ہیں لوگوں کے واسطے ہے،اور عالی فطرتوں کے لئے اس کی ضرورت نہیں ۔ دیکھئے بادشاہی ملازمین میں بعض لوگ اس فطرت کے ہوتے ہیں کہ حسب مرضی شاہی سب کاموں کو انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں تقرب حاصل ہوتا ہے ،مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں ،بخلاف اس کے بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کواضافہ ،ماہوار وغیرہ کے ترغیب دینے کی اور ان کی تخویف کے لئے قید خانہ بنانے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں اقسام کے عذاب دیے جا تے ہیں۔ اسی پر خدائی سلطنت کا خیال کیا جائے ۔