صحبت بد کا اثر
اِس واقعہ پر نظر ڈالنے سے یہ بات ظاہر ہے کہ غیر مذہب والوں کی مصاحبت اور مکالمت اور ادیان باطلہ کی کتابوں کے مطالعہ سے اعتقاد پر بُرا اثر پڑتا ہے ، گو آدمی دیندار اور فاضل ہو، دیکھئے !خلیفۂ مامون کو محدثین اور اہل تاریخ نے جامع فضائل لکھا ہے ،چنانچہ تاریخ الخلفاء وغیرہ میں لکھا ہے کہ وہ حافظ قرآن اور فقہ اور حدیث میں ماہر تھا ،ایک بار ہارون رشید نے اُس کو عیسیٰ ابن یونس کی خدمت میں بھیجا ، انہوں نے سو حدیثیں
اُس کو سنائیں، مامون نے کہا :حضرت میں چاہتا ہو کہ اعادہ کر کے اُن کی تصحیح کرلوں اور انہوں نے اجازت دی، مامون نے پوری سو حدیثیں لفظ بلفظ زبانی پڑھ کر سنا دیں اور باوجود اِس علم و فضل کے وہ عابد بھی تھا ، چنانچہ لکھا ہے کہ بعضے رمضانوں میں قرآن کے تینتیس ختم کئے ۔ اورا ہل بیت کرام کے ساتھ اُس کو دلی محبت اور عقیدت تھی ،چنانچہ اِسی وجہ سے اپنی لڑکی حضرت علی موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دی اور آپ کے نام کا سکّہ جاری کیا اور اپنے بھائی کو جو ولی عہد تھا ،موقوف کر کے آپ کو ولی عہد مقرر کیا اور اس کی شہرت دی اور سیاہ رنگ جو خلفائے عباسیہ کا بانا تھا ،چھوڑ کر سبز رنگ اختیار کیا اور مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اپنے آپ کو معزول کر کے حضرت ممدوح کو مسند خلافت پر بٹھلا دے ،مگر اُسی عرصہ میں آپ کا انتقال ہوگیا۔ غرضکہ خلفائے عباسیہ میں تو کیا دوسرے سلاطین میں بھی اُن صفات کا جامع شاید ہی کوئی ہوا ہو، ایسے متدین فاضل کو ایک فاسد الاعتقاد ابن ابی دوّاد کی صحبت اور نیز فلسفہ کی کتابیں جو جزیرہ قبرس میں اُس کے ہاتھ آئیں، اُن کے مطالعہ نے اِس مسئلہ میں اُس کو بیباک اور جادہ اہل سنت سے منحرف کر دیا ۔
ابن ابی دوّاد کے تقرب کی وجہ یہ تھی کہ مامون ذی کمال اور فاضل شخص تھا اور ابن ابی دوّاد بھی بڑا ہی فاضل باکمال تھا ، چنانچہ ابن خلکانؒ نے اُس کی طبّاعی اور تبحر علمی کے کئی واقعے وفیات الاعیان میں لکھے ہیں، منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ مامون کی مجلس میں ایک بار ذکر آیا کہ لیلۃ العقبہ میں انصار نے جو بیعت کی ،اُن کے کیا نام ہیں ؟ہر شخص نے اپنے معلومات بیان کئے ،مگر مقصود حاصل نہ ہوا، اِس عرصہ میں ابن ابی دوّاد آگیا ،جب اُس سے پوچھا گیا تو فوراً ایک ایک کا نام مع کنیت اور انساب بیان کر دیا ، بادشاہ نہایت خوش ہوا اور کہا کہ کسی فاضل کے ساتھ آدمی ہم نشینی چاہے تو ابن ابی دوّاد جیسے آدمی کو اختیار کرے اور قاعدہ کی بات ہے اہل کمال اہل کمال کو دوست رکھا کرتے ہیں ۔ اِس مناسبت
سے مامون نے اُس کو اپنا مقرب بنایا اور اپنے تبحر علمی اور کمال تدین کے بھرو سے ، اُس کے مذہب و مشرب کی کچھ پروانہ کی ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں اُس فتنہ کی آتش مشتعل ہوئی اور ایک مدت تک اہل اسلام کا ایک منتخب گر وہ حیران و پریشان رہا ، یہ ہے اثر بری صحبت کا۔
بے ادب خود را نہ تنہا داشت بد بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد
(۲) بادشاہوںکی مخالفت بھی حفاظتِ دین کی باعث ہوئی
یہ مسئلہ اُس زمانہ میں عقلی انداز پر پیش نہیں ہوا، بلکہ مذہبی رنگ میں دکھلایاگیا کہ قرآن غیر مخلوق ہو تو خالق کے ساتھ شرک ہو جاتا ہے ،اسی وجہ سے سلاطین اسلامیہ نے اُس کے انسداد کو اپنا فرض منصبی سمجھا ،باوجود یکہ مامون نہایت رحم دل ، حلیم بادشاہ تھا ، مگر اِس مقدمہ میں حلم و عفو اُس سے نہ ہوسکا ،حالانکہ اُس کی ذاتی کتنی ہی توہین کی جاتی ،کچھ مواخذہ نہ کرتا، چنانچہ تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ ایک بار وہ دجلہ کے کنارے بیٹھا تھا ،ایک ملاح یہ کہتا ہوا گذرا ،کیا تم سمجھتے ہو کہ میری آنکھوں میں مامون کی کچھ وقعت ہے ؟ہرگز نہیں !اس لئے کہ اُس نے اپنے بھائی امین کو قتل کر ڈالا ، بادشاہ تبسم کرتا ہوا حضار مجلس سے پوچھا کہ تم کوئی ایسا حیلہ جانتے ہو کہ میری وقعت اس بزرگ کی آنکھوں میں ہو ۔ اُس کا قول تھا کہ مجھے کسی کا قصور معاف کرنے میں نہایت تلذذ ہوتا ہے ،یہاں تک کہ اِس تلذذ کی وجہ سے مجھے اندیشہ ہے کہ عفو کے ثواب سے کہیں محروم نہ رہ جاؤں اور کہا کرتا تھا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عفو کو میں کس قدر دوست رکھتا ہوں تو لوگ میرا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے مرتکب جرائم ہوا کریں گے ، باوجود اِس کے اِس مذہبی معاملہ میں اُس نے نہ حلم کیا نہ عفو قصور ،بلکہ حکم قطعی جاری کر دیا کہ جو شخص اقرار نہ کرے اُس کی گردن مار ڈالی
جائے ،چونکہ منشا ء اُس کا حفاظت دین تھا، اس لئے وہ لوگ اُس کو باعث تقرب الہی سمجھتے تھے ، چنانچہ طبقات شافعیہ میں لکھا ہے کہ احمد ابن نصر خزاعی ؒ جو شیخ جلیل القدر تھے، واثق باللہ کے دربار میں حاضر کئے گئے ، بادشاہ نے سوال کیا کہ قرآن کے باب میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ،اُس نے کہا: مخلوق ہے یا غیر مخلوق ؟کہا اللہ کا کلام ہے، ہر چند کسی ایک شق کو اختیار کرنے کے لئے اصرار کیا گیا ،مگر آپ یہی کہتے کہ وہ اللہ کا کلام ہے ، اہل دربار میں سے کسی نے کہا یہ شخص حلال الدم ہے اس کو قتل کرنا چاہئے ، ابن ابی دوّاد نے کہا کہ اِن کو عقل میں فتور معلوم ہوتا ہے، بہتر ہے کہ چند روز ان کو مہلت دی جائے ، شاید اس عرصہ میں توبہ کرلیں، بادشاہ نے کہا میری دانست میں یہ شخص اشد کافر ہے کہ اپنے اعتقاد سے ٹلتا ہی نہیں ،یہ کہہ کر تلوار منگوائی اور کہا کہ میرے ساتھ کوئی نہ اُٹھے ،میں خود اپنے ہاتھ سے اس کو قتل کرتا ہوں ،کیونکہ جتنے قدم اِس کام میں چلوں باعث اجر ہیں ،چنانچہ اپنے ہاتھ سے اُن کو قتل کر کے اُن کا سر بغداد کے شرقی جانب میں چند روز اور غربی جانب میں چند روز لٹکانے کا حکم دیا، تاکہ لوگوں کو عبرت ہو کہ اِس عقیدہ والوں کی یہ سزا ہے اور اُن کے کان میں یہ پرچہ لٹکا یا گیا ، ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ سر احمد ابن نصر ابن مالک کا ہے، اُس سے عبداللہ واثق باللہ امیر المومنین نے کہا کہ قرآن کو مخلوق کہے ،مگر اُس نے سرکشی کی ،اس لئے اللہ نے اُس کو دوزخ میں بھیجدیا ‘‘۔
لکھا ہے کہ اُن کی شہادت کے بعد تھوڑے عرصہ میں واثق کا انتقال ہوا اور اُس کا بھائی متوکل باللہ مسند خلافت پر بیٹھا ۔ ایک روز عبدالعزیز بن یحییٰ کنانی نے عرض کیا کہ ایک عجیب واقعہ دیکھا گیا کہ جب واثق نے احمد بن نصر خزاعی کی گردن ماری تو اُن کے دفن تک قرآن اُن کی زبان سے اکثر سناگیا ، متوکل کو اس واقعہ کے سننے سے عبرت ہوئی اور فکر میں بیٹھا تھا کہ محمد ابن عبدالملک زیات حاضر ہوا ،متوکل نے اُس سے کہا کہ احمد ابن نصر
کے قتل کا مجھے ملال ہے ،اُس نے کہا اے امیر المومنین اگر واثق نے اُس کو کفر کی وجہ سے نہ مار ڈالا ہو تو اللہ مجھے آگ سے جلا دے ‘ اُس کے بعد ہر ثمہ آیا ،اُس سے بھی بادشاہ نے ملال ظاہر کیا ،اُس نے کہا :اے امیر المومنین !اگر واثق نے اُس کو کفر کی وجہ سے نہ مار ڈالا ہو تو خدا ہر ایک عضو میرا جدا کر دے ‘ اُس کے بعد ابن ابی دوّاد آیا ،بادشاہ نے اُس سے بھی ویسا ہی کہا اُس نے بھی تسکین دی کہ اگر وہ کفر کی وجہ سے نہ مار ڈالا گیا ہو تو خدا مجھے فالج سے ہلاک کر دے ۔ لکھا ہے کہ تھوڑے عرصہ میں وہ تینوں نے جسطرح کہا تھا ،اُسی موت سے وہ مرے ۔ حیوۃ الحیوان میں لکھا ہے کہ احمد بن نصر خزاعیؒ کو بعد شہادت کسی بزرگ نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ خدائے تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟کہا کہ مغفرت کی، لیکن تین روز سے میں ایک غم میں مبتلا تھا ، پوچھا غم کیسا ؟ کہا دو بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے روبرو سے تشریف لئے گئے ،مگر میری طرف توجہ نہیں کی ،تیسرے روزجب تشریف فرما ہوئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں تھے؟ فرمایا: ہاں! تم ہی حق پر تھے، میں نے عرض کیا !پھر حضرت جو مجھ سے اعراض فرماتے ہیں اس کی کیا وجہ ؟ فرمایا :تم سے مجھے شرم آتی ہے کہ میرے اہل بیت میں سے تمہیں ایک شخص نے قتل کیا ۔
اِس میں شک نہیں کہ مسئلہ قرآن میں بعضے سلاطین اِس تشدد اور قتل کو اپنے زعم میں گو تائید دین سمجھے تھے ،لیکن باطل پر ضرور تھے ،مگر اُن کے اِس تشدد کا یہ اثر تو ضرور ہوا کہ اہل باطل کے حوصلے پست ہوگئے، کسی کی مجال نہ تھی کہ دین میں کوئی نئی بات نکال سکے اور یہ خوف لوگوں کے دلوں میں طاری ہوگیا تھا کہ جب ایسے ایسے نامی و گرامی علماء جن کو عموماً محدثین اور اہل حق اپنے مقتدا مانتے ہیں ،ایک مسئلہ میں خلاف کرنے سے اُن کے قتل عام کا حکم ہوگیا اور ہر طرف واردگیر ہونے لگی تو ہر کس و ناکس ، کس قطار و شمار میں ؟ بہرحال ان
کارروائیوں سے ثابت ہے جس طرح اہل حق سے دین کی تائید اور حفاظت ہوئی ،ان سلاطین کے رعب و ادب سے بھی دین کی حفاظت ہوئی ۔اب غور کیا جائے کہ جس طرح اس آخری زمانہ میں جس کا جو جی چاہتا ہے قرآن و حدیث میں تاویلیں کر کے ایک گروہ اپنا علانیہ قائم کرلیتا ہے ،کیا اِن سلاطین کے زمانہ میں یہ ممکن تھا؟ اُن کی طرز حکومت گواہی دے رہی ہے کہ جتنی آزادی ادیان باطلہ کو تھی، مسلمانوں کو نہ تھی ۔ دیکھ لیجئے خلق قرآن کے مسئلہ میں صرف محدثین مجبور کئے جاتے تھے، کسی یہودی اور عیسائی سے اس مسئلہ کا سوال ہی نہ ہوا ،حالانکہ وہ بھی کلام الٰہی کے قائل تھے ۔ ہاں اسلامی مذاہب باطلہ کے موجد اور سرپرست مخفی طور پر جاہلوں کو بمناسبت طبیعی طلاقت لسانی سے اپنے ہم خیال بنالیتے تھے اور کبھی کبھی موقع پا کر کسی مسئلہ میں عقلی دلائل سے بادشاہوں کو بھی دھوکہ دے دیتے، چنانچہ بعضے اصحاب غیلان نے یزید ناقص کو جو سلاطین بنی امیہ میں تھا ،قدری بنالیا تھا، جس کی وجہ سے چند روز مذہب قدریہ کو تائید ملی ،اسی طرح مامون کو معتزلی نے مسئلہ خلق قرآن میں دھوکہ دے دیا ۔