شیطان کے مکاید بیان کر نے کی ضرورت :
حاصل یہ ہے کہ شیطان جب تک ایسا د شمن نہ ماناجائے کہ ہم اس کے مقابلہ سے عاجز ہیں ، خدا ے تعالیٰ کی پناہ میں جانے کی ضرورت نہ سمجھی جائے گی ۔ ہمارے زمانے کے بعض واعظین حضرات پہلے تو شیطان کا نام ہی نہیں لیتے اگر لیتے ہیں تو ایسے مواقع کے ضمن میں کہ شیطان کے وہاں پر جلتے تھے ،مثلاً بزرگا ن دین کی حکایات کے ضمن میںکہ شیطان کو انہوںنے ذلیل وخوار کر دیا تھا ، اور ایسی حکایت اور واقعات بیان کئے جا تے ہیں کہ شیطان بالکل بے وقعت ہوجا تا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ سننے والے بالکل بے خوف ہوجا تے ہیں،اور قرآن شریف میں جس قدر اس سے ڈرایا گیا ہے بے سود ہوتاہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ رحمت الٰہی وسیع ہے اور شفاعتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گنہگا ران امت کے لئے ضروری ہوگی ، مگر یہ کونکر یقین ہو کہ پہلے ہی شفاعت میں ہم ضر ور شریک ہوں گے !یہ اشتباہ ہوگیا تو ہر ایمان والے کو یہ فکر لگی رہنی چاہئے کہ معلوم نہیں کہ ہم کسی زمرہ میں ہوں گے ؟ اور حتی المقدر ظلم اور مخالفت خدا اور رسول سے وبچنا عقلاً لازمی ہوگا کیونکہ سوائے انبیاء علیہم السلام کے کوئی معصوم نہیں ۔ اور حقوق اللہ سے زیادہ ان کوحقوق الناس کا خوف ررہتا ہے کہ کہیں ہم پر کسی آدمی کا حق باقی نہ رہ جائے جس کا مواخذہ قیامت میں ہو ، کیونکہ قیامت میں جب حساب وکتاب ہوگا تو حقدار کا حق اس طرح دلایا جائے گا کہ جس پر اس کا حق ہو ، اس کی نیکیاں حقدار کو دلائی جائیں گی اور اگرنیکیاں کافی نہ ہوں تو حقدار کے گناہ اس کے اعمال میں بھر تی کئے جائیں گے ، جس سے اس کی سبکدوشی ہو ۔ اگر کتب احادیث دیکھی جائیں تو معلوم ہواگا کہ ایک ایک گناہ سے متعلق کیسے کیسے عذاب بیان فرمائے ہیں ۔