شفقت ور حمت :
اللّٰہ تعالٰی نے آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو سارے جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ چنانچہ ارشاد ِباری تعالٰی ہے :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ (۱۰۷) (انبیاء، ع۷)
اور نہیں بھیجا ہم نے تجھ کو مگر رحمت بنا کر سارے جہاں کے لئے۔ (3 )
اس لئے تمام مخلوقات آپ کی رحمت سے بہر ہ وَرہے جیسا کہ ذیل کے مختصر بیان سے واضح ہو گا۔
امت پر شفقت ورحمت :
اللّٰہ تعالٰی حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی شان میں یوں فرماتا ہے:
لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (۱۲۸) (تو بہ، اخیر رکوع)
البتہ تحقیق تمہارے میں کا ایک پیغمبر تمہارے پاس آیا ہے تمہاری تکلیف اس پر شاق گزرتی ہے اسکو تمہاری ہدایت و صلاح کی حرص ہے وہ ایمان والوں پر شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے (1 )
اس آیت میں اللّٰہ تعالٰی نے اپنے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے اوصاف حمید ہ میں ذکر کر دیا کہ امت کی تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے۔ان کو شب وروز یہی خواہش دامن گیر ہے کہ امت راہ راست پر آجائے۔ اس کتاب کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امت کی ہدایت وبہبودی کے لئے کیا کیا مصیبتیں جھیلیں ۔ سخت سے سخت مصیبت میں بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بددعا نہ فرمائی بلکہ ہدایت کی دعا کی۔ایمان والوں پر آپ کی شفقت ورحمت ظاہر ہے اسی واسطے آپ نے کسی مقام پر امت کو فراموش نہیں فرمایا بغرض توضیح چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں ۔
جس روز آند ھی یا آسمان پربادل ہو تارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چہرہ مبارک میں غم وفکر کے آثا ر نمایاں ہو تے اور آپ کبھی آگے بڑھتے اور کبھی پیچھے ہٹتے جب بارش ہو جاتی تو آپ خوش ہو تے اور حالت غم جاتی رہتی۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے اس کا سبب دریافت کیاتو فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ مبادا (2 ) ( قوم عاد کی طرح) یہ عذاب ہو جو میری امت پر مسلط کیا گیا ہو۔ ( 3)
حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے یوں دعا ما نگی :
اَللّٰھُمَّ مَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُمَّتِیْ شَیْئًا فَشَقَّ عَلَیْھِمْ فَاشْقُقْ عَلَیْہِ وَمَنْ وُّلِّیَ مِنْ اَمْرِ اُ مَّتِیْ شَیْئًا فَرَفَقَ بِھِمْ فَارْفُقْ بِہٖ (1 )
خدا یا جو شخص میری امت کے کسی کام کا وَالی ومُتَصَرِّف بنا یا جائے پس وہ ان کو مشقت میں ڈالے تو اس والی کو مشقت میں ڈال اور جو شخص میری امت کے کسی کا م کا والی بنا یا جائے پس وہ ان کے ساتھ نرمی کرے تو اس والی کے ساتھ نرمی کر۔
رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جہاد کا اس قدر شوق تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ میں باربار شہید ہو کر زندہ ہو تا رہوں مگر چونکہ امت میں سے ہر ایک پر واجب تھا کہ جہاد میں آپ کے ساتھ نکلے بفحوائے آیۂ ذیل : (2 )
مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ- (توبہ، ع۱۵)
نہ چاہیے مدینہ کے رہنے والوں کو اور ان اَعراب کو جوان کے گردہیں کہ پیچھے رہ جائیں رسول خدا سے اور نہ یہ کہ رسول کی جان سے اپنی جان کو زیادہ چاہیں ۔ (3 )
اس لیے آ پ سر ایا میں لشکر اسلام کے ساتھ بدیں خیال تشریف نہ لے جایا کر تے تھے کہ اگر میں ہر فوج کے ہمراہ جاؤں تو مسلمانوں کی ایک جماعت پیچھے رہ جائے گی۔کیونکہ میرے پاس اس قدر گھوڑے اونٹ نہیں کہ سب کو سوار کر کے ساتھ لے جاؤں اور نہ ان میں استطاعت ہے کہ سوار ہو کر میرے ساتھ چلیں ۔اس طرح پیچھے رہ جانے والے گنہگار اور ناخوش و شِکَسْتَہ دِل ہوں گے۔ ( 4)
حضرت عبد اللّٰہ بن عمر و بن عاص رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا قول حضرت ابراہیم کی نسبت ’’ رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-۔۔۔الآ یہ ‘‘ ( 5) اور حضرت
عیسیٰ کا قول” اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ (۱۱۸) ” ( 1) تلاوت فرمایا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یوں دعا کی : اَللّٰھُمَّ اُمَّتِیْ اُمَّتِیْ ( خدا یا میری امت میری امت ) اور روپڑے۔ اللّٰہ تعالٰی نے حضرت جبرئیل کو حکم دیا کہ محمد کے پاس جاؤ (حالانکہ تیرا پر وردگار خوب جانتا ہے۔) ان سے رونے کا سبب دریافت کرو۔ حضرت جبرئیل نے حاضر خدمت ہو کر رونے کا سبب پوچھا۔ آپ نے بتا دیا ( حالانکہ خدا کو خوب معلوم ہے۔) اللّٰہ تعالٰی نے حکم دیا: اے جبرئیل ! محمد کے پاس جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور غمگین نہ کریں گے۔ (2 )
حضرت ابو ہر یرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ جناب پیغمبر خد ا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ جو مومن مر جائے اور مال چھوڑ جا ئے تو وہ اس کے وار ثوں کو خواہ کوئی ہو ں ملنا چاہییے اور جو مومن قرض یا ( محتاج ) عیال چھوڑ جائے تو چاہیے کہ قرض خواہ یا عیال میرے پاس آئے کیونکہ میں اس کا وَلی و مُتَــکَفِّل (3 ) ہوں ۔ (4 )
آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کرام کو پڑھائی چوتھی رات صحابہ کرام بکثرت مسجد میں جمع ہو ئے اور انتظار کر تے رہے مگر حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام تشریف نہ لائے۔ صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں تقریر فرمائی: ( 5) اَ مَّا بَعْدُ فَاِ نَّہٗ لَمْ یَخْفَ عَلیَّ مَکَانَــکُمْ لٰـکِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ فَتَعْجِزُوْا عَنْھَا۔
امابعد! تمہارا مسجد میں جمع ہو نا مجھ پر پو شید ہ نہ تھالیکن میں ڈرگیا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے اور تم اس کے ادا کر نے سے عاجز آجاؤ۔
نماز تراویح کی طرح بعضے اور افعال کو آپ نے صرف اس ڈرسے ترک کردیا کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائیں ۔ ہر نماز کے لئے مسواک کا ترک کرنا، تا خیر عشاء کا ترک کر نا اور صوم وصال (1 ) سے منع فرمانا اسی قبیل سے ہیں ۔
یہ آپ کی شفقت ہی کا باعث تھا کہ دین ودنیا میں امت کے لئے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ کو دواَمر وں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان مو جب گناہ نہ ہو تا اور اگرایسا ہوتا تو آپ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔ ( 2)
شب معراج میں پہلے پچاس نمازیں فرض ہو ئیں ۔ بارگاہ رب العزت سے واپس آتے ہوئے جب آپ آسمان ششم میں حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) کے پاس سے گز رے تو انہوں نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا حکم ملا ہے؟ آپ نے فرمایاکہ ہرروزپچاس نمازوں کا حکم ملاہے۔ حضرت موسیٰ (عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام) نے عرض کیاکہ آپ کی امت ہر روز پچاس نماز یں نہ پڑھ سکے گی۔ آپ اپنی امت سے بو جھ ہلکا کرائیں ۔ چنانچہ آپ درگاہ رب العزت میں باربار حاضر ہو کر تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ پانچ رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہو گئے۔ ( 3) (صحیحین)
جب شب معراج میں حضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مقام قاب قوسین میں پہنچے تو باری تعالٰی کی طرف سے آپ پر یوں سلام پیش ہوا: ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ ‘‘ اے نبی ! تم پر سلام اور اللّٰہ کی رحمت اور بر کتیں ۔ اس کے جواب میں آپ نے عرض کیا: ’’ اَ لسَّلاَمُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْن ‘‘ سلام ہم پر اور اللّٰہ کے نیک بندوں پر۔
اس جواب میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے عباد ِصالحین کو الگ ذکر کر کے گنہگار انِ اُمت کو غایت
کرم سے سلام میں اپنے ساتھ شامل رکھا اور اسی واسطے صیغہ جمع (علینا ) استعمال فرمایا۔
حضرت جابر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میرا حال اور میری امت کا حال اس شخص کی مثل ہے جس نے آگ روشن کی پس ٹڈیاں اور پروانے اس میں گر نے لگے اور وہ ان کو آگ سے ہٹا تا تھا سو میں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا نے والا ہوں اور تم میرے ہاتھ سے چھوٹتے ہو۔ (1 ) (اور آگ میں گر نا چاہتے ہو۔ )
قیامت کے دن لوگ بغرضِ شفاعت یکے بعد دیگر ے انبیاءے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے پاس جائیں گے مگر وہ سب عذر پیش کریں گے۔ آخر کار حضور شفیع المذنبین رحمۃ للعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حمد وثناء کے بعد سجدے میں گر پڑیں گے۔باری تعالٰی کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ سر سجدے سے اٹھائیے، جو کچھ مانگیئے دیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اس وقت آپ یوں عرض کریں گے: یَا رَبِّ اُ مَّتِیْ اُ مَّتِیْ اے میرے پروردگار ! میری امت میری امت۔ ( 2) (صحیحین )
اب عالم برزخ میں ہر روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اُمت کے اعمال پیش ہو تے ہیں ۔ اچھے عملوں کو دیکھ کر آپ خدا کا شکر اور برے عملوں کو دیکھ کر مغفر ت کی دعا کر تے ہیں جیسا کہ آگے آئے گا۔