شر ،ضد خیر ہے

 

شر ،ضد خیر ہے

شر ،ضد خیر ہے ۔اس آیت شریفہ میں شیطان وسوسہ اندازہ کے شر سے پناہ مانگنے کا حکم ہے ۔ اس سے ظاہر ہ کہ پناہ مانگنے کے قابل شیطان کا شر ہے نہ شیطان ،کیونکہ فی نفسہ اس سے ہمیں کوئی تعلق نہیں، اگر ہمیں ہو شر نہ پہنچا ئے تو مثل اور اشیائے عالم کے وہ بھی ایک شئے ہوگا جس سے نہ بھلائی کی امید نہ برائی کا خوف ۔
اس میں شک نہیں کہ کسی کو شر یا خیر پہونچا نا کسی کی قدرت میں نہیں ‘جب تک خداے تعالیٰ نہ چاہے کوئی شر پہونچا سکتا ہے نہ خیر ۔دیکھئے آدمی کے کس قدر دشمن ہیں! پہلے سب سے بڑا دشمن اسی کا نفس ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ؐ ہے أعدیٰ عدو ک نفسک التی بین جنبیک ۔کیونکہ تمام شرو فساد کا مبداء نفس ہی ہے ،ا س لئے کہ جتنی نفسانی خواہش ہیں سب اسی میں ہیں ،اگر ان خواہشوں کو آدمی پوری کرناچاہے تو خسر الدنیا والآخرۃ ہوجائے ،مثلاً خواہش نفسانی کے جوش کے وقت کسی خوبصورت عورت سے ملوث ہوجا تے تو ظاہر ہے کہ دنیا ہی میں کیسی کیسی مصیبتیں بگھتنی پڑیں گی اور آخرت میں کیا حشر ہوگا ؟! علی ہذا القیاس کل نفسانی خواہشوں کا بھی یہی حال ہے ۔قید خانے جتنے بھرے ہوئے آپ دیکھتے ہو سب نفس ہی کے کرتوت سے ہیں، جس کو آپ پریشان یا مصیبت زدہ پائو گے اسکا اصلی سبب نفس ہی کی کا رسازی ہو گی ۔ غرضکہ سب سے بڑا دشمن ہماری ہی ذات میں سے جس سے ہم بھاگ نہیں سکتے ۔ پھر ہماری اہل و اولاد جن کو ہم سب سے زیادہ دوست سمجھتے اور عزیز رکھتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں ، حق تعالیٰ فرما تا ہے انّ من ازواجکم و أولادکم عدواً لکم فاحذرو ہم یعنی تمہاری بعض ازواج او راولادتمہاری دشمن ہے ۔اس کے بعد اہل قرابت ہیں ،چناچہ کسی بزرگ کاقول ہے الا قارب کا العقار ب ان کے بعد دوسرے لوگ علیٰ حسبِ مرتب ہیں العم الغم ،اللخ الوخ ۔
یہ تو ہم جنسو ں کا حال تھا ،اس کے بعد جنات و شیا طین بھی ہمارے دشمن ہیںجن کو ہم نہیں دیکھتے اوروہ ہمیشہ ہمارے گردوپیش رہتے ہیں اور ہم پر مسلط ہو سکتے ہیں ۔پھر حیوانات میں اگر دیکھتے ہیں تو بے انتہاء موذی جانور ہیں جن کا شمار نہیں ۔ ان کے سوا بیماریاں بھی بے انتہا ء ہیں، اگر شفا خانوں میں چند روز جاکر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کیسی کیسی آفتوں میںلوگ مبتلا ہیں ان سب بیماریوں کے اسباب وہی اخلاط ہیں جو ہم میں موجود ہیں ان کی کمی

وزیادتی اور انحراف ان ہی غذائوں سے ہوتا ہے جو ہم ہر روز کھا تے ہیں ۔
غرض ان تمام اسباب شر پر نظر ڈالی جائے توہر وقت کسی نہ کسی مصیبت اور آفت میں مبتلاہونا ضروری معلو م ہوتاہے ۔کیونکہ بے انتہا دشمنوں میںسے اگر ایک دوبھی ہر روز مسلط ہو تے رہیں تو ممکن نہیں کہ آدمی آسائش سے بسر کر سکے ۔مگر جب تک حق تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کوئی کچھ نہیں کرسکتا ۔

اسباب :

الحاصل خیر وشر کا پہونچانا خاص اللہ تعالیٰ کاکام ہے،اسی وجہ سے جن حضرات کو اس امر کا مشاہدہ رہتا ہے وہ وسائط کو نطروں سے ساقط کر دیتے ہیں اورکسی چیز کی برائی اور بھلائی پر ان کی نظر نہیں پڑتی ،ہمیشہ ان کو صفات الٰہیہ میں استغراق رہتا ہے ،ان کی نظرو ں میں سانپ اور لکڑی یکساں ہیں ، دونوں کو اس بات میں برابر سمجھتے ہیں کہ بغیر مشیت و ارادۂ الٰہی کے وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ اگرچہ اس صفات کے حضرات بہت اعلیٰ درجے کے ہیں اور ہمیشہ ان کو قرب الٰہی حاصل ہے ،مگر ان سے بڑھے ہوئے وہ عارفین ہیں کہ جس طرح خداے تعالیٰ نے عالم میں اسباب مقرر کئے ہیں ان کو وہ عارفین ہیں جس طرح خداے تعالیٰ نے عالم میں اسباب مقررکئے ہیں ان کو وہ بیکا ر نہیں سمجھتے ،مضرچیز کو مضر اور مفید کو مفید جانتے ہیں ،خداے تعالیٰ نے جس کی طرف برائی منسوب کی اس کو بربر سمجھتے ہیں اور اس سے احتراز کر تے ہیں ،مگرمؤثر اور فاعل مطلق حق تعالیٰ ہی کو جانتے ہیں ،وہ اسباب کے قائل ہیں مگر ان کو مستقل نہیں سمجھتے ۔یوں توہر مسلمان کا دعویٰ ہے کہ یہی میرا عقیدہ ہے ،مگر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ یہ دعویٰ کہاں تک صحیح ہے !ہمیشہ دیکھنے اور سننے اور تجربوں سے اسباب کی اس قدر تا ثیر ذہن میں متمکن ہے کہ مسبب تعالیٰ شانہ کا خیال بھی نہیں آتا ، اور اگر کہنے سننے سے آبھی گیا تو وہ دیر پا نہیں۔عاقل وہی ہے کہ اس خیال کو پختہ کرے اور اعتقاداً اور عملاً فرمان الٰہی بجالائے جس کا نتیجہ اس طرح برآمد ہوگا جیساکہ حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ فر ما تے ہیں :
تو ہم گردن از حکم داور پیچ
کہ گردن نہ پیچد ز حکم تو ہیچ
اور تمام دشمنوں پر اس کا غلبہ حاصل ہوگا ۔
یہ ہر شخص جانتا ہے کہ کہنے سننے کا برا اثر ہو تاہے ۔جب عارضی سننے کا یہ اثر ہو تو ابتدائے نشو ونماسے جو باتیں ہر وقت سنی جا تی ہیں اور صرف سنناہی نہیں بلکہ ذاتی مشاہدے بھی اس کے ساتھ ہو ں تو ان کاکس قدر اثر ہونا چاہئے ؟! دیکھئے کہ قبل اس کے کہ آدمی ہوش سنبھا لے دیکھتا ہے کہ ماں کی آغوش ترتیب میں پرورش پارہا ہے ،نہ کوئی اس حالت میں اس کا مونس ہے نہ مددگار اس وقت اس کا یہی خیال ہو تاہے کہ تمام عالم میں اگر کوئی اپنا مربی اور پرورش کرنے والا ہے تو وہی ایک ماں ہے اس سے آگے اس کی نظر نہیں بڑھ سکتی ، جب اس کو کوئی حاجت ہوتی ہے تو ماں ہی طرف رجوع کر تاہے ،غرضکہ اس وقت اس کی ماں اس کے حق میں ہر مرض کی دوا ہے ،پھر جب ہوش سنبھا لتا ہے تو دیکھتا ہے کہ ماں بات بات میں باپ کی محتاج ہے جب تک وہ کچھ نہ دے کچھ نہیں کرسکتی ، اس وقت باپ کی وقعت اس کی نظروں میں پیداہوتی ہے ،اور جوں جوں باپ کی طرف سے اس کی پرورشی کے سامان ہو تے جا تے ہیں اورا س کا ادراک بڑھتا جا تاہے سمجھتا ہے کہ اپنی پرورشی کا مدر با پ پر ہے اس وجہ سے اس سے محبت پیداہوتی ہے ،اس وقت جس قدر اس کی نظروں میں باپ کی وقعت ہو تی ہے کسی دوسرے کی نہیں ہوتی اور باپ سے بہتر کسی کونہیں سمجھتا ،اس کے بعد جب شعور آتاہے اور دیکھتا ہے کہ اپنا باپ اور سب کنبے والے بلکہ سب شہر او رملک کے لوگ بادشاہ کے محتاج اور فرماں بردار ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے ملک میں تصرف کر تا ہے اور اہل ملک کے خوف و رجاء اسی سے متعلق ہیں تو بادشاہ کی عظمت و وقعت ایسی ذہن نشین ہوتی ہے کہ کسی دوسرے کی نہیں ہوتی ،پھر جس قدر عقل کا مل ہوتی جا تی ہے بادشاہ کی اطاعت وفرماں بربادی کو ضروری سمجھتا ہے ۔غرضکہ مخلوق ہی کی طرف ہر وقت نظر اس کی لگی رہتی ہے جس سے خداے تعالیٰ کی طرف متوجہ

ہونے کا اس کو موقعہ ہی نہیں ملتا ۔ اگر چیکہ اس عرصہ میں واعظوں اور اساتذہ سے سنتا ہے کہ تمام عالم کا خالق خداے تعالیٰ ہے ،اور دیکھتا بھی ہے کہ ہر قوم اور ملت کے لوگ اپنے اپنے طریقوں پر خدا کی عبادت کر تے ہیں ،او ر عقل سے بھی معلوم کر سکتا ہے کہ زمین اور آسمان وغیرہ کا پیدا کرنا کسی آدمی کاکام نہیں اس لئے اس کا کوئی خالق ضرور ہے جو سب کی حا جتوں کی اشیاء کو غیب سے فراہم کرتا ہے ،مگر چونکہ خداے تعالیٰ اور اس کے تصرفات مخفی طور پر ہیں اور ابتدائے پیدائش سے جب اِس کی نظرپڑی تو لوگوں ہی کے تصرفات اور حاجت روا ئیوں ہی پر پڑی اس لئے اس کایہ خیال پختہ نہیں ہوتا کہ عالَم میں کل تصرفات خداے تعالیٰ ہی کے جاری ہیں ۔ اگر چہ یہ ممکن تھا کہ جب حق تعالیٰ کو خالق عالم سمجھا اور ہرقوم کے لوگوں کواس کی عبادت کر تے پایا تو جس طرح بادشاہ کی وقعت سب سے زیادہ اس کے ذہن نشیں ہوئی تھی حق تعالیٰ کی وقعت اس سے زیادہ ہو تی ،مگر شیطان اس کووہاں جمنے نہیں دیتا ، اس وجہ سے کہ عزازیل کوپہلے ظاہراً تقرب الٰہی حاصل تھا ۔
جب آدم علیہ السلام کو خلعت خلافت عطاء ہوئی اور تمام ملائک سے ان کی تعظیم و توقیر اور سجدے کرا ئے گئے اس کو بھی سجدے کا حکم ہوا مگر کثرت عبادت کے گھمنڈ پر انکا ر کیا اور تقرب الٰہی سے دور پھینکا گیا جس کی وجہ سے اس کا نام شیطان ٹھہرا ،کیونکہ شیطان کے معنی لغت میںدور کے ہیں ۔ غرضکہ اس وقت سے آدم علیہ السلام کا جانی دشمن ہوگیا اور ان کی وجہ سے ان کی اولاد کا بھی دشمن ہو ا ،چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے ان الشیطان لکم عدو مبین پہلے وہ آدم علیہ السلام کے سرہوا یہاں تک کہ ان کوجنت سے زمین پر لاکر چھوڑا ۔ ان کے بعد ان کی اولاد کو خدا کی راہ سے بھٹکا نے کا بیڑا اٹھا یا اور قسم کھالی کہ گویہ خلیفہ زادے ہیں مگر ان کوبھی خداے کے راستہ سے ایسا بھٹکا دوں گا کہ اس راستہ میں قدم نہ رکھنے پائیں ،چنانچہ حق تعالیٰ نے اُس کا قول نقل فرمایا ہے فبعزتک لاغو ینہم اجمیعن اور دل میں یہ بات ٹھان لی کہ جس طرح ہوسکے دشمن او راس کے خاندان کو اگر تباہ نہ کردوں تو میں جن نہیں ! اور عرض کیاکہ مجھ ستم رسیدہ پر اتنا فضل فرما کہ جب تک ان کی اولاد روئے زمین پر رہے مجھے بھی رہنے کی اجازت ہوتا کہ میں بھی اپنی سوزش دل کو ٹھنڈی کروں ۔چونکہ خداے تعالیٰ رب العالمین ہے سب کی سنتا ہے خصوصاً شکستہ دلوں کی ، اس بارگاہ میں بہت کچھ چل جا تی ہے ،ارشاد ہواکہ ہم نے مہلت منظور کی ۔ اس کے بعد درخواست کی کہ ان کے گرفتار کرنے کو چند دام بھی عنایت ہو ںتو موجب کرم ہے جیسا کہ مولانا ئے روم فرما تے ہیں :
گفت ابلیس لعین د اوار ر ا
دام زفتے خواہم ایں اشکار را
زر د سیم وگلہء اسپش نمو د
کہ بدیں ثانی خلائق ر ا ر بود
گفت شا باش و نشد زیں شا دکام
لیک افزوں بایدم زیں دام دام
پس زرو گوہر زِ معدن ہاے خوش
کر د آں پس ماندہ را حق پیش کش
گیر ایں دام دگر را اے لعیں
گوید افزوں و ہ مرا نعم المعیں
چرب شیرین و شرابات ثمیں
دادش و صد جامہ و ابریشمیں

گفت یا رب بیش ازیں خواہم مدد
تا بہ بندم شان بحبلٍ مِن مَسد
غرض ا س قسم کے بہت سے اسباب ضلالت دے گئے جس کی تصدیق اس آیت شریفہ سے ہوتی ہے قولہ تعالیٰ کلاً نمد ہؤ لاء وہؤلاء من عطاء ربک و ماکان عطاء ربک محظور اً یعنی : ہم ہر ایک کو مدد دیتے ہیں اور اِن کو بھی اوراُن کو بھی اور تمہارے رب کی عطا سے کوئی محروم نہیں ‘‘۔

Exit mobile version