سیدین جلیلین شہیدین عظیمین حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہما
حضرت اما م ابو محمدحسن بن علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ آپ ائمہ اثناعشر میں امام دوم ہیں۔ آپ کی کنیت ابو محمد لقب تقی و سید عرف سبط رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم او ر سبط اکبر ہے۔ آپ کو رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْلاور آخر الخلفاء بالنص بھی کہتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت مبارکہ 15رمضان مبارک 3ھ کی شب میں مدینہ طیبہ کے مقام پر
ہوئی۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا نام حسن رکھا اور ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیااور بال جدا کیے گئے اورحکم دیاگیا کہ بالوں کے وزن کی چاندی صدقہ کی جائے آپ خامس اہل کساء ہیں۔(1)
بخاری کی روایت میں ہے قبلۂ حُسن و جمال سید ِعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ واصحابہ وبارک وسلم سے کسی کو وہ مشابہتِ صوری حاصل نہ تھی جو سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حاصل تھی۔ آپ سے پہلے حسن کسی کانام نہ رکھا گیاتھا یہ جنتی نام پہلے آپ ہی کو عطا ہوا ہے۔(2)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت اما م حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کا مژدہ پہنچایا۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے ،فرمایا کہ اسماء میرے فرزند کو لاؤ ،اسماء نے ایک کپڑے میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔سیدعالم علیہ الصلوٰۃ والتسلیمات نے داہنے کان میں اذان اور بائیں میں تکبیر فرمائی اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا : تم نے اس فرزند ارجمند کا کیا نام رکھا ہے، عرض کیا: یارسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میری کیا مجال کہ بے اذن و اجازت نام رکھنے پر سبقت کرتالیکن اب جو دریافت فرمایا جاتا ہے تو جو کچھ خیال میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حرب نام رکھاجائے، آیندہ حضور صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وآلہ وسلم مختار ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کانام حسن رکھا۔(1)
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے انتظار فرمایا، یہاں تک کہ حضرت جبریل علیہ السلام حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیک وسلم حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کی بارگاہ میں وہ قرب حاصل ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو درگاہِ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا۔ مناسب ہے کہ اس فرزندسعادت مند کا نام فرزندِ حضرتِ ہارون کے نام پر رکھا جائے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ان کانام دریافت فرمایا۔ عرض کیا: شبر ارشا د ہوا کہ اے جبریل! لغت عرب میں اس کے کیا معنی ہیں،عرض کیا حسن اور آپ کا نام حسن رکھا گیا۔(2)
بخاری و مسلم نے حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی فرماتے ہیں: میں نے نور مجسم سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی،شہزادہ بلند اقبال حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے دوش اقدس پر تھے اورحضور فرمارہے تھے: ”یارب! عزوجل میں اس کو محبوب رکھتا ہوں تو تُو بھی محبوب رکھ۔”(3)
امام بخاری نے حضرت ابو بکرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، فرماتے ہیں کہ حضور سرورعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز تھے۔ حضرت امام حسن رضی اللہ
تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں تھے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں کی طرف نظر فرماتے اورایک مرتبہ اس فرزند جمیل کی طرف، میں نے سنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ یہ میرا فرزند سیدہے اور اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کریگا۔(1)
بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” حسن ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔”(2)
ترمذی کی حدیث میں ہے،حضور علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ”حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماجنتی جوانوں کے سردار ہیں۔”(3)
ابن سعد نے عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ اور حضور کو سب سے پیارے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، میں نے دیکھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم توسجدے میں ہوتے اور یہ والا شان صاحبزادے آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ مبارک یا پشتِ اقدس پر بیٹھ جاتے تو جب تک یہ اتر نہ جاتے آپ
تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں تھے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں کی طرف نظر فرماتے اورایک مرتبہ اس فرزند جمیل کی طرف، میں نے سنا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ یہ میرا فرزند سیدہے اور اللہ تعالیٰ اس کی بدولت مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کریگا۔(1)
بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور پر نور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” حسن ، حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔”(2)
ترمذی کی حدیث میں ہے،حضور علیہ وعلیٰ آلہ و اصحابہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: ”حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماجنتی جوانوں کے سردار ہیں۔”(3)
ابن سعد نے عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ اور حضور کو سب سے پیارے حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، میں نے دیکھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم توسجدے میں ہوتے اور یہ والا شان صاحبزادے آ پ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی گردنِ مبارک یا پشتِ اقدس پر بیٹھ جاتے تو جب تک یہ اتر نہ جاتے آپ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سرمبارک نہ اٹھاتے اور میں نے دیکھا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم رکوع میں ہوتے تو ان کیلئے اپنے قدمین طاہر ین کو اتنا کشادہ فرمادیتے کہ یہ نکل جاتے۔
حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مناقب بہت کثیر ہیں۔آپ علم و وقار، حشمت و جاہ، جودو کرم ، زہدوطاعت میں بہت بلند پایہ ہیں، ایک ایک آدمی کو ایک ایک لاکھ کا عطیہ مرحمت فرمادیتے تھے۔(1)
حاکم نے عبداللہ بن عبیدبن عمیر سے روایت کیا کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچیس حج پا پیادہ کئے ہیں اور کوتل سواریاں آپ کے ہمراہ ہوتی تھیں مگر امام عالی مقام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تو اضع اوراخلاص وادب کا اقتضاء کہ آپ حج کیلئے پیادہ سفر فرماتے، آپ کا کلام بہت شیریں تھا، اہل مجلس نہیں چاہتے تھے کہ آپ گفتگوختم فرمائیں۔(2)
ابن سعد نے علی بن زید بن جد عان سے روایت کی کہ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دوبار اپنا کل مال راہ ِخد اعزوجل میں دے ڈالا اور تین مرتبہ نصف مال دیا اور ایسی صحیح تنصیف کی کہ نعلین شریف اور جرابوں میں سے ایک ایک دیتے تھے اور ایک ایک رکھ لیتے تھے۔(3)
آپ کے حلم کا یہ حال تھا کہ ابن عسا کرنے روایت کیا کہ آپ کی وفات کے بعد مروان بہت رویا۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ آج تو رورہاہے اور ان کی
حیات میں ان کے ساتھ کس کس طرح کی بد سلوکیاں کیا کرتا تھا۔ تو وہ پہا ڑ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا: ”میں اس سے زیادہ حلیم کے ساتھ ایسا کرتا تھا۔”(1)
اللہ رے حلم! مروان کو بھی اعتراف ہے کہ آپ کی بردبادی پہاڑ سے بھی زیادہ ہے۔
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفائ، باب الحسن بن علی بن ابی طالب، ص۱۴۹
و روضۃ الشہداء (مترجم)، باب ششم،ج۱،ص۳۹۶
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الحسن والحسین،
الحدیث:۳۷۵۲،ج۲،ص۵۴۷
وتاریخ الخلفائ،باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۴۹
1۔۔۔۔۔۔روضۃ الشہداء (مترجم)، باب ششم، ج۱، ص۳۹۶۔۳۹۷
وسیراعلام النبلائ، ومن صغار الصحابۃ، ۲۶۹۔الحسن بن علی…الخ،ج۴،ص۳۷۹
والمسند للامام احمد بن حنبل،ومن مسند علی بن ابی طالب،الحدیث:۹۵۳،ج۱،
ص۲۵۰ماخوذاً
2۔۔۔۔۔۔ روضۃ الشہداء (مترجم)، باب ششم، ج۱، ص۳۹۷۔۳۹۸
3۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الحسن والحسین،
الحدیث:۳۷۴۹، ج۲،ص۵۴۷
1۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الحسن والحسین،
الحدیث:۳۷۴۶،ج۲،ص۵۴۶
2۔۔۔۔۔۔صحیح البخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی،باب مناقب الحسن والحسین،
الحدیث:۳۷۵۳،ج۲،ص۵۴۷
3۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب، باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی…الخ،
الحدیث:۳۷۹۳،ج۵،ص۴۲۶
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء،باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۰
2۔۔۔۔۔۔المستدرک للحاکم،کتاب معرفۃ الصحابۃ،باب حج الحسن…الخ،الحدیث:۴۸۴۱،
ج۴،ص۱۶۰
وتاریخ الخلفاء،باب الحسن بن علی بن ابی طالب،ص۱۵۰ماخوذاً
3۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب، ص۱۵۱
1۔۔۔۔۔۔تاریخ الخلفاء، باب الحسن بن علی بن ابی طالب، ص۱۵۱