سیدالا ستغفار کے معنیٰ :
چنانچہ یہی بات سید الاستغفار سے ظاہر ہے جس کے یہ الفاظ صحیح احادیث میں وارد ہیں اللہم انت ربی الا اِلٰہ الا انت خلقتنی وانا عبدک وابن عبدک وابن امتک نا صیتی بیدک وانا علیٰ عہدک ووعدک ما استطعت دعوذ بک من شر ما صنعت ابوء لک بنعمتک علی وابوء بذنبی فاعفرلی ذنوبی فانہ لایغفرالذنوب الا انت یعنی : ’’یا اللہ تو میرا رب ہے کوئی معبود برحق تیرے سو انہیں ،تونے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے بندہ کا بیٹا اور تیری بندی کا بیٹا ہوں ، اور تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے ، جو براکام میںنے کیا اس کے شر سے میں تیر ی پناہ میں آتا ہوں اور میں اقرار کر تاہوں کہ مجھ پر تیری نعمت ہے ،او راپنے گناہ کا بھی اقرار کر تا ہوں تو خدا یا میرے گنا ہ بخشدے کیونکہ تیرے سواکوئی گناہوں کو نہیں بخشتا ‘‘۔
دیکھئے نعمت اکا اقرار کرنا اعلیٰ درجہ کا شکر ہے ،جیساکہ حدیث شریف سے ابھی
معلوم ہوا ، اور اس موقعہ پر سوا س تلذ ذ گناہ کے اور کونسی نعمت تھی ! پھر اس کے ساتھ ہی گناہ کا اقرارا بھی ہوگیا ، اور اس کے شر سے پناہ مانگی گئی ۔ یہ بات معلوم ہے کہ آدمی کا نفس ہمیشہ اپنی خواہشوں کو پوری کرنے کی فکر میں میں لگا رہتا ہے ،خواہ جائز طریقہ سے ہو یا ناجائز ،او رشیطان ناجائز طریقوں سے پور ی کرنے کی تدبیر یں بتا تا ہے،جب اس قسم کی بات آدمی کو معلوم ہو جاتی ہے تو شیطان کو گناہوں پر جرأ ت دلانے کا موقعہ مل جا تا ہے کہ جب وہ خداے تعالیٰ کی طرف سے نعمت ہے تو نہایت شکر گزاری سے اس کو حاصل کرنا چاہئے !اس قسم کے دھوکہ کہ میں وہی شخص آجاتاہے جس کا ایمان ضعیف ہو یا برائے نام مسلمانو ںمیں شریک ہے ،کامل الایمان ایسے وسوسوں پر ’’لاحول ‘‘ پڑھتا ہے کیونکہ وہ یقینا جانتا ہے کہ خدا ے تعالیٰ گناہوں سے ناراض ہو تا ہے اور ان کی سزا ئیں مقررکی ہیں ، اسی وجہ سے اگر گناہ اتفاقاً صادر ہو جائے تو نہایت عجز والحاج سے بارگاہ کبریانی میں عرض کر تا ہے کہ الٰہی میں اقرار کر تا ہوں کہ گنا ہ مجھ سے صادر ہو گیا اب تیرے سواکوئی اس کے وبخشنے والانہیں اس کے شر سے میں تیری پناہ میں آتا ہو ں میرے گناہ کو بخشدے ۔اگر ایسانہ کرے تو گناہوں کا سلسلہ قائم ہو جا تاہے اور دل سیاہ اور زنگ آلود ہو جا تا ہے ۔
چنانچہ کنز العمال میں روایت ہے کہ فرما یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ : بندہ جب کوئی گناہ کر تا ہے توا س کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑ جا تا ہے ،اگر گناہ کو اس نے چھوڑ دیا اور استغفار اور توبہ کی تو دل کی صیقل ہو جا تی ہے ،اور اگر پھر کیا تووہ دھبہ بڑھ جا تا ہے اوراس کے دل کو گھیر لیتا ہے ،اسی کا
نام ’’ران ‘‘ ہے جس کو خداے تعالیٰ نے ذکر فر مایا ہے کلا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانو یکسبون ۔