سیاہ فام غلام:
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ”ایک سال میں حج کے ارادے سے نکلا، جب میں مکۂ مکرمہ پہنچا تو دیکھا کہ لوگ شہر سے باہر نمازِ اِستِسْقاء کے لئے جا رہے ہیں ۔میں بھی تین دن ان کے ساتھ جاتا رہا مگر بارش نہ ہوئی۔ میں انہیں اسی حالت میں چھوڑ کر حجرِ اسود کے پاس چلا آیا۔ اچانک میں نے سبز لبادے میں ملبوس ایک زرد چہرے والا سیاہ
فام شخص دیکھا،اس پر دو چادریں تھیں، ایک تہبند کے طور پر اور دوسری جسم پر لپیٹی ہوئی تھی۔ وہ اس قدر رویا کہ آنسوؤں سے اس کے کپڑے بِھیگ گئے، پھرآسمان کی طرف منہ اٹھاکر کہنے لگا:” گناہوں اور عیبوں کی کثرت کی وجہ سے چہرے رسوا ہو گئے ہیں ۔ اے میرے مالک عَزَّوَجَلَّ ! نافرمانیوں کی کثرت کی وجہ سے تیرے بندوں سے بارش روک دی گئی ہے، تیری مخلوق قحط سے ہلاک ہو رہی ہے اور بھوک میں مبتلا ہے اور تو سب کچھ جاننے والا ہے، بچے مضطرب و پریشان ہیں، مویشی ہلاک ہو رہے ہیں۔ میں تجھے تیرے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی عزت ووجاہت کے وسیلے سے قسم دیتا ہوں کہ اسی لمحہ بادل سے سیراب فرمادے، میں تیری بارگاہ میں تیرا ہی وسیلہ پیش کرتا ہوں اور تجھ پر ہی میرا اعتماد و بھروسہ ہے لہٰذا اپنی بارگاہ میں حاضر ہونے والوں کے گناہ معاف فرما دے اور ان کے جرموں کا مؤاخذہ نہ فرما۔ اے میرے مالک ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! اسی وقت بارش نازل فرما دے۔”
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی اس کی دعا مکمل نہ ہوئی تھی کہ بادل چھا گئے اور ہر طرف موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ میں بیٹھ کر روتا رہا یہاں تک کہ جب وہ شخص حجرِ اسود سے دور جانے لگاتو میں بھی اس کے پیچھے ہو لیااور اس کے ٹھکانے کو پہچان لیا۔میں اس کی قیام گاہ کا دروازہ دیکھ کراپنے گھر لوٹ آیالیکن ساری رات مجھے نیند نہ آئی ۔ جب صبح ہوئی تو منہ اندھیرے ہی میں نے نمازِ فجر ادا کرلی اوراس مقام پر پہنچ گیا، اندر داخل ہو ا تو ایک خوبصورت نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اسے سلام کیا، اس نے سلام کا جواب دیا اور مجھ سے پوچھا:”اے ابو عبدالرحمن! کیا کسی کام سے آئے ہو؟”میں نے کہا :”ہاں، میں ایک غلام خریدناچاہتاہوں۔” اس نے کہا:”میرے پاس دس غلام ہیں،ان میں سے جو آپ کو پسند آئے لے جائیں۔”پھر اس نے ایک موٹے سے غلام کو بلا کر اس کے اوصاف بیان کئے۔میں نے کہا: ”مجھے اس کی ضرورت نہیں۔”پھر اس نے ایک ایک کر کے دس غلام میرے سامنے پیش کر دیئے لیکن میں نے یہی کہا کہ”مجھے ان میں سے کسی کی ضرورت نہیں۔”اب وہ بولا:”میرے پاس ایک زرد رنگ کے لاغر بدن ،سیاہ فام غلام کے سوا کوئی بھی باقی نہیں بچا لیکن اُس کی حالت یہ ہے کہ اگر لوگ ہنستے ہیں تو وہ رونے لگتاہے اور اگر لوگ اپنے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھنے لگتا ہے،ساری رات نہیں سوتا،ہاں! بعض اوقات حسرت و یاس سے کسی کو پکارتا رہتاہے،اپنی کمزوری کی زیادتی کی وجہ سے کسی کی خدمت کے قابل نہیں،اس کے باوجود میرا دل اس کو پسند کرتا ہے اور اسے دیکھ کر میں برکت حاصل کرتا ہوں۔”
پھراس نے میمون کو آوازدی۔ جب وہ غلام باہر آیا تو میں نے اسے دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے۔میں نے کہا:”میں یہی غلام خریدناچاہتا ہوں ۔”وہ نوجوان بولا،” میں تو اس کو بیچنے کی کوئی وجہ نہیں پاتا۔” میں نے پوچھا، ”تم اِسے کیوں نہیں بیچنا چاہتے؟”وہ نوجوان بولا،” میں اس سے مانوس ہو گیا ہوں اور اس کو دیکھ کر برکت حاصل کرتا ہوں، اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس پر کچھ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!یہ میرے پاس چراغ کی رسی کو بٹ کراورکھجور کے پتوں سے کچھ بنا کر
اس کے عوض ہی کچھ کھاتاہے اور اس کے بغیر کھانا بھی نہیں کھاتا۔سارادن نصف دانق(یعنی درہم کے چھٹے حصے)کے بدلے کام کرتا ہے۔ اگر کوئی چيز بِک جائے تو کھانا کھا لیتا ہے ورنہ بھوکا ہی رات بسر کرتا ہے۔ میرے دوسرے غلاموں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ ساری رات عبادت کرتا ہے۔” یہ سن کرمیں نے کہا، ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر تم نے یہ غلام مجھے نہ بیچا تو میں حضرتِ سیِّدُناسفیان ثوری اورحضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رَحِمَہُمَا ا للہُ تَعَالٰی کو ساتھ لے آؤں گا۔” تو وہ بولا ،”اگر ایسا ہے تو میں آپ کی ضرورت پوری کرتا ہوں۔”
چنانچہ،وہ غلام میں نے اس سے خرید لیا۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر راستے پر چلنے لگاراستے میں وہ میری جانب متوجہ ہو کر کہنے لگا: ” اے میرے آقا!”میں نے کہا،”لبیک۔”تو وہ بولا:”آپ لبیک نہ کہیں کہ غلام اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ لبیک کہے۔” پھر کہنے لگا،” میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ تو بتائیں کہ آپ نے مجھ جیسے کمزور وناتواں غلام کو کیوں خریداحالانکہ میرے مالک نے مجھ سے زیادہ عمدہ غلام آپ کے سامنے پیش کئے تھے اور میں تو کسی کی خدمت کرنے سے بھی قاصر ہوں۔”میں نے اسے کہا ،” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! میں تیرا خادم بن کر رہوں گااورتجھ سے اپنا کوئی کام نہیں لوں گا۔”تو وہ بولا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نام پر آپ مجھے بتائیں کہ آپ نے مجھے کس وجہ سے خریدا ۔” تو میں نے اس کو گذشتہ واقعہ بتادیا اس پروہ کہنے لگا: ” یقینا آپ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نیک بندے ہیں کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی مخلوق میں ستودہ صفات کے مالک اولیاء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ موجود ہیں اور وہ ان کا مقام ومرتبہ اپنے بندوں میں سے انہیں پر ظاہر فرماتا ہے جنہیں وہ پسند فرما لے۔”
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: پیدل چلتے چلتے ہمارا گزر ایک مسجد کے پاس سے ہوا تو اس غلام نے مجھ سے کہا،” اے میرے آقا!اگر آپ کی اجازت ہو تو اس مسجد میں دو رکعت نمازاداکرلوں۔”میں نے کہا،” ابھی تو ہم حضرتِ سیِّدُنافضیل بن عیاض رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے گھر جارہے ہیں،وہاں جاکر جتنی چاہے رکعتیں پڑھ لینا۔”وہ بولا،”مجھے کیا معلوم کہ میں ان کے گھر پہنچنے تک زندہ بھی رہوں گا یا نہیں؟ جبکہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکر ِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہا کا فرمانِ عالیشان ہے: ”جس کے لئے بھلائی کا دروازہ کھولا جائے تو اُسے چاہے کہ بھلائی کاکام مکمل کرے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ کب دروازہ بند ہو جائے۔”
(الزھد لابن المبارک، باب ما جاء فی فضل العبادۃ، الحدیث۱۱۷، ص۳۸ ”فلیتم”بدلہ ”فلینتھزہ”)
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم مسجد میں داخل ہو گئے اور دونوں نے نماز ادا کی لیکن اس کی نماز طویل ہو گئی، میں اس کا انتظار کرنے لگا۔جب اس نے سلام پھیرا تو کہنے لگا:” اے میرے آقا! میری موت کا وقت قریب آچکا ہے، اے میرے آقا! میرے اور پروردگار عَزَّوَجَلَّ کے درمیان بڑا عمدہ معاملہ ہے،جس کو آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں اور
اب آپ دوسروں کو بھی بتائیں گے اور میں نہیں چاہتا کہ میرا رازکسی پر ظاہر ہو ۔”پھر وہ سجدہ میں گرکر مسلسل رونے اور کلمۂ شہادت پڑھنے لگایہاں تک کہ اس کے جسم کی حرکت رُک گئی۔میں نے اسے حرکت دی تو وَاصِلْ بَحَقْ پایا (یعنی اس کی روح قَفَسِ عُنْصُرِی سے پرواز کر چکی تھی)۔
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: میں اس کو وہیں چھوڑکرحضرتِ سیِّدُنافضیل اورحضرتِ سیِّدُناسفیان رحمۃاللہ تعالیٰ علیہما کو بُلا لایا،ہم نے مل کر اس کی تجہیزو تکفین کی۔اس کے بعد میں گھر آیا تومیرے دل میں اِک آگ سی لگی ہوئی تھی۔جب رات ہوئی تو میں اپنے اورادووظائف سے فارغ ہو کر سو گیا۔ خواب میں اچانک وہی غلام میمون ریشم کے دو شملوں میں ملبوس میرے پاس آیا،وہ مسکرا رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی۔مجھے سلام کر کے کہنے لگا:” اے میرے آقا ! جب میں تمام آقاؤں کے آقا عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہواتو میں نے کھل کر اپنا حال بیان کیا اوریہ بھی عرض کیا کہ آپ نے بغیر کسی نفع وخدمت کے مجھے خریدا تو میرے پروردگار عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”اے میمون !میں پوشیدہ و مخفی باتوں کو جانتا ہوں اور دلوں میں چھپی باتوں سے بھی باخبر ہوں، عبداللہ بن مبارک نے محض میری رضا کی خاطر تجھے خریدا تھا۔ لہٰذامیں نے تیرے سبب اور میری بارگاہ میں تیرے مقام ومرتبے کی وجہ سے اسے جہنم کی آگ سے آزاد کردیاہے۔”(پھر غلام نے کہا)اے میرے آقا! آپ نے میری جو قیمت ادا کی تھی، یہ لیں۔”حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:” میں رونے لگااور جب بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ درہم میرے ہاتھ میں ہیں۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! جب بھی مجھے میمون کی یاد آتی ہے تواس کی جدائی پر رونے لگتا ہوں۔”