سلطنتِ اسماء حسنیٰ :
اور کبھی جار مجرورکا تعلق صیغہ ،صفت سے ہوتاہے جیسے سمیع ،بصیر،قادر وغیرہ ۔یہ تعلق اس طرح ہو تا ہے کہ تمام عالم میں اسمائے حسنیٰ کی سلطنت ہے مثلاً ’’رب ‘‘ کی سلطنت اس طرح ہے کہ کوئی شئے ربوبیت الہیہ سے خارج نہیںہو سکتی کما قال تعالیٰ رب العالمین ،اسی طرح ’’رحمن ‘‘ کی عام سلطنت ہے جیسا کہ ارشاد ہے الرحمن علی العرش الستویٰ چونکہ عرش تمام عالم پر محیط ہے رحمن بھی محیط ہے ، جہاں کسی کو نفع یا ضرر پہونچے وہاں نافع یا ضار کی سلطنت ہو گی ، ہدایت اور ضلالت میں ہاوی اور مضل کی سلطنت ہوگی جب تک ہادی کی سلطنت کسی پر رہے ممکن نہیں کہ کوئی اس کوگمراہ کرسکے ۔ علیٰ ہذا القیاس جو نافع کی سلطنت میں ہو ممکن نہیں کہ کوئی اس کو ضرر پہنچاسکے۔جب پیر مرید کو صیغہ ،صفت سے متعلق کرتا ہے تو بحسب تقریر بالا اس کا تعلق صفات الٰہیہ سے ہو تا ہے اور توحید صفاتی اس پر منکشف ہو تی ہے ۔ اس طورپر کہ جس کسی میں کسی اسی صفت کا ظہور ہو جو متعلق بذات اِلٰہی ہے جسیے سمیع ،بصیر ، وغیرہ تو اسی کو صفت الٰہیہ کا مظہر سمجھتا ہے غرض کہ پیر جا ر ہے اور مرید مجرور ۔ یہ دونوں فعل الٰہی یا صیغہ ،صفت سے یعنی اسمائے الٰہیہ سے متعلق ہو تے ہیں جس سے توحید افعالی او رتوحید صفاتی نصب العین رہتی ہے ۔