سخاوت وایثار
جو دِ حقیقی یہ ہے کہ بغیر غرض وعوض کے ہو اور یہ صفت ہے حق سبحانہٗ کی جس نے بغیر کسی غرض وعوض کے تمام ظاہری وباطنی نعمتیں اور تمام حسی و عقلی کمالات خلائق پر اِفاضہ کیے ہیں ۔اللّٰہ تعالٰی کے بعد ’’ اَجْوَدُ الْاَجْوَدِیْن ‘‘ اس کے حبیب پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہیں ۔حدیث صحیح میں واردہے کہ آپ سے کبھی کسی چیز کا سوال نہ کیا گیا کہ اس کے مقابل آپصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے لَا (نہیں ) فرمایا ہو۔ ( 4) یعنی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی کے
سوال کو رَدنہ فرماتے، اگر مو جود ہو تا تو عطا فرماتے اور اگر پاس نہ ہو تا تو قرض لے کر دیتے یا وعدہ عطا فرماتے۔ ایک دفعہ ایک سائل آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں آیا آپ نے فرمایا: میرے پاس کوئی چیز نہیں مگر یہ کہ تو مجھ پر قرض کرے جب ہمارے پاس کچھ آجا ئے گا ہم اسے ادا کردیں گے۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا نے آپ کو اس چیز کی تکلیف نہیں دی جو آپ کی قدرت میں نہیں ۔ حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی یہ بات حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو پسند نہ آئی۔انصار میں سے ایک شخص بولا: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمعطا کیجئے اور عرش کے مالک سے تقلیل (1 ) کا خوف نہ کیجئے۔ یہ سن کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے تبسم فرمایا اور آپ کے روئے مبارک پر تازگی وخوشحالی پائی گئی۔ فرمایا: ’’ اسی کا اَمر کیا گیا ہے۔ ‘‘ ( 2)
حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس بحرین سے مال لا یا گیا اور یہ زیادہ سے زیادہ مال تھا جو آپ کے پاس لایا گیا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اس کو مسجد میں ڈال دو۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو ئے تو اس مال کے پاس بیٹھ گئے اور تقسیم فرمانے لگے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ کے پاس آئے اور عرض کر نے لگے: یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے اس مال میں سے دیجئے کیونکہ جنگ بدرکے دن میں نے فدیہ دے کر اپنے آپ کو اور عقیل بن ابی طالب کو آزاد کر ایا تھا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: لے لو۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کپڑے میں ڈال لیا۔ پھر اٹھانے لگے تو نہ اٹھا سکے۔عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآپ کسی سے فرمادیں کہ اٹھا کر مجھ پر رکھ دے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ میں کسی سے اٹھا نے کو نہیں کہتا۔ حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بو لے: آپ خود اٹھا کر مجھ پر رکھ دیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا: میں اسے نہیں اٹھاتا۔ پس حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس میں سے کچھ گرادیا پھر اٹھانے
لگے تو تب بھی نہ اٹھاسکے عرض کیا: یارسول اللّٰہ ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کسی سے فرمادیں کہ اٹھاکر مجھ پر رکھ دے۔ آپ نے فرمایا: میں کسی سے اٹھا نے کو نہیں کہتا۔ حضرت عباس بولے: آپ خود اٹھا کر مجھ پر رکھ دیں ۔ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: میں اسے نہیں اٹھاتا۔ پس حضرت عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس میں سے بھی کچھ گرادیاپھر اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا اور روانہ ہوئے حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کی طرف دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ غائب ہوگئے اور حضور ان کی طمع پر تعجب فرماتے تھے۔ غرض حضور انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وہاں سے اٹھے تو ایک درہم بھی باقی نہ تھا۔ (1 ) مسند ابن ابی شیبہ میں بر وایت حمید بن ہلال بطریق اِرسال مروی ہے کہ وہ مال ایک لاکھ درہم تھا اور اسے عَلاء بن الحَضْرَمی نے بحرین کے خراج میں بھیجا تھا اور یہ پہلا مال تھاجو آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس لا یا گیا۔
غنائم حنین کی تفصیل پہلے آچکی ہے۔ ان میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سخاوت حدقیاس سے خارج تھی۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اَعراب (2 ) میں بہت سوں کو سو سو اونٹ عطا فرمائے۔ ( 3) مگر اس دن آپ کی سخاوت زیادہ تر مؤ لفۃ القلوب کے لئے تھی جیسا کہ پہلے مذکور ہو چکا ہے۔ حضرت انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص (صفوان بن امیہ) نے اس روز بکریوں کا سوال کیاجن سے دوپہاڑ وں کا درمیانی جنگل پُر تھاآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے وہ سب اس کو دے دیں ۔ اس نے اپنی قوم میں جا کر کہا: ’’ اے میری قوم ! تم اسلام لاؤ ! ! ! اللّٰہ کی قسم! محمد ( صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ایسی سخاوت کرتے ہیں کہ فقر سے نہیں ڈرتے۔ ‘‘
حضرت سعید بن مُسَیِّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ صفوان بن اُمَیَّہ نے کہا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حنین کے دن مجھے مال عطا فرمانے لگے حالانکہ آپ میری نظر میں مبغوض ترین خلق تھے پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّممجھے عطا فرماتے رہے یہاں تک کہ میری نظر میں محبوب ترین خلق ہوگئے۔ (1 )
حضرت جُبَیر بن مُطْعِم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ جب میں اور دیگر لوگ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ حنین سے (بعد تقسیم غنائم) واپس آرہے تھے تو بادِیہ نشینانِ عرب (2 ) حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے لپٹ گئے وہ حنین کی غنیمت میں سے مانگتے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو بحالت اِضطرار ( 3) ایک ببول کے درخت کی طرف لے گئے اس درخت میں آپ کی چادر مبارک پھنس گئی۔آپ ٹھہر گئے اور فرمایا: ’’ مجھے میری چادردے دواگر میرے پاس اس جنگل کے درختانِ ببول جتنے چو پائے ہو تے تو البتہ میں ان کو تمہارے درمیان تقسیم کر دیتاپھر تم مجھ کو بخیل نہ پاتے اور نہ دَروغ گو اور بزدل پاتے۔ ‘‘ ( 4)
حضرت ابو ذَر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا بیان ہے کہ ایک روز میں جناب پیغمبر خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھا، جب آپ نے کو ہِ اُحد کو دیکھا تو فرمایا: ’’ اگر یہ پہاڑ میرے لئے سو نا بن جائے میں پسند نہ کروں گا کہ اس میں سے ایک دینا ربھی میرے پاس تین راتوں سے زیادہ رہ جائے بجز اس دینا ر کے جسے میں ادائے قرض کے لئے رکھ چھوڑوں ۔ (5 )
ایک رو ز نماز عصر کا سلام پھیر تے ہی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دولت خانہ میں تشریف لے گئے پھر جلدی نکل آئے صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کو تعجب ہوا آپ نے فرمایا کہ مجھے نماز میں خیال آگیا کہ صدقہ
کا کچھ سونا گھر میں پڑا ہے مجھے پسند نہ آیا کہ رات ہو جائے اور وہ گھر میں پڑا رہے اس لئے جا کر اسے تقسیم کر نے کے لئے کہہ آیا ہوں ۔ (1 )
حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بیان کر تے ہیں کہ ایک عورت ایک چادرلے کر آئی اس نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! یہ میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے میں آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں ۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو ضرورت تھی اس لئے آپ نے وہ چادر لے لی پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہماری طرف نکلے اور اسی چادر کو بطورِ تہبند باند ھے ہو ئے تھے۔ صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن میں سے ایک نے دیکھ کر عرض کیا: کیا اچھی چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا: ہاں ! کچھ دیر کے بعد آپ مجلس سے اٹھ گئے پھر لوٹ آئے اور وہ چادر لپیٹ کر اس صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابہ کرام رِضْوانَُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن نے اس سے کہا کہ تو نے اچھا نہ کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے اس چادر کا سوال کیاحالانکہ تجھے معلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی سائل کا سوال رد نہیں فرماتے۔ اس صحابی نے کہا: اللّٰہکی قسم! میں نے صرف اس واسطے سوال کیا کہ جس دن میں مر جاؤں یہ چادر میرا کفن بنے۔ حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس کا کفن ہی بنی۔ (2 )
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہروایت کر تے ہیں کہ ایک کا فر رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا مہمان ہواآپ کے حکم سے، اس کے لئے ایک بکری دوہی گئی وہ اس کا دودھ پی گیا ، دوسری دوہی گئی وہ اس کا دودھ بھی پی گیاپھر ایک اور دوہی گئی وہ اس کا دودھ بھی پی گیا اسی طرح اس نے سات بکریوں کا دودھ پی لیاصبح جواٹھا تو اسلام لایا۔ پس رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حکم دیا کہ اس کے لئے ایک بکری دوہی جائے وہ اس کا دودھ پی گیا پھر دوسری دوہی گئی مگر وہ اس کا دودھ تمام نہ پی سکا۔ پس رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایا کہ ’’ مو من ایک
انتڑ ی میں پیتا ہے اور کافر سات انتڑیوں میں پیتا ہے۔ ‘‘ (1 )
حضرت بلال مؤذّن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہآنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے خزانچی تھے۔ایک روز عبداللّٰہ ہوزنی ( 2) نے ان سے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے خزانہ کا حال پوچھا انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کچھ نہ رہتا تھا۔بعثت سے وفات شریف تک یہ کام میری تحویل میں تھا جب کوئی ننگا بھوکا مسلمان آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس آتاآپ مجھے حکم دیتے میں کسی سے قرض لیتا اور چادر خرید کر اسے اُڑھاتا اور کھانا کھلاتا۔ ایک روزایک مشرک مجھ سے ملاکہنے لگا: بلا ل! میرے ہاں گنجا ئش ہے۔ میرے سوا کسی اور سے قرض نہ لیا کرو۔ میں نے ایسا ہی کیاایک روز میں وضو کر کے اذان دینے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مشرک تاجروں کی ایک جماعت کے ساتھ آرہا ہے اس نے مجھے دیکھ کر کہا: اوحبشی ! میں نے کہا: لبیک! پھر اس نے ترش رُو ہو کر (3 ) میری نسبت سخت الفاظ کہے اور بولا: ’’ کچھ معلوم ہے وعد ے میں کتنے دن با قی ہیں ۔ ‘‘ میں نے کہا: وقت وعدہ قریب آگیا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف چاردن باقی ہیں اگر اس مدت میں تونے قرضہ ادا نہ کیا تو تجھے غلام بنا کر بکریاں چرواؤں گاجیسا کہ تو پہلے چر ایا کر تا تھا۔ یہ سن کر مجھے فکر وغم دامن گیر ہوا۔ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نماز عشاء پڑھ کر دولت خانہ میں تشریف لے گئے، میں وہیں حاضر خدمت ہوا ، اور عرض کیا: ’’ یارسول اللّٰہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا۔ وہ مشرک جس سے میں قرضہ لیاکرتا تھا اس نے مجھ سے ایسا ایسا کہا ہے، آپ کے پاس ادائے قرض کے لئے کچھ موجود نہیں اور نہ میرے پاس ہے وہ مجھ کوفَضِیحَت کرے گا ( 4) آپ اجازت دیں تومیں بھاگ کر مسلمانوں کے کسی قبیلہ میں جا رہوں ، جب ادائے قرض کے لئے خدا کچھ سامان کر دے گا تو واپس آجاؤں گا۔ ‘‘ غرض میں اپنے گھر آگیا اور تلوار،
تھیلا، جوتا اور ڈھال اپنے سرہانے رکھ لئے۔ صبح کا ذِب ہوتے ہی میں چلنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص دوڑتا آرہا ہے اور کہتا ہے: ’’ بلال! رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تجھے یا د فرمارہے ہیں ۔ ‘‘ وہاں پہنچا تو دیکھتاہوں کہ چار لدے ہو ئے اونٹ بٹھائے ہو ئے ہیں ۔ میں اجازت لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آ پ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: مبارک ہو! ! ! اللّٰہ تعالٰی نے ادائے قرض کا سامان کر دیا، تم نے چار اونٹ بیٹھے دیکھے ہوں گے؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں ۔آپ نے فرمایا کہ یہ اونٹ حاکم فدک نے بھیجے ہیں یہ اور غلہ اور کپڑے جو ان پر ہیں سب تمہاری تحویل میں ہیں ان کو بیچ کر قرضہ ادا کر دو۔ میں نے تعمیل ارشاد کی، پھر میں مسجد میں آیا اور رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمسے سلام عرض کیا۔ آپ نے ادا ئے قرضہ کا حال پو چھا؛میں نے عرض کیا کہ قرضہ سب ادا ہو گیا کچھ باقی نہیں رہا۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پوچھا کہ کچھ بچ تو نہیں رہا۔ میں نے عرض کیا کہ ہاں کچھ بچ بھی رہا۔ فرمایا: ’’ مجھے اس سے سبکدوش کرو! ! جب تک یہ کسی ٹھکا نے نہ لگے گا میں گھر نہ جاؤں گا۔ ‘‘ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنماز عشا ء سے فارغ ہو ئے تو مجھے بلا کر اس بقیہ کا حال پوچھا ؛میں نے عرض کیا کہ وہ میرے پاس ہے کوئی سائل نہیں ملا۔ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمرات کو مسجد ہی میں رہے۔ دوسرے روز نماز عشاء کے بعد مجھے پھربلایا، میں نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا نے آپ کو سبکد وش کر دیا۔ یہ سن کر آپ نے تکبیر کہی اور خدا کا شکر کیا کیونکہ آپ کو ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ موت آجا ئے اور وہ مال میرے پاس ہوپھر آپ دو لت خانہ میں تشریف لے گئے۔ (1 )
بعض وقت ایسا ہو تا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکسی شخص سے ایک چیز خرید تے ، قیمت چکا دینے کے بعد وہ اسی کو یا کسی دوسرے کو عطا فرماتے۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت جابر بن عبداللّٰہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہسے ایک اونٹ خریدا پھر وہی اونٹ ان کو بطورِ عطیہ عنا یت فرمایا۔ اسی طرح ایک روز آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ایک شترکابچہ خرید اپھر حضرت عبداللّٰہبن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کو عطا فرمایا۔
غرض جو کچھ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس آتاسب راہ خدا میں دے دیتے پاس نہ ہو تا تو قرضہ لے کر سائل کی حاجت روائی فرماتے۔ اپنی ذات شریف کے لئے دوسرے دن کا نفقہ بھی جمع نہ کرتے ( 1) البتہ بعض وقت اپنے حرم کے لئے ایک سال کا نفقہ ذخیر ہ کرلیتے۔جب آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی محتاج کو دیکھتے تو باوجود احتیاج کے اپنا کھانا اسے دے دیتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے دولت خانہ میں بعض دفعہ دودو مہینے آگ نہ جلتی تھی۔ ایک دفعہ غنیمت میں کنیز یں آئی ہو ئی تھیں حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے کہا کہ تم اس موقع پر اپنے والد بزر گوار سے خدمت کے لئے ایک کنیزمانگ لو۔ جب وہ آنحضرت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے پو چھا کہ کس لئے آئی ہو ؟ عرض کیا کہ سلام کر نے آئی ہوں اور بپاس حیا اظہارِ مطلب نہ کیا اور واپس آکر حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے یہی عذر بیان کر دیا پھر دونوں حاضر خدمت اقدس ہوئے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے عرض کیا: یارسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمآب کشی کر تے کرتے میرے سینے پر نیل پڑ گئے ہیں ۔ حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے عرض کیا کہ چکی پیستے پیستے میری ہتھیلیوں پر آبلے پڑگئے ہیں ۔ آپ خدمت کے لئے ایک کنیز عنایت فرمائیے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا: ’’ اللّٰہ کی قسم ! یہ نہیں ہو نے کا کہ میں تم کو خادمہ دوں اور اہل صفہ بھوکے مریں ان کے خرچ کے لئے میرے پاس کچھ نہیں میں ان اسیرانِ جنگ کو بیچ کر ان کی قیمت اہل صفہ پر خرچ کر وں گا۔ ‘‘ رات ہوئی تو آپ حضرت علی وفاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے گھرتشریف لے گئے۔دونوں ایسی پرزہ دار چادر میں تھے کہ اگر اس سے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں ڈھانپتے توسر ننگے رہتے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھ کر دونوں اٹھنے لگے آپ نے فرمایا: ’’ اپنی جگہ پر رہو! ‘‘ پھر ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں کنیز سے بہتر چیز بتا تا ہوں اوروہ وہ کلمات ہیں جو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلامنے مجھے سکھائے ہیں یعنی ہر نماز کے بعد سُبْحَانَ اللّٰہِ دس بار، اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ دس بار اور اَ للّٰہُ اَ کْبَرْ دس
بار اور سونے کے وقت سُبْحَانَ اللّٰہِ ۳۳ بار، اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ ۳۳ بار او ر اَ للّٰہُ اَ کْبَر ۳۴بار پڑھ لیا کرو۔ (