ساٹھ ہزار کا لشکر دریا میں

ساٹھ ہزار کا لشکر دریا میں

جنگ فارس میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے ۔ دوران سفر راستہ میں دریائے دجلہ کو پار کرنے کی ضرو رت پیش آگئی اور کشتیاں موجود نہیں تھیں ۔ آپ نے لشکر کو دریا میں چل دینے کا حکم دے دیا اورخود سب سے آگے آگے آپ یہ دعا پڑھتے ہوئے دریا پر چلنے لگے ” نَسْتَعِیْنُ بِاللہِ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْہِ وَحَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ ” لوگ آپس میں بلا جھجک ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے گھوڑوں والے گھوڑوں پر سوار، اونٹوں والے اونٹوں پر سوار، پیدل چلنے والے پاپیادہ اپنے اپنے سامانوں کے ساتھ دریا پر اس طرح چلنے لگے جس طرح میدانوں میں قافلے گزرتے رہتے ہیں۔ عثمان نہدی تابعی کا بیان ہے کہ اس موقع پر ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیالہ دریا میں گر پڑا تو دریا کی موجوں نے اس پیالہ کو کنارے پر پہنچا دیا اوران کو ان کا پیالہ مل گیا۔ا س لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار پاپیادہ اورسوار کی تھی ۔ (1)(دلائل النبوۃ، ج۳،ص۲۰۹ وطبری ،ج۴،ص۱۷۱)

تبصرہ

یہ روایت اس بات کی دلیل ہے کہ دریا بھی اولیاء اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے احکام کا فرماں بردار ہے اوران اللہ والوں کی حکومت خداوند قدوس کی عطا سے جس طرح

خشکی پر ہے اسی طرح دریاؤں پر بھی ان کی حکومت کا سکہ چلتا ہے ۔ کاش !وہ بد عقیدہ لوگ جو اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کے ادب واحترام سے محروم اوران بزرگوں کی خدا داد طاقتوں اوران کے تصرفات کی قدرتوں کے منکر ہیں ان روایات کو بغور پڑھتے اور ان روشنی کے میناروں سے ہدایت کا نور حاصل کرتے ۔
ڈاکٹر محمد اقبال نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسی کرامت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی نظم میں یہ شعرلکھا ہے :

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے

Exit mobile version