شعروادب کی زمین مزیدوسیع تراس وقت ہوجاتی ہے جب سخنورصنفِ ادب کے تنوع میں اپناامکان ڈھونڈلیتاہے۔محترم سالک ادیب بونتی صاحب بالعموم اپنی غزل کے لیے جانے جاتے ہیں ۔بلاشبہہ غزل ہی کوانھوں نے اپنامحوربنایا ہے اور اس صنف سے اپنی محبت کاخوبصورت اظہاربھی کیاہے۔ اس سے ہٹ کرادیب کے یہاں طنزومزاح کیساتھ حمدونعت کابھی ایک وسیع علاقہ موجودہے۔کہاجاتاہے کہ اصنافِ سُخن میں نعت گوئی سب سے مشکل ترین صنفِ سُخن ہے۔کیوں نہ ہو نبی پاک ﷺ کو مقامِ بشریت پررکھتے ہوئے تاجِ نبوت کے حسن کو کماحقہ بیان کرناکوئی آسان امرنہیں۔ایسی مثالوں سے ادب کے صفحات بھرے پڑے ہیں جن میں عبدہ‘ ورسولہ‘ کو من مانی طورپرعرش معلی کاحاکم اورقادرالمطلق قراردیاگیاہے(نعوذباللہ من ذالک)
محبت رسول کاتقاضا یہ ہے کہ شریعت کی سرحدپارنہ کی جائے اور یہی وصف ہمیں ادیبؔ کے یہاں دیکھنے کوملتاہے۔چونکہ قرآنی علم اور دینی معلومات سے بہرہ ور ہیں اس لیے موصوف نے قدم قدم پرالوہیت اور رسالت کے مقام کا پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ یہی آپ کی نعتیہ شاعری کاخاصہ ہے۔بہر حال یہ کہنے میں باک نہیں کہ ان کی تحریر بڑی دلکش اور رواں دواں ہوتی ہے۔ جوبھی لکھتے ہیں اس کی تاثر پذیری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نعت کہنے کی جسارت کرناپھرکامیاب کوشش کرناسرزمینِ اڑیسہ کے سر مایہ ادب میں اضافے کاایک مضبوط اشارہ ہے۔
موصوف نے مسلسل مشق و مزاولت کی اور اہلِ فن سے اکتساب کیاجس سے شاعری میں نکھارآتاگیا۔ذیل میں نعتیہ شاعری سے کچھ انتخاب پیش ہے ملاحظہ فرمائیں ۔
صل علی کے پاک ترانے میں کون ہے
میرے نبی کے جیسا زمانے میں کون ہے
دومصرعوں میں ترسیل درودکے ساتھ حضور ﷺ کی انفرادی شخصیت کی ترجمانی یقیناً شاعر کی بلندپروازی کی علامت ہے ۔تکرارِ لفظ کے ذریعہ شعر میں حسن
ودلکشی اور تاثر پیدا کرنے کے ہنر سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔اس صنعت کا استعمال ایک نعت شریف میں انھوں نے بڑی خوبصورتی سے کیا ہے۔ملاحظہ
فرمائیں:
علم وعرفاں کی تقدیس ہے آپ سے۔آگہی آگہی آگہی آپ ہیں
اور نورِ نبوت کی دلکش کی کڑی۔آخری آخری آخری آپ ہیں
مذکورہ اشعار میں نبیٔ ہاشمی کے لافانی اور وہبی علم کے ذکر کے سا تھ خاتم النبینﷺ ہونے کے نکتے میں دلکشی پیدا کرنے کی غرض سے تکرارِ لفظی کا برملا استعمال ہوا ہے۔
ایک اور نعت کے یہ دوشعرملاحظہ فرمائیں؛-
سچ کہوں توخداکی عطاآپ ہیں۔تپتے صحرامیں ٹھنڈی ہواآپ ہیں
نعت کہناسنبھل کرذرااے ادیبؔ۔یہ نہ کہنابشرسے جداآپ ہیں
تپتے صحرامیں ٹھنڈی ہواکی تمثیل واقعی قابلِ تعریف ہے جسے سالک ادیبؔ کا انفرادی رنگ کہا جاسکتا ہے۔اور مقطع میں شرعی تقاضے کی پاسداری
بڑے سلیقے سے کی ہے۔حسنِ نبی کاموازنہ بھی لاجواب ہے۔ نعت گوئی میں مروج اسلوب کوبھی خوبصورتی سے اپنایاہے لکھتے ہیں:-
رخ زیبانبی کاہوفلک پرچاندشرمائے
کوئی بھی خوب تراس سے نظارہ ہونہیں سکتا
اپنی آنکھوں سے میں انوارکاجلوہ دیکھوں
میں گنہگارہوں خواہش ہے مدینہ دیکھوں
اور
اخوت کا،محبت کا،مودت کاخزینہ ہے
ابھی تک نورمیں ڈوباہواشہرِ مدینہ ہے
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ موصوف کی نعتیہ شاعری حبِ رسول کی سرشارانہ کیفیت سے مملو ہے۔اگرچہ ان کا شعری سفر چند ہی دہائیوں کو محیط ہے لیکن ان کی شاعری کا تیور بتا رہا
میں وہ ضرور ایک کامیاب شاعر بن کر ابھریں گے۔میری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں ۔
؎اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
٭٭٭