سارنگی بجانے والی لڑکی کی توبہ:
حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃاللہ الغنی فرماتے ہیں: ”ایک دن میرادل کچھ بے چینی سی محسوس کر رہا تھا۔چنانچہ، میں دریائے نیل کے کنارے سیرکرنے کے لئے نکلا۔ میرے دل میں اسے عبور کرنے کا خیال آیا تومیں نے کشتی میں سوار ہو کر اپنا سر گھٹنوں میں چھپا لیا اورپھر نہ اٹھایا۔ جب کشتی دریا کے درمیان پہنچی تو میں نے اپنا سر گھٹنوں سے اٹھایا تواپنی دائیں جانب ایک حسین لڑکی دکھائی دی جس کی گود میں سارنگی پڑی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے شراب اوردائیں جانب صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک خوبصورت نوجوان کھڑا تھا۔میں نے دل میں کہا: اے نفس! تو سترسال کی عبادت کے بعد بھی اس کشتی میں ایک ایسی شرابی قوم کے درمیان پھنس گیاہے جو اعلانیہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتی ہے۔ اتنے میں وہ لڑکی میری طرف متوجہ ہوئی اور بولی: ”اے بزرگ انسان!کیا آپ کچھ پینا چاہیں گے؟”میں نے جواب دیا: ”اگر میرے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے کچھ پلایاتوپی لوں گا۔” چنانچہ، اس لڑکی نے اپنے غلام کو اشارہ کیاکہ وہ میرے لئے شراب کا پیالہ بھر دے، اس نے حکم کے مطابق شراب کاجام بھر کر مجھے پیش کر دیا۔جب پیالہ میرے ہاتھ میں آیا تو مجھ پر کَپکَپی طاری ہوگئی۔ لڑکی نے پوچھا :”اے شیخ! شراب کیوں نہیں پیتے؟ کیا تم چاہتے ہوکہ میں گانا گاؤں تاکہ تم شراب پیؤیا پھر تم گانا گاؤتاکہ ہم شراب پئیں؟” میں نے کہا:”میں نغمہ سناتا ہوں، تم شراب پیؤ۔”وہ بولی:”ٹھیک ہے، تم سناؤ، ہم تمہارا نغمہ سنتے ہیں۔”پھر میں نے کچھ اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
”قرآنِ پاک پڑھنے والے قاری کی تلاوت رات کی تاریکی میں گانا گانے والی لڑکی اور بانسری سے بڑھ کر خوبصورت ہے۔ اے قرآنِ مجید کو دِلکش آواز سے پڑھنے والے! تیری کیا شان ہے! اس خوبصورت قرا ءَ ت کو ربّ ِ جلیل عَزَّوَجَلَّ سماعت فرما رہا ہے، تیرے آنسو بہہ رہے ہیں، رُخسار مِٹی میں لت پت ہیں اوردل محبتِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مگن، یہ کہہ رہا ہے: اے میرے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! مجھے گناہوں کے بوجھ نے تجھ سے غافل رکھا۔ میرے گناہ بخش دے کیونکہ اب یہ بہت بڑھ چکے ہیں۔ اے میرے ربّ ِ
جلیل عَزَّوَجَلَّ! تو نے ہمیشہ میرے عیبوں پر پردہ ڈالا۔ پس ایسے قارئ قرآں کا ٹھکانہ کل بروزِ قیامت جنت میں ہو گا اور وہ قربِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ پائے گا اور اپنی رفیقۂ جنت کے ساتھ رہے گا۔ اے اس کے لئے بہترین اختیار کرنے والے جو تجھے اختیار کرتا ہے!”
جب اس لڑکی نے ایسے پُراثر اشعار سنے تو بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ جب افاقہ ہوا تو ریشمی لباس تبدیل کرکے سارنگی توڑ دی اور شراب دریا میں بہا دی اور پھر عرض کرنے لگی:”اے محترم بزرگ! اگرمیں توبہ کرلوں تو کیا اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے قبول فرما لے گا؟” میں نے کہا: ”کیوں نہیں،جبکہ وہ اپنی مقدَّس کتاب میں خود ا رشادفرماتا ہے:
(4) وَھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ وَیَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ
ترجمۂ کنز الایمان :اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا اور گناہوں سے درگزر فرماتاہے۔(پ25،الشوریٰ:25)
پھر اس نے منہ سے نقاب ہٹایا اورکہنے لگی: ”اے محترم بزرگ!آپ میری اصلاح کا سبب بنے ہیں لہٰذا اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں میرے گذشتہ گناہوں کی معافی اوردرگزر کاسوال کریں ۔”حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ”پھر ہم سب کشتی سے اتر کر ایک دوسرے سے جد ا ہوگئے۔ اس کے بعد وہ لڑکی مجھے کہیں نظرنہ آئی۔ پھرایک دفعہ میں حج کی سعادت سے بہرہ مند ہوا تو وہاں ایک پراگندہ بالوں والی لڑکی دیکھی۔ وہ کعبۃاللہ شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَکْرِیْماً کے غلاف سے لپٹ کر رو رو کر عرض کر رہی تھی: ”اے میرے معبود! میری رات کی مدہوشی اور نشے کا واسطہ! آج میرے گناہوں کو بخش دے۔” میں نے کہا: ”رُک جا! ایسے عزت والے مقام پر کیسا کلام کررہی ہو؟”اس نے جواب دیا:”اے ذوالنون!مجھ سے دُور ہو جاؤ! کیونکہ جب میں نے گذشتہ رات خوشی ومسرت سے محبتِ حقیقی کا جام پیا توآج یوں صبح کی کہ اپنے آقا ومولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی محبت میں مدہوش تھی۔” میں نے پوچھا: ”تمہیں میرا نام کس نے بتایا۔” کہنے لگی:” میں وہی لڑکی ہوں جو مصر کے دریائے نیل میں آپ کے ہاتھ پر تائب ہوئی تھی ۔” میں نے پوچھا:”تمہارا حسن و جمال کہاں گیا؟” تو اس نے جواب میں درج ذیل اشعار پڑھے:
ذَھَبَتْ لَذَّۃُ الصَّبَا فِی الْمَعَاصِیْ وَبَقِیَ بَعْدَ ذٰلِکَ اَخْذُ النَّوَاصِیْ
وَمَضَی الْحُسْنُ وَالْجَمَالُ وَمَالِیْ عَمَلٌ اَرْتَجِیْہِ یَوْمَ الْخَلَاصِ
غَیْرَ ظَنِّیْ بِاللہِ وَ ھُوَ جَمِیْلٌ فِیْہِ اَخْلَصْتُ غَایَۃَ الْاِخْلَاصِ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔ بچپن کی لذَّت گناہوں میں ختم ہو گئی اور اس کے بعد صرف افسوس سے پیشانی پکڑنا باقی رہ گیا ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔سب حسن و جمال چلا گیا اور میرے پاس کوئی ایسا عمل بھی نہیں جس کی وجہ سے بروزِ قیامت نجات کی امید کر سکوں۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ البتہ! اللہ عَزَّوَجَلَّ سے حسنِ ظن کی دولت ہے اور اس میں میری نیت بالکل خالص ہے۔
اس کے بعد کہنے لگی:”اے ذوالنون! میرے واپس آنے تک اسی جگہ ٹھہرئیے۔”پھر وہ ایک لمحہ میں غائب ہو گئی۔ جب واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک پلیٹ تھی جس میں ایک طرف تر کھجوریں اور دوسری طرف انجیر اور انگور رکھے ہوئے تھے۔ اس نے پلیٹ میرے سامنے رکھ دی۔ میں نے اپنے دل میں سوچاکہ ستر سال عبادت کرنے کے باوجود میں اس مقام تک نہ پہنچ سکا جہاں یہ لڑکی چند دنوں میں پہنچ گئی۔ پھر کہنے لگی: ”اے شیخ!جب میں نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں حاضر ہوکر گناہوں کا اعتراف کیا اور سچی توبہ کی تو اس نے مجھے سچاتوکُّل عطا فرمایا۔پھر اس نے مزید اشعار پڑھے:
عِشْ غَرِیْبًا وَلَا تَذُلْ لِخَلْقٍ وَاطْلُبِ الرِّزْقَ فِیْ بِلَادِ الْحَبِیْب
ثُمَّ سِرْ فِی الْبِلَادِ شَرْقًا وَّغَرْبًا وَّتَوَکَّلْ عَلَی الْقَرِیْبِ الْمُجِیْب
فَعَسٰٓی اَنْ تَنَالَ مَا تَرْتَجِیْہِ بِیَدِ اللُّطْفِ مِنْ مَّکَانٍ قَرِیْب
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔دنیا میں اجنبی کی سی زندگی گزار، مخلوق کے سامنے کبھی نہ جھک اور اپنا رزق محبوبِ حقیقی عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں تلاش کر۔
(۲)۔۔۔۔۔۔پھرمشرق ومغرب کے ممالک میں سیر و سیاحت کر اور ہمیشہ شہ رگ سے زیادہ قریب اور دعائیں قبول کرنے والے پر ہی بھروسہ کر۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ قریب ہے کہ تواپنے نزدیک سے ہی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے دستِ فضل و احسان سے اس چیز کو پالے جس کی تجھے اُمید ہے۔
حضرت سیِّدُنا ذوالنون مصری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:”پھرمیں اس کی طرف متوجہ ہوالیکن وہ آنکھوں سے اوجھل ہو چکی تھی۔”
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! یہ ہیں تائبین کی صفات اورمُقَرَّبین کی علامات۔ اے بھائی! اپنے مولیٰ کی بارگاہ سے کبھی مت ہٹنا اگرچہ وہ تجھے دھتکار دے اوراس کے بابِ رحمت سے کبھی قدم نہ ہٹانا اگرچہ وہ تجھے قبول نہ کرے۔