روزوں کی فرضیت کا بیان
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ ۔ (البقرۃ : ۱۸۳)
( كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ : تم پر روزے فرض کیے گئے ۔ ) اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے ۔ ’’شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے ۔ ‘‘ (خازن، البقرة، تحت الاٰية : ۱۸۳، ۱ / ۱۱۹)
روزہ بہت قدیم عبادت ہے :
اس آیت میں فرمایا گیا ’’جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض تھے ۔ ‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ بہت قدیم عبادت ہے ۔ حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے لے کرتمام شریعتوں میں روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں اگرچہ گزشتہ امتوں کے روزوں کے دن اور احکام ہم سے مختلف ہوتے تھے ۔ یاد رہے کہ رمضان کے روزے 10 شعبان 2ہجری میں فرض ہوئے تھے ۔ (در مختار، کتاب الصوم، ۳ / ۳۸۳)
روزے کا مقصد :
آیت کے آخر میں بتایا گیا کہ روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے ۔ روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے جس سے ضبط ِنفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبط ِ نفس اور خواہشات پر قابو وہ بنیادی چیز ہے جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رکتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے :
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰىؕ(۴۱) (نازعات : ۴۰، ۴۱)
ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا ۔ تو بیشک جنت ہی ٹھکانا ہے ۔
حضرت عبداللہبن مسعود رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’اے جوانو! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ قاطعِ شہوت ہے ۔ (بخاری، کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءة فلیصم، ۳ / ۴۲۲، الحدیث : ۵۰۶۶)