دل جب بھر جائے تو ذکر اللہ زبان پر جاری ہو جاتاہے:
دل جب بھر جائے تو ذکر اللہ زبان پر جاری ہو جاتاہے:
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ ”میں رات کے وقت مسجد ِحرام سےجَبَلِ أبِیْ قُبَیْس جانے کے ارادے سے نکلا، راستے میں ایک بڑی ناک والے حبشی غلام سے میری ملاقات ہوئی جو یو ں کہہ رہاتھا: ”اَنْتَ اَنْتَ یَا ھُوَیَا ھُوَیعنی بس توُ ہی توُ ہے، اے وہ ذات،اے وہ ذات۔”اس کے علاوہ کچھ نہ کہتاجب کئی بار کہہ چکاتو میں نے پوچھا: ”اے شخص! کیا تو دیوانہ ہے؟” کہنے لگا: ”اے شیخ! دیوانہ تووہ ہوتا ہے جو ہزار قدم چلتا ہے پھر بھی اپنے پروردگار حقیقی عَزَّوَجَلَّ کا ذکر نہیں کرتا۔” تو میں نے کہا:”محققین کے نزدیک تو افضل ذکر وہ ہے جو دل سے ہو۔” تواس نے کہا:”آپ نے سچ کہاہے لیکن دل جب بھر جائے تو ذکر زبان پر جاری ہوجاتاہے۔”پھر وہ میری آنکھوں سے غائب ہوگیاتو اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے پر میں بے حد نادم ہوا۔جب رات ہوئی اور میں سو گیاتو غیب سے کسی پکارنے والے نے ندا دی:”بے شک بروزِ قیامت اس غلام کے لئے ایسا نور ہو گا جو زمین و آسمان کے درمیان کوبھر دے گا۔”
سبحانَ اللہ عزَّوَجَلَّ ! کیا خوب ہیں یہ لوگ جن کی عیدیں اس کے احکام کی بجاآوری ، جن کی مراد مقاصد تک پہنچنا، جن کے احوال کمال کاحاصل کرنا اور جن کا کمال تقوی ہے۔ وہ کیسے انوکھے لوگ ہیں کہ جب لوگ لذات کی طرف مائل ہوتے ہیں تو وہ اللہ عزَّوَجَلَّ کی عبادت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب مخلوق اپنے گھروں پر آرام کر رہی ہوتی ہے تو وہ محبتِ حقیقی کے غموں میں مبتلا ہوتے ہیں اور جب تُجَّار اپنے مال کی طرف مائل ہوتے ہیں تو وہ اپنے گمشدہ احوال کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ جب غافل نیند کے ذریعے لذت حاصل کرتے ہیں تو وہ تاریکی میں اپنے محبوب کے کلام سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آخرت کو اپنے پیشِ نظر رکھتے ہیں تواس کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور موت کی ندا دینے والے کو سنتے ہیں کہ”تیار ہو جاؤ۔” تو وہ اپنے آقا و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں سچائی کا نذرانہ لے کر آتے ہیں تو پھر رد نہیں کئے جاتے اور جب انہیں اپنے گناہ یاد آتے ہیں تو مضطر ب ہو جاتے ہیں اور انہیں نیند نہیں آتی،ان کو مقصود کی امید حرکت دیتی ہے تو وہ کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر اللہ عزَّوَجَلَّ کے سامنے پیش ہونے کویاد کرتے ہیں توسیدھے ہو جاتے ہیں۔اس کی منظر کشی قرآنِ پاک یوں کرتا ہے:
(3) یَوْمَ تُبَدَّلُ الۡاَرْضُ غَیۡرَ الۡاَرْضِ
ترجمۂ کنزالایمان :جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا۔(پ13،ابراھیم:48)
جب موت کے بارے میں سوچتے ہیں تو احکام کی بجا آوری میں ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ اورجب اپنے گذشتہ گناہوں کو یاد کرتے ہیں تو اپنے نفس کو ملامت کرتے ہیں۔
اے غفلت ولاپرواہی کی نیند سونے والے! بیدار ہوجااور پرہیز گاری سے اپنے ظاہر کی اصلاح کر،اس سے پہلے کہ تیرے لئے تلافی مشکل ہوجائے اور کُوچ کرنے کے لئے خوب زادِ راہ اکٹھا کرلے کیونکہ تھوڑاسا زادِراہ طویل سفرمیں تجھے کافی نہ ہوگا۔ اپنے گناہوں کو نیکی سے مٹا دے، ممکن ہے کہ تیرا رب عَزَّوَجَلَّ تیری خطاؤں سے درگزر فرمادے اور موت کی یادکی صاف ریت سے اپنی امید کی بیماریوں کا علاج کر اور اللہ عزَّوَجَلَّ سے شفا طلب کر،اُمید ہے کہ وہ تجھے شفاعطافرمائے گا۔
وَصَلَّی اللہ عَلٰی سیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْن