دعا کی مقبولیت

دعا کی مقبولیت

ابو ہدبہ حمصی کا بیان ہے کہ جب امیرالمؤمنین حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر ملی کہ عراق کے لوگوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گورنر کو اس کے منہ پرکنکریاں مارکر اور ذلیل و رسواکر کے شہر سے باہر نکال دیا ہے توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خبر سے انتہائی رنج وقلق ہوا اورآپ بے انتہاغضبناک ہوکر مسجد نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام میں تشریف لے گئے اوراسی غیظ وغضب کی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز شروع کردی لیکن

چونکہ آپ فرط غضب سے مضطرب تھے اس لئے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نماز میں سہو ہوگیا اورآپ اس رنج وغم سے اوربھی زیادہ بے تاب ہوگئے اورانتہائی رنج وغم کی حالت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی کہ یا اللہ ! عزوجل قبیلہ ثقیف کے لونڈے (حجاج بن یوسف ثقفی )کو ان لوگوں پرمسلط فرمادے جو زمانہ جاہلیت کا حکم چلاکر ان عراقیوں کے نیک وبدکسی کو بھی نہ بخشے ۔ چنانچہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا قبول ہوگئی اورعبدالملک بن مروان اموی کے دور حکومت میں حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا گورنر بنا اوراس نے عراق کے باشندوں پر ظلم وستم کا ایسا پہاڑتوڑا کہ عراق کی زمین بلبلااٹھی۔ حجاج بن یوسف ثقفی اتنا بڑا ظالم تھا کہ اس نے جن لوگوں کو رسی میں باندھ کر اپنی تلوار سے قتل کیا ان مقتولوں کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے کچھ زائد ہی ہے اورجو لوگ اس کے حکم سے قتل کئے گئے ان کی گنتی کا تو شمار ہی نہیں ہوسکا۔
حضرت ابن لہیعہ محدث نے فرمایا ہے کہ جس وقت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دعا مانگی تھی اس وقت حجاج بن یوسف ثقفی پیدا بھی نہیں ہواتھا ۔(1) (ازالۃ الخفاء، مقصد ۲،ص۱۷۲)

تبصرہ

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کو غیب کی باتوں کا بھی علم عطا فرماتاہے ۔ چنانچہ روایت مذکورہ بالامیں آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ ابھی حجاج بن یوسف ثقفی پیدا بھی نہیں ہوا تھا لیکن امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ حجاج بن یوسف ثقفی نامی ایک بچہ پیدا ہوگا جو بڑا ہوکر گورنربنے گا اورانتہائی ظالم ہوگا۔

ظاہر ہے کہ قبل از وقت ان باتوں کا معلوم ہوجانا یقینا یہ غیب کا علم ہے۔ اب یہ مسئلہ آفتاب عالم تاب سے بھی زیادہ روشن ہوگیا کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کو غیب کا علم عطا فرماتاہے توپھر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خصوصاًحضور سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے یقینا علوم غیبیہ کا خزانہ عطافرمایا ہے اوریہ حضرات بیشمار غیب کی باتوں کو خدا تعالیٰ کے بتادینے سے جانتے ہیں اوردوسروں کو بھی بتاتے ہیں۔ چنانچہ اہل حق حضرات علماء اہل سنت کا یہی عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بالخصوص حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو بے شمار علوم غیبیہ کے خزانے عطا فرمائے ہیں اوریہی عقیدہ حضرات تابعین وحضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا بھی تھا۔ چنانچہ مواہب اللدنیہ شریف میں ہے کہ قَدِ اشْتَھَرَ وَانْتَشَرَ اَمْرُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ اَصْحَابِہِ بِالْاِطِّلَاعِ عَلَی الْغُیُوْبِ(1)

(جناب رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم غیوب پر مطلع ہیں یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں عام طور پر مشہور اورزبان زدخاص وعام تھی)
اسی طرح مواہب ا للدنیہ کی شرح میں علامہ محمد بن عبدالباقی زرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے تحریرفرمایاہے : وَاَصْحَابُہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ جَازِمُوْنَ بِاِطِّلَاعِہِ عَلَی الْغَیْبِ(2)

(یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا یہ پختہ عقیدہ تھا کہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام غیب کی باتوں پر مطلع ہیں)ان دو بزرگوں کے علاوہ دوسرے بہت سے ائمہ کرام نے بھی اپنی اپنی
کتابوں میں اس تصریح کو بیان فرمایا ہے ۔

Exit mobile version