خواب میں اچھے خاتمہ کی بشارت:
حضرت سیِّدُنا ابو حازم علیہ رحمۃاللہ الناصر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ایک بار حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی تکلیف پہنچنے کے فوراً بعد محو ِخواب تھے، پہلے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روئے، پھر مسکرانے لگے۔ جب آنکھ کھلی تو میں نے عرض کی، ”اے امیر المؤمنین! خواب میں کیسا معاملہ پیش آیا کہ آپ رو پڑے، پھر مسکرانے لگے۔” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ”کیا تم نے دیکھ لیا تھا؟”میں نے عرض کی:”جی ہاں! اور ارد گرد کے تمام لوگوں نے بھی دیکھ لیا تھا۔”پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا: ”میں نے دیکھا کہ قیامت قائم ہو چکی ہے، قبروں سے اٹھنے کے بعد لوگوں کی ایک سو بیس صفیں ہیں،جن میں سے اسّی (80) اُمَّتِ محمدیہ علٰی صاحبھا الصلٰوۃ والسلام کی ہیں۔اچانک منادی نے نِدا دی: ”(حضرت سیِّدُنا) عبداللہ بن ابی قحافہ (ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کہاں ہیں؟” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لَبَّیْک کہاتو فرشتوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بارگاہِ خداوندی عَزَّوَجَلَّ میں کھڑا کر دیا اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آسان حساب لیا گیا۔ فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوحکم فرمایا گیاکہ دائیں جانب والوں (یعنی جنتیوں) کی طرف آ جاؤ۔ پھر امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لایا گیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حساب کتاب بھی بآسانی مکمل ہو گیا پھر دونوں حضرات(یعنی ابوبکر وعمررضی اللہ تعالیٰ عنہما) کو دخولِ جنت کا حکم دیا گیا۔ اس کے بعد امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لایاگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ویسا ہی حساب لیا گیاپھر جنت میں جانے کا حکم دیاگیا۔” پھرامیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو لایاگیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ویسا ہی حساب لیا گیا اور دخولِ جنت کا حکم دیاگیا۔”
حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،”جب پکاراگیا کہ” عمر بن عبدالعزیز کہاں ہے؟” تو مجھے پسینہ آ گیااور ملائکہ نے مجھے پکڑ کر بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں کھڑا کر دیا۔ اللہ عَزَّوَجَلّ نے مجھ سے معمولی معمولی چیزوں اور میرے تمام فیصلوں کے متعلق پُوچھ گَچھ فرمائی،پھر مجھے بخش دیا اورجنت میں جانے کاحکم ہوا۔ پھر میرا گزر ایک نیم مردہ شخص پرہوا۔ میں نے ملائکہ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ خود اس سے پوچھیں یہ جواب دے گا۔ میں نے اپنے پاؤں سے اسے ٹھوکرماری تواس نے سر اٹھا کر اپنی آنکھیں کھول دیں۔ میں نے پوچھا،”تم کون ہو؟”تو وہ کہنے لگا،”آپ کون ہیں؟” میں نے اپنا نام بتایا۔ اس نے پھر پوچھا، ”اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟” میں نے جواب دیا:”اس نے مجھ پر اپنا رحم وکرم فرمایا اور میرے ساتھ بھی وہی معاملہ فرمایا جوگذشتہ خلفاء(یعنی چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) کے ساتھ فرمایا۔”یہ سُن کر اس نے مجھے مبارک باد دی۔ میں نے پھر اپنا سوال دُہراتے ہوئے پوچھا،”تم کون ہو؟”جواب ملا،”میں حجاج بن یوسف ثقفی ہوں،مجھے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو میں نے اسے شدید غضب میں پایا۔ مجھے میرے ہر مقتول کے بدلے قتل کیا گیا اورحضرت سیِّدُنا سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بدلے ستر مرتبہ قتل کیا گیا اوراب میں اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اسی چیز کا انتظار کر رہاہوں جس کا تمام کلمہ گو انتظار کر رہے ہیں یعنی جنت یا جہنم۔”حضرت سیِّدُنا ابو حازم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: ” حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ خواب سننے کے بعد میں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عہد کر لیا کہ آئندہ کسی بھی ”لَا اِلٰہَ إلاَّ اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ ” پڑھنے والے کو آگ کی تکلیف نہیں دوں گا ۔”
(حلیۃ الاولیاء،عمر بن عبد العزیز،الحدیث۷۲۹۸، ج۵، ص۳۳۲، بتغیرٍ)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے ظالموں کے لئے ہلاکت ہے، ان کو دُنیا بھر میں برے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے لئے بطورِ ننگ وعاریہی کافی ہے کہ انہیں ”اَشْرَار”یعنی برے لوگ کہا گیا۔ ان کے ظلم کی لذَّات ختم ہو گئیں اور صرف شرمندگی باقی رہ گئی۔ انہوں نے عذاب کے گھر میں ٹھکانہ بنا لیا اور ان کے گھروں پر غیروں نے قبضہ جما لیا۔ ان ظالموں کو جہنم کے کنوؤں اور پتھروں میں عذاب کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا۔اب ان کے لئے راحت ہے نہ سکون اور نہ ہی قرار۔ یہ کثرت سے نہروں کی مثل آنسو بہائیں گے۔ انہوں نے لمبی اُمیدوں کی عمارت کو بہت مضبوط بنایا تھا مگر وہ اچانک گِر گئی۔ حجَّاج بن یوسف نے کتنے قتل کئے۔ ظلم کے کتنے پہاڑ توڑے ۔کیا اُسے معلوم نہ تھا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ظلم وستم کرنے والوں سے انتقام لے گا؟ بروزِقیامت جب وہ اُٹھیں گے تو ان کا حشر فاجروں کے ساتھ ہو گا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
(1) سَرَابِیۡلُہُمۡ مِّنۡ قَطِرَانٍ وَّتَغْشٰی وُجُوۡہَہُمُ النَّارُ ﴿ۙ50﴾
ترجمۂ کنزالایمان :ان کے کُرتے رال کے ہوں گے اوران کے چہرے آگ ڈھانپ لے گی۔(۱) (پ13،ابراھیم:50)