الحمد اللہ رب العالمین و العا قبۃ للمتقین والصواۃ والسلام علی سیدنا محمد و علی الہ وصحبہ اجمعین
اما بعد ۔ اس سے سابق کے حصہ میں خلفائے راشدین کے کچھ حالات لکھے گئے تھے جن سے اون حضرات کا زہد دورع وغیرہ معلوم ہوا تھا جو مدارِ تصوف ہے اب اجمالی طورپر عموماً صحابہؓ کے حالات لکھے جا تے ہیں ۔ یہ بات ہر مسلمان جانتا ہے کہ خدا ئے تعالیٰ اپنے کلام مجید میں باربار ارشاد فرما تا ہے کہ جولوگ ایمان لا تے ہیں اور کلام الٰہی کو سچ جانتے ہیں اور خدا ئے تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل کرتے ہیں وہ جنت کے مستحق ہو ں گے ۔ جہاں ہر قسم کے عیش و عشرت کے سامان مہیا ہیں ۔ اب جولوگ دنیا کے عیش و عشرت ہو کر خدائے تعالیٰ کو بھول جا تے ہیں وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ جہاں اقسام کے عذاب ہیں ۔ چونکہ صحابہ ؓ کو خدا و رسول کے ارشاد پر کامل یقین اور عشق کا مل تھا ۔ اس لئے وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے تھے کہ ایسے کام کریں کہ دوزخ سے محفوظ رہ کر جنت کے مستحق ہوجائیں جہاں اپنے معشوق حقیقی کا دیدار اور وصال ہو گا ۔
یوں تو ہر مسلمان کا دعویٰ ہے کہ میں جو کام کر تا ہوں ہو اچھا ہے اور اپنے آپ کو اچھا ظاہر کر تا ہے ۔
ہر کسے خود را نما ید با یزید
نیک چوں بینی بماند با یزید
مگر صحابہ ؓ کے حالات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ ہمارے اور ان کے کاموں میں کیا نسبت ہے ۔ اور اون حضرات کے ساتھ درجے کا عشق تھا ۔ ہم چند حالات اون حضرات کے لکھے ہیں جس سے فرق مراتب معلوم ہو جائے گا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کی ما تحتی میں ایک لشکر شام کی طرف روانہ فرمایا ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بیماری کی وجہ سے پہلی ہی منزل میں وہ ٹھیرے رہے ۔ چنانچہ اس عرصہ میں حضرت کا انتقال ہوگیا ۔ اور اون کی روانگی میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ جس کا حال ناسخ التواریخ ص ۱۰۷ جلد دوم میں لکھا ہے کہ وفات شریف کے تیسرے روز ابوبکر رضی اللہ عنہ نے او س لشکر کو روانگی کا حکم دیا ۔ صحابہؓ آپ کے پاس جمع ہوئے اور کہا کہ اے خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اس لشکر کا یہاں سے جانا ہرگز مناسب نہیں اس لئے کہ آپ جانتے ہو کہ اعراب یعنی جنگل میں رہنے والے عرب دین سے منحرف ہوگئے ۔ بعضوں نے طلحہ کو پیغمبر مان لیا ہے ۔ اور یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے پیغمبر کا دعویٰ کر کے لشکر کثیر فراہم کر لیا ہے بینی فزارہ میں عیینہ بن حصین کی پیغمبری کا سکہ جم گیا ہے ۔بنی تمیم نے مالک ابن نویرہ کی اطاعت قبول کر لی ہے ۔ ایک بڑی جماعت نے سجاح بنت منذر کی پیغمبری کا اقرار کر لیا ہے ۔ وہ جیسے چاہتی ہے ان کو نچا تی ہے ۔ بحرین کے لوگ خطم بن زید سے جا ملے ہیں ۔آپ مدینہ میں رہتے ہو ۔ اور یہی تھوڑے مسلمان ہیں جو آپ کے پاس ہیں ۔ اگر یہ بھی اسامنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چلے جائیں تو آپ تنہا ایک مختصر جماعت کے ساتھ رہ جا ئو گے پھر اگر مخالفین سے کوئی چڑھائی کر ے تو آپ کیا کر سکو گے ۔ آپ نے فرمایا میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہرگز نکر و نگا ۔ رہی میری حفاظت سو خدائے تعالیٰ میرا حافظ ہے ۔صحابہؓ نے دیکھا کہ ہماری بات پر توجہ نہیں فرماتے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور یہ سب امور بیان کر کے کہا آپ انہیں سمجھا ئیے ممکن ہے کہ آپ کی مان لیں ۔اور اگرنہ مانیں تو اتنا توکریں کہ اسامہ کی جگھ مہاجرین یا انصار میں سے کسی کو امیر مقر کریں کیونکہ اسامہ ایک غلام زاد ہ شخص ہیں ہمیں ان کی ما تحتی سے عارا ٓ تی ہے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے جب یہ بیان کیا توآپ نے کہا اے عمر تم دیوانوں کی سی باتیں کر تے ہو۔ جس کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند کیا ۔ کیا میںاوس کو پست کر سکتا ہوں عمر رضی اللہ عنہ نے مایوس ہو کر سب سے کہہ دیا کہ خلیفہ وقت کوئی بات قبول نہیں کر تے اب بغیر روانگی کے گزیر نہیں ۔ چنانچہ وہ لشکر روانہ ہوا اور چالیس ۴۰ روز کے بعد مظفر ومنصور واپس آگئے ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے یہ وقت وہ ہے جو تاریخ خمیس میں لکھا ہے کہ عرب مرتد ہوگئے تھے ۔ یہیود و نصاریٰـ نے سر کشی شروع کر دی تھی ۔ نفاق پھیل گیا تھا ۔ غرض کہ اسلامی دنیا میں ایک تہلکہ برپا تھا ۔ جد ھر دیکھئے مخالفوں کا ہجوم باپ بیٹے سے شوہر بی بی سے تر ساںکسی کو کسی پر بھروسہ نہیں ۔ ایسی حالت میںکل صحابہ ایک طرف ہیں اور ابوبکررضی اللہ عنہ ایک طرف۔ اور صحابہ جو رائے دے رہے ہیں کوئی عقل سلیم اوس کا انکار نہیں کرسکتی اول توصحابہ مدینۂ منورہ میں تھے ہی کتنے ۔ اگر تمام ملک عرب کی نسبت دیکھے جائیں توہزاروں حصہ بھی نہیں ۔ پھر مخالفین کی یہ کیفیت کہ عمر بھر اسلام کی وجہ سے حیران و پریشان ۔ اور اس تا ک میں لگے ہوئے کہ جب موقع ملے انتقام لے لیں ۔مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تائیدات غیبیہ کے مقابلے میں کچھ نہیں کرسکتے تھے ۔ یہاں تک تو ہو ا کہ کسی سفر میں آپ آرام فرما رہے تھے ۔ کہ ایک شخص نزدیک آپہونچا اور چاہتا تھا کہ قتل کر ے کہ درخت کی ٹھنی نے اوس سے قتل کر ڈالا ۔ اس قسم کے اکثر واقعات پیش آتے تھے جیسا خصائص کبریٰ میں مذکور ہیں ۔
حضرت کے وفات کے ساتھ ہی اون تائیدات غیبیہ کا رعب جو ان کے دلوں پر مسلط تھا وہ بھی جا تا رہا ۔اور یہ خبر تمام ملک عرب میں چند گھنٹوں میں مشتہر ہو گئی ۔
اور قاص کی بات ہے کہ مخالفوں کی نظر دار السلطنت پر لگی رہتی ہے جب تمام مخالفوں کو معلوم ہو جا ئے کہ بادشاہ تن تنہا صرف سو پچاس مصا حبین کے ساتھ دار السطنت میں ہے ۔ اور فوج بہت دور یعنی ملک شام کے اطراف روانہ کر دے گئی توکہئے کہ اون کے حوصلے کیسے بڑھ گئے ہونگے ۔ ہر عقلمند اس واقعہ پر غور کر نے کے بعد یہ رائے قائم کر ے گا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جا نشین ہوتے ہی پہلے دہلے میں اسلام کا خاتمہ ہی کر دیا تھا۔ مگر وہ ایک تجربہ کاربزرگ تھے ۔ ابتدائے نبوت سے وفات شریف تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے۔ جانتے تھے کہ دین کے کام میں عقل کو کوئی دخل نہیں۔
دین کی کا میابی کو تباہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے میں رکھی ہے ۔
عقل قربان کن بہ پیش مصطفی
پیر وا اوباش تا یابی ہدیٰ
انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے قریب حالت مرض میں جب اس لشکر کو روانہ فرمایا تو اس میں کوئی مصلحت ضرور ہے ۔اور کم سے کم خلیفہ وقت کا تو امتحان ضرور مقصود ہے ۔کہ عقل کو ترجیح دیتے ہیں یا امر نبوی کو ۔ اگر عقل کو ترجیح دی تو ہمیشہ کے لئے عتاب الٰہی میں آگئے اور امر نبوی کو ترجیح دی تو خدا ئے تعالیٰ کو راضی کو لیا ۔ پھر جس سے خدا راضی ہو کون اوس کا مقابلہ کر سکے ۔
لشکر فرعون و سحر سامری
روز و شب کر دند با موسیٰ مرمی
چوبکے دادش عجب آںحی فرد
تا کہ یک یک راشکست و غرق کرد
غرض کہ انہوں نے عزم کر لیا کہ صحابہ تو کیا اگر تمام عالم ایک طرف ہوا ور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئے ہوئے کام میں دست اندازی کر نا چاہے تو تن تنہاسب کا مقابلہ کر لوں گا اور با وجود اس تنہائی کے نصرت اپنے ہی کو ہوگی ۔
نصرت حق نمایم و آنگاہ
نصرت حق مراست پست و پناہ
اسی وجہ سے ایک معمولی درخواست بھی اون کی جو اسامہ رضی اللہ عنہ کو بدلنے سے متعلق تھی منظور نہ کی ۔ حالانکہ جانتے تھے کہ پیدل فوج امیر کی اطاعت ہر گز نہ کرے گی ۔ بلکہ بے دل آدمی دشمن سمجھا جا تا ہے ۔مگر آپ نے اوس کا بھی خیال نہ کیا ۔ اور گویا اجازت دے دی کہ جس طرح تم اون کی سپہ سالاری کے مخالف ہوا ون کی مخالفت بھی کرکے دیکھ لو کہ اوسکا کیا انجام ہوتا ہے ،مگر سبحا ن اللہ اس صداقت اور دینی عقل کا یہ اثر ہوا کہ نہ کہیں ہنگامہ برپا ہو ا نہ کوئی سر اوٹھا سکا ۔ اور با لا تفاق چالیس۴۰ روز میں ہر ایک قبیلہ پر گذرتے ۔ اور اونکی سر کوبی کر تے ۔ اور رعب بٹھا تے ہوئے مظفر و منصور واپس آگئے ۔
کار وانے کہ بود بدرقہ لطفِ خدا
بہ تجمل نبشیند بجلالت برود
اور سب جعلی نبی اور دشمنان اسلام دیکھتے رہ گئے ۔
کار پا نر اچنیں انجام ہاست
کج نماید لیک سرتا پاست راست
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ آپ نے امارت اسامہ رضی اللہ عنہ کے بارہ میں جو کل صحابہ کی دل شکنی کی عقل کے باکل خلاف تھا ۔ اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ نہ اصول عرب کے لحاظ سے آپ کوکوئی خلافت کا امتحقاق حاصل ہے نہ اور کسی قسم کی حکومت ہے کہ جس کے رعب سے لوگ مجبور ہوں اور نہ ایسا مال وزر ہے کہ خوشامد سے لوگ آپ کے طرف مائل ہوں بلکہ انہی لوگوں نے اپنی خوشی سے آپ کے ہا تھ پر بیعت کر کے آپ کو خلیفہ تسلیم کر لیا ۔ با وجود ا سکے پہلے ہی پہل ایسے لوگوں سے بگا ڑ لینا جن کے ہاتھ حل عقد حکومت ہے خلاف عقل نہیں تو کیا ہے ؟ خصوص ایسے موقع میں کہ بحسب اصلو عرب علی کرم اللہ وجہہ مستحق خلافت موجود تھے او ربقول حضرات شیعہ آپ مدی خلافت بھی تھے ۔ پھر سب سے مخالفت کی بھی تو مسئلہ امارت میں کہ عزت دار لوگ ہر کس و ناکس کی امارت کو گوارا نہیں کرتے ۔دیکھئے یہی مسئلہ امارت تھا ۔ کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا باعث ہوا ۔ آپ نے اس کاذرا بھی خیال نہیں کیا ۔کہ علی کرم اللہ وجہہ کے ادنیٰ اشارے پر شکستہ خاطر لوگ علحدہ ہو جائیں گے اور اون کو یہ کہنے کا موقع مل جا ئے گا ۔ کہ ہم نے تجربہ کا رسمجھ کر اون کو خلیفہ بنایا تھا ۔ اب اون کے پہلے ہی حکم سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ مصالح ملکی وتدابیر ملک رانی سے ناواقف محض ہیں ۔ اور انجام کا ر سونچنے کی صلاحیت بھی نہیں اس لئے وہ قابل عزل ہیں ۔
شہے کو مصالح ندارد خبر
مصالح بعزش بود سر بسر
اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ یہ کار وائی معمولی عقلوں کے بالکل خلاف تھی ۔ مگر اون کی دینی عقل اور عشق نبوی نے یہی فتوی دیا کہ چاہے خلاف رہے یا جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدول حکمی نہ ہونے پائے ۔
برغم مدعیا نے کہ منع عشق کند
جمال چہرۂ تو حجت موجہ ما است
آخر اس عشق اور مردانہ ٔ جرات کی یہ برکت ہوئی کہ کسی نے دم نہ مار ا اور خلافت کا استحکام روز افزوں بڑھتا گیا ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری وقت خدمت امامت جو ذات مبارک سے وابستہ تھی آپ کے تفویض فرمایا ۔جور اپنا خاص مصلی یعنی سجادہ آپ کے حوالے کر کے صحابہ کے مجمع عام میں آپ کو اپنا سجادہ نشین قرار دیا ۔ تو آپ کو ضرور تھا کہ جو لب لباب شریعت ہے اوس کے اصول اہل اسلام کے ذہن نشین کردیں ۔ اس لئے عملی طورپر آپ نے مجمع عام میں وہ ارشادات کئے جو حضرات صوفیہ خاص طورپر اپنے مریدین کو تخلیہ میں تلقین کر تے ہیں ۔ مثلاً خلق سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا طریقہ بتلا دیا ۔کہ خدا ورسول کے مقابلے میں خواہ دشمن ہو یا دوست کوئی قابل التفات نہیں ۔ نہ کسی سے خوف ہونہ رجا ہو ۔
تا روئے تو بودستبہ پیش نظر من
نے خوف عدوماند نہ ازدوست رجائے
استقامت کا حال معلو م کر ا دیا کہ کوئی کچھ بھی کہے اپنا مشرب نہ چھوڑ ا جائے ۔
بسرت گرہمہ عالم بہ سرم جمع شوند
نتواں پر دہو ائے تو بروں ازسرما
با توباتوں میں خلوت درانجمن کی تعلیم کردی کہ ہر کام میں خدا ئے تعالیٰ سے قلبی تعلق لگا رہے
درخلوت و کثرت زتو گفتیم و شنید یم
خالی نہ بود ازتودمے انجمن ما
تو حید افعالی کو یوں ذہن نشین کیا کہ موافق و مخالف جو کچھ کرتے ہیں وہ خدائے تعالیٰ کے ہی کا م ہیں بغیر اوس کے مشیت و ارادے کے کوئی کام نہیں ہوسکتا
از خدا داں خلاف دشمن ودوست
کہ دل دودرتصرف اوست
گرچہ تیراز کمال ہمیں گزرد
ازکماندار بیند اہل خرد
نفس اور شیطان وسوسے ڈالتے ہیں کہ لوگوں کی مخالفت کا برا اثر ہے آپ نے دکھلا دیا کہ صدق ہو تو کچھ اثر نہیں پڑسکتا ۔
چو باشی پیش حق در منزل صدق
نیارد ہیچکیں قصد گزندت
یادگیر ا یں سلوک ر از عصا
راستی پیش می رود ہمہ جا
یہ مشاہدہ کرا دیا کہ صدق و خلوص سے جو کام کیا جا ئے خدائے تعالیٰ کی طرف سے اوس میں تائید ہو تی ہے ۔
کل زکجی خاردر آغوش یا فت
نیشکر ازراستی ایں نوش یا فت
یہ امر منکشف کر دیا کہ انسان کا مل سے بطور خرق عادت خدائے تعالیٰ وہ کام کر اتا ہے کہ عقلیں اوس میں متحیر ہوتی ہیں ۔ اسی طرح آپ نے اور دوسرے خلفانے وقتاً فوقتا ً عملی طریقہ سے ارشادات کئے ۔ اسی وجہ سے ان حضرات کو خلفائے راشدین کہتے ہیں جن کاکوئی کام رشد وارشاد سے خالی نہیں ۔ اگر چہ ظاہر بینوں کی نظروں میں ان حضرات کے بعضے کام نفسانی اور بد نما معلوم ہوتے ہیں ۔ مگر جولوگ بالغ النظر ہیں وہ جانتے ہیں کہ اعلیٰ درجے کے اسرار ون میں مضمر ہیں ع
کار پا کاں راقیاس از خود یگر
تاریح خمیس اور تا ریخ الخلفا وغیرہ میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب عرب مرتد ہوگئے ۔اور اکثر نے کہا کہ ہم نماز تو پڑھیں گے مگر زکوۃ نہ دیں گے ۔اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اون سے جہاد کر نے کا ارادہ کر لیا تو عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہؓ نے کہا کہ یا خلیفۂ رسول اللہ اعراب وحشی جانور وں کی طرح ہیں بہتر یہ ہوگا کہ اون کی تا لیف قلوب اور اون کے ساتھ نرمی کیجئے ۔فرمایا اے عمر ! میں نے یہ امید کی تھی کہ تم میری مدد کرو گے ۔ مگر معلوم ہوا کہ تم مدد کرنا نہیں چاہتے ۔ جاہلیت میں تو تم بڑے ہی جبار تھے مگر اسلام میں ڈھیلے ہوگئے اون کی تا لیف قلوب کے لئے کیا میں شعر بنا کر پڑھوں۔ یا عبار توں میں جھوٹی سحر کا ریاں کروں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے ساتھ ہی وحی موقوف ہو گئی اب کوئی نیا حکم نہیں آسکتا ۔خدا کی قسم رسی کا ایک ٹکڑا یا بکری کا ایک بچہ جو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دیتے تھے اگر مجھے نہ دیں تو میں اپنی ذات سے اوس وقت تک اون سے لڑونگا کہ تلوار اپنے ہاتھ میں تھا م سکوں ۔اگر کوئی میری مددنہ کر ے تو مجھے کچھ پرواہ نہیں ۔ ہر چند عمر رضی اللہ عنہ نے کہاکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں ۔ او نکا قتل کس طرح جائز ہوگا مگر آپ نے نہ مانا ۔ اور کہ جو کوئی نماز اور زکوۃ میں فرق کرے گا میں بے شک اوس کو قتل کر ونگا ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر ایک قبیلہ مرتد ہوتا تو ہم اون سے جہاد کر نے کی رائے دے تے ۔ اس وقت تمام ملک عرب میں تہلکہ مچا ہوا ہے ۔بہت سے قبیلے تو مرتد ہی ہوگئے ۔اور بہت سے زکوۃ دینا نہیں چاہتے ۔ وہ بھی مرتدوں کے ساتھ ہیں ۔ او ربہت سے منتظر ہیں کہ دیکھئے انجام کیا ہوتا ہے ۔ بہر حال تمام ملک عرب نے اس وقت مخالف پر اتفاق کر لیا ہے ۔اگراس سال کا صدقہ آپ عرب کومعاف کردیں تو کوئی نقصان کی بات نہیں ۔
کل صحابہ کو بھی عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے ساتھ اتفاق تھا ۔ اور کہتے تھے کہ یہ لوگ اہل قبلہ ہیں قبلہ کی طرف نماز پڑھتے ہیں ۔ان سے لڑنا کیونکر جائز ہو سکتا ہے ۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ کوئی اپنی رفاقت نہیں دیتا ۔آپ اوٹھے اور مسلح ہوکر تن تنہا اون سے جہاد کرنے کو نکلے اوس وقت طوعاً وکر ہاً ایک سو (۱۰۰)صحابی مہاجرین وانصار آپ کے ساتھ ہولئے ۔ اور مرتدوں سے مقابلہ کیا اور اون کو ہزیمت دی ۔ اور کئی روز مقام بقعا میں آ پ رہے۔او س وقت علی کرم اللہ وجہہ اور عمررضی اللہ عنہ نے مدینہ کو واپس آنے کے لئے اصراکیا ۔چنانچہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اون سے جہاد کرنے کے لئے روانہ کر کے آپ واپس آگئے انتہیٰ ۔
یہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کا دوسرا حکم تھا ۔ جو خلاف عقل ہونے میں پہلے حکم سے کچھ کم نہیں ہر چند صحابہ کی دلیلیں نہایت زور دار اور عقل کے مطابق تھیں ۔ مگر صحابہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دلیل اور دعوے الہامی ہی پر عمل کیا اور آخر یہی ثابت ہوا کہ اس باب میں اون کو شرح صدر ہوا تھا ۔ اسی مقام کی بات ہے جو کسی بزرگ نے کہا ہے ۔
بمیٔ سجادہ رنگیں کن گرت پیر مغاں گوید
کہ سالک بے خبر نہ بود زراہ ورسم منزلہا
تا ریخ خمیس میں عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ اہل ردت سے جہاد کر نے کے معاملہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان مسلمانوں کے ایمان سے بڑھ گیا ۔ انتہی۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام صحابہ عقل کی بات کہہ رہے تھے ۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ایمان اور یقین کامل تھا کہ دین اسلام کا مل ہوگیا ۔ قیامت تک باقی رہے گا ۔ گوملک عرب مرتد ہوگیا ہو ۔ مگر وہ عارضی طورپر ہے اون کا غلبہ مسلمانوں پر ہرگز نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ خدائے تعالیٰ جب اس دین کا خود حافظ و حامی ہے تو عرب تو کیا کل روئے زمین کے لوگ مخالف ہوجائیں تو بھی فتح ہماری ہی رہے گی ۔ اسی وجہ سے آپ تن تنہا جہاد کو نکل کھڑے ہوئے کیونکہ جس کا حامی خداہو اوس کو کسی کا کیا خوف ۔
جب عقل اسباب کوچھوڑ کرخدائے تعالیٰ پر اتنا بھروسہ اورتوکل ہوتو اوس وقت خدائے تعالیٰ مددفرما تا ہے ۔حق تعالیٰ فرماتا ہے وکان حقا علینانصر المومنین یعنی ایماندار وں کی مدد کر نے کا ہم پر حق ہے جب ایسا کامل ایمان ہوتو ممکن نہیں کہ امداد الٰہی نہ ہو۔ اور اگر امداد نہ ہوتو سمجھنا چاہئے اوس میں قصور ہمارا ہی ہے کہ ہمیں پورا یقین نہیں یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس اعلائے کلمتہ اللہ کا ارادہ فرمایا تھا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے بھی اوسی سنت پر عمل کیا ۔ بغیر کسی کے بھروسہ کے اشاعت دین کا عزم بالجز کر لیا ۔اور عملی طریقہ سے یہ تعلیم کر دی کہ مرید صادق الا عتقاد کو چاہئے کہ اپنے مرشد کے قدم بقدم اور اس طرح پیروری کرے ۔
پیروے با ید ریں رہ کش نباشد یم سر ش
وررود سربایدش افتد بپائے راہیر
کہ خدا کی راہ میں سب سے بے تعلق ہوجائے ۔اور خیر خواہ ہزار عقلی اور نقلی دلیلیں پیش کریں ایک نہ مانے اور جانبازی پر مستعد ہوجائے ۔
جناب عشق رادر گر بسے بالا تر اعقلست
کسے ایں آستاں بوسد کہ جاں درآستیں دار
ہرچند لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا اور لا رھبا نیۃ فی الا سلام اور اسی قسم کے آیات اور احادیث پیش کرے مگر اپنی ہمت اور جزم میں فرق نہ آنے دے۔
وقفۂ یک گام جائز بوددرا وعشق
اگر دوصدروہا ماہ بازی عقل در پیش آورد
جس قسم کی اتباع صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے کیا ممکن نہیں کہ ہر شخص اپنے پیر کی اتباع کرے ۔ ہزاروں بلکہ لا کھوں میں چند ہی افراد ہوتے ہیں جو اس قسم کی اتباع کر کے درجہ ولایت اور صدیقیت کو پہونچتے ہیں ۔
نہ ہر قطرہ شود گوہر بہ دریا
نہ ہر گوہر برآید درشہوار
ناسخ التواریخ سے ظاہر ہے کہ تخمیناً دوسال ملک عرب میں یہ معرکہ کا رزار گرم رہا ۔ اور طرفین سے ہزار وں بلکہ لاکھوں نذر قتال و جدال ہوئے پھر بہ مجرداس کے کہ ملک عرب پر تسلط ہوا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ اب ملک کسریٰ وقیصر پر چڑھائی کی جائے انتہیٰ ۔ حالانکہ چند اہل اسلام جن کو اہل عرب کے ساتھ عشر عشیر کی نسبت بھی نہیں کل عرب کے ساتھ مقابلہ کر کے تھکے ہوئے تھے ۔ ہنوز ان کے زخم تک چنگے نہیںہوئے تھے کہ دو بڑے بڑے خونخوار سلطنتوں کے مقابلہ کا حکم دے دیا جن کا یہ حال کہ تمام ملک عرب آبادی کے لحاظ سے ان کا دسواں حصہ بھی نہیں اون کے افواج قاہرہ کے مقابلہ میں لشکر اسلام دیکھا جا ئے تو ہزا روں حصہ بھی نہیں سامان جنگ پر نظر ڈالی جائے تودونوں میں کوئی نسبت نہیں ۔ ان کے تیروں کو وہاں کے لوگ تکلے کہا کر تے تھے ۔غرض کہ تھوڑی سی شکست فوح کو ایسی بڑی سلطنتوں کے مقابلہ میں اس غرض سے بھیجنا کہ اونکو فتح کر لیں کیا کوئی عقل کی بات تھی ۔ اوس زمانہ کے عقلا اس خیال پر کس قدر ہنسی اڑاتے ہونگے ۔ مگر یہاں اس کی کچھ پر واہ نہیں ۔
طعن و تشنیع عوا م الناس پیشِ عاشقاں
یک صدائے بیش نے کو آمد و برباد رفت
بہر حال چاہے کوئی ہنسے یا روئے ۔راہ خدا میں بڑھتا قدم ہٹ نہیں سکتا استقلال کی کیفیت کی کتنی ہی کثیر التعد اد مخالف کی فوج ہو آنکھ نہیں جھپکتی۔
مرگان بہم منی زنم از شور رستخیر
غوغائے حشر خواب پر یشاں عاشق است
صحابہ نے جب دیکھا کہ آپ کی رائے ظاہر اً نرالی اور سراپا خلافِ عقل تو ہوتی ہے ۔مگر قوت ایمان کی وجہ سے اس میں کامیابی ہو جا تی ہے ۔ اس لئے بغیر چون وچرا کے اس دفعہ قبول کر لیا ۔ اور کسی نے یہ بھی نہ کہا کہ حضرت ہر قوم کے مقابلہ کے لئے اوس کے مناسب سامان کرنا شرط عقل ہے اور حق تعالیٰ کا جو ارشاد ہے واحدو الہم مااستطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم اس سے بھی اتنی قوت بہم پہونچا نے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ دشمنون کو ہیبت ہو ۔بخلاف اس کے ہماری حالت موجود ہ کو دیکھ کر وہ ہنسیں گے ۔ اور کہیں گے کہ یہ لوگ بھیک مانگنے کو آرہے ہیں ۔ اس بے سروسامانی میں ان دو سلطنتوں کا مقابلہ کرنا اپنے ہاتھ سے اپنے کو تہلکہ میں ڈالنا ہے جس سے خدائے تعالیٰ منع فرما تا ہے ۔ قولہ تعالیٰ ولا تلقو ابا ید یکم الی التھلکۃ پھر حق تعالیٰ نے ہم لوگوں پر رحم فرماکریہ آسانی کی ہے کہ دو کے مقابلہ میں ایک جائے چنانچہ حق تعالیٰ فرماتا ہے الئٰن خفف اللہ عنکم وعلم ان فیکم ضعفا فان یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبو امائتین آپ سو سے زائد کے مقابلہ میں ایک کو بھیجنا چاہتے تھے ۔یہ نہ شرعاً جائز ہے نہ عقلاً اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک کسریٰ وقیصر کے مفتوح ہونے کا وعدہ جو فرمایا ہے وہ صحیح ہے ضرور اس کا ظہور ہوگا ۔ مگر یہ نہیں فرمایا کہ جو خلیفہ اول ہو وہی او ن پر چڑھا ئی کرے ۔ خواہ ان کے مقابلہ کے قابل قوت ہو یا نہ ہو ۔غرض کہ صدیق اکبرؓ کی ہی بات چل گئی ۔ گو خلاف عقل اور معترضوں کے نظروں میں خلاف شرع بھی تھی ۔آپ کے ا س عملی ارشاد سے اولیاء اللہ نے یہ سبق حاصل کیا کہ جہاد نفس میں بھی گو بعضے امو رخلاف ظواہر نصوص پیش آتے ہیں اور لا رھبا نیۃ فی الا سلام کے مخالف معلوم ہوتے ہیں ۔ مگر چونکہ نیت خاص معرفت اور تقریب الی اللہ کی ہوتی ہے اس لئے امید ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے معاف فرمادے ۔
ناسخ التواریخ میں جنگ فلسطین کے واقعہ میں لکھا ہے کہ عمر دبن العاص ؓ کے ساتھ صرف نو ہزار آدمی تھے ۔ اور دو بلیس جو ہر قل کی طرف سے اس جنگ پر مامور تھا اوس کے ساتھ نود ہزار کی جرار فوج تھی ۔ سخت لڑائی کے بعد رو بلیس کی فوج کی شکست ہوئی۔ اور دس ہزار سپاہی مارے گئے ۔ جب یہ خبر ہر قل کو پہونچی تونہایت غصہ سے اپنے تمام ملک میں احکام بھیج دئے کہ ہر صوبہ اور علاقہ کے لوگ فوجیں لے کر اجنا د ین میں جمع ہو ں ۔ او رجنگ کاسامان اعلیٰ پیمانہ پرکریں ۔ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ جو سپہ سالشکر اسلام تھے انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ کیفیت مفصل لکھ کر مددطلب کی ۔ آپ نے جواب میں لکھا کہ تمہارے لشکر کا ایک ایک شخص ہزار مشرکوں کے برابر ہے تم ہر گز خوف نہ کرو۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اس ملک کی فتح کر نے کا وعدہ کیا ہے اوس کے بعد پانچ ہزار کالشکر اون کے کمک کو روانہ کیا ۔
عموماً ایک ایک شخص ہزار کے برابر ہونا ہرگز قرین قیاس ہو نہیں سکتا البتہ ہزاروں میں ایک آدشخص ایسا ہوسکتا ہے ۔کہ ہزار مقابلہ تنہا کر کے کامیاب ہو ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو ہر ایک نسبت یہ حس ظن کیا اوس کا منشا وہی یقین تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ ملک ضرور فتح ہو کر رہے گا ۔اس زمانہ کے لوگ خوراق عادات کا انکارکر تے ہیں ان تاریخی واقعات پر گھیری نظر ڈالیں تو یہ کہنا پڑے گا ان معرکوں میں ہر مسلمان سے روزانہ خوراق عادات ظاہر ہوتے تھے ۔ بشر طیکہ عقل سلیم سے کام لیا جائے ۔
نظر باز آنکہ عالم جائے خویش بیند
کرنہ چشم اعمی اہم پس پردہ نظر دارد
ناسخ التواریخ کی جلد دویم ص ۱۶۶ میں لکھا ہے کہ جب ہر قل کو خبر پہونچی کہ تبوک پر آٹھ ہزار آدمی مارے گئے ۔اور اہل اسلام عورتیں بچے لئے ہوئے ملک میں دراتے چلے آرہے ہیں ۔جیسے کوئی گھر کو جاتا ہے یا اپنے گھر میں پھر تا ہے اوس نے کہا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی برحق ہیں اون پر ایمان لائو۔ کیونکہ وہ ان ملکوں پر ضرور قابض ہوجائیں گے مگر کسی نے نہ مانا سب پر نفریں کر کے روبلیس کو بلایا جونہایت قوی ہیکل اور جواں مرد شخص تھا ۔ اوس کو لشکر کثیر دے کر اجنا دین پر روانہ کیا ۔ ادہر عمر وبن العاص ؓ اپنا لشکر لے کر فلسطین پر پہونچے ۔اور یہ شوریٰ ہورہا تھا کہ کس طریقہ سے جنگ کی جائے ۔ اتنے میں عامر بن عدی جو مسلمان تھے اور اوس سر زمین میں رہتے تھے آئے اور کہا کہ لشکر روم سیلاب کی طرح چلا آرہا ہے ۔میں نے بلندی پر سے دیکھا تومیرے اندازہ میں وہ لاکھ سے کم نہیں ۔ اوس وقت بعضے اہل اسلام کی رائے ہوئی کہ پیچھے ہٹ کر اون سے جنگل میں لڑنا چاہئے کیونکہ اون کی قلعوں میں لڑنے کی عادت ہے ۔عبد اللہ بن عمر اور عکرمہ اور سہیل رضی اللہ عنہم نے کہا کہ خدا کی قسم ہم تو یہاں سے کبھی نہ ہٹیں گے ۔ ہم بار ہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہی میں کفار سے جنگ کر چکے ہیں ۔ بڑی بڑی فوجوں کے مقابلہ میں ہماری ہی فتح ہوئی ۔جس کو منطور ہوواپس چلا جائے ۔اور جس کا جا چاہے ہماری رفاقت دے ۔ عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کے طرف خطاب کر کے کہا ۔’’یا بن الفاروق اَحسنت ‘‘۔یعنی آپ کی رائے نہایت مناسب ہے او رمیرے دل میںبھی یہی بات تھی ۔ پھر ہزار سو اراون کی ما تحتی میں دے کے طلیعہ کا کام اون سے متعلق کیا چنانچہ وہ روانہ ہوئے ایک منز ل گئے تھے کہ ایک لشکر عظیم الشان نمودار ہوا دریافت سے معلوم ہوا کہ روبلیس جو شجاعت میں مشہور بطریق ہے د س ہزار مرد آزمودہ کارلئے ہوئے بطور طلیعہ لشکر کے آگے آگے آرہا ہے ۔ابن عمر ؓ نے بہ آواز بلند یہ حدیث پڑھی ۔ ان الجنۃ تحت ظلال السیوف یعنی جنت تلواروں کے سایہ کے تلے ہے ۔ پھر ایک ہزار آدمیوں نے ہم زبان ہو کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا نعرہ بلندکیا ۔ اورسب نے یکبار گی حملہ کر دیا ۔ ابن عمرؓ نے دیکھا کہ ایک شخص بڑاہی قوی ہیکل جس کی غیرمعمولی جسامت دیکھنے سے حیرت ہوتی تھی ۔ فولاد میں غرق ہرطرف گھوڑا دوڑاکر حملے کر رہا ہے۔ یہ بطریق سردار لشکر تھا ۔ نہایت جوا ں مردی سے کسی کو جنگ میں اپنا مقابل نہیں سمجھتا تھا ۔ ابن عمرؓ نے کہا کہ پہلے اسی کو لینا چاہئے ۔چنانچہ نیزہ کو جنبش دے کر اوس کا قصد کیا ۔ اوروہ بھی مقابل ہوگیا دیر تک نیزہ بازی ہوتی رہی بطریق نے موقع پاکر نیزہ مارا تھا ۔ کہ آپ نے جلدی سے تلوار نکال نیزہ کو دوتکڑے کر دئے ۔ اور ساتھ ہی تلوار کا وار کیا اگر چہ وہ زخمی نہ ہوا ۔ ا س وجہ سے کہ فولاد میں غرق تھا ۔مگر تلوار اس زور سے پڑکہ سنبھل نہ سکا ۔ اور گھوڑے سے گرپڑا۔ اوس کے ساتھ ہی آپ بھی اپنے گھوڑے سے اترے ۔اور دوسری ضرب لگا ئی اور سرکاٹ لیا رومیوں نے جب دیکھااپنا بہادر سردار ما را گیا ہراساں و پریشاں ہوگئے اور مسلمانوں نے اون کا پیچھا کیا ۔ چنانچہ بہتوں کو نہ تیغ کرکے چھ ۶۰۰ سو کو زندہ گرفتار کر لیا ۔ اور فتح ہوگئی انتہیٰ ۔ یہ تھا مقتضائے عشق جہا ںعقل کے پر جلتے ہیں ۔
ثابت قدم براہ طلب عشق میکند
عاشق بناشد آنکہ پس و پیش بنگرد
دیکھئے عمروبن العاص ؓ اور عمر وغیرہمارضی اللہ عنہم کو یقینا معلوم تھا کہ اتنی فوج آگئی کہ اپنے لشکر سے دس حصے زیادہ ہے ۔مگر ذرا بھی خوف نہیں کیا ۔ بلکہ صرف اتنی بات پر پیچھے ہٹ کر میدان میں مقابلہ کیا جائے ایسے برہم ہوئے کہ اس خیال کے لوگوں کا لشکر میں رہنا نا گوارا ہوگیا ۔ اور اس کی کچھ پرواہ نہ کی ۔ کہ اگر وہ رنجیدہ ہوکر چلے جائیں تو اپنا ہی نقصان ہے کیونکہ وہ لوگ نوکر توتھے ہی نہیں جولڑائی پرمجبور کئے جا تے ۔صرف بات یہ تھی کہ اون کا اعتماد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوس سچے وعدہ پر تھا جکہ مسلمانوں کی فتح ہوگی ۔ چاہے کوئی رفاقت دے یا نہ دے۔ اسی وجہ سے نہایت سختی سے کام لیا ۔
بروعدہ ٔ کریم نظر ہر کرا بود
کہ چشم اوبہر کس وہ ناکس نظر کند
ورنہ مقتضائے عقل یہ بھی تھا کہ اس موقع میں نہایت نرمی سے اون کی تفہیم کرتے تاکہ وہ لوگ بیدل نہ ہوں ۔ مگر سبحان اللہ وہ حضرات بھی کامل الایمان تھے جانتے تھے کہ اس دینی خدمت سے خدا ورسول کی رضا مندی حاصل کرنی ہے ورنہ علحدہ ہونے کی یہ سخت کلامی اور چلے جا نے کی اجازت کا فی حیلہ تھا۔شعر
تا روئے تو بوداست بہ پیش نظر من
از دوست بری ہستم ونیز از سردشمن
دریا عشق را نازم کہ طفلان ہو سنا کش
چو پستاں می مکند ا زذوق زہر آلودپکا یزا
ابن عمر اور ابن عاص وغیرہ صحابہ کے نام جب حدیث کی کتا بوں میں دیکھے جا تے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے گھروں میں یا مسجدوں میں بیٹھ کر لوگوں کو تعلیم یا تلقین کیا کرتے ہونگے ۔ جس سے احا دیث کی حفا ظت اور اشاعت ہوئی ۔ مگر ان حالات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ملا ہی نہ تھے ۔بلکہ اعلی درجہ کے بہادر سپاہی بھی تھے اورجس طرح علم کی حفاظت و اشاعت اون سے متعلق تھی دین کی حفاظت واشاعت بھی اونہی سے متلعق تھی ۔ دینی معاملات میں اگر اس قدر نشدد اون کی طبعیتوں میں نہ ہوتا تودین کا ہم تک پہونچنا ہی دشوار تھا ۔ اگر سچ پوچھئے تو یہی حضرات عشاق ہیں جن کی شان میں یہ صادق ہے ۔شعر
عاشقان را با مصالح کا رنیست
قصد آنہا جز رضائے پارنیست
جس کا ثبوت ان کی سوانح عمری سے بہ خوبی ہوتا ہے اس صورت میں یہ شعر بھی اون کے حسب حال ہے ۔
درکفے جا م شریعت درکفے سندان عشق
کارہر کن نست اے دل جادم سندان ما ختن
اگر ہمیں اپنے سچے دین کی قدر ہوتوہماری انصاف پسند طبیعت ہم کو ان تمام حضرات کی شکرگزاری پر ضرور مجبور کر ے گی ۔ والدین ہر چند اپنے اقتضائے طبعی کو پورا کر تے ہیں مگر اولاد پر اون کی حق شنا سی اور تعظیم فرض کی گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے وجود کے باعث ہوئے ۔ اسی طرح صحابہ نے گو اپنا فرض ادا کیا جس کے وہ مامورتھے ۔مگر ہم پر اون کی حق شناسی او رتعظیم لا زم ہے ۔ کیونکہ وہ ہمارے حق میں وجودِدین کے باعث ہوئے ۔اگر وہ جانفشانیاں نہ کرتے تو دین ہم تک نہ پہونچتا ۔اگر غور کیا جا ئے تو ماں باپ سے بھی زیادہ اون کا حق ہے کیونکہ ماں باپ سے ہماراوجود ہوا ۔ اگر یہ وجود بے دینی کے ساتھ فرض کیا جائے تو ابد الآ باد کے لئے وہی وجود وبال جاں ہوگا ۔
اب غور کیجئے کہ اون حضرات کی سعی سے ایک ایسی چیز ہمیں ملی کہ جس سے ابد الا ٓباد کی آسائیش حاصل ہوسکتی ہے تو کس قدر اون کا احسان ماننا چاہئے ۔
مقتضائے طبع حیوان ست شکر ِ محسناں
ہرکہ ایں خصلت ندارد اور زحیواں کمتر است
{بنائے مکان سعدؓ}
ناسخ التواریخ کے ص ۳۰۵ جلد دوم میں لکھا ہے کہ سعدابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب ایران اور عراق کے شہروں کو فتح کیا تو عمررضی اللہ عنہ کو لکھا کہ اس علاقہ میں اکثر عرب بیمار رہتے ہیں ۔ عمررضی اللہ عنہ نے کوفہ کو بنیاد ڈالنے کا حکم دیا چنانچہ نہایت قرینہ سے شہر کی بنیاد ڈالی گئی ۔ اور مکانات بنانے کی عام اجازت ہوگئی ۔ سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بھی ایک بڑا مکان اپنے لئے بنا یا ۔ اور محل کسریٰ جو مدائن میں تھا اوس کا دروازہ لا کر اپنے مکاں میں نصب کیا ۔ یہ کیفیت جب عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوتی تو آپ سخت نا خوش ہوئے اور اون کے نام خط لکھ کر محمد ابن سلمہ رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا کہ جس قدر ممکن ہو جلد کوفہ پہونچیں اور پہلا کام یہ کریں کہ سعد کے گھر کو آگ لگا دیں تا کہ جس قدر سامان او س میں ہو سب جل جائے ۔ اور سعد ؓ کو صرف خط دے دیں اور کوئی بات نہ کریں ۔ محمد بن سلمہ ؓ بہت جلدی سے کوفہ پہونچے ۔اور سیدھے سعد بن قاص ؓ کے مکان پرآئے ۔ہر چند ملا قا تی لوگ بہت تھے ۔ مگر کسی سے کچھ بات نہ کی سوائے اس کہ کہ اون سے لکڑیاں منگوائیں اور آگ لگا دی جس سے سارا مکان جل گیا ۔ او س کے بعد عمررضی اللہ عنہ کا خط سعدابن وقاص رضی اللہ عنہ کو دیا اوس میں لکھا تھا کہ مجھے یہ خبر پہونچی ہے کہ آپ نے ایک عالیشان مکان کسریٰ کے مکان کے جیسا بنایا ہے جس میں محل کسریٰ کا دروازہ بھی نصب کیا گیا ہے ۔تا کہ حاجب اور دربان وہاں رہیں اور جاجت مند اور مظلوموں کی رسائی نہ ہو ۔ افسوس ہے کہ تم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو چھوڑ کر کسریٰ کا طریقہ اختیار کیا کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسریٰ کو اوس عظیم الشان مکان اور بلند دروازہ سے نکا ل کر تنگ و تا ریک قبر میں جگھ دی گئی ۔ میں نے ایسے شخص کو بھیجا ہے کہ جو تم سے نہ ڈرے ۔ اور تمہاراگھر جلا دے ۔ تم کو دو حجروں سے زیادہ کی ضرورت نہیں ۔ایک بیت المال کے لئے اور دوسرا اپنے لئے ۔ چنانچہ سعد نے ایسا ہی کیا کہ ایک چھوٹے سے گھر میں خود رہتے ۔اور ایک کو بیت المال بنا یا ۔انتہیٰ ۔
سعد ابن ابی وقاص ؓ نے کس شوق سے مکان بنایا ہوگا ۔ جس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مدائن سے ایوان کسریٰ کا دروازہ لا یا گیا ایسا مکان اس بے رحمی سے جلا یا گیا کہ اثاث البیت تک نکالنے کی اجازت نہیں ۔ خلیفہ ٔ وقت کے پاس ایک شخص تن تنہا آکر بغیر اس کے کہ جرم دریافت کریںوہیں کے لوگوں سے جلا نے کا سامان مہیا کر رہے ہیں جب اس نادر آتش زدگی کی خبر سن کر تماشا ئیوں کا ہجوم بڑھتا جا تا ہوگا او رکبھی گھر کو دیکھتے ہونگے اور کبھی صاحب خانہ کو ۔تو اون کی کیا حالت ہوگی ۔ سعد بن ابی وقاص ؓ کو ئی معمولی آدمی نہ تھے ۔ فاتحِ ملک عجم آپ ہی ہیں ۔ جب تک آپ کوفہ کے حاکم رہے یزُد گردبا دشاہ عجم آپ کے رعب سے د م نجود تھا ۔ آپ کے معزول ہوتے ہی خیال کر لیا کہ اب میدان خالی ہے چنانچہ فوج کشی کر کے دھوم مچا دیا۔ جس سے مسلمانوں کو مصیبتیں اٹھانی پڑیں ایسے جیل القدر سپہ سالار کا گھر ایک شخص جلا رہا ہے ۔ اور نہ وہ خود دوم مار سکتے ہیں نہ اون کی فوج ۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے ؟ کہ یہ اون کی بزدلی تھی ۔ ہرگز نہیں ۔ وجہ اوس کی یہی تھی کہ اون حضرات کے نفوس قدسیہ تھے ۔ انہوں نے اپنے حمیت، غیرت، شجاعت ،کو اسلام کے نذر کر دیا تھا ۔ شعر
من ہما ند م کہ وضو سا ختم از چشمہ ٔ عشق
چار تکبیر زدم یکسرہ بر ہر چہ کہ ہست
جب سعدرضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اپنے اولوالا مر کی اطا عت خدا و رسول کی اطاعت ہے تووہ آتش زدگی اون کے آنکھوں میں آتش بازی کا نظارہ دکھا نے لگی اور خود بھی تما شا ئیوں کے ساتھ تماشہ دیکھنے میں شریک ہوگئے ۔ اور خدائے تعالیٰ کواپنے دل کی گرم جو شیاں دکھا کر اوس آگ سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر تے جا تے تھے ۔ کہ بضاعت مزجات یعنی ایک حقیر چیز کے معا وضہ میں رضائے الٰہی جو دولت ابدی ہے حاصل ہورہی ہے اور محبت اغیار جو دل میں گھر بنا رہی تھی اوس آتشِ کثافت سوزسے فنا ہوتی جا تی ہے ۔
آتش عشق تو تا گشت درونِ بدنم
آنچہ اندو ختہ بودم ہمہ را پاک بسوخت
اور یہ مضمون نصب العین ہو رہا تھا ۔
ہر کراخوابگہ بدومشتِ خاکست
گوچہ حاجت کہ برا فلاک کشدایوںرا
ازیں رباطِ دودر چوں ضرورت است رحیل
رواق طاقِ معیشت چہ سر بلند چہ پست
اگر چہ امیر المومنین عمررضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ وہ صحابی جلیل القدر اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماموں ہیں ۔ اور حضرت نے اون کو ایک بار فداک ابی و امی کے خطاب سے مشرف فرما یا تھا ۔ اور آپ کے لئے دعا کی تھی کہ خدایا توان کی دعا ئیں قبول کر۔ اس وجہ سے اون کی ہر دعا قبول ہوتی تھی ۔با وجود اس کے اون کا گھر جلا نے میں ذرا بھی تامل نہ کیا ۔ اس وجہ سے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور جانشین تھے ۔ آپ کو اصلاح امت کی ضرورت تھی ۔ دیکھا کہ بمقتضائے بشریت دنیا کی طرف کچھ توجہ ہو چلی ہے ۔ فوراً عملی طریقہ سے اوس کی اصلاح کر دی اور سمجھا دیا کہ ۔
ازیں رباط دودر چوں ضرورت است رحیل
رواقِ طاق معیشت چہ سربلند و چہ پست
کا رطفلانست کردن نقش پر دیو ارودر
تا تو انی زنیہارا ز کا رِ طفلاں زنیہار
شاہ باز ہمت خود برپراں زیں خاکداں
تاکند برشاخ سدرہ طائر قدسی شکار
اور لکھا ہے کہ تم نے شریعت کو ترک کر دیا ۔ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص حجرۂ مبارک کی یہ کیفیت تھی کہ جلا نے کی چند لکڑیاں گاڑدی گئیں اور اون سے کنبلوں کو باندہ دیا ۔ وفات شریف تک حضرت کا یہی حجرۂ خاص تھا اور جو ازواج مطہرات کے حجرے تھے اون میں چار حجروں کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں ۔ اور سقف کھجو ر کی شا خوں کا جس پر کیچڑ کا گلا بہ کر دیا گیا تھا ۔ اوراپانی حجروں کو تو دیواریں بھی نہ تھیں ۔ صرف کھجور کی شاخیں گا ڑ کر اور ان پر گلا بہ کر دیا گیا تھا ۔ حضرت امام حسین علیہ السلام فرما تے ہیں کہ اون کی بلندی اتنی تھی کہ میر اسر اون کے چھت کو لگتا تھا ۔اور اون کے دروازوں پر تین ہاتھ طول اور ایک ہا تھ عرض کے پردے کنبل کے پڑے رہتے تھے یہ خاص حضرت کے ازواج مطہرات کے حجروں کا حال تھا ۔ اور عمر رضی اللہ عنہ بھی عمر بھر چھپری ہی میں رہے ۔
غرض کہ عمر رضی اللہ عنہ جب کسی کو دیکھتے کہ طریقۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف میں کوئی کام کر رہا ہے تو اوس کو خلاف شریعت سمجھ کرنہایت سختی سے پیش آتے ۔ اور کسی کی کچھ پرواہ نہ کرتے اس قسم کے آثارِ غیرت محبت سے صادر ہوتے ہیں ۔
روض الریا حین میں امام یا فعی رح نے لکھا ہے ذو النون مصری رح کہتے ہیں کہ تیہ بنی اسرائیل میں ایک عجوزہ سے ملا قات ہوئی اوس ہیبت ناک جنگل میں رہنے کاسبب پوچھا ۔ کہا میں جس شہر میں گئی وہاں کے لوگ میرے حبیب کی نا فرمانی کر تے ہیں۔مجھ سے اوس کی برداشت نہ ہوسکی آخر آبادی کو ترک کر دیا ۔
ازالتہ الخفا میں مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک روز امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا کہ آپ جو عاملوں سے اقرارا لیتے ہیں کہ باریک کپڑے نہ پہنیں اور دروازوں پر دربان نہ رکھیں کیا صرف اس سے آپ کی نجات ہوجائے گی آپ کو خبرنہیں کہ ایاز بن غنم جو مصرپر آپ کی طرف سے حاکم ہیں وہ باریک کپڑے بھی پہنتے ہیں اور اون کے یہاں دربان بھی موجود ہے ۔ یہ سنتے ہی آپ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا او رکہا کہ تم مصر جائو اور جس حال میں وہ ہوں اون کو لے آئو جب وہ مصر گئے تودیکھا کہ اون کے دروازہ پردربان بیٹھا ہے اون کے مکان میں چلے گئے دیکھا کہ باریک کپڑے بھی پہنے ہوئے ہیں ۔ملاقات کے ساتھ ہی کہا کہ چلئے عمررضی اللہ عنہ نے آ پ کو بلا یا ہے کہا اتنی مہلت دیجئے کہ دوسرے کپڑے پہن لوں؟کہا یہ ممکن نہیں ۔اسی حال پر چلنا ہوگا ۔چنانچہ وہ اسی وقت مصر سے روانہ ہوئے جب عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اوس لباس میں اپنے اونہیں دیکھا ایک کبنل کا کرتہ اور ایک لا ٹھی اور بکریوں کا ریوڑ منگوایا ۔ اور فرمایا کہ اپنا لباس اتا رکر یہ کرتا پہنواور یہ لا ٹھی لے کر بکریاں چا ریا کرو۔انہوںنے کچھ جواب نہ دیا ۔ فرمایاتامل کیا ہے ۔تمھارے باپ بھی بکریاں چرا یا کرتے تھے ۔جس کی وجہ سے ان کا نام غانم تھا ۔ انہو ں نے کہا اس سے توموت بہتر ہے ۔اوس کے بعد بہت معذرت کی ۔ اور قصور معاف کیا گیا ۔
دیکھئے یہ تشدد اسی وجہ سے تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں با ریک لباس پہنا جا تا تھا ۔ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی کبنل ہی کا لباس زیب تن مبارک فرما یا کر تے تھے ۔ اس وجہ سے اپنا بھی لباس آپ نے اسی قسم کا رکھا تھا جس کا حال اوپر معلوم ہوا کہ بارہ ۱۲بارہ ۱۲ پیوند آپ کے کرتہ پر لگے رہتے تھے ۔ ہر چند تمام صحابہ نے با صرار کہا کہ لباس فا خرہ پہنیں ۔ اگر چہ مقتضائے عقل وہی تھا۔ مگر اتباعِ نبوی کا یہ اثر تھا کہ دنیا کے تعلقات سے آپ بالکل بری تھے ۔ اسی وجہ سے آپ کا یہی خیال تھا کہ جس طر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور اپنے اہل بیت کے لئے فقر وفاقہ اختیار فرمایا ۔ آپ اور آپ کے اہل بیت بھی اختیار کر یں اور دنیا سے کسی کا تعلق نہ رہے ۔ ابتدائے اسلام سے آپکی یہی حالت رہی ۔
من ہما ندم کہ وضو سا ختم از چشمۂ عشق
چار تکبیر زدم یکسرہ بر ہر چہ کہ ہست
کنزالعمال کی کتاب الفضائل میں عکر مہ بن خالدؓ سے روایت ہے کہ ایک روز عمر رضی اللہ عنہ کے فرزند بالوں میں کنگھی کر کے لباس فاخرہ پہن کر عمر رضی اللہ عنہ کے یہاںآئے آپ نے اون کو اتنے دُرّے مارے کہ وہ رونے لگے ۔ حضرت بیوی حفصہ رضی اللہ عنہا نے مار نے کاسبب پو چھا فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ اوس کے نفس میں عجب آگیا ہے اس لئے اوس کو مارکرذلیل کر دیا تا کہ عجب جا تا رہے ۔انتہیٰ ۔
مقصود اس سے یہی تھا کہ یہ خیال نہ پیداہو کہ ہم شہزادے ہیں ۔اسلئے اون کے نفس کی اصلاح کر دی ۔ اور یہ معلوم کر ا دیا کہ عشاق الٰہی کی زینت ان چیزوں سے نہیں ۔
زینت عاشق پلا س وموے ژولیدہ بود
نے لباس خوب وزلف عنبریں و خال وخد
کنزالعمال میں یہ روایت بھی ہے کہ ایک بار بادشاہ روم کا برید امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پا س آیا آپ کی بیوی کو یہ خیال پیدا ہوا کہ یہاں توکچھ نہیں مل سکتا سلطنت روم سے کچھ منگوالیں ۔چنانچہ ایک دینار قرض لے کر چند شیشیاں عطر کی بادشاہ روم کی بیگم کو بطور ہدیہ روانہ کیں۔ اوس کو خوشامد کا موقع مل گیا ۔انہیںشیشیوں میں بیش بہا جو اہر ڈالکر آدمی کے ساتھ بھیجا ۔ جس وقت اوس آدمی نے شیشیاں محل مبارک میں روانہ کیں آپ بھی اتفاقاً وہاں پہونچ گئے ۔ اور پوچھا کہ یہ کیا ہے ۔ بی بی صاحبہ نے سب قصہ بیان کیا ۔آپ نے وہ جواہر لے لئے ۔ اور اون کو بیچ کر قیمت بیت المال میں داخل کر دی۔ اور ایک دینار جو عطر کی قیمت تھی بی بی صاحبہ کو دیا انتہیٰ ۔
دیکھئے وہ جو اہر عطر کی قیمت تھی۔ یا ہدیہ تھے بہر حال شرعاً او سکے لینے میں ظاہراً کوئی حرمت کی وجہ نہیں ۔ مگر عمر رضی اللہ عنہ نے او سکو بھی جائز نہ رکھا۔ اسی وجہ سے کہ فقر وفاقہ میں سنتِ نبوی ہے فوت نہ ہو جائے اور مال وزرسنگِ راہ مقصود نہ ہو جائیں ۔
رہ روانِ عشق را با دولت دنیا چہ کار
پاک میدارند انیاں راہ راز ز سنگ و خار
اب غور کیجئے کہ ہم لوگوں کی عقلوں میں اور اون حضرات کی عقلوں میں کس قدر تفاوت ہے ۔ ادنیٰ تامل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہم لوگوں کی عقلیں دنیا وی ہیں ۔اور دینی عقلیں انہی حضرات کی تھیں اور اس سے ظاہر ہے کہ جس قدر دین کو دنیا پر فضیلت ہے ۔اوسی قدر دینی عقل کو دنیا وی عقل پر واقعی فضیلت ہوگی ۔جس کی دین دار لوگ جانتے ہیں ۔
عقل باید کہ راہبر باشد
نہ کہ از رہ بردبسان غول
نا سخ التواریخ کی جلد دوم میں لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ جب حج کو گئے تو ایک شخص نے فریاد کی کہ عمر وبن العاص جو فاتحِ مصر اور وہاں کے صوبہ دار ہیں اون کے بیٹے محمد نے مجھ سے مسا بقت میں شرط لگا ئی وہ جب میرا گھوڑا آگے بڑہ گیا تو انہوں نے معتبر لوگوں کے مجمع میں غصہ سے مجھے کوڑامارا ۔میں نے اون کے والد کے پاس فریاد کی ۔اونہوں نے مجھے قید کر دیا ۔اب چار مہینے کے بعد میں چھوٹ کر آیا ہوں۔ عمررضی اللہ عنہ نے عمر بن العاص اور اون کے بیٹے کو بلوا یا اور بعد ثبوت اوس فریادی سے فرمایا کہ اپنا بدلہ لے لے۔ چنانچہ اوس نے مجھے محمدبن عمر وبن العاص کو کوڑا مارا پھرعمر و بن العاص کو نزدیک بلایا فریادی نے کہا اے امیر المومنین !یہ معز ز شخص میں ان کو ماریئے مت فرمایا جس طرح انہوں نے تجھے قید کیا ہے میں اون کو قید کر دیتا ہوں کہا میں نے اپنا حق معاف کر دیا ۔ او س وقت اپنے اون کو اجازت دی ۔ انہوں نے کہا آپ نے مجھے سخت ذلیل کیا اب میں آپ کی حکومت میں خدمت نہ کرونگا۔آپ نے فرمایا تمہیں اختیار ہے ۔جہاں جی چاہے چلے جائو انتہیٰ ۔ کنز العمال میں بھی یہ روایت با دنیٰ تفادت مذکور ہے
غور کیجئے کہ سمت کے صوبہ دار کو ایک ادنیٰ غیر معروف آدمی کے مقالبہ میں اس قدر ذلیل اور بیدل کرنا ہر گز عقل گوا نہیں کرتی ۔مگر عمر ؓ کو عقل کی پابندی سے کیا تعلق وہ توہر حال میں پا بند شرع شریف تھے ۔ اور یہ اونہی کی خصوصیت کل خلفائے راشدین کا یہی حال تھا ۔چنانچہ کنز العمال کی کتاب القصاص من قسم الافعال میں ابن شہاب سے روایت ہے کہ ابوبکر اور عثمان رضی اللہ عنہم سے اگر کسی قسم کی زیاد تی کسی پر ہوجا تی تھی تواوس کوکہہ دے تے کہ ہم سے بدلہ لے لو ۔ مگر وہ رعایت کر جا تے تھے۔ اوسی میں یہ روایت ہے کہ طارق کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کسی کو ایک طپانچہ مارا اوس کے بعداوس کو بدلہ لینے کو کہا ۔ مگراوس نے معاف کر دیا ۔ اور اوسی میں یہ روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو کسی اشتباہ میں بلوایا ۔اتفاقاً وہ عورت حامہ تھی راستہ میں خوف کے مارے اوسکا حمل ساقط ہوگیا۔ اور بچہ دو چیخیں مار کر مرگیا ۔ عمررضی اللہ عنہ نے صحابہ سے فتویٰ پوچھا ۔اور انہوں نے کہا کہ آپ والی ہیں ادب دینا آپ کا کام ہے اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں ۔علی کرم اللہ وجہ خاموش تھے ۔ عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ اس باب میں کیا کہتے ہو ۔ کہا ان صاحبوں نے اگر اپنی رائے سے کہا توخطا کی۔اور اگر آپ کی کی خاطر سے کہا ہے تو آپ کی خیر خواہی نہیں کی میری رائے میں آپ اسکی دیت اداکریں ۔ کیونکہ آپ کی وجہ سے اوس کا حمل ساقط ہوگیا ہے چنانچہ آپ نے دیت ادا کر نے کا حکم دیا ۔ انتہیٰ ۔
دیکھئے صرف اس خیال سے کہ آپ کے خوف سے حمل ساقط ہوگیا دیت ادا کر دی ۔
حالانکہ آپ نے نہ اوس کا مارا نہ اوس سے کوئی بات کی جب اپنی ذات پر ایسے احتیاطی احکام شرعی نافدکر تے تھے ۔توجہاں صراحتاً ظلم وزیادتی ہوتواوس میں رعایت کی کیا توقع رہی مصلحت اندیشی کہ کسی جلیل القدر عہدہ دارکی دلشکنی ہو توانتظام ملکی میں خلل واقع ہوگا سواوس کی کچھ پرواہ نہ تھی ۔
گر صدہزار خاطر اغیار بشکند
بہتر از انکہ خاطر آں بار بشکند
راست نا ید مصلحت ندیشی اندر راہ عشق
عاشقا نرا مصلحت غیر از رضائے دوست نیست
عاشق کہ بو مضطردرراہ طلب ہر دم
رسوائے جہاں با شد در مصلحت اندیشی
وہاں توہمیشہ یہی خیال تھا کہ اگر تمام عالم سے انقطا ع ہو جا ے تو قبول مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا سلسلہ ہا تھ سے جا نے نہ پا ئے ۔
علی کرم اللہ وجہ کی راست گوئی اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ سب صحابہ ؓ ایک طرف ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ پر دیت نہیں آتی ۔اور علی کرم اللہ وجہہ ایک طرف بلا ردور عیات صاف فرما تے ہیں کہ خلیفہ ٔ وقت پر دیت کی ادائی لاز ہے اب اسی پر غور کیا جائے کہ ایسے راست گو جو اظہار حق کو اپنا فرض منصبی جانتے تھے کیا اپنا حق طلب کرنے میں خاموش رہ سکتے تھے ہر گز نہیں ۔ صاف فرما دیتے کہ جناب اور وں کے حقوق تو آپ بہت ادا کرتے ہیں ۔ مگر ہمارا اتنا بڑا حق خلاف غصب کر بیٹھے ہو اس کو پہلے ادا کر نے کی ضرورت ہے ۔
کنز العمال میں یہ روایت بھی ہے کہ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک خوش مزاج شخص تھے ۔ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس مبارک میں باتیں کر کے لوگوں کو ہنسا رہے تھے ۔آنحصرت صلی اللہ علیہ وسلم نے او نکی کوکھ میں اونگلی ماری ۔اونہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے مجھے دکھ دیا ۔ فرمایا تم بدلا لے لو ۔کہا آپ نے جب مجھے انگلی چبھا ئی میرے جسم پر کپڑا نہیں تھا اور اور قمیص پہنے ہوئے ہیں ۔حضرت نے قمیص ہٹا دیا انہوںنے ساتھ ہی جسم مبارک کے بوسہ لینے شروع کئے ۔ اور عرض کی میرے ماں باپ آپ پر فداہوں ۔ اس درخواست سے میرا مقصود یہی تھا کہ یہ دولت حاصل کروں ۔انتہیٰ ۔
اس قسم کے اورکئی واقعات کنز العمال میں مذکور ہیں جن کا ماحصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اگر بظاہر کسی پرکچھ زیادتی ہوجا تی تو فوراً آپ بدلہ لینے کو فرمادے تے ۔ اہل انصاف سمجھ سکتے ہیں کہ جس ملک میں ہر ادنیٰ اپنے اعلیٰ درجے کے شخص بلکہ خلیفہ ٔ وقت سے زیادتی کا بدلہ لے سکے تو وہاں کس درجہ امن و آسائش ہوگی عمر رضی اللہ عنہ کو منظور تھا کہ ملک میں تمدن شرعی قائم کر یں۔ جس سے ملک آسودہ حال رہے ۔اس لئے جو شخص کسی پر کچھ زیادتی کر تا بعد دریافت فوراً انتقام لیے تے ۔خصوصاً حکام سے انقتام لینے میں توبہت ہی اہتمام تھا ۔ کیونکہ حکومت کا نشہ اکثر آدمی کو بدمست بنا دیتاہے ۔
عاملاں درزمانِ معزولی
بشر حانی و با یزید شوند
چوں بیایند باز برمسند
شمر ذی الجوشن ویزید شوند
کنز العمال میں جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں ایک شخص تھا اونہوں نے اوس کو غنیمت کا حصہ تو دیا مگر کچھ کم ۔اوس نے کہا میں اپنا حصہ پورا لونگا اوس پر اونہو ں نے اوسے بیس ۲۰ کوڑے مارے اور اوس کا سر منڈ وا دیا ۔ اوس نے وہ بال اوٹھا لئے اور سید ھا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچا اور روبرو کھڑا ہوکر آپ کے سینہ پر وہ بال پھینک مارے ۔ پو چھا قصہ کیا ہے ۔اوس نے پورا واقعہ بیان کیا آپ نے اوسی وقت ابوموسیٰ اشعری کے نام خط لکھا کہ فلاں شخص نے تم پر یہ فریاد کی ہے ۔ تمہیں میں خدا کی قسم دے تا ہوں کہ اگر تم نے وہ کام مجمع میں کیا ہے تومجمع میں بیٹھ کر اپنے سے قصاص لو ۔اوراگر تنہائی میں کیا ہے توتنہائی میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ وہ حکم نامہ پڑھتے ہی قصا ص کے لئے بیٹھ گئے جب اوس شخص نے دیکھ لیا کہ حکم کی تعمیل کو مستعد ہوگئے ہیں اوس وقت اوس نے کہا میں نے آپ کا قصور معاف کر دیا ۔
دیکھئے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ صوبہ بصرہ کے حاکم اور وہاں کی فوج کے افسر اعلیٰ تھے۔ ایک ادنیٰ سپاہی جو معاملہ کیا تھا اوس کا انتقام یہ ہو رہا ہے کہ وہ سپاہی اون کو بیس ۲۰ کوڑے مارنے اور سرمنڈ ھنے کے لئے کھڑا ہے ۔ اورآپ مجمع عام میں او سکے روبرو سرد ئیے بیٹھے ہیں ۔ اور مجال نہیں کہ چوں وچرا کرسکیں ۔ آخر اوسی نے منت رکھ کر معاف کر دیا ۔یہ عمر رضی اللہ عنہ کی حکومت تھی ۔ غائبا نہ صدہا کو س پر با اقتدار حکام آپ کے حکم کے مقابلہ میں دم نہیں مارسکتے تھے ۔
ہیبت حق است ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
کیو ں نہ ہو یہ آپ کے صدق اور سچی اتباع کا اثر تھا ۔ جس نے خویش و بیگا نہ کو آپ کی نظر میں ایک بناد یا تھا ۔
کنز العمال ص ۳۵۵ کی کتاب الفضائل میں اسلم رح سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر ابن عاص ؓ سے سنا ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعدکسی کو میں نے نہیں دیکھا جو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے زیادہ خوف خدا رکھتا ہو ۔ اون کی یہ حالت تھی کہ حقوق کے معاملہ میں نہ بیٹے کی رعایت کر تے نہ باپ کی ۔پھر عمر بن عاص نے خدا کی قسم کھا کر یہ واقعہ بیان کیا کہ میں جب حاکم مصر تھا ایک روز مجھے ایک شخص نے خبر دی کہ عبد اللہ اور عبدالرحمن عمر رضی اللہ عنہ کے صاحبزاردے یہاں آئے ہوئے ہیں میںنے کہا کہاں ٹھیرے ہیں کہا فلاں مقام میں جو مصر کی انتہائی آبادی میں ہے ۔چونکہ اس سے پہلے مجھے عمر رضی اللہ عنہ نے لکھ دیا تھا کہ اگر وہاں میرے اہل بیت سے کوئی آئیں اور تم اون کے ساتھ کوئی خصوصیت کا بر تائو کریں جو اوروں کے ساتھ نہیں کرتے تویاد رکھنا کہ میںتمہیں وہ سزار دونگا جس کے تم لائق سمجھے جا ئو گے اس وجہ سے میں اون کے پاس نہ کچھ ہدیہ بھیج سکا نہ ملاقات کی ۔ ایک روز میں مکان میں بیٹھا تھا کہ آدمی نے کہا کہ عبد الرحمن بن عمر اور ابوسر وعہ دروازہ پر کھڑے ہیں ۔ اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔میں نے اجازت دی ۔ دیکھا کہ دونوں نہایت شکستہ حال او رپریشاں بال ہیں۔ آتے ہی اون دونوں نے کہا کہ ہم پر حد شرب جاری کیجئے کیونکہ ہم نے رات میں شراب پی جس سے نشہ بھی ہوگیا تھا ۔ میں نے دونوں کو جھڑک کر کہا چلو یہاں سے نکل جائو ۔ عبد الرحمن نے کہا کہ اگرآپ حدجاری نہ کروگے تو میں اپنے والد سے کہہ دونگا میں نے سوچا کہ اگر عمررضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ہوگئی تووہ ضرور مجھے معزول کردیں گے ۔ ہم اس حیص و بیص میں تھے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ آئے میں اونکی تعظیم کے لئے کھڑا ہوا صد مجلس میں بٹھا نا چاہا ۔ اونہوں نے کہا کہ والد نے مجھے تقید کی ہے کہ جب تک اشد ضرورت نہ ہو آپ کے پاس نہ جائوں ۔ چونکہ اس وقت مجھے شد ضرورت پیش آئی ہے اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ میرے بھائی عبدالرحمن کو جس طرح چا ہیں حد ما ریں مگر لوگوں کے روبرو اون کا سرنہ منڈ ائیں (اوس زمانے میں حد شرب کے بعد سیاستہً سر بھی منڈ ایا جا تا تھا )وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے گھر کے صحن میں اون پر حد جاری کئے او رعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کو ایک حجرہ میں لیجا کر سر مونڈ ا ۔ بخدا میں نے اس واقعہ کا ایک حرف بھی عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں لکھا مگراون کا فرمان پہونچا جس میں لکھا تھا اے ابن العاص مجھے تم سے تعجب ہے جو تم نے مجھ پر جرأت کی او رخلاف عہد کیا ۔تم جانتے ہو کہ میں نے تمہارے مقابلہ میں اصحاب بدجو تم سے بہترہیں اون سے مخالف کی اور تمہیں وہاں کا حاکم بنایا۔ اس خیال سے کہ تم میرے عہد پر قائم رہو گے اور میرا حکم جاری کرو گے مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم بھی ملوث ہوگئے ۔اب میری رائے اسی پر قرارپائی ہے کہ تمہیں معزول کردوں ۔اس وجہ سے کہ تم نے عبد الرحمن کو اپنے گھر میں لے جا کر حد ماری ۔ اوراپنے گھر میں اون کا سر منڈ ا۔ عبد الرحمن تمہارے رعایا میں سے ایک شخص تھا ۔ تمہیں چاہئے تھا کہ جس طرح تمام مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کیا کرتے تھے اوس کے ساتھ بھی کرتے ۔ مگر تم نے خیال کیا کہ وہ امیر المومنین کا لڑکا ہے ۔ تمہیں معلوم ہے کہ حقوق اللہ کے معاملہ میں میں کسی کی رعایت پسند نہیں کرتا ۔ اب یہ خط پہونچتے ہی تم عبدا لرحمن کو صرف ایک عباد ے کر اونٹ کی پیٹھ پراس طرح کہ اوس پر کجا وہ بھی نہ ہو سوار کرے میرے پاس روانہ کر دو تا کہ وہ اپنے کئے کی سزا بھگتے ۔وہ کہتے ہیں کہ میںنے اونھیں اوسی طرح روانہ کردیا ۔ اور عبد الرحمن بن عمر کو وہ خط دکھا یا ۔اور جواب میں لکھا کہ حدود عام طورپر میں اپنے مکان کے صحن میں ہی مارا کرتا ہوں ۔اس میں اونکی کوئی خصوصیت نہ تھی ۔ راوی کہتے ہیں کہ جب عبد الرحمن عمررضی اللہ عنہ کے روبرو آئے اس حالت میں کہ اون پر صرف ایک عبا تھا اور سواری کی تکلیف کی وجہ سے چل نہیں سکتے تھے عمر رضی اللہ عنہ نے آتے ہی اون کو مارنا شروع کیا ۔ ہر چند عبدرالرحمن بن عوف نے بہت کچھ کہا کہ امیرالومنین ایک بار حدلون پر جاری ہوچکی ہے دوبارہ یہ حد مارکر نا کیسا ؟ مگر کچھ التقات نہ کیا اور عبدالرحمن چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ حضرت میں بیمار ہو ںکیا آپ مجھے قتل ہی کر ڈالو گے ۔ مگر آپ نے کچھ توجہ نہ کی اور پوری حد مارنے قید کر دیا ۔اس کے بعدوہ بیمار ہوئے اور انتقال ہو گیا ۔ انا للہ وانا الیہ را جعون ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ تو صحیح ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عبد الرحمن کو دبارہ حد ماری اور قید کردیا ۔ مگر یہ جولوگوں کا خیال ہے کہ عمررضی اللہ عنہ کے دروںسے وہ مرے سو وہ غلط ہے ۔کیونکہ قید سے رہائی کے بعد ایک مہینہ تندرت رہے اوس کے بعددوسری بیماری سے اون کا انتقال ہوا ۔ انتہیٰ ۔ بہر حال عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے فرزند پر ضرورت سے زیادہ سختی ضرور کی مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اون کو مہر پدری نہ تھی ؟ کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ دوبارہ حد مارنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اگر عقل معادسے سے دیکھا جائے تو معلو م ہوگا کہ کمال مہر پدری سے یہ کا م کیا گیا ۔اس واسطے حق تعالیٰ فرماتا ہے یا ایہا الذین امنو ا قو انفسکم واھلیکم نارا یعنی اے مسلمانواپنی ذاتوں کو اوراپنی اہل کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ معمولی حد حرکات نا شائستہ سے روک نہیں سکتی ۔ اسی وجہ سے رات کو وہ شراب پی کر صبح ہی بطوع ورغبت ازخود حد جاری کر انے چلے گئے ۔ جب اون کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ اس قسم کے ناجائز حرکات صادر ہوجائیں توایسی سخت سزائیں بھگتنی پڑیں گی توممکن نہیں کہ شہوات نفسانیہ اس خوف کے مقابلہ اون پرغلبہ کریں ۔ غرض کہ آپ نے دیکھا کہ اپنے اہل کو دوزخ سے بچا نے کا کوئی طریقہ اس سختی سے بہترنہیں ۔اس لئے مکر رسخت سزادی اب کہئے کہ اون کی یہ خیر خواہی تھی یا بد خواہی ۔اس سے یہ بات بھی بشرط نعمقِ نظر ثابت ہو سکتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عموماً جو سختی کا اصول اختیار فرمایا تھا ۔اوس میں سب کی خیر خواہی ملحوظ تھی ۔ چنانچہ تمام ملک میں امن و امان قائم ہوگیا ۔ کہ کوئی کسی پر ظلم و تعدی نہیں کر سکتا تھا جس سے مظلوم دنیوی صائب سے بچے اور ظالم خروی عذابوں سے محفوظ رہے ۔
بعدل اربگیرد و داد آوری
وگرنا یداز سروران خود سری
بہ آسائش وامن خلق خدا
کند حاصل از زندگی نفعہا
صرف اس سے ظلم کا انسدادنہ ہوا ۔بلکہ ہر شخص پر آپ کی ایسی ہیبت طاری تھی جو ہر قسم کے ممنوعات مکروہات سے بچانے کا اعلیٰ درجہ کا ذریعہ تھا ۔ چنانچہ ناسخ التواریخ ص ۲۱۸ جلد دوم میں لکھا ہے کہ عرب میں یہ ضرب المثل مشہور ہوگئی تھی درۃ عمر اھیب من سیف الحجاج یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا درہ حجاج کی تلوار سے بھی زیادہ ہیبت دار ہے ۔
ہر چند بعضے لوگ عمررضی اللہ پر یہ الزام لگا تے ہیں کہ وہ فظ غلیظ القلب تھے مگر بنظر انصاف دیکھا جا ئے تو یہ الزام اون پر عائد نہیں ہوسکتا ۔اس لئے کہ اگر یہ ان کی طبعی صفت ہوتی توہر موقع میں اوس کا ظہور برابر ہوتا ۔ حالانکہ متعد دروائیوں سے ثابت ہے کہ حق بات کے مقابلہ میں وہ معترف قصور اور نادم ہوجا تے تھے ۔ جس سے ظاہر ہے کہ شریعت کا غلبہ آپ پر ا کہ نفسانیت ام کو نہ تھی اور دوست دشمن یکساں تھے ۔ نہ بیٹے پر رحم تھا نہ دشمن پر سب اگر غضب ہے تو خدا کے لئے اور رحم ہے تو خدا کے لئے آپ کی یہ حالت تھی ۔
تا زفیضش بہ رہ عشق فدم بنبا دم
رفتم از خویش دز فرزند و پد رآزادم
یہی وجہ تھی کہ علی کرم اللہ وجہہ آپ کے مداح تھے ۔چنانچہ ناسخ التواریخ ص ۵۱۲ جلد دوم میں لکھا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے عبد اللہ بن عامر کو جو حکومت دی ہے اوس پرلوگ اعتراض کرتے ہیں ۔ حالانکہ عمررضی اللہ عنہ نے بھی اس قسم کے لوگوں کو حکومت دی تھی آپ نے کہا عمر رضی اللہ عنہ نے جس کو امارت دی اگروہ خلاف عدل کوئی کا م کرتا تو اوس کو ضرور سزا دیتے ۔اور عذاب و عقوبت سے ہر گز معاف نہیں کر تے تھے اور آپ کا یہ حا ل ہے کہ اپنے قرابت داروں کی رعایت کرتے ہو ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ عمررضی اللہ عنہ نے معا ویہ رضی اللہ عنہ کو شام کی حکومت دی تھی ۔ علی کرم اللہ وجہ نے کہا اے عثمان !میںآپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ؟ کہ معا ویہ عمر رضی اللہ عنہ سے کیسا ڈرتے تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کا غلام یرفا اون سے جتنا ڈرتا تھا اوس سے بھی زیادہ معا ویہ اون سے ڈرتے تھے اور اب معا ویہ کا یہ حال ہے کہ جس پر چاہتے ہیں ظلم و زیادتی کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان ؓ کے حکم سے کیا ۔
ناسخ التواریخ ص ۳۴۷ جلد دوم میں لکھا ہے کہ جب ملک شام خالد بن ولید رضـی اللہ عنہ کو جاں بازیوں سے فتح ہوا اور لوگ اون کومبارکباد دینے لگے ۔ اور ہر طرف او ن کی شجاعت کے چرچے ہونے لگے ۔ عمررضی اللہ عنہ کو خیال پیدا ہوا کہ کہیں وہ ملک کے مالک نہ بن بیٹھیں ۔اورسابق سے بھی دلوں میں صفائی نہ تھی ۔ اس لئے قابو جو تھے کہ ذرا بھی موقع مل جائے تو اون کو معزول کردیں ۔ اس اثنا میں ایک شاعر نے اون کی مدح میں ایک قصیدہ لکھا۔اور انہوں نے او س کے صلہ میں دس ہزار درہم دئیے یہ کیفیت معلوم ہوتے ہی ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ تم اون کو قنرین سے جہاں کے وہ حاکم تھے اپنے پاس حمص میں طلب کرو ۔ اور ایک عام جلسہ کر کے اون کو کھڑے کر کے اظہار لو ۔ کہ یہ دس ہزار درہم جو شاعر کو دئیے گئے تم کہاں سے لائے۔اگرجواب دینے میں تا خیر کریں تو اونکی ٹوپی اتار لی جا ئے اور ان ہی کا عمامہ اون کے گلے میں ڈالکر ایک شخص اون کو پکڑ ا رہے ۔ اوس وقت تک اظہار دیں ۔ پھر اگر کہیں کہ وہ مال غنیمت کا تھا اون سے دس ہزار درہم وصول کر کے بہت المال میں داخل کردو ۔ اور اگر کہیں کہ اپنا ذاتی تھا تواون کا اسراف اون کے اعتراف سے ثابت ہوجائے گا ۔ جس کی نسبت حق تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ لا یحب المسرفین اوس وقت اون کو میرے پاس روانہ کر دو کہ انحراف کی سزا اونہیں دی جائے ۔یہ خط ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پہونچتے ہی انہوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو قنسرین سے طلب کیا ۔جب وہ آئے توتمام لشکر کی صف بندی کر کے اون کو کھڑا کیا اور پہلے عمررضی اللہ عنہ کا حکم نا مہ سنا یا۔ اوس کے بعد اون سے پوچھا کہ تم نے دس ہزار درہم جو شاعر کو دئیے وہ کہاں سے لائے خالدبن ولید رضی اللہ عنہ نے جواب میں تامل کیا ۔فوراً بلا ل رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر اون کے سر سے ٹوپی اتا رلی اور اونہیں کا عمامہ اونکے گلے میں ڈالکر یہ کہتے ہوئے کہیچنے لگے کہ جب تک تم جواب نہ دو گے تمہیں ہرگز نہ چھوڑونگا ۔خالد رضی اللہ عنہ اوسی حالت میں دیر تک ساکت کھڑے رہے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ نے کہا اے خالد کچھ توکہو خاموش کب تک ۔خالد رضی اللہ عنہ نے کہا وہ درہم میرے ذاتی تھے اوس وقت بلال رضی اللہ عنہ نے اون کو چھوڑ کر ٹوپی دے دی ۔ اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اون کو عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ طیبہ کو روانہ کر دیا جب وہ دار لخلافت میں پہونچے عمررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اے خالد !تم نے اتنا مال کہاں سے جمع کیا ۔ کہ ایک شخص کو ایک قصیدہ کے صلہ میں دس ہزار درہم دے دئیے ۔ کہا وہ مال حلال تھا جو آپنے قوت بازو اور زور شمشیر سے میںنے حاصل کیا تھا ۔ جس طرح دوسرے سپاہیوں نے بھی حاصل کیا ہے ۔عمر رضی اللہ عنہ نے کہا او ن کا کل مال تولا جائے چنانچہ اسی ہزار درہم نکلے فرمایا بیس ہزار درہم بیت المال میں داخل کر لئے جائیں او رباقی مال اون کو دے دیا ۔ اس پر لوگ بہت رنجیدہ ہوئے۔ اور کہا کہ یہ کام حسد سے کیا گیا ۔ کہ اون کے ہاتھ پر اتنے فتوحات ہوئے ۔ عمر رضی اللہ نے ایک روز خطبہ میں کہا ۔ اے لوگو !یہ خیال مت کرو کہ میں خالد پر خفا ہوں۔ اصل یہ ہے کہ جب فتوحات اون کے ہاتھ پر ہونے لگے لوگ اون پر شیفتہ ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ فتوحات صرف اون کی جواں مردی اور اون کی تدبیر سے ہوئے او رخدا سے لوگ بالکل غافل ہو گئے ۔ اس لئے میں نے خالد کو ذلیل کیا تاکہ لوگ خدائے تعالیٰ کو نہ بھولیں ۔اور نصرت اوسی سے طلب کریں انتہیٰ ۔
یہ واقعہ مولانا شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی از الۃ الخفا اور علامہ ابن اثیر رحمتہ اللہ علیہ نے تاریخ کامل میں لکھا ہے ۔مگرفرق اتنا ہے کہ مصنف ناسخ التواریخ نے اپنے اجتہاد سے اوس کی وجہ قائم کی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے حسد اور بغض سے یہ کام کیا اور عمررضی اللہ عنہ نے جو وجہ بیان کی اوس کو نظر انداز کر دیا۔ بہر حال اس میں شک نہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نہ ظاہراً یہ ایسی حرکت کی کہ کوئی عاقل نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ خالد رضی اللہ عنہ کی شجاعت غیرت حمیت جن کا حال سب جانتے ہیں ۔او رآئندہ اس رسالہ میںبھی کچھ لکھا جا ئے گا ۔ ہرگز اس کے متحمل نہیں ہوسکتی ۔کہ تمام فوج اسلام میں جواون کی ما تحتی میں کام کر چکی تھی اس قدر بے عزتی کی جائے وہ توخالد ابن ولید سیف اللہ تھے جن کی تلوار نے عراق و شام کا فیصلہ کر دیا تھا ۔کسی ادنی آدمی کا نفس بھی اس قسم کی ذلت گوارا نہیں کر سکتا ۔ عزت دارلوگ اپنی آبرو کے مقابلہ میں جان کی کچھ پرواہ نہیں کرتے۔ اور حدیث شریف سے بھی اون کو لڑنے اور جان دینے کی اجازت تھی ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے من قتل دون مالہ وعرضہ وھو شہید یعنی جوشخص اپنی آبرو کے لئے مارا جائے وہ شہید ہے ۔ اگر وہ بے عزتی قبول نہ کرکے دست بہ شمشیر ہو جا تے تو ابو عبید ہ اور بلال رضی اللہ عنہما کی مجال نہ تھی کہ اون کے مقابلہ میں حرکت کرسکتے ۔
پھر بہ فحوائے کلام صاحب ناسخ التواریخ سب مسلمان بھی آپ ہی کے طرف دار تھے ۔ جو کہتے تھے کہ یہ کام حسد سے کیا گیا ۔ پھر خودلشکر میں اون کے قبلہ کے لوگ اور دوست بہت سے موجود تھے ۔ جو اون کے ساتھ ایک ایک شخص ہزار ہزار کے مقابلہ میں جا تا تھا ۔
غرض کہ یہ کام ایسے فتنہ کا محرک تھا کہ مسلمان اوس سے تہلکہ میں پڑجا تے مگر سبحا ن اللہ با وجود اتنے اسباب کے ایک ضعیف القویٰ شخص بلال رضی اللہ عنہ نے سر مجلس ہزار ہا کے مجمع میں اونکی ٹوپی اوتار لی اور گلے میں رسی باند ھ کر سخت توہین کی اور ناشائستہ الفاظ کہے مگر کسی نے دم نہ مارا۔الفاروق میں مولوی شبلی صاحب نے لکھا ہے کہ اوس وقت خالد رضی اللہ عنہ نے یہ کہا کہ امیر المومنین عمررضی اللہ عنہ نے مجھ کو شام کا افسر مقرر کیا او ر جب میںنے تمام شام کو زیر کرلیا تو مجھ کو معزول کردیا ۔ اس فقرہ پر ایک سپاہی اوٹھ کھڑا ہوا اور کہا کہ اے سردار !چپ رہو ان با توں سے فتنہ پیدا ہوسکتا ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا ہا ںلیکن عمررضی اللہ عنہ کے ہوتے فتنہ کا کیا احتمال ہے یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ کس چیز نے خالد رضی اللہ عنہ کو اس موقع میں کوہ تمکین بنا دیا تھا کیونکہ سیف اللہ کی نسبت جبن کا تو احتمال ہی نہیں ہوسکتا ۔ معمولی عقلیں ہرگز اس کا واقعی سبب نہیں بتلا سکتیں ۔ کیونکہ وجدانیات سے وجدان جب تک آشنانہ ہونہیں معلوم ہوسکتیں ۔ اگر ہیز سے جماع کی لذت پو چھی جا ئے تو وہ ہرگز نہیں بتا سکتا ۔ بلکہ کہنے کے بعد بھی اوس کی تصدیق نہ کریگا ۔البتہ مرد بالغ اوس کی حقیقت جانتا ہے ۔اسی طرح جولوگ بالغ العقل ہیں او رعقل معادر کھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ خالدرضی اللہ عنہ کے دل پراوس وقت کس چیز کا اثر اور استیلا تھا جس نے شجاعت اور حمیت کو حرکت کرنے سے روک دیا ۔سب سے قوی اور بڑا سبب ایمان اور خدا ورسول کے حکم کی اطاعت تھی ۔ کیونکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے واطیعو اللہ ورسولہ ولا تنا زعو ا فتفشلو ا وتذھب ریحکم واصبر وان اللہ مع الصابرین ۔یعنی خدا و رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا مت کرو ورنہ بزدل ہوجائو گے اور تمہاری ہوا جا تی رہے ۔ اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کر نے والوں کے ساتھ ہے ۔انتہیٰ ۔ خالد رضی اللہ عنہ اوس وقت اس آیت شریف کے مراقبہ میں مشغول تھے ۔اور خدا ئے تعالیٰ سے مددمانگ رہے تھے ۔کہ الٰہی اس موقع میں صبر عطا فرما۔ ایسا نہ ہوکہ بمقتضائے طبیعت و بشریت امیر المومنین کے حکم کے مقابلہ میں کوئی نا شائستہ حرک سرزد ہو جا ئے جس سے منازعت باہمی پیدا ہو ۔ اور اوس کا نتیجہ یہ ہو کہ مسلمانوں کی ہوا بگڑ جائے ۔ اور یہ کی کرائی محنت اکا رت جائے دیر تک جو سکوت تھا وہ آیتہ موصوفہ کا مراقبہ تھا ۔ مگرجولگ اس کو چہ کے نہیں وہ کیا جانیں اون کو تومراقبہ کے نام سے وحشت ہوگی اور فرماویں گے کہ یہ کیا لکھ دیا ۔خالد او رمراقبہ وہ تو مردمیداں تھے۔مراقبہ خانقا ہوں میں رہنے والے صوفیوں کا کام ہے فی الحقیقت یہ لفظ صوفیہ کے بول چال میں مستعمل ہے اور انہی کی اصطلاح ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہرقوم اور ہر علم و صنعت و حرفت میں خاص خاص اصطلا حیں ہوا کر تی ہیں۔ صوفیہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ افعال و اقوال و اعمال قلبیہ پر غور کر کے ہر ایک کے مقابلہ میں ایک ایک لفظ کو جو اوس معنی پر دال تھا خاص کر دیا ۔ تاکہ بول چال میں سہولت ہو اور فہم معنی میں غور و تامل کی ضرورت نہ ہو ۔ خالد رضی اللہ عنہ تو ایک جلیل القدر صحابی تھے ۔ہر مسلمان جو لکھا پڑھا اور قرآن و حدیث کو سمجھتا ہے خاص خاص موقع میں کسی نہ کسی آیت پرضرور غور کر تا ہے اسی کا نام مراقبہ ہے ۔غرض کہ کسی خاص مضمون پرآدمی پوری توجہ اور غور کر ے تو اوس کو اصطلاح صوفیہ میں مراقبہ کہتے ہیں ۔بشرطیکہ دین سے اوسکو لگا ئو ہو اب کہئے اگر خالدرضی اللہ عنہ نے مراقبہ کیا تو کونسی تعجب کی بات ہوئی اس قسم کے مراقبے تمام صحابہ کیا کرتے تھے ۔ جس کا حال ہم نے مقاصدالاسلام کے حصہ ٔ دومیں لکھا ہے ۔اگر تھوڑی تکلیف گوارا کر کے اوس کو مطالعہ فرما لیں تو یہاں کا مضمون آسانی سے سمجھ میں آجائے گا ۔ماحصل اوس کا یہ ہے کہ یہ حضرات ہمیشہ کسی نہ کسی مراقبہ میں رہا کر تے تھے ۔
درخلوت وجلوت زتو گفتیم و شنید یم
خالی ہوذ از تودمے انجمن ما
دوسرا سبب یہ تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہا تھ پر انہوں نے روحانی بیعت کر لی تھی کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے خالد رضی اللہ عنہ دارخلافت میں نہ تھے اس لئے انہیں مشافہتہً بیعت کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اور جب خلیفہ ٔ وقت کی خلا فت تسلیم کر لے گئی تو وہی حکماً بیعت ہوگئی بہر حال معنوی اور روحانی بیعت ہوچکی تھی اور بیعت سے پھر جا نا نہایت مذموم ہے ۔چنانچہ حق تعالیٰ فرما تا ہے ان الذین یبا یعونک اما یبا یعو ن اللہ ید اللہ فوق ایدیہم فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ ومن اوفی بما عاہد علیہ اللہ فسیؤ تیہ اجرا عظیما ۔یعنی جو لوگ تم سے بیعت کر تے ہیں ۔وہ تمہارے ہا تھ پر بیعت نہیں کرتے ۔بلکہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں ۔ اللہ کا ہا تھ اون کے ہاتھ پر ہے پھر جو کوئی بیعت توڑدے اوس نے اپنا نقصان کیا ۔ اورجس نے وہ معاہلہ پورا کیا جو خداکے ساتھ کیا تھا توہم اوس کو بڑا ہی اجر عنایت کر ینگے ۔ انتہیٰ ۔
عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص کسی چیز کو کسی کے ہاتھ بیچتا ہے توپہلے اوس چیز کی قیمت مقرر کی جا تی ۔ اوس کے بعد بیچنے والا کہتا ہے کہ میں نے اس قیمت پر اس چیز کو بیچا اور خرید کرنے والا کہتا ہے کہ میں نے اوس سے خرید لیا ۔ اوس کے بعد ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا ہے ۔ یہ علامت اس بات کی تھی کہ طرفین سے معا ہدہہوا ۔ اور یہ معاہدہ اور وعدہ مکمل ہو گیا ۔ اور طرفین سے کوئی وعدہ خلافی نہ کرے گا ۔ نہ بائع چیز دینے سے انکار کرے گا۔ نہ مشتری قیمت ادا کرنے سے ۔ یہ عام دستور تھا کہ جس وعدہ کو مستحکم کرنا منظور ہوتا تو ہاتھ میں ہاتھ ملاکر وہ وعدہ کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ اس حدیث شریف سے ظاہر ہے ۔عدۃ المومن کا خذ الکف یعنی مسلمان کا وعدہ ہاتھ میں ہا تھ ملا نے سے کم نہیں ۔ اس لئے بیع میں بھی طرقہ اختیار کیا گیا ۔ کہ طرفین سے جو وعدہ ٔ خرید و فروخت ہوا ہے وہ ضرور پورا کیا جائے گا اسی ہاتھ میں ہاتھ ملا نے کا نام بیعت ہے ۔چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے البیعۃ الصفقہ علی ایجاب البیع اور صفقہ کے معنی منتہی الارب میں لکھا ہے ایک بار دست زدن دربیع ۔غرض کہ لفظ بیعت عرب میںبیع و شریٰ کے موقع میں مستعمل تھا ۔ اوسی بناپر حق تعالیٰ بیعت اسلامی میں بھی یہی طریقہ اختیار فرمایا ۔ اس آیہ شریف سے صرف اسی قدر معلوم ہوا کہ مسلمان بیعت کیا کر تے تھے ۔ یعنی کسی چیز کو بیچتے۔ اور ہا تھ میں ملا کر اوس کو موکد کر تے تھے مگر یہ معلوم نہیں ہوا کہ موکد کون ہے ۔ اور مشتری کون اور کس چیز کو بیچے تھے سو اوس کا ذکر دوسری آیہ شریف میں ہے جو ارشاد ہے ۔ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسہم واموالہم بان الہم الجنہ یعنی خدانے مسلمانوں کی جان ومال کو جنت کے بدلے خرید لیا ۔انتہیـٰ ۔
اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان با ئع ہیں او رخدائے تعالیٰ مشتری او راون کی جان و مال بیع او رجنت قیمت ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام احکام الٰہی مسلمانوں کو پہونچا دیئے ۔اور یہ بھی معلوم کر ا دیا کہ اگر تم یہ سب کا م کروگے توخدا ئے تعالیٰ تمہیں جنت دے گا تومسلمانو ںنے بصدق دل اوس کو قبول کر لیا ۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری ذاتوں میں اور مالوں میں جوتصرف خدائے تعالیٰ نے کیا ہے کہ فلاں کام اپنے اعضاسے کرو۔اور فلاں مت کرو۔ او رمال فلاں امور میں خرچو اور فلاں میں مت خرچو سب ہمیں قبول ہے ہم یہ نہ کہیں گے کہ ہمارے مال میں یہ تصرف کیوں کیا جا تا ہے کہ اوس میں سے ایک حصہ خدا کی راہ میں دیں۔ یااسراف نہ کریں ۔ اورہمارے نفوس میں یہ تصرف کیوں کیا جا ت اہے کہ اپنی خواہشوں کو روکیں اور مثلاً حسد وبغض وغیرہ سے احتراز کریں۔غرض کہ حق تعالیٰ نے جتنے خواہشات وصفات آدمی میںپیدا کئے سب میں اپنا تصرف جاری فرمایا ۔مثلاً فلاں قسم کی بات کروفلاں قسم کی بات نہ کرو ۔اسی طرح دیکھنے سننے کھانے پینے وغیرہ امور طبعیہ میں ایک ایک حد مقرر کر دی ۔ اور حکم دیا کہ انہیں امور میں اون کو استعمال کریں جن کی اجازت ہے ۔اسی طرح کل خواہشوں سے متعلق احکام شرعیہ مقرر کئے او رنیز جتنے صفات پیداکئے مثلاً سخاوت ،شجاعت، دوستی ، دشمنی ، وغیرہ سب میں ایک ایک حد مقرر کر دی ۔ مثلا ً دوستی رکھو تو خدا کے واسطے اور دشمنی رکھو تو خدا کے واسطے ۔علی ٰ ہذاالقیاس کل امور طبعیہ کا حال یہی ہے کہ مطلق العتانی کے ساتھ مسلمان کوئی کان نہیں کر سکتا ۔ ہرکام میںجو طریقہ بتا یاگیا اوسی طریقہ پر وہ کام کرنا چاہئے ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب نہ اون کے نفوس اون کے ہیں نہ اون کے اموال ۔بلکہ وہ سب اون کے پاس امانت ہیں جس طرح امانتی چیزوں کو آدمی خود مختار ی سے اپنے خواہشوں میں استعمال نہیں کرسکتا انہی کاموں میں استعمال کرسکتا ہے جن کی اجازت مالک نے دی ہو اسی طرح مسلمان ہاتھوں سے مثلا کام لیں تووہی جن کی اجازت ہے ۔ پائوں سے کام لے کر کہیں جائیں تو وہیں جائیں جہاں جا نے کی اجازت ہے ۔آنکھوں سے کام لینا چاہیں تو وہیں چیزیں دیکھیں جن کے دیکھنے کی اجازت ہے ۔کانوں سے سننا چاہیں تو وہی باتیں سنیں جن کے سننے کی اجازت ہے ۔ خیال سے کام لینا چاہیں تو وہی خیال کریں جو منع نہیں ۔ جان دینا چاہیں تو اوسی موقع میں جہاں جان دینے کی اجازت ہے ۔
الحاصل ان احکامات کے مقرر کرنے سے ثابت ہوگیا کہ جان ومال سب خدا کی ملک ہیں ہمارے اختیار میں صرف بطور امانت دئے گئے ہیں نہ جان پر ہمارا خودمختار نہ تصرف رہانہ اعضاء پر نہ مال پر ۔جب ان باتوں کو مسلمانوں نے قبول کر لیا تو گویا یہ کہہ دیا کہ ہم نے اپنا جان و مال جنت کے معاوضہ میں خدا کے ہاتھ بیچ دیا ۔ اس کے جواب میں خدا ئے تعالیٰ فرماتا ہے ان اللہ اشتری من المؤ منین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ یعنی یعنی تم نے اگر جان و مال کو بیچ دیا تو ہم نے بھی بمعا وضہ جنت خرید لیا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان بائع ہیں ۔ اور خدائے تعالیٰ مشتری ۔اور جان و مال بیع ہیں اور جنت اون کی قیمت ۔جب یہ قرارطرفین سے ہوچکا توحسب عادت صفقہ اوربیعت یعنی ہاتھ میں ہاتھ ملانے کی ضرورت ہوئی تاکہ بیع و شراء پوری اور حتمی وعدہ ہوجائے ۔ اب مسلمان تواس صفقہ کے لئے ہاتھ بڑھا سکتے ہیں مگر خدا کی شان نہیں کہ اپنا ہاتھ اون کے ہاتھ پر رکھے ۔ اس لئے ارشاد ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کو ہمارا ہاتھ سمجھ لو ۔ اوراون کی بیعت کو ہماری بیعت چنانچہ ارشاد ہے ان الذین یبایعونک انما یبایعون اللہ یعنی اے نبی جو لوگ ظاہرًآپ کے ہاتھ میں ہاتھ ملا تے ہیں وہ آپ کا ہا تھ نہیں ہما را ہا تھ ہے ۔ید اللہ فوق ایدیہم کیونکہ پیشتری ہی سے بیع اور اوس کی قیمت کا تصفیہ ہو چکا ہے ۔اب اگرکوئی اس بیعت کو توڑ دے او راپنی جان ومال میں اپنی ذاتی خواہش اور خودمختار نہ تصرف کرنے لگے۔ اور یہ بھول جائے کہ وہ بطور امانت ہمارے پاس ہیں تو او سکا نقصان اوسی کو ہوگا کہ ہم بھی قیمت یعنی جنت نہ دیں گے ۔کما قال فمن نکث فانما ینکث علی نفسہ او رجوشخص اوس وعدہ کو جو ہاتھ میں ہا تھ دے کر کیا تھا جس سے تکمیل بیع ہوچکی تھی پورا کرے تو ہم اوس کو اجر عظیم دیں گے کما قال اللہ تعالی ومن اوفی بما عاھد علیہ فیؤ تیہ اجرا عظیما ۔
آیہ شریف موصوفہ سے معلوم ہو اکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ کے طرف سے بیعت کرنے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ ملا تے تھے ۔ اور آپ کا ہاتھ خدائے تعالیٰ کا ہا تھ سمجھا جا تا تھا ۔اور یہ مقصود تھا کہ خدائے تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ تم نے اپنے جان ومال کوخدا کے ہاتھ بیچ دیا تو خدا ئے تعالیٰ بھی اون کی قیمت ادا رکرے گا یعنی جنت دے گا ۔ ظاہر اً اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیعت خاص ہوگی کیونکہ یبایعو نک کا خطاب خاص حضرت سے ہے ۔ او ریہ تشریف کہ آپ کا ہا تھ خدائے تعالیٰ کا ہا تھ ہے حضرت ہی کے لئے زیبا ہے مگرجب خلفائے راشدین نے بھی بیعت لی ۔ اور او س سے بھی یہی مقصود تھا کہ اہل اسلام معا ہدہ پر قائم رہیں ۔ او رخدائے تعالیٰ کے طرف سے خلفائے کرام وعدہ کر کے اوس بیع وشراء کو مستحکم کریں تواس سے معلوم ہواکہ ید اللہ فوق ایدیہم بھی وہاں صادق ہے اس لئے کہ یہ بیع و شراء کوئی نئی نہیں ۔ بیع وہی جان ومال ہیں۔ اورقیمت وہی جنت کیونکہ ان حضرات کا مقصود اس بیعت سے یہی تھا کہ مسلمان خداورسول کی اطاعت کریں ۔پھر جب دنیا دار بادشاہ بھی بیعت لینے لگے اوراس سے او ن کا مقصود اسی قدر تھا کہ ہم کو مستقل بادشاہ مانو ۔ اور ہماری اطاعت کرو۔ خواہ موافق شریعت حکم دیں یا مخالف ورنہ ہم تمہیں قتل کر ڈالیں گے تویہ بیعت وہ نہ رہی ۔جس میں جان ومال کے معاوضہ میں جنت تھی ۔ اس وجہ سے یہاں ید اللہ فو ق ایدیہم صادق نہیں آسکتا چونکہ وہ بیعت جوسنت نبوی تھی اوس زمانہ میں قوت ہونے لگی توبزرگان دین نے اوس بیعت کا طریقہ جا ری کر دیا ۔اور اپنے مریدوں کو تلقین کی ۔کہ اپنی جان ومال خدا کے ہاتھ بیچ دو ۔یعنی احکام الٰہی کی تعمیل کرو تو تمہیں خدائے تعالیٰ جنت دے گا ۔ جب اون ہوںنے قبول کرکے بیعت کی یعنی ہاتھ میں ہا تھ ملا یا اور ان حضرات نے بھی خدا کی طرف سے ہا تھ میں ہا تھ ملا تو وہ اصلی بیعت پوری ہوگئی ۔ اب اگرکوئی بیعت کے وقت ان امور کا لحاظ نہ رکھے اوروہ غرض جس کے لئے بیعت موضوع تھی قوت ہو جائے تووہ بیعت بھی مثل بیعت سلا طین ہو جائے گی جس کو دین سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگرکوئی پیر جی اپنے مریدوں کو احکام شرع شریف ادا کرنے سے روکیں یا توجہ نہ دلا ئیں۔ اور یہ تلقین کریں کہ نماز روزہ حج و زکوۃ جو قرآن وحدیث دفقہ میں مذکو ر ہیں کوئی چیز نہیں بلکہ اون کا مطلب ہی کچھ او ر ہے۔ اور ظاہر شریعت بیکا رچیز ہے تو اس بیعت کو ہمارے بنی کریم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے کوئی علا قہ نہیں اس لئے مسلمانو ںکو مشا ئخین کے ہاتھ پر بیعت کر نے کے وقت یہ خیال کر نا ضرور ہے کہ ہم نے اپنی جان ومال کو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ میں بیچ دیا ہے ۔ او رہرصاحب بھی یہی تعلیم و تلقین کریں کہ اب تمہیں ضرور ہے کہ ہر کام میں اپنی خواہشوں کو چھوڑ کر خداورسول کی مرضی کے مطابق کا م کیا کرو۔
روض الریا حین میں امام یا فعی ؒ نے لکھا ہے کہ عبدالواحد ابن زید ؒ کہتے ہیں کہ ہم ایک روز اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے تیاری جہاد میں مشغول تھے ایک شخص نے یہ آیت پڑھی ۔ ان اللہ اشتری من المؤمنین انفسہم واموالہم بان الہم الجنۃ ایک جوان لڑکا جس کی عمر۱۵ سال کی ہوگی اوٹھا اور کہا اے عبدالواحد کیا اللہ تعالیٰ نے ہماری جان ومال کو جنت کے عوض میں خرید لیا ۔میں نے کہا ہاں ۔کہا میںآپ کو گواہ رکھتا ہوں کہ میںنے اپنی جان ومال کو جنت کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دیا۔میں نے کہا تلوار کی دھار بہت سخت ہوتی ہے۔ اور تم لڑکے ہو شاید صبرنہ کر سکو گے کہا کیا اب میں اس بیع کو چھوڑ سکتا ہوں ۔یہ ہرگز نہ ہوگا ۔ غرض کہ اوس لڑکے نے تمام مال جو اوسکی میراث میں ملا تھا خیرات کرکے آمادۂ سفر ہوگیا ۔جس روز ہم جہاد کے لئے نکلے وہ بھی گھوڑے پر سوار او رمسلح ہوکر ہمارے ساتھ ہو لیا ۔ راستہ میں او س کی یہ حالت تھی کہ دن کو روزہ رکھتا اور رات کو نماز پڑھتا او رہماری حفاظت بھی کرتا ۔جب ہم دار الروم میں پہونچے ۔اور دشمن کا لشکر نمودار ہوا ۔ اوس لڑکے نے لشکر کفار پر حملہ کر کے نو آدمیوں کو قتل کیا ۔ او رخود بھی شہید ہو گیا ۔ حالت نزع میں جب ہم او سکے نزدیک پہونچے تودیکھا کہ مارے خوشی کے اوس کے ہنسی تھم نہیں سکتی تھی ۔چنانچہ اوسی حالت میں او س کا انتقال ہوگیا اناللہ وانا الیہ را جعون سچی بیعت یہ تھی جس طرح صحابہ اپنی جان و مال سے اپنا تصرف او ٹھالے تے تھے ان بزرگوار نے بھی ایسا ہی کیا بیعت یعنی بک جانا اور اوس کے لوازم پورے کرنا ایک سخت کام ہے او راگر لوازم پورے نہ کئے جا ئیں یعنی اپنی خواہشوں کے مطابق کا م کرنے لگیں تو بیعت ٹوٹ جائے گی اولیاء اللہ کو درجہ ولایت و تقر ب الٰہی اس وجہ سے حاصل ہوا او رہوتا ہے کہ بیعت کو اونھوں نے پوری کی۔ او رکرتے رہتے ہیں ۔ الحاصل خالد رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ پیر کامل یعنی خلیفہ وجا نشین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ جب بیعت کی وہ خدا کے ہاتھ پر بیعت ہوچکی ۔اس کے بعداگر حمیت اور غیرت شجاعت وغیرہ سے اپنے نفسانی خواہش کے مطابق کا م لیا جائے توہ بیعت توٹ جا تی ہے اور جب بیعت ٹوٹ گئی توقیمت یعنی جنت کا استحقاق باقی نہیں رہتا ۔ اور عمر بھر کی جا نفشا نیاں اکارت جا تی ہیں۔ اس لئے اس ذلت پر صبر کر نا ان پرآسان ہوگیا ورنہ ممکن نہیں کہ فاتح عراق و شام ہزاروں ہم چشموں کے مجمع میں کھڑے رہکر اظہار دیں ۔اور ایک ضعیف آدمی ان کے گلے میں رسی ڈالکر کہینچے ۔اور ٹوپی سر سے اتار لے اور وہ دم نہ ماریں یہ صرف اسلام کی برکات ہیں جو نفسانی خواہشوں کو پا مال کر کے مہذب بنا دے تا ہے ۔یہاں ایک بات او رمعلوم ہو ئی کہ حق تعالیٰ نے جو صحابہ کے حالات کی خبر دی ہے والذین معہ اشداہ علی الکفار رحماء بینہم یعنی صحابہ کا فروں پر سخت ہیں او رآپس میں رحم دل۔ اس سے اس کیفیت کا مشاہدہ بھی ہوگیا ۔عمر رضی اللہ عنہ نے جو اسراف کی سزادی بہ بھی بجا تھی کیو نکہ ان کویہ کہنے کی مجال ہی نہ تھی کہ ہم اپنے مال کے مختار ہیں اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ وہ اب اپنا مال رہا ہی نہیں ۔ وہ توجنت کے معا وضہ میں بک گیا ۔ جس کو خدا کے جانب سے خلیفہ ٔ برحق نے مول لے لیا اسی وجہ سے اونھوں نے قبول بھی کرلیا ۔اس سے ظاہر ہے کہ پیر کامل کو اپنے مرید کے مال میں تصرف کرنے کا حق ہے جیسا کہ بعضے اولیاء اللہ سے مروی ہے ۔مگر یہ نہیں کہ خودغرضی سے تصرف کرے ۔اسی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا مال بیت المال میں داخل کر دیا جس سے عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی ذاتی فائدہ مقصود نہ تھا ۔
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو اس ذلت کی حالت میں کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے ہوتے فتنہ کا کیا احتمال ہے ۔اس سے عقلاً اندازہ کر سکتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کا انتظام پوری سلطنت میں کس قد رہوگا ۔کیونکہ یہ اس وقت کہہ رہے ہیں کہ فتنہ پیدا ہونے کا ظن غالب ہوگیا تھا ۔ کیونکہ ایسے شخص کو ذلیل کرنا جس کو موافق و مخالف نے بڑے بڑے سلطنت کا فاتح تسلیم کر لیا تھا ۔ اور اس مقام میں کہہ رہے ہیں جو مدینۂ منورہ سے صدہا کو س پر واقع ہے۔یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ کو کیونکر معلوم ہوا کہ عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں فتنہ کا احتمال نہیں ۔ حالانکہ ناسخ التواریخ سے معلوم ہو تا ہے کہ عمررضی اللہ عنہ کو لوگ فظ غلیظ القلب کہتے تھے او روہ عام ناراضی کا سبب ہوتا ہے جس کاثبوت خود قرآ ن شریف سے ملتا ہے کہ حق تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فرمایا ولوکنت فظا غلیظا القلب لا نفضوامن حولک یعنی اگر آپ سخت گواور سخت دل ہوتے تولوگ آپ کے پاس سے بھاگ جاتے ۔ پھرآپ کے کام بھی ایسے ہوتے تھے جو دل شکنی کے اسباب ہیں ۔ چنانچہ واقعات مذکورہ سے ظاہر ہے ۔پھرخالد رضی اللہ عنہ نے جو کہا اسی کے موافق ظہور میں بھی آیا ۔ اس لئے آپ کے پورے زمانۂ خلافت میں کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوا ۔ حالانکہ آپ کے زمانہ میں کل وہ بہا در ان اسلام موجود تھے ۔ جنہوں نے عرب عراق شام مصر وغیرہ کو فتح کیا ۔ اور بعد کی خلافتوں میں ان میں کے اکثر حضرات معرکوں میں شہید ہوگئے ۔ اور بعضے انتقال کرگئے ۔ با وجود اس کے ان خلا فتوں میں بہت سے فتنے پیداہوئے ۔ ان تمام امو رپر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے یہ خیال کیا کہ اپنا دل جس میں خوف وہرا س کا گذر ہی نہیں ۔عمر رضی اللہ عنہ کے نام سے گھبرا تا ہے اورہیبت و رعب اس قدر طاری ہو تا ہے کہ بات کر نی مشکل ہو جا تی ہے تواس سے وہ سمجھ گئے کہ اس میں عمررضی اللہ عنہ کے فعل کو کوئی دخل نہیں ۔ یہ صرف ہیبت حق ہے ۔
ہیبت حق است ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
اس پرانہو ںنے قیاس کیا کہ آپ کے خلافت میں ممکن نہیں کہ کوئی فتنہ برداز سراوٹھا سکے ۔ یہ بات تو قرآن شریف سے بھی ثابت ہے جو حق تعالیٰ فرماتا ہے ومارمیت اذرمیت ولٰکن اللہ رمیٰیعنی جب اے نبی تم نے بدر کی لڑائی میں ایک مٹھی کنکریاں کفار پر پھینک ماریں وہ تم نے نہیں پھینکا ۔ اللہ نے پھینکا ۔ ہر چند کنکریوں کو پھیکنا یقینا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل تھا ۔مگر حق تعالیٰ وہ فعل اپنے طرف منسوب فرماتا ہے اوراس کی تصدیق بھی اس طرح ہوگئی کہ ایک مٹھی کنکریاں تمام لشکر کفارکے آنکھوں میں لگیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل برائے نام تھا ۔ دراصل وہ فعل الٰہی تھا ۔ اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ کے افعال ہی سمجھے جا تے تھے ۔کیونکہ با وجود اس تذلیل و توہین کے شجا عان عرب میں سے کسی نے آنکھ اوٹھا کر نہیں دیکھا کیا وہ تا ثیر بندوں کے فعل میں ہوسکتی ہے ۔یہ اللہ کے ہی فعل کی شان ہے ۔کہ سب کو مقہور اور مسخر بنا دے کیوں نہ ہو عمررضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ٔ جانشین او رظل اللہ تھے ۔ اسی وجہ سے ان کو اس قسم کے حکم کر نے میں تا مل نہیں ہوتا تھا ۔
نائب حق آں عمر ؓ قال وقیل
کا رپیغمبر کندبے جبرئیل
اس وقت وہ مغلوب الحال ہوجا تے تھے ۔چونکہ یہ امور اسرار الٰہی ہیں ۔ اولیاء اللہ کی کتابو ں میں ان کا مفصل حال بیان ہو سکتا ہے ۔ہمیں یہاں اسی قدر بتلا نا منظور ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی وہ ہیبت تمام مسلمان وکفار کے دلوں میں تھی جس کا منشا ایک غیر معمولی قوت تھی ۔
ناسخ التواریخ کے جلد دوم ص ۳۹۱ میں لکھا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کسی نے خبر دی کہ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ نے بے حساب مال جمع کر لیا ہے آپ نے ان کو خط لکھا کہ اتنا مال تمہا رے پاس کہاں سے آگیا ۔ انہو ںنے لکھا کہ ایسے ملکوں میں ہم نے جہاد کیا جہاں بے انتہا نعمتیں تھیں ۔ ان کو فتح کر کے غنیمتیں حاصل کیں ۔ یہ مال غنیمت ہے مال خیانت نہیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان باتوں سے مجھے کوئی کام نہیں ۔ محمد بن سلمہ کو میں ین بھیجا ہے جتنا تمہارا مال ہے اس کا آدھا بیت المال میں داخل کر دو انہوں نے آدھا مال داخل کر دیا انتہیٰ ۔ اگرچہ صاحب ناسخ التواریخ نے لکھا ہے کہ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ نے مال داخل تو کر دیا مگر عمر رضی اللہ عنہ پر محمد بن سلمہ کے روبرو بہت کچھ لعن وطعن کیا ۔
قرائن سے یہ بات قرین قیاس نہیں معلوم ہوتی ۔ اس لئے کہ مال جان سے زیادہ عزیز نہیںہوا کرتا ۔ عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ کی یہ حالت تھی کہ عمررضی اللہ عنہ کے کہنے پر ایسے مواقع مہلکہ میں داخل ہوجا تے تھے کہ ان کے خطر جاں ہونے میںذرا بھی شک نہیں ہوسکتا جیسا کہ شام ومصر کے معرکوں سے واضع ہے ۔اور اس پر بھی لعن وطعن نہیں کیا ۔ پھر یہ کیونکر خیال کیا جائے کہ آدھا مال داخل بیت المال کرنے پر اونہوں نے لعن وطعن کیا ہوگا ۔ اس میں شک نہیں کہ مال جانے کا صدمہ آدمی پر ہوتا ہے مگر جب صدہا نظیر یں ہمارے روبرو ہیں کہ صحابہ کی حالت ہی جدا تھی ان کی عقلیں ہی دوسری قسم کی ہوگئی تھیں ۔ جن کا سمجھنا ہماری عقلوں سے دشوار ہے تواب ہم اپنے حالات پران کے حالات کو کیونکر قیاس کر سکیں جس طرح اونہوں نے اپنی جان کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا تھا اسی طرح اگر مال کو بھی ایک قسم کا وقف کر دیا ہو تو کیا تعجب ۔عمر وبن عاص جانتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ مال خود بھی نہیں لیا بلکہ بیت المال میں داخل کرنے کو کہا اور جب بیت المال اسلام کی تا ئئید کے لئے مقرر ہے ت وکیا تعجب کہ وہ نہایت خوشی سے دئے ہوں ۔ کیونکہ تائید اسلام توان حضرات کی فطرت میں داخل ہو گئی تھی ۔ اس وجہ سے عمررضی اللہ عنہ نے بھی جرأت سے حکم دے دیا کہ آدھا مال بیت المال میں داخل کر دو ۔ ورنہ قاعدہ شرعی یا عقلی کے رو سے ان پر جبر ہو نہیں سکتا تھا ۔ عمر رضی اللہ عنہ ایک صوفی شخص تھے ۔ ان کے نزدیک مال کی کوئی وقعت نہ تھی ۔ چنانچہ ناسخ التواریخ جلدد وم ۴۰۹ میں لکھا ہے کہ جب نہا وند فتح ہوا تو ایک شخص سائب رضی اللہ عنہ کے پا س آکر پوچھا ۔کیا آپ بادشاہ عرب کی طرف سے غنیمتوں پر مقرر ہیں۔ کہا ہاں کہا اگر آپ مجھے اور میرے اہل وعیال او رقیبلے کو امن دے تے ہوتو گنج بجیر جان آ پ کو بتا تا ہوں ۔آپ نے کہا میں کیا جا نوں ا س خزانہ میں اس قدر روپیہ ہے یا نہیں ۔ کہ اس کے معا وضہ میں ایک قبیلے کو امن دیا جا ئے اس نے واقعہ بیا ن کیا کہ( یزد جرد )بادشاہ عجم (بجیرجان) کی عورت پر عاشق ہوا جو اس کا وزیر تھا۔ او رنہایت یبش بہا جو اہر بہت سا مال اپنی معشوقہ کے معا وضہ میں دے کربجیر جان سے او س کو طلا ق دلوا ئی ۔ بجیرجان اس لڑائی میں ما را گیا ۔اب وہ خزانہ جہاں مخزوں ہے میں جانتا ہوں بشرط امن آپ کو میں دکھلا تا ہوں ۔سائب رضی اللہ اس کو اور اوس کے لوگوں کو امن دے کر تن تنہا اس کے ہمرا ہ اس خزانہ پر گئے اور اس کو نکال کر چھپا رکھا جب عنائم تقسیم ہوئے تو خمس غنیمت لے کر عمررضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئے جب آپ نے مسجد میں جاکر کل مال غنیمت تقسیم کر دیا ۔اس وقت سائب رضی اللہ عنہ نے عمررضی اللہ عنہ کے کان میں اس کی حقیقت بیان کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اسی وقت جو اہر کا صندوق منگوا کر حضرت علی ،عثمان ،طلحہ ، اور زبیر رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ اپنی مہر یں اس پر کر دو ۔ او رسائب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ واپس جائو۔ اور بصرہ یا کوفہ میں جہاں لشکر ہو یہ جو اہر بیچ کر اس کی قیمت اہل لشکر کو تقسیم کر دو ۔ پھران سے کہا اے سائب تمہیں ایسی کیا ضرورت تھی کہ مجھے دوزخ میں ڈالنے کی فکر کی ۔غرض وہ جواہر بیچ کر اس کی قیمت لشکر میں تقسیم کی گئی ۔ با وجود یہ کہ آدھی قیمت پر وہ بکے ۔ جب بھی ہر سوار کے حصہ میں چارہزار درہم آئے ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے ان جواہر کا حال نہ اہل لشکر کو معلوم تھا نہ او رکسی کو ۔سائب رضی اللہ عنہ نے اس رازِ سر بستہ کو صرف عمررضی اللہ عنہ کے کان میں کہا تھا ۔ مگر آپ نے اسکا خیال تک آنے نہ دیا ۔ کہ ایا کسی حیلۂ شرعی سے اپنے تصرف میں اوسے لا سکتے ہیں یا نہیں اور کم سے کم بیت المال یعنی خزانہ شاہی میں داخل کیا جا ئے تو کیا نقصان ہے کیونکہ مسلمانوں کو وہ غنیمت میں تو ملا ہی نہ تھا بلکہ یہ سنتے ہی فوراً واپس کر دیا ۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ عمررضی اللہ عنہ کے نزدیک مال کی کیا وقعت تھی ۔غرضکہ ان حضرات کی حالت ہی نرالی تھی ۔اس وجہ سے نہ اس حکم کی حقیقت معلوم ہو سکتی ہے جو عمر رضی اللہ عنہ کے آدھا مال دینے کو لکھا ۔ اور نہ عمر وبن عاص کے قبول کر نے کی اصلی وجہ معلوم ہوسکتی ہے ۔ایسے موقع میں اپنے طبیعتوں پر ان کی طبیعتوں کو قیاس کرنا بے موقع ہوگا ۔ شعر
زہر زن زنست ونہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد
تا ریخ و اقدی او رناسخ التواریخ کی صفحہ ۱۶۵ جلد دوم میں لکھا ہے کہ جب مکہ معظمہ وغیرہ سے لوگ آمادہ ٔ جہا دہوکر آئے توابوبکر رضی اللہ عنہ نے سعد بن خالد کی درخواست پر ان کو نشان دیا ۔اور دوہزار لشکر کی سپہ سالا ری دی ۔عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے خلیفۂ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ سعد کو ایسے لوگو ں کا افسر بنا تے ہو جو ان سے افضل ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے پر ان سے نشان واپس منگواکر عمر وبن عاص کودیا اور افسر بنا یا سعدنے کہا مجھے اس کی کچھ پروانہیں ۔ خدا کی قسم جس جنگ میں میں لڑونگا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نشان کے تلے لڑ ونگا۔کیونکہ میں نے اپنے نفس کو خداکی راہ میں وقف کر دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے والد کو بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے معزول کر دیا تھا ۔ اس کا بھی ان کو رنج تھا ۔مگر با وجود یہ کہ رنج پر رنج ان کو ہوتا گیا ۔ او رشکستہ خاطر تھے ۔ اگر جہاد میں نہ جا کر واپس ہوجا تے تو ان پو کوئی مواخدہ نہ تھا کیونکہ وہ نوکر نہ تھے اپنی خوشی سے آئے تھے ۔مگر بات یہ ہے وہ عاشق جاں باز تھے ۔ ان کو ذلتوں کی کیا پروا ۔شعر
او لیں گا م است پیشں عا شقاں وراہِ عشق
در گز شتن از سر وناموس و ننگ وجان و مال
ان کو اپنے محبوب حقیقی کے وصال کی غرض سے صرف جان دینے کی ضرورت تھی نہ سر داری سے مطلب نہ نام آوری سے کام ۔شعر
سرباخت کسے کہ دررہِ عشق
سرداری از وعجوبہ کاریست
نا سخ التواریخ و فتوح الشام میں لکھا ہے کہ یو قنا بطر یق جو شجاعت میں بے نظیر تھا قلعۂ حلب میں پناہ گزیں تھا ۔ رات کو مسلمانوں پر شب خون مارا اور دن کو قلعہ کا در وازہ بند کردیتا ۔ مسلمان اون کے ہا تھ سے تنگ آگئے تھے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے لشکر سے نامی و گرامی تیس ۳۰ شخص کا انتخاب کیا جن کی شجاعت و تبرجہ کا ری تمام لشکر اسلام میں مسلم تھی ۔ او راون پر دامس رحمتہ اللہ علیہ کو افسر بنا یا ۔یہ شخص قبیلۂ بنی کندہ میں کسی کا غلام تھا اس لئے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اون حضرات سے معذرت کی ۔ اونہوں نے کہا وہ تو مسلمان ہیں ۔اگر آپ کسی کا فر کو ہمارا افسر بنا دیں توبھی ہمیں کوئی عذر نہیں ۔ دامس رحمتہ اللہ علیہ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ قلعہ کے اطراف اس غرض سے چکر لگا ئے کہ کہیں سے اندر جانے کی راہ ملے ۔ مگر نہ ملی۔ ایک مقام میں لوگوں کو غافل پایا۔فصیل قلعہ با وجود یکہ سات قدِ آدم اونچی تھی کسی تدبیر سے اوپر چڑھ گئے اوردوشخصوں کو ابوعیبدہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ کہ طلوع فجر کے وقت ایک ہزار لشکر فلاں دروازہ پر روانہ کر دیجئے ۔ اور فصیل پر جو سپاہی سورہے تھے اون کو نیچے پھینک دروازہ کی راہ لی ۔ دیکھا کہ دروازہ باہر سے بند ہے اوس کو کھلا دیا اور وہاں کے سپاہیوں کو قتل کر کے دوسرے دروازہ پر آئے اور اوس کو کھولدیا ۔ او س وقت یوقناکو اطلا ع ہوئی کہ مسلمان قلعہ کے دروازہ پر قابض ہوگئے۔ فوراً اوس نے لشکر کو حکم دیا کہ مسلمانوں کو قتل کر ڈالیں ۔ او ہرطرف سے نعرے بلند ہوئے اور تمام لشکر نے اون پر حملہ کر دیا ۔ دامس رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنے ساتھ والے اٹھائیس شخصو ں کو لے کر مقابل ہوگئے اور تکبیر اور تہلیل کے نعرے بلند کر کے اوس لشکر کثیر پر حملہ کر دیا ۔ ادھر اونتیس آدمی اور اودھر چار ہزار کا لشکر دروازہ کے طرف متوجہ ہے کہ کسی طرح اوس پر قبضہ کر لیں ۔ مگر یہ حضرات آہنی دیوار کی طرح اڑے ہوئے ہیںکہ ایک قدم اوس لشکر کو آگے بڑھنے نہ دینگے ۔ گھمسان کی لڑائی ہو رہی تھی ۔ ادھر طرفین کے کشتوں پر کشتے گررہے تھے کہ اتنے میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک ہزار سوار لے کر پہونچے ۔ اور درا تے ہوئے قلعہ میں گھس کر تکبیر کا نعرہ بلند کیا اور اس زو رکا حملہ کیا کہ قلعہ والوں کے پائوں اکھڑ گئے ۔ پھر کیا تھا ہر طرف سے الا ماں الا ماں کی صدا بلند ہونے لگی ۔ اس عرصہ میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بھی آگئے ۔ اور فرمایا کہ سب کو جمع کر کے اون پر اسلام پیش کیا جائے۔چنانچہ سب سے پہلے یو فنا رحمتہ اللہ علیہ نے سچے دل سے اسلام قبول کیا ۔ اور اون کے بعد بہت سے سردار مسلمان ہوئے ۔ اوقت یوفنا رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار پُر انوار سے خواب میں مشرف ہوچکا ہوں اور قسم کھا کر کہا کہ توریت اور انجیل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت موجود ہے ۔فی الواقع یہ وہی پیغمبرہیں ۔جن کی بشارت عیسیٰ علیہ السلام نے دی ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسلام میں بہت سے کار نمایاں کئے انتہیٰ ۔اس واقعہ میں بہت سے امور اس قابل ہیں کہ اہل ایمان اون پر گھری نظر ڈالیں ۔ دیکھئے نامی گرامی شجا عان عرب ایک غلام کی ما تحتی میں چلے جا رہے ہیں اور وہ حضرت جس طرح چاہتے ہیں اون سے کام لے تے ہیں اگر جان دینے کو کہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ دم مارسکے ۔کس چیز نے اون کو اس حالت تک پہونچا دیا تھا ۔ ادنیٰ تمامل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ معشوق حقیقی کا عشق تھا اوس وقت اونکی نظر نہ غلام پر تھی نہ افسر پر ۔بلکہ ہر ایک کی زبان حال پر یہ شعر جا ری تھا ۔ ملولفہ
فدائے آنکہ رساند بکوئے دوست مرا
بہ بندگیش بنا زم کہ خواجہ اوست مرا
رات کا وقت عالم میں سنا ٹا ہے ۔ ہر شخص اپنے آرام گا ہ میں خواب نوشیں کے مزے لے رہا ہے ۔او ریہ حضرات ہیں کہ اپنے مقتل کے گرد ایسے پھر رہے ہیں جیسے شمع کے گرد پروانہ اور زبان حال پر یہ شعر جا ری ہے ۔
صبا بلطلف بگوآں غزال رعنا را
کہ سر بکوہ و بیاباں تو دادۂ مارا
صحرا نوردی کے وقت یہ خیال ہے ۔
رشتۂ درگردنم افگند دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
کبھی صحرا نور دی سے تھک جا تے ہیں سروش غیبی سے نداآتی ہے ۔
مقام عیش میسر نمی شود بے رنج
بلیٰ بحکم بلا بستہ اندز عہد است
شوق شہادت دل میں جوش مار بار ہے کہ اگر موقع ہوتورات ہی میں یہ معرکہ طے کر دیا جا ئے ۔
برآں عز مسم کہ گرخود میرو دسر
کہ سریوش از طبق بردارم امشب
مگر چونکہ وعدہ صبح کا تھا اس لئے تمام رات اس انتطار میں گذری کہ صبح کب ہوگی اور کب پیامِ یار آئے گا ۔
ہمہ شب در یں ا میدم کہ نسیم صبح گا ہی
یہ پیام آشنائی بہ نوازد آشنا را
خدا خدا کر کے رات کا خاتمہ ہوا اور وعدہ وصل نزدیک پہونچا پھر کیا تھا یہ حضرات علی الصباح کمال شوق و ذوق سے وعدہ گاہ یعنی دروازہ پر پہونچے جس کا فتح کرنافتح باب مقصود تھا ۔
علے الصباح کہ مردم بکا روبار ردند
بلا کشانِ محبت بہ کوئے یار روند
ہر چند ظاہر بینو ں کی نظر میںوہ قلعۂ حلب کا دروازہ تھا ۔ مگر ان حضرات کی نظروں میںوہ خاص خلوت سرا کا دروازہ تھا ۔ وہاں پہونچتے ہی جا ں بازی شروع کر دی ۔
تا سر چو گوے برسر کوئے تو با خیتم
و اقف نشد کسیکہ چہ گوہست و ایں چہ کو
مطلب یہ کہ جو لوگ اس کوچہ کے نہیں ہو کیا جانیں کہ معشوق کی گلی کہا ںہے پھر جب معرکۂ کار زار گرم ہوا تو جو تیرادھر سے آتا بہ فحوائے ۔
گرچہ تیراکمان از ہمیں گذرد
از کماں دار بیند اہل خرد
غنیمت سمجھ کر سینہ ودل و جگر اور آنکھوں میں اوسے جگھ دیتے ۔
دریا عشق را نازم کہ طفلا ن ہو س تاکش
چوپستاں می مکند از ذوق زہر آلود پیکا نرا
اور جب دشمنان خدا کوتہ تیغ کر تے تو بمصداق آیہ ٔ شریفہ فلم تقتلو ہم ولٰکن اللہ قتلہم یعنی تم نے اون کو قتل نہیں کیا ۔ اللہ نے قتل کیا ۔آپ بری الذمہ ہو جا تے ہیں ۔ یہ حضرات جس مقام میں تھے ہو مقام عشق ہے جہاں عقل کی راسائی ممکن نہیں ۔جو چون وچرا کر سکے ۔ وہاں نہ تعارض دیکھا جا تا ہے۔ نہ تناقض۔ قلبی حالات کے لذتوں میں ایسے مدہو ش رہتے ہیں کہ ان چیزوں کی خبرتک نہیں ہوتی ۔
عقل اگر داند کہ دل دربند رنقش چوں خوش است
عاقلاں دیوانہ گردند از پے زنجیر پا
اگر کوئی عقل کی راہ سے اونہیں کچھ وعظ و نصیحت کر تے تو کہتے ہیں ۔
بر وبکار ِخود اے واعظ ایں چہ فر یا د است
مرا فتا ودل از کف ترا چہ افتا د است
او رایسا ہی کس عاشق نے کہا ہے ۔
نمیدانم زمنع گر یہ مطلب چیست ناصح را
دل ازمن سنیہ ازمن آستیں از من کنا را زمن
الغرض بعضے حضرات نے بڑی بڑی کو ششوں اور جاں فشا نیوں سے دولتِ شہادت حاصل کی اور بتلا دیا کہ عشق اسے کہتے ہیں ۔
شب از پر وانہ شرح انتہائے شوق پر سید م
کف خاکسترے افشا ند بردامان فا نوسے
سچا عشق یہ ہے اون حضرات نے نہ کبھی مضامین عشق میں موشگا فیاںکیں نہ اپنے کو عاشق مشہور کیا ۔نہ ہائے دہو کے نعرے بلند کئے ۔ مگر او س کی حقیقت دکھلا دی ۔
نا لیدنِ بلبل زنو آموزی عشق است
ہر گز نہ شنیدیم زپروانہ صدائے
ہم نے جو مضا مین عا شقانہ لکھے ۔ غالباً بعض حضرات اس پر اعتراض کر ینگے کہ اس میں تکلف کیا گیا اور واقعات میں شاعرا نہ مضامین درح کئے گئے ۔مگر دراصل ہم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے احوال کی صرف ترجمانی کی اگر شبہ ہوتو اون کے اقوال بھی پیش کئے دے تے ہیں ۔ دیکھئے واقدی ؓ نے فتوح الشام میں جنگ اجناد ین میںلکھا ہے وردان ساٹھ ہزار جنگی فوج کو خاص طورپر آراستہ و پیرا ستہ کر کے میدان جنگ میں لایا ۔ اسلامی فوج کم ہو نے کی وجہ سے معا ذر ضی اللہ عنہ نے پر جوش اور زور دار تقریریں کر کے یہ آیت پڑھی ۔ان اللہ اشتری من المومنین انفسہم واموالہم بان لہم الجنۃ پھر حملہ کرنے کو کہہ دیا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا اے معا ذذرا تو قف کیجئے ۔ تا کہ میں ان لوگوں کو وصیت کرلوں ۔ چنانچہ صفوں میں جا کر یہ کہتے تھے کہ دیکھو ! کفار تم سے کئی حصے زیادہ ہیں ۔ عصر کے وقت تک کسی طرح ٹالے جائو ۔ کیونکہ اوس ساعت میں مدد ہوتی ہے ۔ اس اثنا ء میں کفار نے تیرا ندازی شروع کر دی ۔ بہت سے مسلمان شہید ہوئے ۔ مگر لوگ خالدرضی اللہ عنہ کے حکم کے لحاظ سے خاموش کھڑے ہوئے تھے ۔ ضرار ابن الا زور رضی اللہ عنہ نے کہا مالنا والوقوف والحق سبحا نہ تجلی لنا فا مر نا بالحملۃ یعنی حق تعالیٰ کی ہم پر تجلی ہوگئی ہے ۔ اس موقع میں توقف سے کیا تعلق حملہ کا حکم دیدیجئے ۔ دیکھئے ایک جلیل القدر صحابی کھلے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ حق تعالیٰـ کی تجلی ہم لوگوں پر ہوچکی ہے اور بے قرارا ہیں کہ تا خیر کیوں ہورہی ہے کیا اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ ہوسکتی ہے کہ اس جلوہ گر ی کے شکر یہ میں وہ جلدی سے جان فدا کر نا چاہتے تھے ۔ لمو لفہ
جا نا نہ زرخ نقاب برداشت
وقت است کہ جاں نثار سازیم
اور کسی بزرگ نے فرمایا ہے
گرنثار قدیم یار گرامی نکنیم
جو ہر جان بچہ کارِ د گرم با ز آید
اگر سچی حالت ان حضرات کی گواہی نہ دے تی تو فی الواقع ایسے مواقع میں تجلی الٰہی کا ہونا کسی کے حا شیہ خیال میں بھی نہ آتا ۔ کیونکہ اوروں کو جب عشق ہی نہیں تو تجلی کا ر از کیا جا نیں ۔لمو لفہ
زبلبل شنوز انکہ نشنیدۂ
توآں سرکہ ازگل نیوشیدہ شد
شرح مجموعۂ گل مرغ سحرداند وبس
کہ نہ ہر کو ورقے خواند معا نی دانست
اوس تجلی کا یہ اثر تھا کہ اب نہ جان ومال سے تعلق ہے نہ کسی چیز کی آرزو
تا عا شقاں ببوئے نسمیش و ہند جاں
بکشو و نافۂ و درِ ہر آرزو بہ بست
معرکہ کا رزار گرم ہے ۔ہنگا مہ محشر برپا ہے ۔مگر وہ کچھ ایسے مست نظارہ ہیں کہ آنکھ تک نہیں جھپکتی ۔
مژگان بہم نمی زنم از روز رست خیز
غوغا ے حشر خواب پریشان عا شقی است
کبھی کمال مستی طرب انگیز سے کہتے ہیں
خلوت خاص است وجاے امن و نز ہتگاہ عیش
اینکہ می بنیم بہ بیدار یست یا رب یا بخواب
اس قسم کی یہ بات بھی ہے جو کسی بزرگ نے کہی ہے ۔
داررا معراح می خوانند سرداران عشق
عشق کے ہر لوا لہو س را بر سرد ارآورد
او رکبھی رضا و تسلیم کی حالت میں یہ مضمون زبان حا ل سے ادا ہو رہا ہے
نشو د نصیب دشمن کہ شودہلاک تغیت
سردوستاں سلامت کہ توخنجر آز مائی
غرض کہ عشق کا معاملہ ایسا عجیب وغریب ہے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔
عجب راہیست راہ عشق کا سنجا
کے سر برکند کش سربنا شد
اور سمجھ میں آئے توکیونکر ۔عشاق اور آسودہ دلوں کی حالتوں میں زمین وآسما ن کا تفا وت ہے۔لمولفہ
حالِ جان سو ختگان سوختہ جانان دانند
خام زیں حلہ دوراست ازانش چہ خبر
بلبلِ زا ر بفر یاد وخناں مرد ہنوز ولہ
گل ترخندہ زناں ناز و تختر دارد
اونہوں نے آستایش و تنعم کو پہلے ہی رخصت کر دیا کہ ۔
ناز پر ورد تنعم دراہ بدوست
عاشقی شیمدہ اصحاب بلا کش باشد
ناز کاں را سفر عشق حرامست حرام
کہ بہر گا دریں رہ خطرے نیست کہ نیست
من آں زماں طمع بہ برید م زعا فیت
کا یں دل نہادو رکف عشقت زما م را
{حسرت بر عدم شہادت}
چونکہ ان حضرات کا عشق کامل تھا ۔ اس لئے ا س کے آثار برابر مرتب ہوتے گئے اور کا میا بیاں حاصل کرتے رہے ۔
عاشق کہ شد کہ یار بسویش نظر نہ کرد
اے یا ر دردنیست وگر نہ طبیب ہست
غرض کہ جن پر اوس خاص تجلی کا پورا اثر ہوا ۔وہ توواصل حق ہوگئے او رعشق نے اونہیں ٹھکا نے لگا دیا ۔ لمولفہ
عشق از جانب معشوق بریدسیت کہ او
دل بر دا ول و جاں نپز برد آخر کار
مگرجولوگ شہادت سے معرکوں میں محروم رہتے تھے ۔ اگرچہ اون کو فتح اور اعلائے کلمۃ اللہ کی خوشی توہوتی ۔ مگر اس کا غم ضـرور ہوتا تھا کہ اس دولت عظمی سے محروم واپس جاتے ہیں ۔
ازدر دوست چہ پرسی عنوان رفتم
ہمہ شوق آں بودم ہمہ حرماں رفتم
اون کا زبان حال پر یہ مضمون جاری رہتا تھا ۔ لمولمفہ
نازش بہ بیں کہ سر نہا دیم زیر تیغ
پر داخت بار قیب وسوما نظر نہ کرد
طغیان ناز میں کہ جگر گوشۂ خلیل
درزیر تیغ رفت و شہید ش نمی کنند
آخر یہ کہہ کر دل کو تسکین دیتے ۔
میل من سوے وصال و قصد ائے وسو فراق
ترک کام خود گرفتم تا برآید کام دوست
جب اون گشتگان خنجر تسلیم کی طرف حسرت بھری نگا ہوں سے دیکھتے توکہتے کہ ۔
چوبا جیب نشینی و بارہ پیمائی
یہ یاد آرا حسر یفاں با د پیمار ا
ہمارے اس کلام کی تصدیق کئی شہا وتوں سے ہوسکتی ہے فتوح الشام صفہ (۷۱)میں واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے خالد ابن الولید کا قول نقل کیا ہے ۔آپ فرماتے ہیں واللہ اھدیت نفسی مرار القتل لعی ازق الشھادۃ یعنی خدا کی قسم بارہا میںنے اپنے نفس کو تلواروں کے روبرو بطور ہدیہ پیش کیا ۔ اس امید پر کہ شہاد ت نصیب ہو گی ۔مگر افسوس کہ نہ ہوئی ۔ اور نیز واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۲۳)میں لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کے جب مسلمانوں کو فتح پر فتح ہونے لگی توہر قل نے کہا کہ اگر عا رنہ ہوتی تو میں ملک شام کو چھوڑ کر قسطنطنیہ چلا جا تا ۔مگر اب بغیر اس کے چارہ نہیں کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں اپنی ذات سے جائوں ارا کین دولت نے کہا یہ مناسب نہیں ۔ وردان حاکم حمص نہایت جواں مرد شخص ہے او س کی قوت او رمعرکہ آزمائیاں ایسے ہیں کہ ہمارے ملک میں او سکی نظیر نہیں اوسکو مسلمانوں کے مقابلہ میں روز انہ کیجئے ۔ ہر قل نے او س کو بلوایا اور بارہ ہزار سو ار دے کر روانہ کیا ۔روانگی کے وقت اوس نے وعدہ کیا کہ جب تک خالد رضی اللہ عنہ اور اون کے ہمراہیوں کا سرنہ لائوں ۔ اور ملک حجاز میں جا کر اونکی عبادت گا ہوں کو منہدم نہ کردوں ۔ واپس نہ آئونگا ۔ جب اوس کے آنے کی خبر پہونچی خالد رضی اللہ عنہ نے ضرار ابن الاز ور سے کہا میں چاہتا ہوں کہ تم پانچ ہزار سوار لے کر اوس کے مقابلہ کو جائو ۔ یہ سنتے ہی ضرار رضی اللہ عنہ نے نہایت خوشی سے کہا وافر حتاہ اے خالد رضی اللہ عنہ اس وقت جو مجھے مسرت ہوئی ہے ۔کبھی اس سے زیادہ نہیں ہوئی تھی آپ مجھے اجازت دیجئے ۔ میں تنہا اوس کے مقابلہ میں جا تا ہوں یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے ہر چند خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فوج کو جمع ہو جانے دو ۔مگر اونہوں نے نہ مانا اور کہا خدا کی قسم میں اب نہیں ٹھر سکتا ۔ جس کو توفیق ہوگی راہ میں مجھ سے آملے گا ۔یہ کہکر فوراً گھوڑے پر سوار ہو کر روانہ ہوگئے پھر فوج پیچھے سے روانہ ہوئی ۔جب مقابلہ کا وقت آیا توسوائے پائجامہ کے کل لباس اتار دیا اور ہتیا روں میں سے صرف نیز ہ لے لیا ۔ اور سخت مقابلہ کر کے بہتو کو قتل کیا ۔ آخر جب نیز ہ ٹوٹ گیا توکفار نے اون کو گرفتا کر لیا ۔ یہ خبر جب خالدرضی اللہ عنہ کو پہونچی تو فوراً روانہ ہوئے ۔ اور سخت مقابلہ کر کے اون کو چھوڑ لا ئے ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
اب غور کیجئے کہ کس چیز نے اونکو دشمن کے مقابلہ میں جانے پر ایسا بے قرار کر دیا کہ ہزاروں کے مقابلہ میں برہنہ تن نکل کھڑے ہوئے بجزا س کے او رکیا وجہ ہو سکتی ہے کہ صرف شوقِ شہادت تھا ۔
غوطہ درخون خود از فرق زند تا بقدم
بشہید تونہ زیبد کفنے بہتر ازیں
اس لئے کہ شہادت سے مقصود موت ہے ۔جس کی نسبت کہا جا تا ہے الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب یعنی موت ایک پل ہے کہ اوس کے پار ہوتے ہی اپنے محبوب کی ملا قات ہوتی ہے ۔
اب غور کیجئے کہ جوشخص شوق شہادت میں اتنا سامان کرے کہ ہزاروں تیر نیزے شمشیر وں کے روبرو اپنا تن برہنہ پیش کر ے ۔ اور اس پر بھی وہ حاصل نہ ہوتو کس قدر اوس کو حسرت ہونی چاہئے ۔
تاریخ کامل میں لکھا ہے کہ جب مسلمہ کذاب کے واقعہ میں زید ابن خطاب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بھائی شہید ہوئے ۔اور عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے گھر واپس آگئے تو اپنے والد سے افسوس ناک لہجہ میں کہا کہ چچا صاحب نے شہادت کی دعا کی اور وہ اون کو نصیب ہوئی اور میں نے بہت کوشش کی کہ مجھے بھی نصیب ہو ۔ مگر نہ ہوئی ان کے سوا اور بہت سے واقعات صحابہ رضی اللہ عنہ کے تصریحات ہیں جن سے ظاہر ہے کہ ہمیشہ اون کو شہادت کی تمنا رہا کی ۔ او رمعرکو ں میں اوس کے حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے ۔
اب کہئے کہ ساتھ والے جب اسی دولت سے بہرہ یاب ہوتے ہوں گے توہ کس حسرت بھری نگا ہوں سے اوس کو دیکھتے ہونگے ۔ اور کس قدر اون کو رشک ہوتا ہوگا ۔
ناسخ التواریخ جلد دوم صفحہ (۳۸۱ )میںلکھا ہے ۔جب مصر پر اہل اسلام کی چڑہا ئی ہوئی سات مہینے کفار کے ساتھ سخت مقابلے رہے مقوقس پادشاہ مصر نے کچھ مال دے کر صلح کرنا چاہا ۔ توعباداہ ابن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم جو تم سے لڑتے ہیں اوس سے ہمارے مقصود نہ مال ہے نہ جاہ ۔تم یا مسلمان ہو جائو یا خبریہ قبول کرلو۔ ورنہ ہم تم سے ضرور لڑینگے ۔ کیونکہ ہمارا مقصود جنگ سے شہادت ہے ہمیشہ ہماری دعا یہ ہے کہ الٰہی ہم کو یہاں سے اپنے گھر اور اہل وعیال کی طرف واپس نہ لے جا ئیو اور شہادت سے محروم نہ کیجیو انتہیٰ۔
یہ بات پوشیدہ نہیں کہ جو لوگ جنگ پر جا تے ہیں کیسی کیسی منتیں اور دعائیں مانگی جا تی ہیں ۔ کہ الٰہی خیر و عا فیت سے ہمیں اپنے گھر پہونچا ئیو ۔
اور اون حضرات کا یہ حال ہے کہ بجائے صحیح وسالم پہونچنے کے یہ دعائیں مانگتے ہیں کہ الٰہی جس آرزو اور شوق سے ہم گھر سے نکلے ہیں وہ مراد ہماری پوری کر ایسا نہ ہو کہ کہیں صحیح اور سالم گھر پہونچ جائیں ۔ کیونکہ اس جہاد سے ہمیں نہ ملک گیری مقصود ہے جس سے ہمیں دنیا میں ہمیں جاہ و منزلت حاصل ہو نہ مال ۔ بلکہ مقصود اصلی صرف تیرا دیدار ہے۔ شعر
مرا بکا رجہاں ہر گز التفات نبود
رخ تو در نظرمن چنیں خوشش آراست
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۴۱) میں لکھا ہے کہ زید بن سعید رضی اللہ عنہ کا نکاح او نکی چچا کی لڑکی سے ہوکر تھوڑے ہی دن گذرے تھے کہ دمشق کی لڑائی میں وہ سخت زخمی ہوئے لوگ اونکو معرکہ ٔ جنگ سے لشکر میں لائے انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم جس چیز کی مجھے آرزو تھی وہ نصیب ہوئی۔ اور کلمہ ٔ شریف پڑھتے ہوئے انتقال کئے جب یہ کیفیت اونکی دلہن کو معلوم ہوئی وہ دولہ کے دیدار کو اس حالت میں آئیں کہ ہنوز مہندی کا رنگ ہا تھو ں سے اوڑا نہ تھا۔ اور خوشبو نکاح کے دن سر میں لگا ئی گئی تھی او سکی بوتک با قی تھی ۔بے اختیار اون پر گر کر کہا کہ جو دولت تمہیں خدا نے دی ہے تمہیں مبارک ہو ۔ تم خدا کے پاس چلے گئے جس نے تمہیں ہمیں ملا کر جد ا کر دیا ۔ اب میںنے بھی اپنے نفس کو خدا کی راہ میں وقف کر دیا ۔ امید ہے کہ تم سے عنقریب ملا قات ہوجائے ۔ اوس کے بعد وہ ہرمعرکہ جن گ میں برابر شریک ہو تیں ۔چنانچہ بہت سے کفار کو اونہوں نے قتل کیا ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
ہر شخص جانتا ہے کہ دولہا کی موت پر نئی دلہن کا کیا حال ہوا کرتا ہے مگر اونکو اپنے شوہر سے کمال درجہ کی محبت تھی ۔ اونہوں نے دیکھا کہ اپنے محبوب کو آج وہ دولت نصیب ہوئی کہ اوس سے بہتر کوئی نہیں ہوسکتی یعنی وصال الٰہی ۔ جس سے اون کو آج وہ مسرت ہے جو عمر بھر نصیب نہیں ہوئی تھی اوس مسرت کے خیال نے اون کے دل پر وہ اثر ڈالا کہ غم آنے ہی نہ پایا ۔کیونکہ آدمی کو اپنے دوست کی خوشی سے خوشی ہوا کرتی ہے۔ اور جس قدر کسی سے زیارت و ہ محبت ہوگی اوسی قدر اوسکی خوشی کا زیادہ اثر محسوس ہوگا ۔ غرضکہ اون بی بی کو شہادت اور وصال الٰہی کی قدر تھی ۔او رکمال درجے کا ایمان تھا ۔ جس نے مقتضائے بشری اور طبیعی امور کوبھی آنے نہ دیا ۔ شوق شہادت اور عشق کے واقعات اس قدر ہیں کہ اگر بیان کئے جائیں تو ایک کتاب ہو جائے گی ۔
تا ریخ واقدی میں واقعہ جنگ پر موک میں لکھا ہے کہ ایک پہلوانہایت تن آوری قوی ہیکل مسلمانوں کے مقابلہ میں نکلا ۔ادھر سے ایک نوجوان مقابل ہوئے۔ اس نے ان کو شہید کر ڈالا ۔ معا ذ رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ خوداسکا مقابلہ کریں ۔ مگر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دے کر کہا کہ آپ نہ جائیے ۔ مجبور ہوکر واپس ہوئے اور پکار کر کہا اے مسلمانوں تم میں کوئی ہے کہ میرے گھوڑے پرسوار ہو کرمیرے ہتیاروں سے اوس کا مقابلہ کرے ۔
یہ سنتے ہی آپ کے کم عمر فرزند جو ابھی بالغ بھی نہیں ہوئے تھے پیش ہوئے اور کہا کہ ابا جان گھوڑا مجھے عنایت کیجئے ۔ چنانچہ وہ اپنے والد کے ہتیار لگا کر اس گھوڑے پر سوار ہوئے اور پدربزرگوار سے کہا کہ اگر میں زندہ رہا تو خیر ۔ ورنہ آپ پر میرا یہ اخری سلام ہے ۔ اگر آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ عرض کرنا ہوتو مجھے فرما دیجئے اونہوں نے کہا بیٹا میرے طرف سے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام پہونچا کر عرض کر نا کہ خدا ئے تعالیٰ آپ کو امت کے طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے ۔ یہ کہہ کر کہا اے فرزند اب سدھا ر و ۔خدا ئے تعالیٰ تمہیں توفیق عطا کرے ۔
غرض کہ انہوں نے اس پہلوان پر سخت حملہ کیا ۔ اور طرفین سے معرکہ آزمائی ہوئی آخر کا ر انکو زخم کا ری لگا اور شہید ہوگئے ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے فرشتہ صفت صاحبزادے ہتیاروں سے آراستہ گھوڑے پر سوار ہوکر کس خوشی سے اس دیو کے مقابلہ میں جا رہے ہیں جیسے کوئی بن ٹھن کر گھوڑے پر سوار ہوکر اپنی دلہن کے گھر جا تا ہے اور وہ ضعیف پدر بزرگوار اپنے ہونہار فرزند کو ہتیار وں سے سجا کر گھوڑے پر سوار کر رہے ہیں اس وقت اون کے دل کی کیا حالت ہوگی ۔ ادھر دیکھتے ہیں تو ایک خونخوار دیو کے مقابلہ میں ناتجربہ کار نابا لغ فرزند جا رہے ہیں جن کی کا میابی اور سلامتی سے بالکل یاس ہے ۔اودھر جب اپنے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم پر نگا ہ پڑتی ہے توبے انتہا رول پکا ر ا وٹھتا ہے کہ ایک کیا اگر ایسے ہزار لڑکے ہوں تواون کے حکم پر فداکر نا چا ہئے ۔ اور ہروقت اشفاق مرتبیا نہ جوپیش نظر تھے اوس حالت میں بھی صاحبزادہ کے زبانی یہی کھلا یا ۔ کہ آپ کے احسانوں کا بدلہ ہم سے کیا ہوسکے بجز اس کے کہ دعا کرتے ہیں کہ ہمار ے طرف سے خدائے تعالیٰ آ پ کو جزائے خیر دے۔ شعر
ہزاراں بار منت آنچناں بر گردنم داری
کہ گر جا ںہم دہم الحق محقر ہدیہ باشد
غرض کہ عشق الٰہی نے ان حضرات کے دلو ںکو شوق شہادت سے لبرز کر دیا تھا جس کی وجہ سے اونکو نہ اپنی حریت کا خیال تھا نہ دامس رحمتہ اللہ علیہ کی غلامی پر نظر ۔
دامس رحمتہ اللہ علیہ ہر چند غلام تھے ۔مگر چونکہ اور شہادت گاہ کی طرف لے جا رہے تھے اون کے نظروں میں بڑے محسن اور قابل شکر اور واجب الاطاعت تھے ۔شعر
سرت گردم سرم برپائے جانا نم براند از ی
بمزدش جا نم اے جلاد گیر وز ودہمت کن
دوسرا امر اس واقعہ میں قابل غور یہ ہے کہ جس شخص کے مقابلہ میں یہ صاحبزاردے جا رہے ہیں او سکی کیا حالت تھی اوس وقت نہ اون کو خیال آیا کہ آپنے نا زک ہا تھوں کا اوس پیل تن جنگ آزمودہ مقابل پر کیا اثر ہوگا۔ اور نہ پدر بزرگوار ہماراہیان تجر بہ کا رنے یہ کہا کہ صاحبزادے اسکے مقابلہ میں آپ اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالئے ۔
اس سے ظاہر ہے کہ ان حضرات نے معمولی عقل کو خیر باد کہہ دیا تھا ۔اور مقصود اصلی صرف شہادت اور وصال الٰہی تھا ۔
فتوح الشام میں واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے اور ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ حلب ایک مستقل سلطنت تھی ۔ اوسمیں دوبھائی تھے ۔ ایک کا نام یوقنا تھا اور دوسرے کا یوحنا ۔یوحنا زاہد و عابد شخص تھا ۔اور یوقنا سپاہی اور جوانمر د جب ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے جانب رخ کیا ۔ اور یوقنا جنگ پر آمادہ ہوا ۔ یوحنا نے صلح کی رائے دی اوس نے نہ مانا اور اپنی جوانمردی اور تجر بہ کاری کے حالات بیان کر نے لگا ۔یوحنا نے ہنسکر کہا بھائی شاید آپ کی موت قریب آپہونچی ہے جو آپ مسلمانوں سے لڑنا چاہتے ہو ۔ اس عرصہ میں کعب ابن ضمر ہ ایک ہزار فو ج لے کر حلب کے قریب آپہونچے ۔یوقنا پانچ ہزار کے ساتھ بہ ارادۂ شب خون ایسے وقت پہونچا کہ اہل اسلام نماز صبح کی تیاری میں مشغول تھے اول تومسلمان ایک ہزار او رکفار پانچ ہزار اوس پر علاوہ یہ کہ مسلمان سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ پانچ ہزالشکر جرا ر کا اون پر حملہ ہوگیا ۔با وجود اس کے مسلمان نہایت استقلال سے لڑتے رہے کہ دشمن کی اور فوج کثیر کمک کے لئے آپہونچی اور ساتھ ہی حملہ کردیا ۔جب مسلمانوں نے اس فوج کثیر کو دیکھا تو یقین کر لیا کہ اب جانبری کی امید نہیں ۔ کعب بن عمر رضی اللہ عنہ کمال اضطر ار کی حالت میں یا محمد یا نصر اللہ انزل کہتے ہوئے مسلمانوں کو تسکین دے تے جا تے تھے ۔ کہ اب نصرت آتی ہے ۔ ایک دن ایک رات اسی حالت میں معرکہ کا رزار گرم رہا ۔اس اثناء میں اہل حلب نے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس جا کر صلح کر لی ۔جب وہ شہر کو واپس آئے تو یوقنا کو خبر ہوئی کہ اہل حلب مسلمانوں سے صلح کر کے اون کے طرف دار ہوگئے یوقنا کمال غصہ سے فوج کو ہمراہ لے شہر میں گیا۔ اور صلح کرنے کے الزام میں قتل عام شروع کر دیا ۔ جس سے تمام شہر میں وا ویلا مچ گیا ۔ یوحنا نے پاس آکر خواہانہ صلح کر نے کی گفتگو کی۔ جس سے طرفداری اہل اسلام کی معلوم ہو تی تھی چونکہ یوقنا نہایت غصہ میں تھا ۔ یوحنا سے کہا کہ تو پہلے واجب القتل ہے جب اوس نے تلوار کھینچی تو یوحنارحمتہ اللہ علیہ نے آسمان کے طرف دیکھ کر کہا یا اللہ توگواہ رہ کہ میںاس قوم کے دین کا مخالف ہوں ۔اور اشہدان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ پڑھکر اپنے بھائی سے کہا اب جو جی چاہے کر لے ۔چنانچہ یوقنا نے او سکا سر اوڑا دیا اور اہل حلب کو قتل کرنا شروع کیا ۔نہ کسی کا عذر سنتا تھا نہ فریاد ۔تین سو (۳۰۰)آدمی قتل ہوئے تھے ۔ کہ او عبیدہ رضی اللہ عنہ وہاں آپہنچے۔ اور اونکا وا ویلا سن کر شہر میں داخل ہوگئے ۔ اور سخت لڑائی ہوئی یوقنا تاب نہ لا کربھا گا ۔ فوج کے ساتھ قلعہ میں پناہ گزیں ہوا ۔ اور چار پانچ مہینہ اہل اسلام نے اوس قلعہ کا محا صرہ کیا ۔ اس مدت میں یوقنا نے مسلمان کو سخت مصیبت میں ڈال رکھا تھا ۔ آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوقنا کے خواب میں تشریف فرما ہوئے ۔ چنانچہ او س فیضان دیدار نبوی سے وہ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے ایسا متعصب شخص کہ صرف مسلمانوں سے صلح کر نے کے جرم میں اپنی قوم کے قتل عام کا حکم دے دیا او رچار پانچ مہینہ لشکر اسلام کو سخت پریشانی میں ڈال رکھا تھا ۔ ایسے شخص کو صرف ایک نظر میں مسخر کر لے نا کیا کوئی معمولی بات ہے ۔اگر اس کو معجزہ کہیں تو پھر معجزہ کس چیز کا نام ہوگا اس میں شک نہیں کہ وہ ہدایت ازلی کا ظہور تھا ۔ مگر عالم اسباب میں جو کام ظہور میں آتے ہیں ۔ اسباب ہی سے متعلق سمجھے جا تے ہیں اسی وجہ سے قاتل مستحق قصاص ہوتا ہے ۔ حا لانکہ مصداق اذا جا ء اجلجہم لا یستا خرون سا عۃ ولا یستقد مون مقنول کا مرنا اوسوت ضروری ہوتا ہے اسی طرح ماں باپ کے احسان ماننے کا حکم ہے حالانکہ بچہ کے موجود کرنے میں اون کوکوئی دخل نہیں ۔اگر چہ ما رملیت اد رمیت ولکن اللہ رمیٰ سے ثابت ہے وہ رمی خدا ئے تعالیٰ کی تھی ۔ مگر بحسب ظاہر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ سمجھا جا تا ہے ۔اسی طرح اس خواب میں بھی معجزہ ظاہر ہو ا ۔
{اسلام یوقنا}
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب قلعہ فتح ہوگیا۔ اور مال غنیمت تقسیم ہوا توابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اہل الرائے سے کہا کہ الحمد اللہ اس قلعہ کے بعد یہاں کو ئی ایسا مقام با قی نہیں ۔ جس سے خوف ہوا اب انطا کیہ پر چڑھا ئی کرنی چاہئے ۔ جو ہر قل کا پا یہ تخت ہے ۔ یا اور کوئی رائے منا سب ہے ۔ یہ سنتے ہی یوقنا رحمتہ اللہ علیہ اٹھ کھڑے ہوئے اور عربی فصیح تقریر شروع کی ۔کہ اے امیر خدا ئے تعالیٰ نے آپ کو دشمن پر فتح دی ہے اور اوسکی وجہ یہ ہے کہ آپ کا دین سچا ہے ۔اور نبی آپ کے وہ ہیں جن کی خبر عیسی علیہ السلام نے دی ہے کہ وہ یتیم ہونگے ۔ اور اونکو اون کے دادا اور چچا پر ورش کر ینگے ۔ کیا یہ بات سچ ہے ابوعیبدہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہا ں سچ ہے مگر میں حیرا ن ہوں کہ کل تم ہمارے سخت دشمن اور ہمارے لشکر کو تباہ کر نے کی فکر میں تھے اور آج خیر خواہ معلوم ہو رہے ہو ۔ اور میں نے سنا ہے کہ تمہیں عربی بات نہیں آتی ۔ حا لانکہ تم اس وقت فصیح عربی بول رہے ہو ۔ کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰـ کے سواکوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اے امیر کیا میرے ایمان لا نے پر آپ کو تعجب ہے ۔کہا ہاں ۔ کہا واقعہ یہ ہے کہ کل میں اس امر میں نہایت متفکر تھا ۔کہ آپ لوگ ہمارے قلعہ تک کس طرح پہونچ گئے حالانکہ ہمارے نزدیک کوئی قوم عرب سے زیادہ ضعیف نہیں سمجھی جا تی ۔ اسی فکر میں میری آنکھ لک گئی ۔خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تشریف فرما ہیں جن کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ روشن ہے اور اونکی خوشبو مشک سے زیادہ بہتر۔میںنے لوگو ں سے پوچھا کہ یہ کو ن ہیں کہا یہی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں میں نے اون سے عرض کیا کہ اگر آپ نبی برحق ہیں تو دعا کیجئے کہ خدا ئے تعالیٰ مجھے عربی بات سلکھا دیوے ۔ فرمایا اے یوقنا میں محمد ؐ ہوں ۔ عیسیٰ علیہ السلام نے میری ہی بشارت دی ہے اور میرے بعدکوئی نبی نہ ہوگا ۔ اگر خواہش ہوتوکہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یہ سنتے ہی میںنے حضرت کے دست مبارک پر بوسہ دیا اور اسلام مشرف ہوگیا جب بیدار ہوا تو میرے منہ میں مشک سے بہتر بوآرہی تھی ۔ اور مجھے عربی بات بھی آگئی ۔ اوس کے بعد میں اپنے بھائی یوحنا کے کتب خانہ میں گیا دیکھا کہ اوس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حالا ت لکھے ہیں چنانچہ وہ حالات بیا ن کر کے سجدہ شکر بجا لا یا ۔ اورکہا کہ خدا کا شکر ہے کہ مجھے اس سچے دین کی طرف ہدا یت کی ۔اور میرے دل میں اوسے راسخ اور مستحکم کر دیا ۔ میں جس طرح اب تک اطاعت شیطان میں جنگ کر تا تھا ۔ اب خداکی راہ میں کرونگا ۔ یہاں تک کہ اپنے بھائی یوحنا سے جا ملوں ۔اوسکے بعد یوحنا کی جوبے قدری کی تھی او س پر بہت روکر کہا کہ سب مسلمان گواہ رہیں کہ جس قدر میں مشرکوں کے قتل میں کوشش کرونگا اوس کا ثواب یوحنا کو بخشتا ہوں ۔ اور قسم کھا کر کہا کہ اب میرے دل میں خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سو ا کسی کی محبت باقی نہیں ۔اوس کے بعد رائے دی کہ ابہی نطا کیہ ارا دہ مناسب نہیں ۔ اس وقت قلعہ اغرار کاقصد کر نا چاہے ۔چنانچہ اون ہی کے تدابیر سے وہ قلعہ فتح ہوا ۔ اور فتح نطا کیہ وغیرہ میں اون سے بہت کار نمایاں ظہور میں آئے ۔ہر صحیح وجدان والا شخص اپنے وجدان سے اس وقت کی کیفیت کا مشا ہدہ کر سکتا ہے کہ ایک سخت کا فر جس نے مسلمانوں کو تنگ کر رکھا تھا زبان عربی سے محض نا واقف فصیح عربی سے تقریر کر رہا ہے کہ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں تشریف لا کر ایک ایسا کرشمہ دکھلا دیا کہ طبعیت کا رنگ ہی بدل گیا ۔ اور جتنے منصوبے تھے سب کی کا یا پلٹ ہوگئی بمصداق شعر لمولفہ
چو عکس رخت تا فت بر جان من
ہمہ دیدہ گوئی کہ نا دیدہ شد
اس مژدہ جان فزا سے مجمع عشاق نبوی پر عجیب قسم کی کیفیت طاری اور اوس عالم وجدمیں ہر ایک کی زبان حال پر یہ شعر جا ری ہے ۔
نہ مرا بستہ گیسوئے پریشاں داری
غمرہ خاصن بہر گبر و مسلماں دا ری
غرض کہ اوس رب سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات اوس عالم میں برابر جا ری ہیں ۔ بلکہ غور سے دیکھا جا ئے تو معلوم ہو کہ اوس عالم میں اور بھی زیادہ قوی ہوگئے ہیں ۔اس لئے جب تک آپ اس عالم میں تشریف رکھتے تھے متعصب کفار پر کچھ اثر نہ ہوا ۔ بخلاف اوس کے اوس عالم میں ایسے سخت متعصب شخص کو ایک بار کہہ دینا کا فی ہوگیا ۔اسی وجہ سے عا شقان جمال نبوی ہمیشہ اس آرزو میں رہتے ہیں کہ دولت دیدار سے مشرف ہوا کریں۔ اور فی الواقع او سکے آثار و برکات بھی نمایاں ہوتے ہیں ۔ جس طرح یوقنا پر اوس عالم میں نظر ڈالنا کا فی ہوا ۔اسی طرح اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے جو واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے فتح حمص میں لکھا ہے کہ ایک قسیس نے جو ہر قل کا معتمد علیہ تھا ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔ اور اوسی کے صبح مشرف بہ اسلام ہوا ۔
{اسلام روماس رحمتہ اللہ علیہ }
فتوح الشام او رنا سخ التواریخ میں واقعہ فتح بصریٰ میں لکھا ہے کہ وہاں کا بادشاہ روماس نامی نے عین میدان جنگ میں چند سوال اسلام سے متعلق خالد رضی اللہ عنہ سے کئے ۔اور جوا بات سن کر خفیہ طورپر مسلمان ہوگیا ۔ ہر چند اپنے لشکر یوں کو مسلمان ہونے کو کہا مگر کسی نے نہ مانا ۔بلکہ اوس کی جگھ پر دیر جان کو مقرر کیا ۔ اور کئی روز جنگ ہوتی رہی ۔ ایک رات روماس رحمتہ اللہ علیہ نے کسی تبیر سے مسلمانوں کو قلعہ میں پہونچا دیا ۔چنانچہ وہا ںسخت لڑائی ہوئی اور دیر جان ما را گیا ۔ بعد فتح رو ما س رحمتہ اللہ علیہ کی بی بی خالدرضی للہ عنہ کے پاس آئیں۔ اور کہا کہ آج کی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص نہایت خوبصورت اورنورانی چہرہ تشریف فرما ہیں ۔اور فرماتے ہیں کہ شام وعراق مسلمانوں کے ہا تھ فتہ ہوگئے۔ میں نے پوچھا کہ حضرت آپ کو ن ہیں ارشاد فرمایا کہ میں محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں ۔پھر مجھے اسلام لانے کو فرمایا۔ چنانچہ میں مسلمان ہوگئی اوس کے بعد حضرت نے مجھے دوسورتیں قرآن کی سکھلائیں۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وہ سورتیں تم پڑھ سکتی ہو کہا ہاں ۔چنانچہ سورۂ فا تحہ اور قل ہوا للہ پڑھ کر سنا دیں ۔ چونکہ اون کو روماس رحمتہ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے کا حال معلوم نہ تھا ۔ خالد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ روماس یا مسلمان ہوجائے یا مجھے چھوڑ دے ۔ تاکہ میں مسلمانو ں میں اپنی زندگی بسر کروں ۔خالد رضی اللہ عنہ نے ہنس کہ کہا کہ وہ تو تم سے پہلے ہی مسلمان ہوچکے ہیں ۔یہ سن کر وہ نہایت خوش ہوئیں ۔ انہتیٰ ملحضاً ۔
قرینہ سے معلوم ہو تا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ روماس رحمتہ اللہ علیہ مسلمان ہو نے کی وجہ سے جلا وطن ہورہے ہیں آپ کی طبع غیور نے یہ گواری نہ کیا وہ بالکل بے مونس وبے غمخوار ہوجائیں اس لئے اون کی بی بی کو مسلمان ہو نے کے لئے حکم فرمایا ۔چنانچہ صرف اسی ایک ارشاد پر مسلمان ہو گئیں اور اسلام بھی کیسا کہ اپنا خان و مان اور شوہر کو چھوڑ کر جلا وطن ہونے پر اونکو آمادہ اور مستعد کر دیا ۔ حکومت اسے کہتے ہیں کہ ادھر حکم ہوا اور اودھر تعمل ہوگئی ۔ کیا یہ بغیر تصرف کے ممکن ہے۔ پھر تصرف بھی کہاں ۔عالم ارواح میں جہاں دلوں پر تصرف ہوا کرتا ہے کیونکہ درحقیقت دل تا بع روح ہے جس کو اصطلاح میں نفس ناطقہ کہتے ہیں ۔
غرض کہ کئی طرح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات اوس عالم میں جا ری ہیں ۔جن کا اثر اس عالم میں نمایاں ہو تا ہے اسی وجہ سے کعب ابن صمرہ رضی اللہ عنہ جن کا حال ابھی معلوم ہو ا انھوں نے جب دیکھا کہ کفا رکی بے شمار فوج کے مقابلے میں اہل اسلام کا سربرہو نا دشوار ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا کہ جلد مدد فرمائیے ۔ اور اوسکا ظہور بھی اس طورپر ہوا کہ مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور فتح بھی کیسی کہ خود بادشاہ فریق مخالفت اسلامی فوج کا ایک سپاہی خیر خواہ بن گیا ۔ یہ اون حضرات کی خوش اعتقاد ی کا اثر تھا کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کا میا بیوں میں وسیلہ بنا تے اور مواقع مہلکہ میں با عث نجات سمجھتے تھے ۔ اب ایسے مستند وسیلہ کو کوئی کھو بیٹھے تو وہ قسمت کی بات ہے ۔یہاں یہ بات یادر ہے کہ صرف کعب ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پکا را ۔ بلکہ صحابہ کا عام دستور تھا کہ سختی کے وقت حضرت کو پکا رتے او رمددطلب کر تے تھے ۔ چنانچہ تا ریخ کا مل میں علامہ ابن اثیر رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ مسیلمۂ کذاب کی فوج تقریباًسا ٹھ ہزار تھی ۔ اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ لوگ بہت کم تھے ۔ جب ان کے سخت حملے ہونے لگے تو مسلمانوں کے پائوں اوکھڑ گئے ۔
لکھا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں نے ایسی مصیبتیں اور سختیاں اوٹھا ئیں کہ کسی جنگ میں نہیں اوٹھا ئیں ۔ جب خالد رضی اللہ عنہ او راون کے رفقا نے جو ثابت قدم تھے دیکھا کہ نہایت نازک حالت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکا را۔چنانچہ واحمداہ واحمداہ ہر صحابی کی زبان پر اوسوقت جا ری تھا ۔پھر بفضلہ تعالیٰ اوسکا اثر ہوا کہ مسلیمۂ کذاب و اصل جہنم کیا گیا ۔اور اوسکی فوج کو شکست ہوئی ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے اس جنگ میں کل صحابہ تھے ۔اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی ساتھ ہی یہ جنگ ہوئی۔ اب کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ حضرات مصیبت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنے اور مدد مانگنے سے معا ذ اللہ مشرف ہو گئے تھے ۔ اگر یہ حضرات مشرک ہو ںتو یہ مضمون صادق آئے گا۔ مصرعہ
چو کفر از کعبہ بر خیزوکچا ان دمسلمانی
صحابہ کے طریقۂ عمل سے معلوم ہو ہو تا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اشد ضرورت کے وقت پکارتے تھے ۔ ہر وقت اوٹھتے بیٹھتے یا رسول اللہ کہنے کی عادت نہیں کی تھی۔ ناسخ التواریخ میں جنگ یر موک کے حال میں لکھا ہے کہ چا رلا کھ آدمیوں کی فوج تھی ۔اور بقول واقدی رحمتہ اللہ علیہ اوس کے دوچند یا سہ چند یعنی بار ہ لاکھ تھی ۔ اور اسلام کی فوج بہت کم تھی اس وجہ سے بار ہا ہزیمت ہوئی اور سنبھل کر پھر حملہ کر تے چنانچہ ایک با راوس حصہ کی فوج کو ہزیمت ہوئی جس میں ابو سفیان رضی اللہ عنہ تھے اور اونکا گذر عوتوں پر ہوا ۔ ہندہ رضی اللہ عنہا جو ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بی بی تھیں اونھوں نے خیمہ کا ستون اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کے منہ پر مارکر ابوسفیان سے کہا کہ اے صخر حرب کے بیٹے تم کہاں بھگ رہے ہو۔یہ وقت جان فدا کر نے کا ہے تا کہ اوسکا بدلہ ہو جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں تم کفار کو برا یگختہ کر تے تھے ۔ چنانچہ وہ مع فوج شکستہ پھر ے اور کفار پر حملہ کیا ۔ لکھا ہے کہ خالد رضی اللہ عنہ نے چھ ہزار سو ار لے کر فوج کفار کے قلب پر حملہ کیا ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اوس وقت اون سب کی زبان پر یا محمد یا منصور امتک جا ری تھا ۔ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے فتح مند اپنی امت کی خبر لیجئے ۔دیکھئے چھ ہزار صحابہ اور تا بعین با ر ہ لا کھ فوج کفار کے مقابلہ میں جب لڑرہے ہونگے تو بمقتضائے بشریت او ن کے دلوں کی کیا حالت ہوگی ۔
اس میں شک نہیں کہ شوق شہادت پسپا نہیں ہونے دیتا تھا ۔ مگر یہ بھی منظور تھا کہ امت نبوی فنا ہوجائے ۔ہر چند عشق الٰہی کا مقتضیٰ تھا کہ یہ اس عالم سے سفر کر کے وہاں کے مزے حاصل کر یں ۔ مگر حقوق ولی نعمت جو پیش نظر ہوگئے تواس لحاظ سے کہ وہ خود غرضی پر کہیں محمول نہ ہوجا ئے پکار کر کہہ دیا کہ حضرت اپنی امت کی خبرلیجئے ۔ اگر چند روز اس عالم میں ہم سے خدمت لینی منظور ہو تو حاضر ہیں ۔ ورنہ وہاں جا نا تو عین مقصود ہے غرضکہ اوس سختی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارکر استمداد کی ۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ اس ند ا کو عین ثواب سمجھتے تھے ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۱۷۴)میں لکھا ہے کہ جب اہل اسلام بہنا کا محا صرہ کئے ہوئے تھے ایک رات وہا ں کے بادشاہ نے ایسے وقت شب خون مارا کہ اہل اسلام غفلت میں تھے کوئی سنبھلنے نہیں پایا تھا کہ کفار کی فوج کثیر نے خونریزی شروع کر دی ۔ صحابہ کابیان ہے کہ و ہ رات ایسی پرآشوب اور مصیبت کی تھی کہ کبھی ہم نے ویسی نہیں دیکھی ۔ اوس حالت اضطرار میں سب کی زبان پر یا محمد یا محمد یا نصر اللہ انزل جا ری تھا ۔ انتہیٰ ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۱۸۱ )میں ایک دوسرا واقعہ بھی اسی قسم کا نقل کیا ہے کہ ایک رات بطلیوس دس ہزار سوارلے کر قلعہ سے باہر نکلا ۔ اورنہایت سرعت سے اہل اسلام پرشب خون مارا جس سے لوگ تا ریکی شب میں سخت پریشان ہوئے اور ایک ہنگامہ برپا ہوا ۔خالد رضی اللہ عنہ نے یہ گڑبڑ سنتے ہی چیخ مارا کر کہا کہ وا غو ثا ہ وا محمد اہ وا سلا ماہ کیئد قوی و رب الکعبۃ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نجدا میری قوم کے ساتھ مکر کیا گیا ۔ فریا درسی کیجئے تا کہ یہ صحیح سالم رہیں ۔
ان وقائع سے ظاہر ہے کہ سخت مصیبت کے وقت صحابہ شافع ہر دوسرا صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار تے اور مددمانگتے تھے ۔
ناسخ التواریخ اور تا ریخ واقدی میں واقعہ مرج القبائل میں لکھا ہے کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے میسرہ ابن مسروق کو چار ہزار سپاہیوں کا امیر مقرر کر کے (دروب )کی طرف روانہ کیا ۔ہر قل نے دیکھا کہ مسلمانوں نے اودھر کا قصد کیا ہے ۔ تیس ہزار کا لشکر مقابلہ کے لئے روانہ کر دیا جب وہ قریب پہونچا تو میسرہ متفکر ہوئے ۔
عبد اللہ ابن حذافہ نے سبب دریافت کیا ۔کہا مجھے اپنی ذات کی کچھ فکر نہیں ۔خوف ہے تو یہ ہے کہ مسلمان کم ہیں ۔ او رکفار زیادہ پس کس طرح مقابلہ کیا جا ئے ۔کہا اے امیر ہم لوگ کبھی موت سے ڈرتے نہیں ہم نے تواپنی جانیں خدا کی راہ میں وقف کر دی ہیں ۔ اسی گفتگو میں تھے کہ کفا رکا لشکر مقابلہ میں آگیا ۔ او راونمیں سے ایک شخص نے آگے بڑھکر کہا کہ اے اہل عرب تم جو ہمارے پیچھے پڑ گئے ہو معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں موت یہاں گھیر لا ئی ہے ۔ بہتر ہے کہ تم اپنے تئیں ہمارے حوالے کر دو ۔ تاکہ تمہیں قید کر کے ہر قل کے پاس بھیج دیں۔ ورنہ تم میں سے ایک کوبھی زندہ نہ چھوڑیں گے یہ سنتے ہی ابو الہول دامس رضی اللہ عنہ نے اوس کو قتل کر ڈالا ۔او رگھمسان کی لڑائی ہوئی ۔ اس وقت دامس رضی اللہ عنہ کے ہمراہی میں ایک ہزار اشخصا ص تھے ۔ جو یا محمد یا محمد کہتے ہوئے حملہ پر حملہ کر تے جا تے تھے ۔ انتہیٰ ملحضاً ۔
دیکھئے نداکے جواز میں اگر ذرا بھی شک ہوتا تواوس زمانہ میں کوئی تو اس کا انکا ر تا اب انکا رکیونکر ہوسکے۔ صحابہ سے لے کر اس وقت تک کل مسلمان موافق مخالف سب جانتے ہیں کہ ہر مسلمان کو ضرور ہے کہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر روز پکارا کرے ۔ دیکھئے نماز جو خاص عباد ت ہے جس کی شان میں معراج المومنین وارد ہے۔ اوسمیں حضرت کو پکار نے کی ضرورت ہے اگر کوئی نہ پکارے تووہ عبادت ناقص ہو جا ئے گی ۔بلکہ دوبارہ پڑھنے کی ضرورت ہوگی ۔ کیو نکہ کوئی فقیہ یا محدث نہیں جو التحیات فرض یا نفل نماز میں پڑھنے کو ضروری نہ سمجھتا ہو ۔دیکھئے اوس میں جملہ ندا ئیہ یعنی ایھا النبی موجود ہے ۔یہ ندااس غرض سے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ مشاہدہ جمال الٰہی میں مستغر ف رہتے ہیں ۔اس موقع میں کس کی مجال تھی کہ اپنی طرف توجہ دلا سکے ۔مگر کمال بندہ نوازی سے یہ اجازت ہوگئی ۔ کہ جب چاہو ہمیں پکار لو تو ہم متوجہ ہو جا ئیں گے ۔خصوصاً اوس وقت کہ بارگاہ الوہیت میں تمہیں حضوری نصیب ہو۔ متوجہ کر کے ضرور سلام عرض کیا کرو ہ یہ ہے سر التحیات میں سلام عرض کر نے کا ۔
اب رہی یہ بات کہ حکیما نہ مذاق میں یہ گوارا نہیں کہ وقت واحد میں تمام مسلمانوں کے طرف حضرت کی توجہ ہو سکے سو یہ بحث دوسری ہے اس قسم کے خیا لات سے حکیموں نے خدائے تعالیٰـ کو بھی معطل الوجود قرار دیا ۔اور صفا کہہ دیا کہ خدائے تعالیٰ کو معاذ اللہ جزئیات کا علم ہی نہیں مگر اہل ایمان ان خیالات کو محض و سا وس شطیانی سمجھتے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ ہر آن میں عالم کے ذرہ ذرہ کی طرف متوجہ اور حا ضر ونا ظر ہے او رقادر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی قوت عطا فرماے کہ جب کوئی امتی آ پ کو پکا رے آپ اوسکی طرف متوجہ ہو جائیں ۔ اور سب کے طرف آن واحد میں متوجہ ہو سکیں ۔ اگر یہ محال ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے خدائے تعالیٰ کبھی نہ کہلوا تا کہ نمازمیں کل مسلمان السلام علیک ایھا النبی کہا کریں ۔ کیونکہ حق تعالیٰ جانتا تھا کہ حضرت کی امت کے کڑور ہا آدمی شرقا ًوغرباًہر زمانے میں السلا م علیک ایھا النبی کہکر توجہ دلیا یا کرینگے ۔
یہ بحث ہم نے انوار احمدی میں کسی قدر تفصیل سے لکھی ہے اس مقام میں وہ محبت اور صلوۃ الحا جتہ جس میں یا محمد انی اتوجہ بک الی ربک اور دوسرے مبا حث جو ندا سے متعلق ہیں مذکور ہیں ۔اگر انوار احمدی میں دیکھ لئے جا ئیں تو فائدہ سے خالی نہیں التحیات میں جو ندا کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سلا م عرض کیا جا تا ہے اوس سے غرض معلوم ہو تی ہے کہ گویا ہم یہ عرض کر رہے ہیں کہ حسب الارشاد ہم بارگاہ الوہیت میں حاضر ہو گئے ہیں ۔مگر نہ ہم میں صلا حیت حضوری ہے نہ ہماری عبادت شایان بارگاہ کبریائی ہے۔ آپ کی مدد درکار ہے کہ یہ عبادت اور عرض و معروض درجہ ٔ اجا بت تک پہونچ جا ئے ۔ اسی طرح صحابہ اور تا بعین مصیبت کے وقت آپ کو پکار کر مدد مانگے تھے ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ کو اوس عالم میں تصرف دیا گیا ہے ۔جیسا کہ خوابوں اور قرائن سے ثابت ہے ۔
فتوح الشام اور نا سخ التواریخ کی جلد دوم واقعہ ٔ جنگ اجنا دین میں لکھا ہے کہ جب وردان سپا ہ سا لار روم نے اپنا لشکر جس کی (۶۰)صفیں تھیں اورہر صف ہزار سوار کی آراستہ کر کے مسلمانوں کے مقابل ہوا تو ضرار ابن الازور رضی اللہ عنہ نے زرہ وغیرہ پہن کر اوس لشکر پر حملہ کیا ۔ اور اودھر سے ان پر تیروں کی بو چھا ڑ ہو نے لگی ۔ چونکہ زرہ سخت تھی ۔ زخم نہ لگا ۔ اور اس حملہ میں اونہوں نے تیس سوا روں کو قتل کیا ۔ اوس کے بعد اونہوں نے خود اور زرہ وغیرہ پھینک کر یہ کہتے ہوئے حملہ آور ہوئے کہ میں ضرر ابن الا زوروردان کے بیٹے حمران کا قاتل اور تم لوگوں پر بلا ئے بے درماں کی طرح مسلط ہو ں۔ اوس وقت لشکر روم کسی قدر پیچھے ہٹا مگر وہ حملہ کر کے لشکر میں گھس گئے ۔ وردان نے ٹھنڈی سانسیں کھینچ کر کہا کہ یہ شخص میرے لڑکے کا قاتل ہے اگر کوئی اس کوقتل کر ے تو جو کچھ چاہے گا میں اوسے دونگا ۔ایک بطریق نے میدان میں آکر کہا میں اوسے قتل کر تا ہوں ۔چنانچہ ایک ساعت تک دونوں میں معرکہ آرائی ہوتی رہی ۔ آخر ضرار رضی اللہ عنہ نے موقع پاکر اوس کے جگر میں نیزہ مارا جس سے وہ مرگیا ۔ وردان نے کہا کیا اور کوئی اس کا مقابلہ کر سکتا ہے لوگوں نے کہا یہ شخص جن ہے۔ اس کا مقابلہ مشکل ہے ورفدان نے کہا کہ خیر میں خود اپنے لڑکے کا بدلہ اس سے لے لیتا ہوں ۔چنانچہ سا مان جنگ سے آراستہ ہوا۔او ر مقابلہ کو نکلنا چا ہا تھا کہ اصطفان نام ایک سردار نے روبرو آکر کہا کہ اگر حمران کے بہن کا نکاح میرے ساتھ کر دیتے ہو تو میں اوس کو قتل کر ڈالتا ہوں۔اوس نے قبول کیا وہ مقابلہ کو نکلا ۔ اور بہت دیر تک دونوں کا مقابلہ اس طور سے ہوتا رہا کہ دونوں لشکر کے لوگ تعجب کر تے تھے ۔ آخر خالد رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا ۔اے ضرار یہ سستی کیسی ۔جنبش کر و اور جو انمردی دکھلا ئو ۔ یہ سنتے ہی اونہوں نے غضب ناک ہو کر سخت حملہ کیا ۔اصطفان نے ضرار رضی اللہ عنہ سے کہا کہ گھوڑے تھک گئے ہیں ۔ مناسب ہے کہ اب پیادہ ہو کر لڑیں انہوں نے قبول کیا۔ چنانچہ اصطفان پیادہ ہوگیا ۔ اس کا غلام جب اوس کو پیادہ دیکھا تو اوس کے لئے ایک گھوڑا لے کر لشکر سے نکلا ۔ اوسوقت ضرار رضی اللہ نے اپنے گھوڑے سے کہا اے بطال تھوڑی دیر اپنی تیزی اور چالا کی دکھلا ۔ ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری شکا یت کرونگا ۔ یہ سنتے ہی گھوڑا ہنہنا یا۔ اور نہایت چست و چالا ک ہوگیا ۔ چنانچہ ضرار رضی اللہ عنہ نے اوس غلام کی طرف اوسے دوڑایا جو گھوڑا لا رہا تھا وہ نہایت پھر تی سے دوڑا ۔ اونہوں نے او سو قتل کراوس کے گھوڑے پر سوار ہو جنگ میں مشغول ہو گئے۔ اور اوس بطریق کو بھی قتل کر ڈالا ۔انتہیٰ ۔
یہاں قابل توجہ یہ بات ہے کہ بطرق کے گھوڑے نے اتنی دیر کام نہیں کیا تھا جتنی دیر ضرار رضی اللہ عنہ کے گھوڑے نے کیا ۔کیونکہ وہ صبح سے اوسی گھوڑے پر لڑرہے تھے با وجود اس کے اوسکا گھوڑا تھک گیا ۔اور او س کو گھوڑا بدلنے کی ضرورت ہوئی ۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ ضرار رضی اللہ عنہ کا گھوڑا کس قدر تھکا ہوگا ۔مگر جو اونہوں نے اوسکو دھمکی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میں تیری شکا یت کر دونگا تووہ مستعد ہوگیا اور کا رنمایاں کر دکھا یا گھوڑے کو شکا یت کی دھمکی دینی ظاہر اً ایک دل لگی کی بات معلوم ہو تی ہے مگرجب ہم اوس حالت او رمقام پر نظر ڈالتے ہیں تو صاف معلوم ہو تا ہے کہ دل لگی کا اوس مقام میں خیال تک نہیں آسکتا ۔ وہ مقام تو ایسا تھا کہ موت آنکھوں میں پھر گئی تھی ۔ کمال اضطرار و اضطراب کی حالت تھی۔ ایسی حالت میں یہ کہنا کہ توتن آسانی کرے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تیری شکایت کر دنوگا ۔ بعینہ ایسا تھا جیسے بادشاہ کسی کی تعیناتی میں فوج دے ۔ اور وہ خطرناک حالت میں رفا قت ترک کرنا چاہے تو اوس کو بادشاہ کے پاس شکایت کر نے کی دھمکی دی جا تی ہے جس سے مقصود یہ ہو تا ہے کہ سمجھ لیں کہ اگر ہم نہ لڑینگے تو بادشاہ ایسی سزا دے گا جس سے مرجانا اچھا ہے چنانچہ اس دھمکی سے وہ جان دینے پر مستعد ہو جا تے ہیں ۔
اس دھمکی سے گھوڑے کے دل پر جو اثر پڑا معلوم نہیں کہ وہ کس قسم کی سزا ہو گی جس سے وہ گھبرا کیا ۔ مگر اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ ضراررضی اللہ عنہ نے کچھ سمجھ کر وہ جملہ کہا تھا جس کو گھوڑا بھی سمجھ گیا ۔ اور مقصود حاصل ہوگیا ۔ ا ب اگر ہم نہ سمجھیں تو ہماری عقل کا قصور ہے ۔الغرض اس واقعہ سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرفات اوس عالم میں ایسے جاری ہیں جن کو جانو ربھی سمجھتے ہیں اس وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہ سختی اور مصیبت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارتے تھے ۔ جیسا کہ ابھی متعد د واقعات سے معلوم ہوا اگر ان حضرات کے نزدیک یہ ثابت ہوتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک نہ ہماری آواز پہونچتی ہے نہ آپ مددکرسکتے ہیں تو پکار نے کو فضول بلکہ گناہ سمجھتے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وقت مدد کرنا اور امت کے حالات پر ہر وقت مطلع ہو نا اون کے ذاتی مشا ہدوں سے ثابت ہو گیا تھا ۔
وا قدی رضی اللہ عنہ نے فتوح الشام کے واقعہ فتح قنسرین میںلکھا ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دس صحابہ کے سا تھ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے لشکر سے دور ہو گئے ۔ را ت کا وقت تھا کہیں ٹھر گئے تھے ۔ صبح کی نماز پڑھکر جا نا چا ہا تھا ۔ کہ جب کہ ابن ابہم نصرانی کا لشکر کثیر آگیا ۔ آپ بھی اوس لشکر کے ہمراہ ہوگئے ۔ جب قنسرین کے قریب پہونچے تووہاں کا بطریق فوج لے کر جب کہ استقبال کو آیا ۔ پہلے پہل خالد رضی اللہ عنہ سے ملا قات ہوئی اون کو اپنا ہم مشرب سمجھ کر کہا کہ مسیح تم کو سلامت اور صلیب تمہیں باقی رکھے ۔ یہاں یہ سننے کی تاب کہاں ۔ فوراً کہا کہ ے کنجت ہم صلیب کے پوجنے والے نہیں ۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں اورکلمہ طیب پڑھکر اے خدا کے دشمن میں خالد بن ولید ہوں یہ کہہ کر اوس گرفتار کر لیا ۔لشکر کفار نے ہاتھ ہی اون کو اور آپ کے ہمرا ہیوں کو گھیر لیا ہر چندان حضرات نے کشتوں سے اوس سرممین کو بھر دیا ۔مگر ہزاروں کے مقابلہ میں دس گیارہ شخصوں کی ہستی ہی کیا ۔ اول تو لڑتے لڑتے وہ تھک گئے تھے اوس پر تشنگی کا غلبہ سب کو یقین ہوگیا کہ اب خاتمہ با لخیر ہو نے کو ہے ۔اسی نفس شماری میں تھے کہ ہا تف نے آواز دی کہ اے حا ملین قرآن خوش ہو جا ئو مدار اور نصرت آپہونچی چناچنہ اوسی وقت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ مع لشکر پہو نچ گئے ۔ اور مسلمانوں کی فتح ہوگئی ۔ دیکھئے وہاں تا ر تھا نہ ڈاک۔نہ اتنی مہلت ملی کہ ہمرہیوں میں سے کسی کو بھیج کر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو خبر دیں ۔ مگروہاں تو انتظام ہی دوسرا تھا ۔ کل واقعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو ہورہے تھے ۔ جس طرح حضرت اس عالم میں حکم و احکام اپنی ذات سے فرما ئے تھے اوس عالم میں تشریف لے جا نے کے بعد بھی وہی طریقہ جا ری رکھا ۔ گو عموماً لوگوں کو اوس کی اطلا ع نہ تھی ۔ مگر بعضے مواقع میں اطلا ع بھی فرما دیتے تھے ۔ چنانچہ اوسی میں لکھا ہے کہ جس صبح میں یہ واقعہ پیش آیا اوسی رات ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں نہایت سختی سے فرمایا کہ اے ابن جرا ح ایک بزرک قوم دشمنوں کے ہاتھ میں پھنسی ہے ۔اور تم سوتے پڑے ہو ۔ اوٹھو او رجلدی سے جائو انشاء اللہ تعالیٰ وقت پر پہونچ جا ئو گے ۔ چنانچہ وہ فوراً اوٹھے اور نہایت اضطراب سے کہا النفیر النفیر یعنی دوڑ و دوڑو لوگو ںنے کہا حضرت خیر تو ہے کہا کہ ابھی رسو ل اللہ صلی علیہ وسلم نے مجھے خبر دی ہے کہ موحدین کی جماعت کو کفار نے گھیر لیا ۔چنانچہ اوسی وقت وہ فو ج لے کر روانہ ہوئے ۔اور اشد ضروریات کے وقت وہاں پہونچ گئے ۔اب کہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مدد اور نصرت تھی یا نہیں۔اگر کہا جا ئے کہ مددالٰہی تھی تو اس میں کس کو کلام ہے ۔ حق تعالیٰ فرمات ہے الیہ یرجع الامرکلہ مگر اس لحاظ سے یہ بھی کہنا پڑے گا کہ ابوعیبدہ رضی اللہ عنہ نے بھی مدد نہیں کی ۔ حالانکہ اونہوں نے بموجب آیہ ٔ شریفہ تعا ونو اعلی البر والتقوی اونکی مددکرکے اپنا فرض منصبی ادا کیا۔ سچ پوچھئے تو اونہو نے کیا ہی کیا مددتو خدا ئے تعالیٰ کی طرف سے ہوئی ہے چنانچہ ارشادہے ۔قولہ تعالیٰ وما النصر الامن عند اللہ العزیز الحکیم ۔اگر یہ سب وسائط ساقط ہو جا ئیں او رہمہ اوست کا مضمون پیش نظر ہو تووہ بات دوسری ہے مگر اس وقت بھی محققین وسائط واسباب کو پیش نظر رکھے ہیں۔ غرض کہ ایا ک نستعین کے لحاظ سے انبیاسے اور اولیا کی مدد جا ئز نہ ہوتو ماوشماکی مددبھی جائزنہ ہوگی ۔ اور اگر ماوشما کی مدد جائز ہے تو انبیا اور اولیا کی مدد بطریق ادنیٰ جائز ہوگی ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے جنگ مرج القبائل میں لکھا ہے ۔کہ تیس ہزار لشکر روم کے مقابلہ میں ابو الہول رحمتہ اللہ اور اون کے ہمراہیوں نے جو ایک ہزار تھے وہ جوانمردی دکھا ئی کہاہل روم کے حوصلے پست ہوگئے اوس وقت دس ہزار کی فوج نے اونہیں گھیر لیا ۔مگر ان کے استقلال میں فرق نہ آیا ۔چنانچہ نوہزار آدمیوں کو قتل کر ڈالا ۔جب دونوں لشکر جدا ہوئے تو ابو الہول رحمتہ اللہ علیہ نظر نہ آئے ان کی تلاش کی فکر ہو رہی تھی ۔ کہ پھر آدمیوں نے حملہ کیا۔اور ایک ایک شخص کو دس دس بیس بیس بلکہ پچاس پچاس شخصوں نے گھیر کر شہید کر ڈالا ۔یا گرفتار کر کے لے گئے ۔
غرض کہ ابوالہول رحمتہ اللہ علیہ کا حال دریافت کرنے کی نوبت نہ آئی ۔ راوی کا قول ہے کہ معرکۂ کا رزا ر گر م تھا ۔کہ لشکر کفار میں شور مچا ۔اور معلوم ہوا کہ اون کے پیچھے سے لوگ لڑتے ہوئے چلے آرہے ہیں ۔ اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی آواز کی بلند ہے ۔ ہم نے خیال کیا کہ شاید فرشتوں کی آواز ہوگی ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوالہال رحمتہ اللہ علیہ اور اون کے ساتھ والوں کی آوازہے ۔ چنانچہ وہ لشکر کفار کو پھاڑ تے اور جو سامنے آتا اوس کو ترتیغ کر تے ہوئے لشکر اسلام میں پہونچ گئے ۔ جب لڑائی موقوف ہوئی مسیرہ رحمتہ اللہ علیہ وسلم امیر لشکر نے حال دریافت کیا ۔ کہا کہ کفار نے مجھ پر حملہ کر کے میرے گھوڑے کو قتل کر ڈالا ۔جس سے میں گر پڑا اور اونہوں نے قابو پاکر مجھے اور مارے چند سا تھ والوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا۔ جب رات ہوئی تومیںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ فرما تے ہیں اے( دامس) مت ڈرو ۔خدا کے پاس میرا بہت بڑا مرتبہ ہے ۔یہ کہکر میرے اور میرے رفقا کے زنجیر وں پر ہاتھ پھیرا ۔ وہ فوراً آکر گر گئیں ۔ پھر نصرت اور فتح کی بشارت دے کر فرمایا میں تمہارا نبی محمد رسول اللہ ہوں صلی اللہ علیہ وسلم اور فرمایا کہ میسرہ کو ہمارا اسلام پہونچا کر کہنا خدا تمہیں جزائے خیر دے ۔ یہ کہکر غائب ہوگئے ۔ جب میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ زنجیریں گری ہوئی ہیں اور پھر ے والے تھک کر خواب غفلت میں بے خود پڑے ہیں ۔ ہم نے اونہیں کی تلوار یں وغیرہ لے اونکو قتل کر ڈالا۔ سب رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی برکت تھی جو ہمیں وہاں سے نجات ملی ۔انتہیٰ ۔
ابوالہول رحمتہ اللہ علیہ جب گرفتار ہو کر زنجیر وں میں جکڑے ہوئے قید میں ہونگے وہ رات اون پر کس مصیبت کی ہوگی ۔پھر جب ایسی بے کسی اور بے بسی کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس تشیرف فرما ہو کر اون کو قید سے ایسے طورپر رہائی دی کہ کسی فرد بشر کو علم ہی نہیں۔ بلکہ ہر کس و ناکس کو اوس کا سمجھنا مشکل ہے تو کہئے کہ اونکا دل اس احسان پر اوراپنے عؤمربی محسن پرکس درجہ فدا ہو تا ہوگا اگراون سے کہا جا تا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اب اونکو امت سے تعلق ہی کیا ۔ اور یہ اعتقاد رکھنا شرک ہے کہ حضرت کو دور کے حا لا ت بھی معلوم ہو تے ہیں تو کیا اپنے ذاتی مشاہدہ اور اوس کے آثار ظاہر ہونے کے بعد ویسی باتوں کی طرف اونکی توجہ ہوگی ؟ ہر گز نہیں ۔غرض کہ اس روایت سے ثابت ہے کہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے خدمت گزار ہیں اون پر آپ کی خاص قسم کی توجہ مبذول رہتی ہے اور بفضلہ تعالیٰ اونکی مشکل کشا ئیاں آپ برابر فرما تے رہتے ہیں ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۴۶)میں فتح ومشق کے حا لا ت میں تفصیلی واقعات لکھے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ اہل اسلام نے اس جنگ میں بہت سی سختیاں اوٹھائیں جب مسلمانوں کا پورا امتحان ہوگیا اور وہ اس امتحان میں کا میاب ثابت ہو ئے اوس وقت آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے خواب میں تشریف لا کر فرما یا کہ آج رات کو انشاء اللہ فتح ہو جا ئے گی ۔ یہ کہہ کر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جا نے کا قصد فرمایا ۔ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ بہت جلد تشریف لے جا تے ہیں ۔فرمایا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جنازہ پر مجھے جا نا ہے ۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اوسی شب فتح ہوئی اور دریافت سے ثابت ہوا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انتقال اوسی شب میں ہوا تھا ۔انتہیٰ ملحضاً ۔
اس سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو اس عالم اور اوس عالم کے واقعات اور حالات برابر پیش نظر ہیں اور قرب وبعد یکساں ہے ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۱۴۲)فتوح الشام کے واقعہ یر موک میں لکھا ہے کہ جب اوس مقام کی فتح میں تا خیر ہو ئی اور وحشت ناک خبر یں عمر رضی اللہ عنہ کو پہونچیں تووہ نہایت متفکر تھے کہ آنخصرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ کسی باغ میں تشریف رکھتے ہیں ۔اورابو بکر رضی اللہ عنہ بھی سا تھ ہیں عمررضی اللہ عنہ نے سلام عرض کر کے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرا دل مسلمانوں میںلگا ہوا ہے خدا جا نے اونکی کیا حا لت ہوگی مجھے خبر پہونچی ہے کہ دس لاکھ ساٹھ ہزار رومی مسلمانوں کے مقابلے کو آگئے ہیں ۔ فرمایا اے عمر رضی اللہ عنہ ! خوش ہو جا ئو کہ خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی ۔ او راون کے دشمن کو شکست ہوئی ۔ اورکفار کثرت سے مارے گئے عمررضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز پڑھتے ہی صحابہ کو یہ خوش خبری سنائی۔ سب نہایت خوش ہوئے اوراس خواب کی تا ریخ لکھ رکھے چندہی روز میں فتح کی کی خبر معلوم ہوا کہ اوسی رات فتح ہوئی جس رات حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی تھی ۔ انتہیٰ ۔
صحابہ رضی اللہ عنہ جب ایسے واقعات بذات خود دیکھئے اور معتمد علیہ لوگوں کی زبانی سنتے ہونگے اور اوس کی تصدیق وقتا ً فوقتا ً ہوتی ہو گی تو کیا ان تجربوں کے بعد بھی حضرت کے علم غیب ذایت میں اون کو شک رہتا ہوگا ؟ ان ہی اسباب سے وہ ہمیشہ کہا کر تے واللہ ورسولہ اعلم ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے صفحہ (۱۹۳)میں لکھا ہے کہ جب مسلمانوں کو شام میں فتح پرفتح ہو نے لگی توہر قل نے مدد کے لئے فوجیں جمع کر نی شروع کیں اور ہر طرف سے صوبیدار اور سلاطین سا آنے لگے ۔ فلنطانوس بادشاہ رومیہ نے بھی ارادہ کیا اور چاہا کہ سلا طین سا بقہ نے جو خزانہ جمع کیا ہے اوس کو اس کا م میں لا ئے۔ اس غرض سے اوس متفصل مکان کو کھولنے کا ارادہ کیا جو طلسم سے بنا یا گیا تھا وہاں کے محافظین نے کا کہ اے بادشاہ اس گھر کو بنکر سات سوبرس ہو ے کسی بادشاہ نے او س سے نہیں نہیں کھولابلکہ ہر ایک نے وصیت کی کہ کوئی نہ کھولے ۔فلنطا نوس نے نہ مان کر اوسے کھولا ۔ دیکھا کہ ایک تختی پر بہت سی نصیحتیں لکھی ہیں اور اونمیں یہ بھی لکھا ہے کہ جب زمین پر گمراہی پھیل جا ئے گی تو زمین تھا مہ میں ایک چراغ ہدایت روشن نکلے گا ۔ جس سے جہل کی تا ریکی دور ہو جا ئے گی اونکی سواری اونٹ ہوگی وہ توحید کی طرف بلائیں گے اونکا دین سب دینوں پر غالب ہو جا ئے گا پھرجب دوعالم روحانی کو جا ئیں گے تو ایک سخیف والی ملک ہونگے جن کا دل منور بنور صدق ہوگا ۔ اون کے بعد ایک ایک شخص جن کا حملہ سخت ہو گا ۔ عدل اونکی صفت اور حق اونکی منقبت جبہ اونکا پیوند لگا ہوا ہوگا ۔ درہ اونکا تلوار کا کام دے گا۔ اون کے زمانہ میں بہت سی دولتیں جا تی رہیں گی۔ اوس کے ظہور کا وقت وہ ہوگا ۔یہ مکان حکمت سے بنایا گیا ہے کھولا جا ئے ئگا اوس شخص کی خوش خبری ہے جس کے دل میں حکمت مستحکم ہو ۔اور عقل میں حکمت کے چراغ روشن ہوں او رحق کو سمجھ کر پیروی کرے اور با طل سے دور رہے ۔ جب فلنطانوس نے وہ پڑہ لیا تو عطمائوس سے جو اوس مکان کا متولی تھا ۔پوچھا کہ اے پدر مہر بان اس حکمت کے بارہ میں آپ کیا کہتے ہو کہا اسے بادشاہ کیا کہوں جس کو بڑے بڑے لوگو ں نے بنا یا ہے اورحکما نے او سکو معلوم کر لیتا ہے مگر اتنا تو کہہ سکتا ہوں کہ ہر قل کی دولت معرض زوال میں ہے او ر اوسکا ملک سوریا سے قسطنطنیہ کی جانب منتقل ہوگیا ۔ اور یہی خبر جو مہر ا بیس حکم نے دی ہے ۔کہ جب ہر مصفا کا نور فا ران کے پہاڑوں سے ظاہر ہوگا تو ظلمت جہالت دور ہو جا ئے گی عدل اون کا خیمہ ہوگا لباس اونکا پیوند لگا ہوا اون کے زمانہ میں نجات وہی پا ئیگا جو اونکی شریعت کی اتباع کر یگا ۔ اس تقریر سے فلنطانوس کے دل میں اثر ہو ا مگر بظاہر لکھا کہ عرب کے بارہ میں غور کر نے کی ضرورت ہے اس وقت مجھے ہر قل کی مدد کو جانا ضرور ہے کیونکہ ترک کا نا مہ میرے نام آچکا کہ دین مسیح کی مدد کروں ۔ اگر میں دیر کرونگا تو محروم ہو جا ئونگا ۔ چنانچہ وہ تیس ہزار کر جی سپا ہیوں کو منتخب کر کے راونہ ہوگیا ۔ جب انطاکیہ میں پہونچا تو ہر قل نے نہایت تزک اور شان وشوکت سے اتقبال کر کے اپنے سرپر دوں کے مقابل اوس کے سراپر دے نصب کر ائے اور لشکر روم میں پڑی خوشی ہوئی ۔او رفتح و نصرت پر تفاول لیا گیا او رلشکر میں خوشی کے نعرے بلدن ہوئے لشکر اسلام کے جا سوسوں نے جب یہ خبر ابو عیبدہ کو پہونچا ئی کہ بادشاہ رومیہ آگیا اور لشکر کفار میں حوشیاں منائی جارہی ہیں ۔ توابوعبیدہ رضی اللہ عنہ دعا کے لئے آسمان کی طرف ہاتھ اوٹھائے اوربارگاہ کبریانی میں عرض کی الٰہی دشمنان اسلام ہمارے مقابلہ کے لئے فوجیں کثرت سے جمع کررہے ہیں اور اون کو کملی فوجیں پہونچ رہی ہیں ۔ تو اس بات پر قادر ہے کہ اون کو پریشان کر دے اور ان کے قدم اوکھاڑ دے ۔ الٰہی جس طرح تو نے احزاب کی لڑائی میں اپنے نبی کی مدد فرمائی تھی اب بھی مدد فرمااور ہمیں نصرت دے ابوعیبدہ رضی اللہ عنہ یہ دعا کر رہے تھے اور تمام اہل اسلام آمین کہہ رہے تھے ۔ کیونکہ مسلمانو ں کو ظاہر ی اسباب کے لحاظ سے کسی قسم کی توقع نہ تھی اگر بھروسہ تھا تو صرف خدا ئے تعالیٰ کی ذات پر۔ اس وجہ سے یہ وعام اضطراری حالت میں نہایت خشوع و خضوع سے کی گئی ۔ اس کے بعد ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ معا ذ بن جبل کی ہمراہی میں تین ہزار کا لشکر دے کر سواحل کے طرف روانہ کیا اتفاقاً ایک قافلہ ملا ۔ جس میں ایکہزار ہزار جانوروں پر غلہ لدار ہوا ہر قل کی فو ج کے لئے لے جا رہے تھے ۔ معا ذ رضی اللہ عنہ نے اوس پر قبضہ کر لیا ۔اور صحیح و سالم اوسکو لے کر لشکر اسلام پہونچ گئے یہ دعا کا پہلا اثر تھا ۔ کہ وہ غلہ جو طرا بلس عکا صر ، صیدا ،قیسا ریہ اور قسطنطنیہ سے فراہم کر کے لا رہے تھے گھر بیٹھے مسلمانوں کو مل گیا ۔ اور کس حا لت میں کہ مسلمانوں کو اوسکی سخت حاجت تھی اور کس موقع میں جہاں مسلمانوں کو پانی ملنا مشکل تھا ۔ یہ ہیں خدائے تعالیٰ کے کارسازیاں کہ دشمنوں کے ہاتھ سے اپنے دوستوں کی خدمت لی ۔کس شوق ومحبت سے اپنے بادشاہ کے پاس رسوخ حاصل کرنے کے لئے اونہوں نے وہ غلہ فراہم کیا ہوگا ۔اور کس آسانی سے اونسے چھین کر مسلمانوں کو دے دیا گیا الغرض ہرقل نے بہت ہی غضبناک ہوکر جنگ کا حکم دے دیا ۔ اور صف آرا ئی ہوئی ۔ فلنظانوس اور دوسرے رئیس او رقلعہ دار ہر قل کے قریب ایک ممتاز مقام میںٹھیرے ۔ او ریوقنا نے صفوں کی ترتیب دینی شروع کی ۔ فلنطانوس نے ہر قل کی زین پر ہاتھ مارا کر کہا اے بادشاہ میں دو سوفرسخ سے اپنا ملک چھوڑکر اس غرض سے آیاہوں کہ آپ کے روبرو ومسیح کی خدمت کرو ں آپ کے لشکر نے اس وقت تک بہت جا نفشانیاں کیں اب میں چہا تا ہوں اونکو شکست دے کر آپ کا او راپنا دل تھنڈا کروں ۔ہر قل نے اوسکا دل خوش کر نے کے لئے کہا کہ آپ کی سلطنت میر ی سلطنت سے قدیم ہے۔ عرب اس درجہ کے لوگ نہیںہیں کہ ان کے مقابلہ کے لئے اپنی ذات سے جا ئیں اگر ایسا ہو تو بادشاہوں کی حشمت و عزت میں فرق آجائے گا فلنطانوس نے کہا کہ اے بادشاہ اب کونسی عزت و حشمت ہماری باقی رہ گئی۔ عرب نے ہماری عزت کو خاک میں ملا دیا ۔او رہماری دین کی عزت کو برباد کر دیا جہاد ہر چھوٹے بڑے پر فرض ہے ۔کیا آپ نہیں جانتے کہ جو شخص دنیا کو محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اسکو خواہش اپنی طرف کھینچتی ہیں اور تعلق مزحزفات کے ساتھ بڑھتا ہے جس سے جہل کی کثافت اوسکے سینہ میں جمتی ہے اور آخرت کی طلب سے اوس کو روک دے تی ہے ۔ اور جو اپنی خواہشوں کو چھوڑ کر اپنے خالق کی اطاعت میں جلدی کرتا ہے اوس کو دارقدس کی طرف ترقی ہوتی ہے ۔
میں نے دیکھا کہ تم لوگوں پرغلفت کا پردہ پڑگیا اور ایسی چیزوں کے طرف مائل ہوئے جو فنا پذیر ہیں توایسی امت کو مسلط کیا جو سب سے زیادہ ضعیف تھی۔ اور تم کو تمہارے ملک سے نکالدیا ۔ اور وطن سے دورڈالدیا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ تم اس خواہشوں کو پورا کر نے پر اڑے ہوئے ہو اور حکم کرتے ہیں امر حق کا لحاظ نہیں رکھتے ۔اور رعیت سے ایسے حقوق اور ٹکسیں لگا تے ہو جو تمہارا حق نہیں ۔ اور ظلم سے مال لیتے ہو اور زنا کا رواج دے رکھا ہے ۔اسی وجہ سے تمہاری مددنہیں ہوتی اور مصیبت پر مصیبت تم پرآرہی ہے ۔
جب فلنطا نوس کا کلام کسی قدر سخت ہواتو حاجت ہر قل نے آواز بلند سختی سے کہا اے سروار ایسے موقع میں بادشاہ پراس قسم کا حملہ نکر نا چاہئے تم سے بڑے بڑے لوگوں نے اونھیں نصیحت کی مگر اونہوں نے اوسکی کچھ پروا نہ کی ۔ فلنطا نوس اوس کی سحت کلامی سے برہم ہوا ۔ اور ظاہراً تو کچھ نہ کہا ۔مگر دل میں مخالفت پیدا ہوگئی ۔جب رات ہوئی تو اپنے خاص خاص عہدہ دار اور مضاحبین کو بلا کر کہا کہ ٔ یا تم لوگ اس بات پر را ضی ہو کہ ہر قل کا دربان مجھ سے سخت کلامی کرے اور دوسرے ہم چشم بادشاہوں کے سامنے مجھ کو جھڑ کی دے۔ تم جانتے ہو میرا گھر ہر قل کے گھر سے بڑا ہے۔ اور اوس کا نسب میرے نسب سے کم ہے ۔او رمیری سلطنت اوسکی سلطنت سے قدیم ہے۔ حکما کا قول ہے کہ نفس کی عزت بادشاہوں کے جاہ کے مقابل ہے اوس کو ذلیل نہ کر نا چاہئے اور اونکا قول ہے۔ ان کو نصیحت مت کرو۔ کیونکہ او سکا نفع چاہو گے ۔ اور وہ تم کو ایذا دے کر اپنی خواہش پوری کرنا چا ہے گا ۔ تم جانتے کہ ہم دو سو فرسخ سے یہاں آئے وہ خیال کر تا ہے کہ ہم اوسکی دولت وافری کی وجہ سے آئے ہیں ۔ اور ہم اوس کے زمرہ ٔ خدام میں شریک ہیں میرا نفس ہر گز گوارا نہیں کرتا اس جاہل کی اطاعت کروں۔ میں نے قصد کرلیا ہے کہ ان عربوں کے طرف جائوں اور اون کا مذہب دریافت کروں اوس مذہب کا حق ہونا ظاہر ہے ۔ صدق اوسکی تائید دے تا ہے ۔جو شخص او س دین پر ہوگا وہ قیامت میں ہول اکبر سے بے فکر رہے گا۔ اس بات میں تم کیا کہتے ہو اونہوں نے کہا اے بادشاہ آپ کو اپنا دین اور ملک عزت چھوڑ کر ایسے لوگوں کے تا بع ہونا جن کو نہ کوئی فضیلت ہے اور نہ اون کے پاس حکمت ہے ۔کیونکر مگر گوارا ہوتا ہے ۔فلنطا نوس نے کہا کہ حکمت با لغہ کا وطن تو اونہیں کے نفوس میں ہے کیونکہ نور توحید نے اون کے ذہنوں کو مصفا کر دیا ۔ اورمقنا طیس ربآنیہ نے اون کے جوہر عقول کو اپنے بنی کی شریعت کی پیروی کے جانب کہینچ لیا جو شخص چاہے کہ عالم علیین سے ملے تواوس کو یہ نہ چاہئے کہ زمین جہل پر ٹھیر اونھوں نے کہا اے بادشاہ ہم آپ کو دایمی عزت سے روکنا نہں چا ہتے۔ اگر آپ ہم کو بھی حق کی راہ لیجا نا چاہتے ہو تو ہم آپ کے ہیں ۔ اور آپ کے آگے رہیں گے فلنطانوس نے کہا کہ اب اپنے خیالات کو بھٹکنے نہ دو۔ کل کی رات ہم اس حیلہ سے سوار ہونگے کہ ہر قل کے گھر کے اطراف حفا ظت کے لئے چکر لگا رہے ہیں ۔ اورلشکر عرب میں چلے جا ئیں گے ۔جب دوسری رات فلنطانوس تیار ہو کر سوارہو نے کا ارادہ کیا توہر قل نے یوقنا کی زبانی کچھ کہلا یا ۔یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے جب پیام پہونچاکر اوٹھنا چاہا فلنطانوس نے پوچھا کہ تم کون ہو کہا میں حاکم حلب ہوں ۔کہا اپنا شہر تم نے کیوں چھوڑا ۔کہا عرب ملک پر غالب ہوگئے اور سارے واقعات بیا ن کئے۔ فلنطاس نے کہا اچھا یہ توبتا ئو کہ عربوں کے صفات جو تم پر ظاہر ہوئے ہیں وہ کس قسم کی ہیں ۔ کہا اے بادشاہ میں اون کے دین میں داخل ہوا ۔ اور اون کے معاملات پر مطلع ہوا ۔اور اسرار سے واقف ہوا ۔دیکھا کہ وہ ایسی قوم ہے کہ باطل بات کو سنتی نہیں ۔ اور حق بات سے ٹلتی نہیں ۔ عبادت الٰہی میں اونکی یہ کیفیت ہے کہ رات کو سوتے نہیں ۔ جب بات کر تے ہیں تو اوس میں خدائے تعالیٰ ہی کا ذکر رہتا ہے ظالم سے مظلوم کا حق دلا تے ہیں ۔اونہیںجو غنی ہیں فقیروں کی امداد کرتے ہیں اون کے امیر فقیروں کے لباس میں ہیں ۔ عزت والا اور ذلیل اونکے پاس ایکساں ہے فلنطانوس نے کہا کہ جب تم نے اونکے ایسے حالات دیکھے توکون چیز مانع تھی کہ اون کے دین پر قائم ہوجا تے اور انہیں میں رہتے کہا اپنے دین کی سچائی اوراپنی قوم کی رفاقت۔ فلنطانوس نے کہا جو نفوس پا کیزہ ہوتے ہیں جب حق بات دیکھتے ہیں تو جاذبہ یقین اون کو اخلاص کی طرف کھینچتا ہے اور وہ اعلیٰ علین کی طرف ترقی کر جا تے ہیں ۔اس تقریر کے بعد یقنا رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اس کی با تیں توگواہی دے تی ہیں کے دین اسلام کی حقانیت اوس کے ذہن نشین ہوگئی اور دن بھر اسی فکر میں رہے ۔جب رات ہوئی تو فلنطانوس کے پا س آئے اوسوقت وہ سوار ہوناچا ہتا تھا ۔ فلنطانوس نے اون سے کہا کہ خدا ئے تعالیٰـ نے تم کو کس حجاب میں ڈال رکھا ہے جو متقین کی راہ کا اتباع نہیں کرتے ۔جو شخص طالب حق ہو اوس کے لئے واضع ہے ۔اور جو باطل کا اتباع کر تا ہے وہ اوس سے چھپا ہوا ہے ۔یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے کہا اے بادشاہ یہ جو اشارہ آپ کر رہے ہیں اس کے کیا معنی ہیں ۔ کہا اگر ہم بصیرت سے دیکھتے تو عرب کی ملت سے کبھی نہ ٹلتے ۔اور نہ اون کے بدلہ میں دوسروں کو اختیار کر تے معلوم ہو تا ہے کہ تم ایسے نعمتیں طلب کر تے ہو جو زائل ہونے والے ہیں۔ اور جس کا انجام عذاب ہے ۔یوقنا رحمتہ اللہ علیہ یہ سن کر خاموش ہوگئے ۔اور وہاں سے نکل کر اس تلاش میں ہوئے کہ اصلی حالت کیا ہے ۔ او ر اس راستہ میں جہا ں مسلمانوں کا لشکر جا نے کو تھا ٹھر گئے ۔ جب فلنطانوس سوار ا اور سرا پردہ سے باہر نکلا ۔ دیکھا کہ اپنے نبی اعمام مسلح ہو کر چار ہزار سوار ون کے ساتھ تیار کھڑے ہیں ۔ یہ سب وہاں سے روانہ ہوئے اور لشکر اسلام کے قریب ہوئے تھے کہ یوقنا رحمتہ اللہ علیہ پیش ہو کر کہا اے بادشاہ کیا لشکر اسلام پر حملہ کرنے کا ارادہ ہے ۔کہا خدا کی قسم یہ ہر گز میرا خیال نہیں بلکہ میں اون کے دین میں داخل ہونے کے لئے جا رہا ہوں ۔اب کہو کہ تمہیں اس دین میں داخل ہو نے سے کون چیز مانع ہے ۔اس وقت یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اے بادشاہ مجھے بعض حوادث نے اپنے طرف کھینچ لیا ہے۔ اور کل واقعات بیان کر کے کہا کہ میں روم سے غدر کر نا چاہتا ہوں ۔فلنطانوس بہت خوش ہوا ۔ کہ تم سے یہ کیونکر ہوسکے گا ۔ کیونکہ تمہارے ساتھ لوگ تھوڑے ہیں۔ کہا اے بادشاہ میرے گھر میں اسوقت وہ سوا کا ہتر صحابہ موجود ہیں جو بیس ہزار فوج روم کے برابر ہیں میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اسوقت لوٹ جائیں میں امیر مسلمین کو اس واقعہ کی خبر دے تا ہوں ۔ کل جب صف آرائی ہو گی تو آپ اپنے لشکر کے ساتھ ہر قل کے قریب اور اوس کو گھیر ے رہوئے رہو ا ور میں شہرمیں جا کر دو سو صحابہ جو قید ہیں اون کو رہا کر کے ہتیار دیتا ہوں لشکر اسلام جب حملہ کرے تو آپ مع لشکر ہر قل پر حملہ کرے اوس کو گرفتا ر کر لیجئے اور میں اپنے ہمرا ہیوں کے ساتھ شہر میں داخل ہو کر انشاء اللہ تعالیٰ فتح کر لیتا ہوں ۔ اور اگر آپ ظاہر ہونا نہیں چاہتے تو کسی اعتماد کے تحت میں لشکر دے کر تشریف لے جا ئے ۔ فلنطانوس نے کہا کہ یہ کام جب میں نے اختیار کیا تو میرا خیال نہ اپنے ملک کے طرف تھا نہ دنیا کے اور کسی ملک کے طرف ۔بلکہ جب یہ کام پورا ہو جا ئے گا اور میرے ہاتھ سے اسلام کی مددہوگی تومیں مکہ معظمہ کو جا رکر حج کرونگا ۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر شریف کی زیارت کر کے بیت المقدس میں رہونگا ۔ یہاں تک کہ وہیں مر جا ئونگا ۔ اوسکے بعد کہا کہ ہمارے اس عرب کا حال امیر کو کون پہونچا ئے گا ۔یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ اون کے جاسوس یہاں موجود ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں اون کے ذریعہ سے میں کہلا دیتا ہوں ۔یہی باتیں ہورہی تھیں کہ ایک پیر مرد وہاں موجود ہوے چونکہ شب تا ریک تھی یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے بہت غور وتامل سے اون کو دیکھا کہ وہ عمر بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ ہیں اونھوں نے سب پر سلام کر کے یوقنا سے کہا کہ امیر ابوعیبد ہ رضی اللہ عنہ نے تمہیں دعا دے کر یہ کہلا یا کہ اونھو ں نے خواب دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہیں کہ اے ابو عیبدہ خدا ئے تعالیٰ کی رضا مندی اور رحمت کی تمہیں بشارت ہے کہ کل ا نطاکیہ صلح سے فتح ہو جا ئے گا۔ اور جو واقعات بادشاہ رومیہ یعنے فلنطانوس پر اس موقع میں گذرے اور جو پیش آنے والے ہیں سب بیان کئے اور فرمایا کہ یوقنا رحمتہ اللہ علیہ اور فلنطانوس تم سے قریب ہیں ۔اونکو اس سے مطلع کر دوں فلنطانوس نے جب ان واقعات وباشارت کو سنا ایک ایسی حالت اون پر طاری ہوئی کہ جس کو وجد کہئے توبے موقع نہ ہوگا ۔ اور ساتھ ہی توحید و رسالت کی شہادت دے کر کہا یہ دین بے شک حق ہے ۔
پھر وہاں سے لوٹکر بادشاہ کے لشکر کے اطراف چکر لگا ئے ۔یہ معلوم کرنے کے لئے بادشا ہ کے لشکر کی حفا ظت کررہے ہیں ۔
یوقنا رحمتہ اللہ علیہ اپنے گھر گئے۔ واپس ہوئے تو راستہ میں بادشاہ کا حا جب ملا۔ جو انطا کیہ سے نکلا تھا ۔اور اوس کے ساتھ ضرار ابن ازورا اور رفا عہ اور دوسو قیدی ساتھ تھے ۔ اور قصد کر چکا تھا کہ ان کو قتل کر کے ان کے سرمسلمانوں کے لشکر میں جب صف آرائی ہو پھینک دے۔ جب یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے یہ سنا تو کہا اے بڑے صاحب تم جانتے ہو کہ صبح صف آرا ئی جنگ کی ہوگی اور تم ان کے سرانکے روبرو ڈالدو گے تو ضرور وہ لوگ جس کو گرفتا ر کریں گے کبھی زندہ نہ چھوڑینگے خدا سے ڈرو اور جلدی مت کرو ۔ او ر اون کو میرے پاس چھوڑ دو ۔ اور بادشاہ سے عرض کر دو کہ ان کے قتل میں توقف کر نا ۔ اس وقت تک بہتر ہے کہ عربوں کا انجام کیا ہوتا ہے ۔حاجت قیدیوں کو یوقنا رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چھوڑکر بادشاہ کے پاس گیا اور جو اونھوں نے کہا تھا بیان کیا۔بادشاہ نے کہا اونکو انہیں کے پاس چھوڑ دو ۔حاجب آکر کہا بادشاہ کا حکم ہے کہ تم انکی حفا ظت کرو۔ یوقنا رحمتہ اللہ علیہ نے ان کو لے کر اپنے خیمہ میں آئے ۔مگر انکا نکلنا انطاکیہ سے شاق ہوا ۔کیونکہ انھوں نے قصد کر لیا تھا کہ ان کی مدد سے شہر پر قبضہ کر لیں گے ۔ بہر حال جب خیمہ میں آئے تو ان کے بیڑئیں وغیرہ سب کا ٹ دئے۔ اور ہتیار ان کو دئیے۔اور انکو اس مشورہ کی خبر دی جو فلنطانوس کے ساتھ ہوا تھا کہ ہر قل پر مسلط ہوجا ئیں ضرار رضی اللہ عنہ نے کہا خدا کی قسم کل میں جہاد کرکے خدا ئے تعالیٰ کو راضی کر لونگا ۔
واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ہر قل نے خواب دیکھا ایک شخص آسمان سے اترا اور اوس کے تخت سے اوس کو گرا دیا ۔اور تاج اوس کے سر سے اڑ گیا ۔ او رایک شخص کہہ رہا ہے جو زمانہ دور تھا ۔ آگیا اور سوریہ تیرے ملک سے نکل گیا اور تیری سلطنت سوریہ سے زائل ہوگئی ۔ شقاق و نفاق جا کر دولت وفاق قائم ہوگئی ۔ اور اوسی شخص نے لشکر میں پھوک مارای۔ جس سے تمام لشکر میں آگ بھڑک او ٹھی ۔جب ہر قل نیند سے بیدار ہوا تو سمجھ گیا کہ اب ملک کا زوال ہے۔ اب تمام اپنے اہل و عیال اور کنبے کے لوگوں کو روانہ کر دیا ۔ اور اپنے غلام طالیس ابن رینوس کوجو اوس سے بہت مشا بہ تھا اپنا لباس پہنا کر اپنے قائم مقام کر دیا۔ اور خود روپوش ہو گیا ۔ جب طا لیس صبح کو میدان جنگ میں کھڑا ہو ا ۔اور معرکہ کار زار گرم ہوا ۔ تو صحابہ نے نہایت جانفشانی کی اور اودھر فلنطانوس نے طالیس کو گرفتا کر لیا ۔ یہ دیکھتے ہی لشکر کفار نے سمجھا کہ ہر قل گرفتا رہو گیا ۔ اور بھاگڑ مچی۔ مسلمانوں نے او ن کا تعا قب کر کے ہزاروں کو قتل کیا ۔ اور تیس ہزار آدمیوں کو قید کر لیا اور تمام متاع اور خزانے وغیرہ لوٹ لئے ۔ اور کل اموال غنیمت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے روبرو لا ئے گئے۔ اونھوں نے سجدۂ شکر بجا لا یا ۔ اور تمام مسلمانو ں نے ایک دوسرے پر سلام کیا ۔ اور یوقنا رحمتہ اللہ علیہ اور فلنطانوس اور اون کے رفقا جب ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو سب اونکی تعظیم کے لئے کھڑے ہوگئے ۔ اور کبار صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ کسی قوم کا کریم جو تمہارے پاس آجا ئے اور اوسکی تکریم اور بزگی کرو ۔ فلنطانوس نے مسلمانوں کی توا ضع اور حسنِ سیر ت دیکھ کر کہا کہ خدا کی قسم یہی وہ قوم ہے جس کی بشارت عیسی علیہ السلام نے دی تھی اسوقت تمام خاندان کے لوگ اسلام لائے۔ اور کفار کے ساتھ جہاد کئے یہاں تک کہ تمام شہر فتح ہوگئے اوس کے بعد فلنطانوس حج کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر مبارک کی زیارت کے لئے مدینۂ مبارک گئے ۔ عمررضی اللہ عنہ نے جب اونکو دیکھا کہ کھڑے ہوگئے ۔ اونھوں نے اور تمام مسلمانوں نے اون سے مصافحہ کیا ۔ پھر وہ بیت المقدس میں جا کر عبادت میں مشغول ہوئے یہاں تک کہ انتقال ہو گیا ۔
{وفاداری صحابہؓ}
تا ریخ واقدی میں لکھا ہے کہ جب عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ نے مصر پر چڑھائی کی اور قبطیوں سے مقابلہ ہوا توبہادر ان اسلام نے داد جو انمردی دی اور ایک ہزار سے زیادہ قبطیوں کو قتل اور بہتوں کو قید کر لیا اور باقی سب سامان وغیرہ چھوڑ کربھا گ گئے ۔
اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سا مال اور غلام و لونڈیاں ہا تھ آئیں منجملہ ان کے ازمانو سہ بادشا ہ مقو قس کی لڑ کی بھی غنیمت میں ملی عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ نے اپنے ہمرا ہیوں سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہوکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ہل جزاء الا حسان الا الا حسان اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہاں کے بادشاہِ مقوقس نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہدیہ روانہ کیا تھا اور حضرت کی عادت تھی کہ ہدیہ قبول کر کے اسکا شکریہ ادا کر تے ۔ ہم لوگ زیادہ تر مستحق ہیں کہ مقوقس نے جو ہدیہ بھیجا تھا اسکا معا وضہ کر دیں۔ اس لئے میری رائے ہے کہ شہزاری اوس کے باپ کے پاس روانہ کر دی جائے ۔ سب نے بطیب خاطر قبول کیا اور ان کی رائے کی تحسین کئے اور شہزادی کو اعزاز کے ساتھ روانہ کر دیا ۔انتہیٰ ۔
یہ غور کر نے کا مقام ہے کہ شہزادی کا ملجا نا کوئی معمولی بات نہیں ۔ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جس سے ہر شخص کو اوس وقت یہ خیال ہوگا کہ اوس کے معاوضہ میں بڑے بڑے منا فع حاصل کر سکتے ہیں بادشاہ اپنے جگر گوشہ کے معا وصہ میں ہماری کوئی بات رد نہ کر سکے گا ایسی نعمت عظمی سے دست بردار ہو جا نا کوئی آسان بات نہیں خصوصاً ایسے وقت میں کہ ایک بڑے ملک کو فتح کر نے جا رہے ہیں جہاں چھوٹے چھوٹے ذرائع کا میابی بڑی وقعت کی نظروں سے دیکھے جا تے مگر سبحا ن اللہ کسی بزرگوار نے یہ بھی تو نہ کہا کہ ادھرتمام خلاف مصلحت ہے ۔ ادھر ایک عقیدت مندنے اپنی رائے پیش کی ادھر تمام لشکر نے فوراً اس کو قبول کر لیا۔ کیوں نہ ہو سب ایک رشتہ عقیدت میں بندھے ہوئے تھے ۔
زلفت ہزار دل بہ یکتے مارمو بہ بست
راہ ہزار چار ہ گرا چارسو بہ بست
اگر ان حضرات کے معمولی طبائع ہوتے توضرور اعتراض پیش کیا جا تا کہ اگر مقوقس نے ہدیہ بھیجا تھا تو وہ ایک معمولی بات تھی جو سلا طین میں ہوا کر تی ہے اور وہ ہدیہ ہی کیا تھا ۔دو چا رلونڈ یوں ایک غلام ،ایک گھوڑا ، ایک گدھا ، ایک خچر اور کچھ شہد وغیرہ اس کے معا وضہ میں ایسے نعمت غیر مترقبہ کو دید ینا ہر گز مقتضائے عقل نہیں ۔پھر اگر معا وضہ دیا بھی گیا تو کیا فا ئدہ ۔اگر آنحصرت صلی اللہ علی ہوسلم زندہ ہوتے تو ممکن تھا کہ خوش ہوتے۔ اب تو۔ مصرعہ
آں قدح بشکست وآں سا قی نماند
کا مضمون ہے۔ آدمی جب مرا وہ گیا گذرا ہوگیا اس کو خوش کرنا اور اسکا خوش ہونا ممکن نہیں۔ غرض اس قسم کی بیسیوں عقلی دلائل پیش کر تے اور اس پر بہت زور دیا جا تا کہ مردہ کی خوشی کے واسطے کو ئی کام کرنا ۔عقلاً درست ہے نہ شرعاً مگر ان حضرات تک تو نئے خیالات کا گذر ہی نہ تھا وہا ںتووہ خیالات جمے ہوئے تھے جو آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی تعلیم اور فیضان صحبت نے ان کے دلوں میں کند ہ کر دیا تھا اس لئے کسی کو ان رکیک خیا لات نے ان کے دلوں میں کندہ کر دیا تھا ۔ اس لئے کسی کو ان رکیک خیالات کا خطور بھی نہ ہوا اور سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ کی خوشنودی کو اپنی کا میابی پر مقدم رکھا ۔ محبت اسے کہتے ہیں کہ جو وفا داری اور جاں بازی روبرو تھی وہی غائبانہ ہے ۔ اس میں ذرا بھی فرق نہیں اور جو امید یں حضرت کی خوشنودی کے ساتھ پہلے وابستہ تھیں اب بھی ہیں کیوں نہ ہو صحابہ کی محبت ایسی نہ تھی کہ صرف اشعار میں رونے رولانے کی غرض سے عمدہ مضامین تراشے جا ئیں بلکہ اس زمانہ میں شعرا جو وجدا نگیز عا لی مضامین میں اشعار لکھ کر عشاق کے دلو ں کو ہلا دے تے ہیں وہ ان حضرات کی سچی حالت تھی اور اس اخلاص وعقیدت مندی کے نتائج بھی اون حضرات کو حاصل ہوتے تھے ۔ واقدی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ جب لوقا اور ہر بیس جو لشکر شام کے بڑے سردار تھے د مشق سے بھا گے۔ ایک روز بولس جو اسی جنگ میں مسلمان ہو گئے تھے خالد رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کا قصد تھا کہ ان دونوں کا تعاقب کریں کیا وجہ ہے کہ اس ارادہ کو آپ نے فسح کر دیا فرمایا؟ کہ ان کو بھاگ کر چا ر روز ہوئے اور وہ اس عرصہ میں بہت دور نکل گئے ہونگے کیونکہ بھاگنے والا جان بچا نے کی غرض سے بہت تیز روہوتا ہے ہمیں امید نہیں کہ انکو پا سکیں ۔ کہا میں اس ملک کے راستہ سے واقف ہوں بہت نزدیک کے راستہ سے آپ کو لے جا سکتا ہوں ۔مگر آپ مع لشکر نصرانیوں کا لباس پہنئے کیونکہ نصرانیوں پر سے گذرنا ہوگا چونکہ مقصود اس بادہ پیما ئی سے رضا ئے الٰہی حاصل کر نا تھا فرمایا مضائقہ نہیں چنانچہ آپ نے مع چاہزاراہل اسلام کے نصرانیوں کا لباس زیب بدن فرمایا اور یہ کہتے ہوئے رونہ ہوئے ۔شعر
از کوچہ اش گذشتن مقصودِ عاشقان است
برسر کلاۃ تری با شد ویا کیا نی
اور تھوڑے عرصہ میں ان کو پالیا اور جنگ عظیم ہوئی جس میں لوقا جو ہر قل کا داماد تھا خالد ابن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ما را گیا اب تمام بہادر ان لشکر شام اس تاک میں ہیں کہ کسی طرح خالدرضی اللہ عنہ کو شہید کر ڈالیں اور انکی یہ حالت کہ پکار پکارکر کہہ رہے ہیں کہ میں بہادر سوار ملک عرب ہوں کیا تم گمان کر تے ہو کہ ہم تم پر قابض نہ ہونگے یہ ہر گز نہ ہو گا یہ وہ وقت تھا کہ لشکر شام کو ہزیمت ہو چکی تھی او ربہا در ان اسلام غنیمت لوٹنے میں مشغول تھے ہر چیز جو سپہ سالار لشکر شام تھا بہادر افسروں سے خطاب کر کے کہا کمبختو یہ وہی شخص ہے جس نے خطۂ شام کو الٹ دیا ۔بصری ، فا را ن د مشق اور اجنا دین کو فتح کیا اسوت یہاں سے اب اسکو جانے نہ دو۔ ہر طرف سے بہادر ان شام آپ پر توٹ پڑے ۔ اور آپ نتہا ان سے لڑرہے تھے چونکہ وہ پہا ڑی مقام تھا۔ گھوڑے کا م نہیںدیتے تھے ۔اس لئے بہادر ان شام نے پیادہ ہو کر خالدرضی اللہ عنہ کو گھیر لیا آپ بھی پیادہ ہوگئے اور دادجواں مردی دیر ہے تھے کہ ہر بیس نے پیچھے سے آکر آپ پراس زور سے وار کیا کہ آپ کا خود کٹ گیا۔ اور اس کے ہا تھ سے تلوار گر گئی اس وقت آپ کا خیا ل ہوا کہ ہر بیس کے طرف متوجہ ہو ں تو جتنے لوگ مقابل ہیں ان کو موقع مل جا ئے گا اور اسی حالت پر رہوں تو دشمن قوی کو پورا موقع حاصل ہے کہ دوسرا وار کر ے اوسوقت آپ کو سوائے اس کے کچھ نہ سوجھا کہ یہ آواز بلند تکبیر و تہلیل کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا اس کے بعد تھوڑا عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اہل اسلام کی فوج کلمہ پڑھتی ہوئی پہونچ گئی اور فتح ہوگئی ۔
خالد رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمن ابن ابی بکر رضی اللہ عنہ وغیرہ جو تائید کے لے آئے تھے ان سے پوچھاکہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں یہاں ہوں انہوں نے کہا کہ ہم اہل شام سے لڑرہے تھے جب ان کو ہزیمت ہوئی تو مال غنیمت کے لوٹنے میں مشغول ہوگئے اسوقت غیب سے آواز آئی کہ تم غنیمت میں مشغول ہو اور ادھر رو میوں نے خالد رضی اللہ عنہ کو گھیر لیا ہے یہ سنتے ہی ہم سب چھوڑ کے آپ کی مدد کو نکلے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ آپ کہاں ہیںایک پہلوان نے ہمیں یہ خبر دی کہ آپ اس پہاڑ میں ہیں جب آپ تن تنہا ایک فوج کثیر سے گھر گئے اور ہر طرف جہان تک نظر پڑتی ہے سب خون کے پیاسے نظر آتے ہیں اور ایک قوی پہلوان ایک وار کر کے دوسرا وار کرنے کے لئے مستعد سرپر کھڑا ہے اور اتنی بھی فرصت نہیں کہ اس کو مڑکر دیکھیں اور اسکا دفعیہ کریں اور رفیقوں کلا یہ حال کہ خبر تک نہیں وہ کہا ںہیں کہئے وہ کیسی خطرناک اور ما یوسی کی حالت ہوگی اسوقت درود شریف کا یاد آجانا ایک حیرت خیز امر ہے کیونکہ وہ وقت وظیفہ پڑھنے کا نہ تھا وہاں تویہ ضرورت تھی کہ اس خطرناک تہلکہ سے کس طرح رستکا ری ہوا ور دشمن پر فتح پا ئیں ظاہر ادرود شریف کو اس سے کوئی مناسبت نہیں مگر وہ حضرات صحبت یافتہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہ جانتے تھے کہ بارگاہ کبریانی میں جو عرض و معروض اپنے آقا ئے دارین کے توسل سے پیش ہو اس کسی پذیر ائی فورا ً ہوجا تی ہے چنانچہ احا دیث سے ثابت ہے کہ ہر دعا کے اول وآخر درود شریف پڑھا جا ئے اس میں یہ لم ہے کہ درود شریف ایک خاص قسم کی دعا ہے جو حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی جا تی ہے۔ اس سے یہ ثابت کر نا مقصود ہے کہ ہم بھی حضرت کے دعا گویوں میں ہیں ورنہ خدائے تعالیٰ نے آپ کو وہ مدارح و مراتب عطا فرمائے ہیں کہ کسی کا وہم و خیال بھی وہاں نہیں پہونچ سکتا یہی دعا گوئی اور خیر خواہی پسند بارگاہ کبریانی ہے جس کا اظہار عرض حاجت کے وقت کیا جا تا ہے غرض کہ اس ناز ک حالت میں بجائے اس کے کہ کچھ دعا کریں درود پڑھنے لگے اور بارگاہ کبریانی میں عرض کی تو یہ کی کہ یا اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیج جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اپنے مرنے کا غم نہ جینے کی خوشی ہمار ا مقصود اصلی یہ ہے کہ ہمارے آقا ئے نامدار پر تو پے درپے درود وسلام بھیج ۔اگر غور سے دیکھا جا ئے تو اس سے بہتر حسن طلب کا کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا کیونکہ جب بارگاہ کبریانی میں یہ بات با ور کرا دے گئی کہ مرتے دم تک ہم تیرے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دم بھر تے ہیں اور ایسی نازک حالت میں دعا بھی ہے تو یہی کہ الٰہی ہر طرح کا فضل احسان و رحمت اپنے حبیب پر فرما تو ایسے عقیدت مند خیر خواہ جان نثار پر کس قدر مہر بانی توجہ حضرت کی ہوگی اور قاعدہ ہے کہ جو دوست کا خیر خواہ جان نثار ہواس سے ایک خاص قسم کی محبت ہو تی ہے اور اس کی حاجت روائی با عث خوشنودی دوست سمجھی جا تی ہے غرض کہ اس نازک حالت میں حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو خلوص تھا بارگاہ کبریانی میں پیش کر کے اپنی حاجت کا اظہار کیا کہ اگر اس وقت حاجت ہے تویہی ہے کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر پورا فضل و احسان فرما اور اپنے ذاتی حاجت پر اسکو مقدم کر کے اپنی حاجت اور ضرورت کو حق تعالیٰ کی مرضی پر تفویض کر دیا۔ اب ایسے مخلص کی حاجت روائی میں کس قدر توجہ ہو نا چا ہئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یا تو وہ حالت تھی کہ جس کو دم واپسیں کہیں تو بیجا نہ ہوگا یا فوراً انقلاب عظیم ہوگیا ۔ اور فوج عظیم پر ان کا غلبہ ہو کر فتح ہو گئی یہ سب طفیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثمرہ اوس دعا گو ئی کا تھا جو اس نازک حالت میں کی گئی اگر ہم میں وہ خلوص نہیں تو ان حضرات کی تقلیدہی کر کے انشاء اللہ تعالیٰ فائز المرام ہوسکتے ہیں ۔
{خلوص}
آکام المرجان میںلکھا ہے کہ حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ ایک درخت تھا جس کی پرستش لوگ کر تے تھے۔ ایک شخص نے یہ حالت دیکھ کر حمیت اسلام کے جوش میں اوسکو کاٹنا چاہا ۔ جب کاٹنے لگا تو شیطان نے آدمی کی شکل میں آکر کہا یہ کیا کر تے ہو ۔ کہا کہ لوگ خدائے تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی عبادت کر تے ہیں۔ اس لئے میں کاٹ ڈالتا ہوں ۔شیطان نے کہا کہ میں ایک بات ایسی بتا تا ہوں کہ آپ کو اس سے زیادہ نفع ہو ۔ کہا وہ کیا کہا اس کو چھوڑ دیجئے اس کے معا وضہ میں ہر روز دو دینا یعنی اشرفیاں آپ کو پہونچ جا یا کر ینگی ۔ صبح ہوتے ہی آپ اپنے تکیہ کے نیچے سے لے لیا کیجئے ۔ کہا اس کا اطمینان کیونکر ہو سکے ۔ کہا میں ضامن ہوں ۔ یہ سن کر مکان کو آگیا صبح ہو تے ہی جب دیکھا تو فی الواقع تکیہ کے نیچے دو دینار رکھے ہوے تھے لے لیا۔ دوسرے روز جب تکیہ کے نیچے دیکھاتو کچھ نہ تھا ۔غصہ میں آکر کہا کہ اب اوس درخت کو کلاٹ ڈالونگا ۔جب وہاں پہونچا اور کاٹنا چا ہا تو پھر ایک شخص آکر پوچھا کہ یہ کیا کر تے ہو۔کہا لوگ خدائے تعالیٰ کی عبادت کو چھوڑا کر اس درخت کی پرستش کر تے ہیں اس لئے اس کو کاٹ ڈالتا ہوں۔ کہا تو جھوٹا ہے۔ اب ہر گز نہیںکاٹ سکتا ۔اوس نے یہ سن کر کاٹنے لگا ۔ او س شخص نے اوسکو زمین پر دے مارااور گلا گھونٹتے ہوئے پوچھا کہ تو جانتا ہے میں کون ہوں۔اول جب تونے یہ قصد کیا تھا تو غصہ خدا کے واسطے تھا اس لئے میں کچھ نہ کر سکا ۔ اس لئے کہ دو دینار کی چاٹ لگا دی ۔آج کا یہ غصہ تیرا دینار نہ ملنے کی وجہ سے تھا اس میں تجھ پر غالب ہو گیا ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے دونوں وقت کا م ایک تھا ۔یعنی پرستش درخت کو موقوف کر اتا مگر خلوص کے وقت کامیابی کو توقع تھی ۔ اور غرض ذاتی کے وقت معا ملہ بالعکس ہوگیا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ نہ بت پرستی سے خدائے تعالیٰ کا کوئی نقصان ہے ۔نہ اوس کے موقوف ہونے سے کوئی نفع ۔بلکہ دونوں صورتوں میں بندوں ہی کا نفع یا نقصان ہے ۔
{متعلق بہ صحابہ ؓ}
صحابہ خلوص سے دین کی حمایت کرتے تھے اوس سے اونکے مدارج بڑے اور اوس خلوص کا یہ اثر ہوا کہ دوردراز تک اسلام پھیل گیا ۔ اور اقوام کے دلوں میں اونکی عزت وہ ہوئی کہ کسی قسم کو نصیب نہیں ۔ اوس کے بعد جب خلوص جا تا رہا تو بجائے ترقی منزل شروع ہوا اور مسلمانوں کی وہ عزت جو اسلام کے زمانہ میں دوسری قوموں کے دلوں میں تھی جا تی رہی ۔غرضکہ جو کام خلوص سے کیا جائے اوسمیں ایمانی فا ئدہ ہے ۔
{محبت انصار بمقابلۂ شوہروپدر وبرادر}
شفاء میں قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے اور اس کی شرح میں خفا جی رحمتہ اللہ علیہ نے بیہقی وغیرہ سے نقل کیا ہے کہ جنگ احد میں ایک انصار یہ بیوی کے باپ بھائی اور خاوند شہید ہوگئے جب انہیں یہ خبر پہونچی تو بے اختیار دوڑیں او رہر طرف پوچھتی پھر تی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا حالت ہے لوگوں نے کہا خیریت ہے ۔کہا اس سے میری تسکین نہیں ہوسکتی جب تک کہ جمال جہاں آرا کو میں اپنی آ نکھوں سے نہ دیکھ لوں ۔چنانچہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کی گئیں ۔جب آپ کواونہوں نے مسند آرائے صحت و عافیت پایا کمال مسرت سے کہا کل مصبیبۃ بعد ک جلل یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی مصیبتیں آپ کے بعد ہیں سب آسان ہیں ۔انتہیٰ ۔
ہر شخص جانتا ہے کہ عورت کو اپنے باپ بھائی سے خصوصاً شوہر سے کیسی محبت ہوتی ہے او ران کے مرنے سے عورتوں کا کیا حال ہوا کرتا ہے عمر بھر یہ داغ انکے دلوں کو جلا تا رہتا ہے ۔ان قرا بتدا روں سے ایک ایک کی موت جو آفت ڈھاتی ہے محتاج بیان نہیں پھر جب وقت واحد میں تینوں کی موت کی خبر یکایک پہونچی ہوگی تودل کا کیا حال ہونا چا ہئے مگر سبحا ن اللہ وہاں توسوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کے کسی کا خیال بھی نہ تھا ۔
نیست برلوح لم جزالف قامت یار
چہ کنم حرف و گریا دندااد استادم
اس لئے کسی کی موت کا انکے دل پر کچھ اثر نہ ہو او رجب تک انہوں نے چشم خود حضرت کو دیکھ نہ لیا کسی کے طرف توجہ نہ کی اورکس عمدگی سے یہ مضمون ادا کیا۔کہ جب آپ سلامت ہیں تو پھر ہمیں کسی کا کیا غم ۔
یہ امر پوشیدہ نہیں کہ قر ابت قریبہ کا غم آدمی کی فطرت میں داخل ہے با وجود اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں کیسی مستحکم اور را سخ ہوگی کہ یہ فطرتی امر بھی اس کے مقا بلہ میں سر نہ اٹھا سکا ۔
چونکہ فطر تی اور طبع امو رپر عا رضی غالب نہیں ہوسکتا اس وجہ سے یہ بات کبھی سمجھ میں نہ آئے گی کہ ان بیوی کو سوائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیال کے شوہر وغیرہ متقولوں کلا اوس وقت کچھ غم نہ تھا فی الحقیقت آدمی ہی بات سمجھ سکتا ہے جس کا کبھی اوسے وجدان ہوا ہوا اور جن امور کا کبھی وجدان ہی نہ ہوا ہوتو سمجھ اس کی ان سے قاصر رہتی ہے مگر عقل کی روسے یہ درست نہیں ۔
کارپاکاں را قیاس از خودیگر
کیونکر یہ ضرور نہیں کہ ایک شخص کے کل وجدان دوسرے کے جیسے ہوں ۔ دیکھ لیجئے جن طبعیتوں کو شعر کا مذاق ہوتا ہے ۔ان کو بعضے اشعار پر وہ تلذذ ہوتا ہے کہ وجد کی کیفیت ان پر طاری ہوجا تی ہے اور دوسروں کو اس کا احساس تک نہیں ہوتا علی ہذا القیاس عنین کو جماع کے التذاذ کا وجدان ممکن نہیں غرض کہ ان بیوی پر جو وجدانی کیفیت اوس وقت طاری تھی اس کے آثار یہ بتلا رہے ہیں کہ ان کو اس وقت اپنے شوہر وغیرہ کا ذرا بھی غم نہ تھا بلکہ ہمہ تن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی فکر میں مستغر ق تھیں با ت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ نسبت عشقیہ ہونا ایک دولت عظمی ہے ہر کسی کو کہاں نصیب ہو سکتی ہے ۔مصرع طعمہ ہر مر غکے انجیر نیست ۔
{معنی حدیث لایؤمن احد کم }
اہل اسلام میں وہی لوگ بڑے درجہ کے سمجھے جا تے ہیں جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال درجہ کی محبت ہوتی ہے اور کمال درجہ کے ایمان کا مدار بھی اسی پر رکھا گیا ہے جیسا کہ صحیح حدیث شریف میں وارد ہے کہ لا یو من احد کم حتی اکن احب الیہ من ولدہ ووالدہ والناس اجمعین یعنی کوئی ایمان نہیں لا تا جب تک اس کے دل میں میری محبت اولاد اور باپ اور تمام لوگوں کی محبت سے زیادہ نہیں ہوتی اس پر قرینہ یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ حالت تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف میں کوئی شخض کیسا ہی دوست ہوا گر کچھ کہتا تووہ ہر گز نہ مانتے اور حضرت ہی کی اطاعت کر تے اس کی وجہ یہی تھی کہ محبت اپنے محبوب کی اطاعت کرتا ہے جیسا کہ مہشور ہے ان المحب ملن یحب یطیع اس حدیث سے جو معلوم ہو تا ہے کہ ایمان سے پہلے صحابہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہو جا تی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ جو کفار منصف مزاج تھے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلا ق عادت او ر حرکات و سکنات پر غور کیا کر تے تھے پھر جب ان تمام امو رمیں غیر معمولی کمال کا مشا ہدہ کر تے تو با لطبع آپ سے ان کو محبت ہوجا تی تھی کیونکہ طبعیت انسانی کمال پسند واقع ہوئی ہے دیکھ لیجئے کہ کسی کمال کا شخص کسی شہر میں آجا تا ہے تو لوگ اس کے گرویدہ ہو جا تے اور اون کو اس سے محبت پیدا ہوتی ہے ۔کسی بزرگ کا قول ہے ع کسب کمال کن کہ عزیز جہاں شوی۔جب ایک کمال باعث محبت ہو جا ئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات تو مجمع کمالا ت صوری و معنوی تھی سوائے متعصب کے ایسا کون ہو گا جس کو آپ کے ساتھ ذاتی محبت نہ ہوتی ہوگی ۔حضرت کے کمالات تو بے انتہا ہیں مگر اس میں سے چند یہاں بطور مشتے نمونہ از خر وارے لکھے جا تے ہیں ۔
{شرافت نسبی وغیرہ صلی اللہ علیہ وسلم }
آپ کی شرافت نسبی تمام ملک عرب میں مسلم تھی کیونکہ آپ قریشی او ر ہا شمی تھے اور قبیلۂ قریش اور اوس میں سے خاص نبی ہاشم نہایت معظم اور مکرم مانے جا تے تھے کیونکہ کعبہ شریف جو ملک عرب میں واجب التعظیم تھا اس کے کل خدمات اسی قبیلہ سے متعلق تھے ۔ اور علا وہ اس کے اس قبیلہ کی شجاعت اور سخاوت شہرہ ٔ آفاق تھی۔
{شجاعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم }
آپ کی شجاعت کا یہ حال تھا کہ اسد اللہ الغالب علی کرم اللہ وجہہ فرما تے ہیں کہ جب کبھی ہنگا مہ کارزار گرم ہوتا اور دونوں فوجیں باہم قریب ہو جا تیں تو ہم لوگ حضرت کی پنا ہ میں آجا تے اور حضرت سب سے آگے دشمن کے قریب رہتے اور یہ بھی آپ نے فرما یا ہے کہ میری اور سب اہل لشکر کی حالت جنگ بدر میں یہی تھی کہ حضرت کی پناہ میں ہم لوگ چلتے تھے اور حضرت فوج اعداء کے جانب پڑھے جا تے تھے ۔
آ پ کی طا قت اور قوت جسمانی کی یہ کیفیت تھی کہ ابو ر کانہ جو تما م عرب میں زبردست پہلوان مانا جا تا تھا جس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا تھا اس نے ایام جا ہلیت میں یعنی بعشت سے پہلے آپ سے کشتی کی درخوست کی آپ نے قبول فرمایا اور متواترتین با را سکو زمین پردے مارا اور اسکا فرزند رکا نہ بھنی نہایت قوی پہلوان تھا بعد بعشت جب آپنے اس کو دعوت اسلام کی اس نے کہا کہ اگر آپ کشتی میں مجھ پر غالب ہو جا ئوگے تو میں مسلمان ہو جا ئونگا چنانچہ کشتی ہوئی اورآپ اس پر غالب ہوگئے اور وہ مشرف بہ اسلام ہوئے کمافی الخصائص وغیرہ ۔
آپ کی مروت کا یہ حال تھا کہ ابو طالب ہر روز صبح لڑکو ں کو کھانا کھلا یا کرتے ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہوتے۔ لڑکے حسب اقتضائے طبع دست درا زی کر کے ایک دوسرے کے سا منے سے کھا لے تے ۔چنانچہ حضرت کے روبرو سے لے لیتے اور حضرت خاموش بیٹھے رہتے اور بھو کے رہ جا تے تھے ابو طالب نے یہ دیکھ آپ کا کھا نا ہی علحدہ مقرر کر دیا ۔ اب غور کیجئے کہ لڑکپن میں جب یہ حالت ہوتو امام نبوت میں کیا حال ہوگا۔
تواضع کا یہ حال تھا کہ آپ فرما یا کرتے کہ میں ایک بندہ ہوں جس طرح غلام کھا تے ہیں میں بھی کھا تا ہوں اور جس طرح غلام بیٹھتے ہیں میں بھی بیٹھتا ہوں اور اکثرآپ مسکینوں کی بیمار پرسی فرماتے اور فقراکے ساتھ تشریف رکھتے اور کسی مجلس میں جاتے توجہاں جگھ مل جاتی وہیں تشریف رکھتے اگر غلام بھی آپ کی دعوت کر تا تو تشریف لے جا تے ایک بار ایک عورت خدمت میں حاضر ہو ئی جس کی عقل میں کچھ فتو رتھا اور عرض کی کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے فرمایا مدینہ کے جس راستے میں بیٹھنا منظورہو بیٹھ جا ۔میں وہیں آجائونگا چنانچہ وہ کسی راستہ میں بیٹھی اور آپ بھی اس کے ساتھ وہاں بیٹھ گئے اور جو اسکی التجا تھی وہ پوری فرمادی ۔
{فصاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم}
فصاحت کا یہ حال کہ لوگوں کوآپ کی غیر معمولی فصاحت سے تعجب ہوتا چنانچہ کنز العمال میں روایت ہے کہ عمر رضی اللہ نے تعجب سے استفسار کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو کبھی ہم لوگوں سے جدا نہیں ہوئے ۔ پھر کیا وجہ کہ آپ ہم سب سے فصاحت میں زدیاہ ہیں فرمایا جبرئیل علیہ السلام نے مجھے تعلیم کی اور شفا میں قاضی عیاض رحمتہ اللہ علیہ نے روایت کی ہے کہ صحابہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو فصاحت میں آپ سے زیادہ ہو ۔عر ب میں مختلف قبائل ہیں اور ہر ایک کے محا ورات علحدہ ہیں آپ جس قبیلہ کے لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں اسی کے محاورات میں کرتے ہیں اور فصحا ء و بلغاء کے جواب خاص طرز پر دیتے جس کو ہر کس و ناکس نہیں سمجھ سکتا تھا چنانچہ شفاء میں اکثر مذکور ہے ۔
{عقل}
کما ل عقل اس درجہ پر تھا کہ تمام عقلا آپ کے تدا بیر سے حیران ہیں جو لگ آپ کی نبوت کے قائل نہیں انہوں نے بھی آپ کو اعلیٰ درجہ کا عقلمند تسلیم کر لیا ہے جیسا کہ اہل یورپ نے بھی اس کی تصریح کی ہے ۔
{صدق و راست با زی }
آپ کی صدق وراست بازی اور امانت کی یہ کیفیت کہ قبل نبوت بھی سب آپ کو امین کہا کر تے تھے ایک بار آپ نے کفار قریش کو جو کل مخالف اور جانی دشمن تھے جمع کر کے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ ایک لشکر عظیم الشان چلا آرہا ہے تو کیا تم لوگ اس کی تصدیق کر وگے سب نے بالاتفاق کہا کہ بے شک ہم تصدیق کر ینگے کیونکہ آ پ کبھی جھوٹ نہیں کہتے ۔
علم کی یہ کیفیت کہ کیسی ہی اذیت پہونچے بدلہ لینا جانتے ہی نہیں دیکھئے جنگ احد میں آپ کے دندان مبارک شہید ہو ئے چہرہ مبارک پر شدید زخم آیا صحابہ پر یہ امر یہاں تک شاق ہوا کہ سب نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع میں آپ ان اشقیا کے حق میں بد دعا کیجئے آپ نے فرمایا یہ میرا کام نہیںہے مجھے حق تعالیٰ نے خلق کو دعوت کرنے کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد آ پ نے دعا کی یا اللہ میری قوم کو ہدایت فرما وہ جانتے نہیں کہ میں ان کا کیسا خیر خواہ ہوں ۔
{عفو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم }
عفو کایہ حال کہ اگر کسی نے قتل پر بھی اقدام کیا تو آپ نے معاف فرمادیا چنانچہ شفا میں روایت ہے کہ کسی غزوہ میں آپ ایک بار درخت کے سایہ میں تنہا آرام فرما رہے تھے اور صحابہ دوسرے درختوں کے تلے تھے ایک کافر جس کا نام غورث تھا سب کو غافل پا کر بہ ارادۂ قتل حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا اور تلوار کھینچ کروارکرنا چاہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوگئے اوراس کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی آپ نے وہی تلوار لے کر فرمایا کہ اب تجھے کون بچا ئے گا کہا کہ موخذہ میں رعایت فرما ئیے آپ نے اسکا قصور معا ف فرمادیا ۔اس نے اپنے قبیلہ میں جا کر کہا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آرہا ہوں جو خیر الناس ہے اور اسی میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ تھا حضرت ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے جن کے کنا رہ نہایت گندہ اور سخت تھے ۔ایک اعرابی آیا اور اس چادر کو اس زور سے کھینچا کہ حضرت کے گردن مبارک پر اس کا اثر نمایاں ہوا اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ دو اونٹ میرے ساتھ ہیں اون پر مال لادو جو تمہارے پاس ہے وہ نہ تمہارامال ہے نہ تمہارے باپ کلا بلکہ اللہ کا مال ہے ۔حضرت خاموش ہوگئے اور کچھ وقفہ کے بعد فرمایا کہ ہاں اللہ کا مال ہے او رمیں اوسکا بندہ ہوں اس کے بعد فرمایا اے اعرابی کیا تجھ سے اس سختی کا بدلہ لیا جا ئے جو تونے میرے ساتھ کی اس نے کہا نہیں ۔فرمایا کیا وجہ کہا اس وجہ کہ آپ برائی کے بدلہ میں برائی نہیں کر تے آپ نے ہنسکر فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جو اور ایک اونٹ پر کھجوریں لاددو ۔انتہیٰ ۔
{سخاوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم }
سخاوت کی یہ کیفیت کہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا کبھی آپ نے لفظ لا کو زبان پر نہیں لا یا اسی مضمون کو فرزدق شاعر نے لکھا ہے ۔
ماقل قط لا الا فی تشہد ہ
ہو لا التشہد کانت لا ء ہ نعم
غور کیجئے کہ اس سے بڑھ کر سخاوت میں کوئی رتبہ ہو سکتا ہے کہ کسی سائل کو محروم نہ کیا جائے حیرت تویہ ہے کہ اگر حضرت کے پاس کچھ نہ ہوتا جب بھی آپ سائل کو محروم نہ فرماتے چنانچہ شفا ء میں ترمذ ی شریف سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے فرمایا کہ اس وقت میرے پاس کچھ نہیں لیکن تم جس چیز کی درخواست کر تے ہو وہ خرید لو ہم اس کی قیمت ادا کر دینگے عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے تعالیٰ نے آپ کو اس امر کی تکلیف نہیں دی کہ جو چیز آپ کے پاس نہ ہو وہ بھی سائل کو دلا دیں اس کلام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر آثار کراہت نمایاں ہوئے ساتھ ہی ایک صاحب نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ فراغت سے خرچ فرمائیے اور اوس خدا کی نسبت جو عرش کا مالک ہے کبھی خیال نہ کیجئے کہ آپ پر تنگی ڈالے گا ۔حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کلام پر تبسم فرمایا اور چہرۂ مبارک پر آثار بشاشت نمایاں ہوگئے اور فرمایا مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے ایسا ہی امر فرمایا ہے ۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سوال کیا آپ نے اوس کو بکریوں کا ایک اتنا بڑا ریوڑ عطا فرمایا کہ دو پہا ڑوں کے درمیانی میدان کو بھر دیا تھا وہ شخص نہایت خوشی سے اپنے گھر گیا اور قوم سے کہا کہ لوگو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں بردار ہو جا ئو ان کی عطا کا یہ حال ہے کہ ان کو فاقہ کا کچھ خوف نہیں۔ ایک جنگ میں قبیلہ ہوازن کے چھ ہزار شخص قید کر لئے گئے تھے قبیلہ کے طرف سے ان کی رہائی کے باب میں سفارش ہوئی آپ نے اونکو رہا فرمادیا ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک ہی با ت میں چھ ہزار لونڈی غلام آزاد فرمادئیے ۔ ایک بار نود ہزار درہم کہیں سے آئے آپ نے ان کو ایک بوریہ میں ڈالوادیا او رتقسیم شروع کی یہاں تک کہ اسی مجلس میں سب تقسیم کر دئے معوذ بن عفرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک طبق میں رطب اورککڑیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیں آپ نے اوس کے معا وضہ میں زیور اور سونا کف کے بھر کے عطا فرمادیا ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ نے نصف وسق جو تخمیناً تین من ہوتے ہیں قرض لے کر اس کو عنایت فرمایا جب قرضدار تقاضے کو آیا تو آ پ نے ایک پوار وسق اس کو عنایت کر کے فرمایا کہ نصف ادائی قرضہ میں لو اور نصف بخشش یہ چند روایات ہیں جو شفاء قاضی عیاض سے نقل کی گئیں ۔اسی پر قیاس کر لیجئے کہ روز انہ اودہیش کا کیا حال ہوگا کیونکہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی شخص سخی مشہور ہوتا ہے تواہل حاجت کا وہاں مجمع رہا کر تا ہے پھر جب ملک عرب جن کی فلاکت و افلاس شہرۂ آفاق ہے وہاں کے فقرأ اس داد و دہش کے حالات خاص و عام سے سنتے ہونگے تو دور دور سے جوق جوق آتے ہونگے ۔
مقاصد الاسلام کے چھٹے حصہ میں بھی چند حالات آپ کی سخاوت کے لکھے گئے ہیں غرض کہ یہ سخاوت حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ تھا ۔یہ ایک ہی ایسی صفت ہے کہ آدمی کو محبوب بنا دے تی ہے ۔دیکھئے حاتم کے نام پر اب تک محبت آتی ہے اور قارون کا نام سن کر بغض پیدا ہوتا ہے حالانکہ ان دونوں سے اس وقت کوئی تعلق نہیں بخلاف اس کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دا دو دہش اور جو دوسخا کا مشا ہدہ ہوتا ہوگا تو کیسی کیسی امیدیں آپ سے وابستہ ہوئی ہونگی ۔
الحاصل جملہ اخلاق حمیدہ وصفات پسندیدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں کامل طوپر پرئے جا تے تھے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ صفات وہ ہیں کہ جن میں سے کسی میں ایک بھی پائی جا ئے تو اس کے ساتھ عموماً محبت ہوا کرتی ہے پھرجب یہ تمام صفات علی وجہ الکمال حضرت میں موجود تھے جن کو سب لوگ مشا ہدہ کر تے تھے تو ایسا کون ہوگا جس کو بالطبع آپ کے ساتھ محبت نہ پیدا ہوتی ہوگی ۔ہاں یہ بات او رہے کہ عا را اور تعصب وغیرہ کی وجہ سے یہ امور نظر اندار کر دیئے جا تے تھے مگر اس قسم کے لوگ ایمان بھی لا تے نہ تھے ان کا ذکر ہی کیا کلام ان لوگوں میں ہے جو تعصب کو دور کر کے نظر انصاف سے ان کمالات کو دیکھا کر تے تھے ان کو ان کو بمقتضائے طبع حضرت سے کمال درجہ کی محبت ہونے میں کسی قسم کا شک نہیں ہو سکتا کیونکہ حسن و احسان اور کمالات پر نظر پڑنے کے بعد آدمی کے دل میں خود بخود محبت پیدا ہو نا جبلی اور فطرتی امر ہے بہر حال یہ کہنا بالکل قرین قیاس ہے کہ ان کمالات کو دیکھ کر اہل انصاف کو با لطبع محبت پیدا ہوتی تھی جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی کہ لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ الخ ۔
یہاں یہ شبہ پیداہوتا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے اپنی جان کے میں آپ کو سب سے زیادہ دوست رکھتا ہوں اس پر ارشاد ہو ا لن یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ یعنی کوئی ایمان نہ لا ئے گا جب تک میری محبت اس کے دل میں اس کی جان سے زیادہ نہ ہو گی عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ آپ کی محبت میرے دل میں میری جان سے بھی زیادہ ہے فرمایا (الا رن یا عمر ؓ) حاصل یہ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ اپنی جان آدمی کو بہت عزیز ہوتی ہے یہ عرض کر دی کہ میں اپنی جان کو سب سے زیادہ عزیز رکھتا ہوں اس پر جب یہ ارشاد ہوا کہ جب تک کوئی اپنی جان سے بھی زیادہ مجھ کو عزیز او رمحبوب نہ رکھے گا ایمان نہ لا ئے گا توعمر رضی اللہ عنہ اصل مطلب کو سمجھ گئے کہ فی الواقع ایمان لانے سے پہلے یہی کیفیت ہوا کرتی ہے اس وجہ سے ہر مسلمان حضرت کے حکم پر اپنی جان دینے کو مستعد ہو جا تا ہے یہ اطاعت خبر دیتی ہے کہ مسلمان کو اپنی جان سے بھی زیادہ حضرت کی محبت ہوتی ہے
{آداب صحابہ رضی اللہ عنہ }
کیونکہ اطاعت محبت پر دلیل ہے اس وقت عرض کی یا رسول اللہ یہ محبت تو مجھے بھی حاصل ہے اور قسم کھا کر صاف کہہ دیا کہ آ پ کی محبت جان سے بھی زیادہ ہے کما قال والذی انزل علیک الکتاب لا نت احب الی من نفسی التی بین جنبی اس کے جواب میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الا ٰن یا عمر ؓ یعنی اب تم نے سمجھ کر کہا کیونکہ اس وقت قسم کھا کر اپنے دعوے کو مدلل کیا اور پہلے جو عرض کی تھی وہ سرسری طورپر تھا جیسا کہ ان کے اس قول سے ظاہر ہے لا نت احب الی من کل شی الا نفسی ۔
{آداب الصحابہ}
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں یہ روایت ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی باغ میں تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد ایک شخص دووازہ پر آکر کھٹ کھٹا یا آپ نے فرمایا کہ اے انس رضی اللہ عنہ اٹھو اور دروازہ کھولکر ان کو خوش خبری دو کہ تم جنتی ہو اور میرے بعد خلیفہ ہوگے میں نے عرض کی کہ ان کو یہ بات معلوم کر ا دوں فرمایا ہاں معلوم کرادو۔جب میں دروازہ کھولا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے میں نے ان کو وہ خوش خبری دے دی پھر دوازہ پر کسی نے ٹھو کا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ اٹھواور اونکو خوش خبری دے دو کہ وہ جنتی ہیں اورعمر رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ ہونگے میں نے عرض کیا ۔ کیا انکو یہ بات معلوم کر ادوں فرمایا ہاں معلوم کرا دوجب میں نے دروازہ کھولا تو عمرضی اللہ عنہ کھڑے تھے میں نے ان کو خوش خبری دی پھر ایک شخص آیا اور دروازپر کھٹ کھٹا یا فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ اٹھو او رانکو خوش خبری دو کہ و جنتی ہیں اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ ہونگے اور شہید ہو نگے جب دروازہ کھولا توعثمان رضی اللہ عنہ کھڑے تھے میں نے ان کو خوش خبری دی او رحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا یا رسول اللہ میں کھبی نہیں کایا اور کھی تمنا نہیں کی کی اور جب سے آپ سے بعیت کی اور آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اوس ہاتھ سے کبھی شرمگاہ کو نہیں چھوا۔حضرت نے فرمایا اے عثمان رضی اللہ عنہ یہ وہی بات ہے یعنی تمہارے اد ب کا یہ ثمرہ ہے ۔انتہیٰ ۔
دیکھئے اس ادب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تعلیم نہیں فرمائی ورنہ کل صحابہ سے ایسا ہی مروی ہوتا ۔ مگر بات یہ ہے کہ کل صحابہ مؤدب تھے یعنی قلبی کیفیت انکی تقریباً ایک قسم کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت سب کے دلوں میں سرایت کی ہوئی تھی جس کے آثار مختلف طورپر ظاہر ہوتے تھے ۔ہر حاصب بمقتضائے طبع ایک نئی قسم کا ادب تراش لیتے تھے جس کو شریعت میں کوئی دخل نہیںبلکہ اون کی طبعیت کا اقتضاء تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونکو ایسے اختراعوں سے روکتے نہ تھے چنانچہ اس حدیث میں دیکھ لیجئے کہ جب انہوں نے اپنی حالت کی خبر اوس موقع بشارت میں دی تویہ نہیں فرمایا کہ کس نے تم سے کہا تھا کہ ایسی چیز اپنے ذمہ پر لازم کر لو جس کا شریعت میں کوئی اصل نہیں ۔بلکہ ایسے سخت الزاموں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر منع فرمایا کرتے تھے چنانچہ احا دیث میں مصرح ہے کہ کسی بیوی نے یہ الزام کیا تھا کہ رات بھر جا گیں اور ایک رسی ٹانگ رکھی تھیں اگر نیند غلبہ کرتی تووہ اس سے سر کے بالوں کو باندھ لیتی تھیں ۔حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رسی کھلوادی اور انکو اس سے منع فرمایا اور بعض صحابہ نے ہمیشہ روزہ کھنے کا التزام کیا تھا اس سے اونکو منع فرمادیا تھا اس کے سوا کئی نظائر کتب احادیث میں اس کے موجود ہیں بر خلاف اس کے عثمان رضی اللہ عنہ کے اس التزام کی وقعت کی کہ اوسی کو باعث مدارج قرار دیا ۔وجہ اس کی یہی ہوگی کہ عبادت الٰہی میں اس قدر غلو کرنا ضرورت سے زیادہ ہے جیسا ارشاد ہوا اتنا کر لینا کافی ہے بخلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے وہ باعث ترقی مدارح ہے کیونکہ جس قدر حضرت کی عظمت زیادہ ہو گی اسی قدر ادب زیادہ ہوگا چونکہ یہ الزام ادب باعثِ ترقی مدارج تھا اس لئے حضرت نے اس سے منع نہیں فرمایا اور اسکی خاص وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محبوب رب العالمین ہیں جس قدر محبوب کی عظمت زیادہ ہو اور اوس سے زیادہ ادب کیا جا ئے باعث خوشنودی محب ہو تی ہے ۔
اس سے ثابت ہے کہ مشا ئخین عظام اس قسم کے آداب میں غلو اور التزام کرتے ہیں وہ شارع علیہ السلام کے مرضی کے خلاف نہیں بلکہ باعث ترقی مدارج ہے اب ان حضرات کو ان امور کے لحاظ سے بدعتی کہنا بے موقع ہوگا خدائے تعالیٰ ہم لوگوں کو دین میں بصیرت عطا فرمائے جس سے ہم مستحن اور غیر مستحن امو رمیں فرق کر سکیں ۔
کنز العمال کی کتاب الفضائل میں ہے کہ ابو الدردار ضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا ۔جب خطبہ سے فارغ ہوئے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا اٹھو اور خطبہ پڑھو وہ اٹھے او رخطبہ پڑھے مگر جس قدر کہ حضرت نے پڑھا تھا اس سے کم جب وہ فارغ ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ کو ارشاد ہوا کہ تم بھی خطبہ پڑھو اور اونہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطبہ سے بھی کم پڑھا اسکے بعد حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص سے فرمایا کہ تم بھی پڑھو اونہوں نے ایک طولانی خطبہ شروع کیا ۔ آپ اون پر خفا ہوگئے اور فرمایا بیٹھ جا ۔ انتہیٰ ۔ملحضاً ۔
ظاہرا خطبہ پڑھانے سے صرف ادب کا امتحان مقصود تھا جس میں دونوں حاصب کا میاب ہوئے اور تیسرے بزرگوار جن کا نام راوی نے مصلحتہً چھپا دیا ناکام رہے ۔
اب غور کیجئے کہ ادب کی تعلیم یو ں توامت کو ہو ا کرتی تھی غفلت میں فرمائیش کی گئی وہ موقع تو ایسا تھا کہ دل کھو ل کر اپنی طبعیت کے جوہر دکھائیں چنانچہ تیسرے صاحب نے ایسا ہی کیا مگر ان حضرات کی طبعیت نے اسکو گوارا نہیں کیا اور امتثال امر کے لئے خطبہ توپڑھا مگر اوس مضمون کو ملحوظ رکھ کر کہ (ایاز خد خودبشناس)اتنا پڑھا کہ اپنا خطبہ حضرت کے خطبہ سے بڑھ جا ئے ۔ اس ادب کے مقابلہ میں مقتضائے طبیعت کو چھوڑ نے کی ا نہیں ضرورت ہوئی جن لوگوں کی طبعیت میں ادب میں وہ اپنی طبعیت سے مجبور ہیں کیونکہ مقتضائے طبعیت یہی ہے کہ آدمی کسی کے روبرواپنے کو ذلیل کر نا نہیں چاہتا ۔ اورادب اس وقت تک ظہور میں نہیں آتا کہ جس کا ادب کرے اوسکو معزز اوراپنے آپ کو اس کے مقابلہ میں محقر سمجھے اسی مقتضائے طبعیت نے شیطان کو آدم علیہ السلام سے ادب کرنے نہیں دیا ۔
{آداب الصحابہ}
خصائص کبری میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ حضرت کے زمانہ میں بھوک کے ما رے میری یہ حالت ہوتی کہ کبھی زمین پر اپنے جگر کو لگا دیتا اور کبھی پیٹ پر پتھر باندھتا ۔ایک روز مارے بھوک کے راستہ پر بیٹھ گیا ۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ اودھر سے گزرے اون سے قرآن شریف کی ایک آیت پوچھی ۔ اس میں میری غرض یہ تھی کہ میری حالت دیکھ کر اپنے ہمرا ہ لے جا ئیں ۔ اور کھا نا کھلا ئیں ۔مگر اونہو نے خیا ل نہ کیا پھر عمر رضی اللہ عنہ آئے ۔ اون سے بھی اسی غرض سے ایک آیت پوچھی اونہوں نے بھی کچھ توجہ نہ کی ۔ پھر حضرت ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہوئے اور میری حالت دیکھ کر تبسم فرماکر مجھے پکارے ۔ میں لبیک یا رسول اللہ عرض کیا ۔فرمایا میرے ساتھ چلو ۔جب مکان میں تشریف لے گئے تو مجھے داخل ہونے کی اجازت دی ۔میں جب داخل ہواتوایک پیالہ دیکھا۔ جس میں دو دھ تھا فرما ئے یہ کہاں سے آیا کہا گیا کہ فلاں شخص نے بھیجا ہے ۔مجھے ارشاد فرمایا کہ اہل صفہ کو بلا لو ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اہل صفہ یعنی ڈھالیہ میں رہنے والے لوگ اسلام کے مہمان تھے ۔نہ اونکو جوروبچے تھے نہ مال تھا ۔جوحضرت کے پاس کہیں سے صد قہ آجا تا تواو ن کے پاس بھیج دیتے ۔ا ور اوس میں سے کوئی چیز نہ لیتے ۔او راگر ہدیہ آجاتا تواون کے پاس بھی بھیجتے اورکچھ بھی رکھ لیتے ۔ اور اوس میں او ن کو شریک فرمالیتے ۔
الغرض جب اوس جماعت کو بلانے کے لئے مجھے فرمایا تو مجھے برابر معلوم ہوا ۔ او راپنے دل میں کہا کہ اس تھوڑے سے دودھ میں اہل صفہ کا کیا ہوگا ۔ اگر وہ مجھے عنایت ہوتا تومجھے تو قوت آتی ۔ او رمیں جب اونکو بلا نے کے لئے بھیجا جا رہا ہوں توجب وہ آئیں گے تو اونکو پلا نے کے لئے بھی مجھی کو حکم ہوگا ۔اور یہ دودھ اس قدر نہیں ہے کہ ان کو بلا نے کے بعد میرے حصہ میں بھی کچھ آسکے ۔ مگر چونکہ خدا اور رسول کی اطاعت ضروری تھی اونکو بلالیا ۔ اور وہ آکے مکان میں بیٹھ گئے مجھے فرمایا یہ پیالہ اون کو دو میںنے لوگوں کو دینا شروع کیا ۔ہر ایک سیری سے پی کر مجھے دیامیں دوسرے کو دیتا ۔غرض کہ سب سیراب ہوکر پئے ۔ اور نوبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آئی ۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اوس پیالہ کو دست مبارک پر رکھا ۔او رمیری طرف دیکھ کر تبسم کر کے فرمایا ۔ اب میں اور تم ہی باقی رہ گئے ہیں عرض کیا جی ہاں ۔ فرمایا بیٹھ جائو اور پیو ۔ چنانچہ میں نے خوب پیا پھر فرمایا اور پیو ۔پھر پیا ۔ کئی بار اس طرح ارشاد ہوا او رمیں پیتا گیا ۔ آخرمیں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب گنجائش نہ رہی ۔ او رقدح حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں دیا ۔ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچا ہوا دودھ پی لیا ۔انتہیٰ۔
صحابہ رضی اللہ عنہ کے اخلاص اور توکل کی حالت اس روایت سے معلوم ہو سکتی ہے کہ دوسرے حوائج اور اسباب تنعم تو کہاں بھوک کے مارے بیتاب ہوکے اقسام کی تدبیر یں کرنے کہ اوسکی اذیت کم ہو ۔ مثلاً زمین پرجگر کو لگا دینا اور پیٹ کو پتھر باندھنا ۔اس قسم کے امور ہیں کہ جن سے بھوک نہیں جا سکتی ۔مگر خیال کیا جا تا تھا کہ شاید اوس سے اذیت کم ہو جا ئے ۔ با وجود اس قدر ضرورت کے بھی کسی سے سوال نہیں کرتے تھے ۔ دیکھئے ابو ہریرہ رضی اللہ نے جس وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق رضی اللہ عنہ کو اپنے طرف آتے دیکھا ہوگا توکس قدر اونکو خوشی ہوئی ہوگی کہ یہ دونوں حضرات اسلام میں سرابرآورد ہ اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں ۔ ضرور رحم کرینگے ۔ اگر اوسوت ذرا اون سے اپنے بھوک کا حال بیا ن کردیتے تو ضرور وہ اونکو کھانا کھلا تے اگراپنے پاس کچھ نہ تھا توکچھ اور تدبیر کر تے پھر بھوکے بھی کون۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر اسلام کے سچے خیر خواہ اون کے لئے توبہت کچھ سامان کیا جا سکتا مگر سبحان اللہ اونھوں نے بھوک کا نام تک زبان پر نہ لا یا ۔اور تدبیر کی تویہ کی کہ ایک آیت پوچھی ۔ جس سے اونکی نظر اپنے پر پڑے ۔ اور وہ خود معلوم کر لیں مگر نہیں کہ اس میں کیا مصلحت الٰہی تھی ۔کہ ایسے جلیل القدر فریس حضرات کی اون پرنظر پڑنے نہ پائی ۔ اور اونکو حالت یاس میں چھوڑ کر چلے گئے ایسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہاں تشریف فرماہونا اور اونکو دیکھ کر تبسم فرمانا ایک عجیب راز سربستہ ہو تا ہے ۔کہ جس کا وجدان خاص ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہوا ہوگا جب ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت کے ساتھ جا رہے ہونگے اونکے دل کی حالت جو ہوگی اوسکو نہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر سکتے تھے نہ کوئی دوسرا بیان کرسکتا ہے ۔اوس کے بعد ایک امتحان کا معاملہ درپیش ہوا تو او س مخمسہ کی حالت میں ارشاد ہورہا ہے کہ تھوڑا سا دودھ جو صرف اونہی کے لئے کافی ہو نہ پی کر ایک جماعت کو بلا کر اون کو پلا دیں اس امتحان میں سربرہونا اونہی کا کام تھا کیونکہ ضرورت کے وقت ہر چیز مباح ہوجا تی ہے۔ اگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پھر عرض کرتے (حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) بھوک سے میں مررہا ہوں ۔ او ر لوگوں کو پلا نے کا حکم ہو رہا ہے اس کا مستحق میں ہوں تو غالباً اس پر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم زجر نہ فرماتے۔ اور اگر بے ادبی بھی تھی تواونکی بے قراری اور بے صبری کی حالت دیکھ کر معاف فردیتے۔ مگر سبحا ن اللہ اون کا ادب اس وقت دیکھنے کے قابل ہے ۔کہ اوس حالت میں بھی کوئی لفظ ایسا زبان پر نہ لا یا جو نا گوارا خاطر اقدس ہو اور ہر ایک کو برا بر پلا تے رہے اور ادب میں ذرا بھی فرق نہ آنے دیا ۔
{اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُ مُوْرِ دُنْیَا کُمْ }
عرب میں دستو تھا کہ جب کھجور کے درخت کو پھول آتا تو نر کے پھول مادہ کے پھول پر اسغرض سے ڈالے جا تے کہ بار زیادہ آوے اسکو عرب میں تو بیر کہتے ہیں ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایک قوم پر ہوا جو توبیر کر رہی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ اگر توبیر نہ بھی کرتے تو اچھے یعنی با لیدہ ہونے والے ہوہی جا تے ۔ لوگوں نے اوس سال رسم مذکور کو ترک کردیا اتفاق سے اوس سال کھجور یں خراب ہوگئیں ۔ صحابہ نے واقعہ عرض کیا حضرت نے فرمایا تم اپنے دنیا کے کام خوب جانتے ہو ۔ مقصود یہ کہ اشیا کی خاصیات اور تا ثیرات بیان کر نا نبوت سے متعلق نہیں ۔ نبوت کا تویہ کام ہے کہ خدا ئے تعالی کے تقرب کے طریقہ بتائے جائیں۔ جو کام آدمی کو اس عالم میں مفید یا مضر ہوتے ہیں ۔بیان ہوں جس کے ضمن میں اصلاح اخلاق ہو جو اصلاح تمدان کا باعث قوی ہے ۔
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو عدم ضرورت تو بیر بیان فرمایا تھا وہ ایک اعتقاد ی مسئلہ تھا کیونکر قرآن شریف سے ثابت ہے کہ بغیر حکم خدا کے کوئی چیز پیدا نہیں ہوسکتی ۔ ہزار تو بیر کیجائے جب تک حکم الٰہی نہ ہو نہ درخت بار آور ہوسکتا ہے نہ بار عمدہ اب رہا یہ کہ عا دت جا ری ہے کہ توبیر سے کھجور با لید ہوتی ہے تووہ دنیا سے متعلق ہے ۔جس کے توقیر کی تدابیر دنیا دار لوگ خوب جانتے ہیں۔ مگر یاد رہے کہ توبیر ہو یا اور اسباب اگرکوئی اون کو مستقل سمجھے اور اس کا اعتقاد نہ رکھے کہ اصل خالق خدائے تعالیٰ ہے او ریہ اسباب ضرف برائے نام ہیں تو اوس کے بیدن ہونے میں شک نہیں ۔انتم اعلم بامور دنیاکم کے الفاظ سے عتاب نبوی آشکار ہے جس کو لفظ دنیا کم سے ظاہر فرمادیا کہ تم دنیا دار ہو ۔اور اپنی دنیا کے حالات کو ہم سے زیادہ جانتے ہو ۔ہمیں نہ تہماری دنیا سے تعلق ہے نہ دنیا دا روں سے مطلب ۔ اسی وجہ سے صحابۂ کرام اور اولیائے عظام دنیا سے بالکل علحدہ رہتے تھے خلفائے راشدین کے حالات آپ نے مقا صد الاسلام کے حصہ پنچم میں دیکھ لئے کہ با وجود خلافت او رسلطنت کے کیسے فقر وفاقہ کی حالت میں انہوں نے عمر بسر کی۔ اور خودآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معیشت کی کیا حالت تھی ۔غرض کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع میں نہایت بلیغ پیرا یہ میںعتاب ظاہر فرمادیا ۔ اور دنیا داروں نے سمجھا کہ حضرات اون کے علم کی تعریف فرماتے ہیں ۔ (تم ہم سے زیادہ جانتے ہو ) حق تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذق انک انت العزیز الکریم ۔یعنی کفار جب دوزخ میں جائیں گے تو اون سے کہا جا ئے گا کہ اب چکھو تم تو بڑے عزیز وکریم ہو ۔کیا یہ توصیفی الفاظ فی الواقع توصیف ہوسکتے ہیں۔اسی طرح انتم اعلم توصیف نہیں ہوسکتی ۔
شمس العلماء مولوی شبلی صاحب نے الفاروق کے صفحہ (۱۳۰و ۱۳۸)میں لکھا ہے کہ رومی جو شکست کھا کھا کر دمشق و حمص وغیرہ سے نکلے تھے انطاکیہ پہنچے اور ہر قل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام شام کو پا مال کر دیا ۔ ہر قل نے ان میں سے چند ہو شیار اور معزز آدمیوں کو دریا میں طلب کیا اور کہا کہ عرب تم سے زور میں فوج میں سر وسامان میں کم ہیں ۔ پھر تم ان کے مقابلہ میں کیو ںنہیں فتح پا سکتے ۔ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا اور کسی نے کچھ جوا ب نہ دیا ۔لیکن ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے اچھے ہیں وہ رات کو عبادت کرتے ہیں اوردن کو روزے رکھتے ہیں کسی پر ظلم نہیں کرتے آپس میں ایک ایک سے برابری کے ساتھ ملتا ہے ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں بدکاریاں کرتے ہیں اقرار کی پابندی نہیںکرتے اووں پرظلم کر تے ہیں اسکا یہ اثر ہے کہ ان کے ہر کام میں جوش اور استقلال پایا جا تا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے ۔قیصر درحقیقت شام سے نکل جانے کا ارادہ کر چکا تھا ۔لیکن ہر شہر اور ہر ضلع سے جوق جوق عیسائی فریادی چلے آتے تھے ۔ قیصر کو سخت غیرت آئی اور نہایت جوش کے ساتھ آمادہ ہوا کہ شہنشاہی کا پورا زور عرب کے مقابلہ میں صرف کردیا جا ئے ۔ روم قسطنطنیا جزیرہ ۔ آرمینیہ ہر جگہ احکام بھیجے کہ تمام فوجیں پایہ تخت انطا کیہ میں ایک تاریخ معین تک حاضر ہوجا ئیں ۔تمام اضلاع کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ جس قدر آدمی جہاں سے مہیا ہو سکیں روانہ کئے جا ئیں ان احکام کا پہنچنا تھا کہ فوجوں کا ایک طوفان اُمنڈ آیا ۔ انطاکیہ کے چاروں طرف جہاں تک نگا ہ جاتی تھی فوجوں کا ٹڈی پھیلا ہوا تھا ۔
حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جو مقامات فتح کر لئے تھے وہاں کے امر اور رئیس ان کے عدل وانصاف کے اس قدر گرویدہ ہوگئے تھے کہ باوجود تخالف مذہب کے خود اپنی طرف سے دشمن کی خبر لا نے کے لئے جا سوس مقرر کر رکھتے تھے چنانچہ ان کے ذریعہ سے حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو تمام واقعات کی اطلاع ہوئی ۔ اونہوں نے تمام افسروں کو جمع کیا اور کھڑے ہوکر ایک پرا ثر تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں !خدا نے تم کو بار بار جانچا اور تم اوس کی جانچ میں پورے اترے ۔ چنانچہ اس کے صلہ میں خدانے تم کو ہمیشہ مظفر و منصور رکھا اب تمہارا دشمن اس سرد سامان سے تمہارے مقابلہ کے لئے چلا ہے کہ زمین کانپ اٹھی ہے اب بتائو کیا صلاح ہے ۔ یزیدن بن ابی سفیان معا ویہ رضی اللہ عنہ کے بھائی کھڑے ہوئے اور کہا کہ میری رائے ہے کہ عورتوں او ربچو ں کو شہر میں رہنے دیں او رہم خود شہر کے باہر لشکر آراہوں اس کے ساتھ خالد رضی اللہ عنہ اور عمر وبن العا ص ؓ کو خط لکھا جا ئے کہ دمش اور فلسطین سے چل کرمدد کو آئیں شر جبل بن حسنہ نے کہا کہ اس موقع پر ہر شخص کو آزاد انہ رائے دینی چا ہئے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ جو رائے دی بے شبہہ خیر خواہی سے دی لیکن اس کا میں مخالف ہوں شہر والے تمام عیسائی ہیں ممکن ہے کہ و تعصب ہے ہمارے اہل وعیال کو پکڑ کر قیصر کے حوالہ کر دیں یا خود مار ڈالیں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا اس کی تدبیر یہ ہے کہ ہم عیسا ئیوں کو شہر سے نکال دیں شر حبیل نے اٹھ کر کہا اے امیر ہم کو ہر گز یہ حق حاصل نہیں ہم نے ان عیسا ئیوں کو اس شرط پر امن دیا ہے کہ وہ شہر میں اطمینان سے رہیں اس لئے نقص عہد کیونکر ہوسکتا ہے ۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنی غلطی تسلیم کی لیکن یہ بحث طے نہیں ہوئی کہ آخر کیا کیا جا ئے ۔عام حاصرین نے رائے دی کہ حمص میں ٹھیر کر امدادی فوج کا انتظام کیا جائے ۔
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اتنا وقت کہا ں ہے کہ آخر یہ رائے ٹھری کہ حمص چھوڑ کر دمشق روانہ ہوں ۔ وہا ںخالد رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور عرب کی سرحد قریب ہے ۔یہ ارادہ مصمم ہو چکا تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن سلمہ کو جو افسر خزانہ تھے بلا کر کہا کہ عیسا ئیوں سے جو جزبہ یا خراج لیا جا تا ہے اس معا وضہ میں لیا جا تا ہے کہ ہم اونکو ا ن کے دشمنوں سے بچا سکیں لیکن اس وقت ہماری حالت ایسی نازک ہے کہ ہم ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھا سکتے اس لئے جو کچھ ان سے وصول ہوا ہے ان کو واپس دے دو اور ان سے کہہ دو کہ ہم کو تمہارے ساتھ جو تعلق تھا اب بھی ہے لیکن چونکہ اس وقت تمہاری حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہوسکتے اس لئے جزیہ جو حفاظت کا معا وضہ ہے تم کو واپس کیا جا تا ہے چنانچہ کئی لاکھ کی رقم جو وصول ہوی تھی کل واپس کر دی گئی ۔
عیسا ئیوں پر اس واقعہ سے اس قدر اثر ہوا کہ وہ روتے جاتے تھے اور جوش کے ساتھ کہتے جا تے تھے کہ خدا تم کو واپس لا ئے یہودیوں پر اس سے بھی زیادہ اثر ہوا اونہوں نے کہا تو ریت کی قسم جب تک ہم زندہ ہیں قیصر حمص پر قبضہ نہیں کرسکتا یہ کہہ کر شہر پناہ کے دروازہ بندکر دئیے او رہر جگھ چوکی پہر ہ بٹھادیا ۔ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے صرف حمص والوں کے ساتھ یہ برتائو نہیں کیا بلکہ جس قدر اضلاع فتح ہوچکے تھے ہر جگہ لکھ بھیجا کہ جزیہ کی جس قدر رقسم وصول ہوئی ہے واپس کر دی جا ئے ۔انتہیٰ ۔
اس سے مسلمانوں کی ایمانداری راست بازی و فا شعاری کا پتہ لگتا ہے کہ کس درجہ کی تھی ۔نماز روزہ بہت آسان چیزیں ہیں روپیہ پیسہ کے معا ملہ میں اکثر دشواری ہو تی ہے ہمارے زمانہ کے جہلا تو درکنار بہت سے علماء کی حالت دیکھی جا تی ہے کہ جب کسی خدمت پر مامور ہوتے ہیں یا ان کے معا ش کا مقدمہ ہوتا ہے تو تدیا ٹھکا نے نہیں رہتا ۔ حالانکہ دین میں اسی کی ضرورت ہے کیونکہ حقوق الناس کو خدائے تعالیٰ بھی معاف نہیں فرماتا ایسی اہم چیز کی اگر کسی کو پروانہ ہوتو کہ مال کس طریقہ سے حاصل کیا گیا بجزاسکے اور کیا کہا جا ئے کہ اس کے ایمان ہی میں کچھ کسر ہے ۔غرض کہ صحابہ کے تدین نے عموماً یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ یہ لوگ طالب دنیا نہیں ہیں صرف اعلائے کلمتہ اللہ اور خوشنودی خدا کے واسطے اپنی جا نیں لڑاکر اکثر ملک میں تہذیب قائم کر نا چاہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کی تعداد کروڑوں تک پہنچ گئی حالانکہ اسلام لانے پر کوئی مجبور نہیں کیا جا تا تھا ۔ بلکہ صاف کہہ دیا جا تا تھا کہ اگر خوشی سے اسلام نہیں لا تے تو سالانہ (۴)دینار جس کی مقدار بحساب حالیہ روپیہ ہوتے ہیں دیں یہ ظاہر ہے کہ اتنے روپیہ دے کر مذہبی آزادی حاصل کر نا کوئی بڑی بات نہ تھی چنانچہ بہت سارے متعصب جزیہ ہی قبول کر لے تے تھے مگر انصاف پسند عقلا جو یہ سمجھتے تھے کہ نجات دائمی بغیر اس کے کہ سچے مذہب کی پابندی کی جا ئے حاصل نہیں ہوسکتی نہایت خوشی سے اسلام لا کر مذہب کی تمام پا بندیوں کو قبول کر لے تے تھے حا لانکہ یہ بھی جانتے تھے کہ مسلمانوں کے مذہب میں ہے کہ جو اسلام لا کر پھر جائے یعنی مرتد ہو جا ئے وہ قتل کیا جا تا ہے گویا وہ اسلام لا نے کے وقت یقینی طورپر قرار کر لیتے تے تھے کہ اگر ہم اسلام سے پھر جائیں تو قتل کر دیئے جا ئیں ان کو اتنی راسخ بنا نے والی کون چیز تھی وہی دین اسلام کی سچائی تھی کہ ان کو ایسے سچے مذہب سے پھر نے کا خیال بھی نہ آتا تھا افسوس ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر لوگ بطیب خاطر مشرف بہ اسلام ہوتے تھے اور ایک زمانہ یہ ہے کہ اکثر مسلمانو ں کی حالت اورطرز عمل دیکھ کر دوسرے مذہب والے نفرت کرتے ہیں او رمرتد ہوتے جا تے ہیں مگر پھر بھی بفضلہ تعالیٰ اسی اسلام کی سچا ئی کا یہ اثر ہے کہ اہل انصاف مسلمانوں کی حالت سے قطع نظر کر کے نفس ہدایات اسلام پر جب غور کر تے ہیں تو خود ان کا دل ان کو ایمان لانے پر مجبور کرتا ہے اور بفضلہ تعالیٰ با وجود یہ کہ کسی قسم کا اہتمام نہیں ہے مگر ہزار ہا مشرف بہ اسلام ہوتے جا تے ہیں الحمد اللہ علی ذالک ۔
تا ریخ واقدی میں لکھا ہے کہ جب اہل قنسرین او روہاں کے بطریق لوقا نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور معا ہدہ کیا کہ ایک سال میرے حد ودمیں اہل اسلام تعدی بن نہ کریں اور علامت حدوویہ قرار دی کہ ایک بلند ستون پر ہر قل کی تصویر ہوگی اوس سے آگے نہ بڑہیں طرفین سے یہ معا ہدہ طے ہو گیا ایک روز چند سوار اودھر گذرے اور اس ستون کے قریب گھوڑوں کی موڑتوڑ کی تعلیم دے رہے تھے کہ ابو جند لہ کا گھوڑا شوخی کر کے اس ستون کے قریب ہو گیا اور ان کے ہا تھ میں دراز بھا لا تا تھا اس تصویر کو لگ گیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی حد کی حفاظت کے لئے جو چند آدمی وہاں تھے اونہوں نے لوقا سے کہہ دیا کہ مسلمانوں نے تصویر کی بے عزتی کی اور اس کی آنکھ پھوڑدی یہ سنتے ہی یوقنا بطریق غضب ناک ہوکر ایک ہزار بہادر جنگ آزمو دہ سواروں کو اصطحر کے ہمراہ کر کے یہ پیام کہلا یا کہ تم لوگوں نے عہد شکنی کی ۔
اب ہم تم سے لڑینگے جب دستہ سواروں کا لشکر اسلام کے قریب پہنچا دیکھا کہ سب فوجی نہایت رزق وبرق کے ساتھ چلی آرہی ہے او ران کے سامنے ایک نشان جس پر صلیب ہے ۔ اس کو بلند کئے ہوئے ہیں۔ صحابہ نے حملہ کر کے صلیب کو سرنگوں کردیا ۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر پوچھا تم کون لوگ ہو اصطحر نے کہا میں حاکم قنسرین کی طرف سے پیام لا یا ہو ںکہ تم لوگوں نے عذر کیا ہمارے پادشاہ کی تصوری کی آنکھ پھوڑدی اور عہد کو موڑ دیا آپ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی قسم ہے کہ مجھے اس کی خبر نہیں بھی دریافت کر تا ہوں اور بہ آواز بلند کہا کہ اے لوگوں کسی نے تصویر کی آنکھ پھوڑدی ہے لوگوںنے کہا اے امیر؟ ابو جند لہ او رسہیل بن عمر و کا بھا لا لگ گیا اونہوںنے قصداً نہیں پھوڑی ابوعبیدہ رضی اللہ نے اصطحراسے معذرت کی کہ یہ فعل قصداً نہیں کیا گیا اس پر بھی اس کے معا وضہ میں تم جو کچھ کہوہم دینے پر را ضی ہیں اصطحروغیرہ نے کہا کہ ہم ہر گز نہ را ضی ہونگے۔جب تک تمہارے پادشاہ کی آنکھ نہ پھوڑ یں گے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب یہی بات ہے تو لو اس تصویر کی آنکھ کے معا وضہ میں میری آنکھ پھوڑڈالو کہا یہ اسکا معا وضہ نہیں ہوسکتا تمہارے بڑے پادشاہ جو والی عرب ہیں ان کی آنکھ پھو ڑینگے ۔ جب اوس نے عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ کلا نام لیا تو تمام اہل اسلام میں جوش پھیل گیا او رلڑنے مرنے پر تیار ہوگئے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فہمائش کی اس پر سب نے با لا تفاق کہا کہ اے امیر ہم اپنے امام یعنی عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ پر فدا ہونے اور ان کی آنکھ کی فدیہ میں اپنی آنکھیں دینے پر را ضی ہیں ۔
اصطحرنے مسلمانوں کا جو ش دیکھا کہ آنکھ کا معا وضہ کچھ اور ہی رنگ لا ئے گا گھبرا کر کہا خیر آنکھیں پھوڑ نے کی ضرورت نہیں ۔امیر لشکر یعنی ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی تصویر ایک نشا ن پر بنا ئی جا ئے ہم اوسکی آنکھ پھو ڑڈالیں گے یہ سن کر مسلمانو ںنے کہا یہ نہیں ہوسکتا ہمارے جانب سے قصدا ً تعدی نہیں ہوئی تھی او رتم لوگ قصداً یہ کام کروگے ۔ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا اے قوم زیادہ گفتگو مت کرو میں راضی ہوں کہ میری تصویر کی وہ بے حرمتی کریں اور یہ اس لئے کہ لوگ یہ نہ کہنے لگیں کہ مسلمان عہد کر کے عذر کیا کر تے ہیں بہر حال اس پر فیصلہ ہوا کہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے تصویر کی آنکھ پھوڑ دی گئی۔انتہیٰ ملحضاً ۔
یہاں قابل قدر یہ امر ہے کہ تمام اہل اسلام نے با لا تفاق یہ کہہ دیا کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بدلہ میں ان پر سے اپنی جان فدا کرنے اور انکی آنکھ کے فدیہ میں اپنی آنکھ فدا کر نے پر را ضی او رمستعد ہیں اس واقعہ میں خالد بن ابو لید رضی اللہ عنہ بھی ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھے اور یہ وہی زمامہ ہے کہ عمر رضـی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے ما تحتی میں انہیں دیا تھا مگر سبحا ن اللہ کیا نفوس قدسیہ تھے ا س کا ذرا بھی خیال نہ کیا او راپنی آنکھ کو عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھ پر فدا کر نے کے لئے مستعد ہوگئے او رمسلمانوں سے ذرا بھی مخالفت نہ کی ورنہ کہہ سکتے تھے کہ ان کی آنکھ پھوڑ ی جا ئے تو ہمیں کیا ہم تو اسلام کے واسطے لڑ تے ہیں جس میں ہم او رعمر رضی اللہ عنہ دونوں برابر ہیں او رظاہر یہ بات ایسی تھی کہ شاید اوس کا کوئی انکار نہ کرسکتا ۔مگر یہ حضرات ایسے نہ تھے کہ ایک لکڑی سے سب کو ہا نکیں وہ تو فیضان صحبت نبوی سے کچھ ایسے مہذب و مؤدب ہوگئے تھے کہ دنیا میں اون کی نظیر نہیں مل سکتی ۔عمر رضی اللہ عنہ کو وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ قبیلہ نبی ھدی میں ایک سربر آوردہ شحص ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور جا نشین ہیں۔ یہ عالی نسبت او نکی تمام مسلمانوں کے دلوں پر وہ اثر کر تی تھی کہ ان کے روبرو سب کی گر دنیں جھک جا تی تھیں فی الحقیت نسبت ایسی ہی چیز ہے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہوکہ وہ کس قدر بااثربا وقعت چیز ہے۔ دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ازواج مطہرا ت کو زوجیت کی نسبت تھی اس کا یہ اثر ہوا کہ وہ تمام مسلمانوں کی ماں ہوگئیں اور اگر ان کے ماںباپ بھی تھے تو بجائے اس کے اپنی صاحبزادی سمجھیں ماں سمجھ کر وہی تعظیم و توقیر کر تے جو ماں کی کی جا تی ہے ۔ہر شخص جانتا ہے کہ جیسا کسی عورت سے نکاح ہوجا تا ہے تو با وجود اجنبیت کے اس نسبت کے ساتھ ہی کیسی خصوصیتیں پیداہو جا تی ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی اس کو آنکھ اوٹھا کر دیکھے تو ا سکے مقا بلہ میں جان دینا گوارا کیا جا تا ہے اولیاء اللہ کو خدا ئے تعالیٰ اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خاص قسم کی نسبت ہوتی ہے جس کے آثار دنیا اور آخرت میں جو کچھ ہوتے ہیں اگر اونکا بیان کیا جا ئے تو ایک مستقل کتاب ہو جا ئے غرض کہ عمر رضی اللہ عنہ کو جو نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی اس کی وجہ سے کل اہل اسلام او رخالد بن الولید رضی اللہ عنہ پر یہ آسان ہوگیا تھا کہ ان کی آنکھ پر سے اپنی آنکھیں فدا کر دیںاس موقع میں ایک حدیث شریف بھی قابل ذکر ہے کہ جب فتح مکہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے دیکھا کہ انبیاء علیہم السلام کی تصویر یں بنا رکھی ہیں ۔چنانچہ بخاری شریف کے کتاب المغازی میں یہ حدیث مذکور ہے عن ابن عباس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما قدم مکۃ ابی ان یدخل البیت وفیہ الا ٰلہۃ فامن بھا فاخرجت ۔فاخرجت صورۃ ابراہیم و اسمعیل علیہما السلام فی ایدیہمامن الا زلام فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم قاتلہما اللہ ماستقسما بہا قط الخ او رتا ریخ کامل ابن اثیر جز ء ثنانی مطبوعہ مصر صفہ (۹۶) میں ہے (ورئے فیہا صور الانبیاء مربہا فمحیلت ) او رنا سخ التواریخ جلد دوم کے صفحہ (۳۴۱) میں مذکو ر ہے پس مقداری عفران طلب کر دو ں آںصورت را بزعفران اند ودہ ساخت ۔
دیکھئے وہ تصوریں بتوں کی قطا ر و شما رمیں تھیں اور انکی رعا یات نہ شرعاً ضرور تھی نہ عقلاً مگر چونکہ نبیا علیہ علیہم السلام کے ساتھ ان کو ایک خاص قسم کی نسبت تھی او ریہ کہا جا تا تھا کہ یہ تصویر فلاں نبی کی ہے اسی نسبت کی وجہ سے حضرت نے ان کی قدر فرمائی کہ اگر مٹا یا بھی تو زعفران کے پانی سے اور کسی قسم کی توہین گوارا نہیں فرمائی ۔
اگر اس زمامہ کے مشدد حضرات اس قسم کی تصا ویر پا ویں تو مقتضائے طبع انکا گواہی دیتا ہے کہ اس کام کے لئے نجاست میں اپنے ہاتھ آلودہ کر نے پرآمادہ ہوجائیں اور اس کو کمال توحید پر دلیل قرار دیں ۔چنانچہ اس پر قرینہ یہ ہے کہ بعضوں نے صرا حتا ً لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تصور نماز میں کرنا اس سے بدتر کہ ( ) کا تصور کیا جا ئے ۔
اب غور کیجئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت مبارک جو خیال میں آئے گی اوس کو حضرت کی صورت کے ساتھ خاص قسم کی نسبت ہوگی اوسکو بدترین حیوانات سے بدتر کہا گیا کسی ایماندار سے یہ ہوسکتا ہے ۔گو ایسے خیال والے لوگ اپنی ذہن میں اس کی کچھ توجیہات ضرور کر تے ہونگے ۔مگر وہ سب خارج از مبحث ہونگی ۔ ہمارا کلام اس میں ہے کہ جس صورت کو نسبت حضرت کی صورت مبارک سے ہوگی اوس کی توہین ضروری ہوئی ۔صحابہ کے آداب پیش نظر رکھ کر یہ حاصب لوگ خود ہی خیال کر لیں کہ اگر اس قسم کی بات صحابہ رضـوان اللہ علیہم اجمعین کے مجمع میں کہی جا تی تو کہنے والے کی کیا گت بنا ئی جا تی یہ ضمنی بات تھی تمتہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صلح ایکسال کے لئے ہوئی تھی اس لئے جنگ میں توقف رہا اور نئی فتوحات کی خبر یں عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں پہنچیں اس تا خیر کی وجہ سے آپ نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے نام نامہ لکھا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ (خدا کا بندہ عمر بن الخطاب امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امین امت پر ہماراسلام ہے او رمعلوم ہو کہ میں خدا کا شکرکرتا ہو ںاو راس کے نبی محمدؐ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں اور تم کو حکم کر تا ہوں کہ ظاہر و باطن میں خدائے تعالیٰ کا تقویٰ کیا کرو اور خدائے تعالیٰ کی نا فرمانی کرنے سے ڈرتا ہوں اور خوف دلا تا ہوں او رمنع کرتا ہوں اس بات سے کہ کہیں ا ن لوگوں میں سے نہ ہو جائو جن کی حالت خدائے تعالیٰ نے اس آیتہ میں بیان فرمایا قل ان کان اٰبا ؤکم وابنا ؤکم الا یہ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ کہہ دو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تم کو اپنے باپ او رلڑکے او ربھائی اور بیویاں او رقرا ابتدار اور وہ مال کن کو تم نے حاصل کیا ہے۔ اوروہ تجارت جس کے بند ہوجانے سے ڈرتے ہو۔اور وہ مکانات جس کو تم پسند کرتے ہو اگر یہ چیزیں خدا اور رسول سے اور راہ خدا میں جہاد کرنے سے تمہیں زیادہ تر محبوب اور مرغوب ہیں تو تم انتظام کر دے یہاں تک کہ اللہ اپناعذاب لائے اور اللہ بدکا رقوم کو ہدایت نہیں دیتا ۔انتہیٰ ۔ اور خدا ئے تعالیٰ درود بھیجے خاتم النبئین اور اما م المرسلین پر والحمد اللہ رب العالمین ۔
جب یہ خط ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو پہنچا اونہوں نے تمام مسلمانوں کو جمع کرکے سنا یا۔ لکھا ہے کہ اس کے سنتے ہی ایک قوی حالت طاری ہوئی کوئی شخص ایسا نہ تھا جس نے نہ رودیا ہو اور سب نے بالا تفاق کہا کہ اب یہاں رہنا مناسب نہیں بہتر ہے کہ حلب اور انطا کیہ پرچڑھا ئی کر یں ۔انتہیٰ ۔
دکھئے عمررضی اللہ نے اس خط میں کوئی اسی بات نہیں لکھی جس سے ان کی دل شکنی ہو بلکہ سب معمولی باتیں تھیں کیونکہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ خدائے تعالیٰ سے ڈرنا اور تقوی کرنا اور گنا ہوں سے بچنا ضروری ہے او رجو آیہ شریفہ لکھی وہ بھی ہمیشہ قرآن شریف میں پڑھی جا تی ہے اور اوس میں یہ بھی نہ تھی کہ جنگ نہ کرو گے توبر طرف ہو جا ئو گے کیونکہ کوئی سرکاری نوکرتھا ہی نہیں پھر کس چیز نے ان کے دل پر ایسا اثر کیا کہ بے اختیار سب رونے لگے چاہے کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو یہی کہیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ کی توجہ اور اخلاص کا اثر تھا جس نے وہ تا ثیر کی کہ ہزار وا عظ گھنٹوں وعظ کہیں تووہ اثر نہ ہوگا جو چند جملوں نے ایک ہنگا مہ برپاکر دیا کیوں نہ ہو وہ پیر کامل تھے اور ادھر کل مرید مستعد راسخ الا عتقاد اور بیعت پہلے ہی ہوچکی تھی ۔ جس کا حال او پرمعلوم ہوچکا غرضکہ وہاں سے لشکر اسلام بہ ارادہ فتح حلب و انطاکیہ کو چ کیا را ہ میں جوق جوق نصاری اپنے راہبوں اور علما کو لے کر استقبال کرتے اور ان کے ساتھ انجیل ہوتی اور کمال عقیدت ظاہر کرکے صلح کی درخواست کر تے اور کہتے کہ ہم آپ لوگوں کو دوست رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کے ذمہ میں آجائیں ۔انتہیٰ ۔
یہ اثر چند ماہ کی اقامت کا تھا جس کی وجہ سے مسلمانوں کے اخلاق راست بازی و فا شعا ری دیانت داری شہرۂ آفاق ہوگئی تھی ۔سبحا ن اللہ مسلمانوں کے وہ اخلاق تھے کہ بیگا نے دشمنان اسلام اپنے ہم مشرب بادشاہ سے انقطا ع کرکے مسلمانوں کی حمایت میں آتے تھے اور اب بھی مسلمان ہیں کہ با وجود ہم مشربی کے ایک جماعت کو دوسری جماعت کا اعتبار نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اس پر بعض کو دعوے ہے کہ ہم سنت کے تبع ہیں۔
مولوی شبلی صاحب نے الفاروق میں لکھا ہے کہ جنگ یرموک میں جب با ہا ن سپہ سا لار لشکر کفا رتنک ہوا تو ایک رات سرداورو ںکو جمع کر کے کہا کہ عربوں کوشام کی دولت و نعمت کا مزہ پڑ چکا ہے بہتر یہ ہے کہ مال وزر کی طمع دلا کر ان کو یہاں سے ٹالا جائے سب نے اس رائے سے اتفاق کیا دوسرے دن ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا کہ کسی معززا فسر کو ہمارے پاس بھیج دو جو پیغام لے کے آیا اس کا نام جارج تھا جس وقت وہ پہنچا شام ہوچکی تھی ذرادیرکے بعد مغرب کی نمام شروع ہوئی مسلمان جس شوق وذوق سے تکبیر کہہ کر کھڑے ہوئے اور جس محویت و سکون و وقار و ادب و خضوع سے انہوں نے نماز ادا کی قاصد نہایت حیرت و استعجاب کی نگا ہ سے دیکھتا رہا یہا ں تک کہ جب نماز ہوچکی تو اس نے ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے چند سوالات کئے جن میں ایک یہ بھی تھا کہ تم عیسی علیہ السلام کی نسبت کیا اعتقاد رکھتے ہو ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے قرآن کی یہ آیتیں پڑھیں ۔ یا اہل الکتاب لا تغلوا فی دینکم ولا تقولو اعلی اللہ الا لحق نما المسیح بن مریم رسول اللہ وکلمۃ القاہا الی مریم لن یستنکف المسیح ان یکون عبد اللہ ولا الملا ئکۃ المقربون مترجم نے ان الفاظ میں ترجمہ کیا تو جا رج بے اختیار پکا راٹھا کہ بے شک عیسی علیہ السلام کے یہی اوصاف ہیں او ربے شک تمہارا پیغمبر سچا ہے یہ کہہ کر اس نے کلمۂ توحید پڑھا او رمسلمان ہوگیا ۔وہ اپنی قوم کے پاس واپس جانا بھی نہیں چاہتا تھا لیکن حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس خیال سے کہ رومیوں کو بد عہد ی کا گمام نہ ہو مجبور کیا اور کہا کہ کل یہاں سے جو سفیر جا ئے گا اس کے ساتھ چلے آنا۔ انتہیٰ ۔
دیکھئے ان حضرات کے خلوص اور نماز کے خضوع وخشوع کا یہ اثر ہوا کہ قاصد خود سمجھ گیا کہ خدا کی سچی عبادت ایسی ہواکرتی ہے کہ اور اس تھوڑی دیر کی صحبت کی یہ برکت ہوئی کہ دارین کی سعادت حاصل کر کے فائز المرام ہو ان حضرات کے نفوس قدسیہ کا یہ اثر تھا کہ دشمنوں کی طرف کے قاصد جو اہل انصاف ہوتے تھے اونکو دیکھ کر مسلمان ہوتے تھے ۔ان حضرات کی ہمسری کا کوئی دعویٰ کر سکے فقط ۔
وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت والیہ انیب و اخرد عوانا ان الحمد للہ رب العلمین وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد و اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔
تــمــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــت