حضرت عمیر بن سعدانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عمیر بن سعدانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

انصارکے قبیلہ اوس سے ان کا خاندانی تعلق ہے اوران کا اصلی وطن مدینہ منورہ ہے ۔ ملک شام کی فتوحات کے سلسلے میں جتنی لڑائیاں ہوئیں ان سب جنگوں میں انہوں نے بڑے بڑے بہادرانہ کارنامے انجام دئیے ۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کو ملک شام میں حمص کا گورنر مقرر فرمادیا تھا یہ اس قدر عابد وزاہد تھے کہ ان کی عبادت وریاضت اوران کازہد وتقویٰ حد کرامت کو پہنچا ہوا تھا یہاں تک کہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش ! ”عمیربن سعد”
جیسے چند اشخاص مجھے مل جاتے جن کو میں مسلمانوں پر حاکم بناتا۔ (1)
(حاشیہ کنزالعمال،ج۱۶،ص۱۶۲بحوالہ ابن سعد)

کرامت
زاہدانہ زندگی

ان کی زاہدانہ وعابدانہ زندگی بلاشبہ ایک بہت بڑی کرامت ہے جس کا ایک نمونہ ملاحظہ فرمائيے :
محمدبن مزاحم کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت عمیربن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ”حمص” کے گورنرتھے ،ناگہاں ان کے پاس امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک فرمان پہنچا جس کا مضمون یہ تھا :
”اے عمیر بن سعد!ہم نے تم کو ایک اہم عہد ہ سپرد کر کے ”حمص”بھیجا تھا مگر کچھ پتہ نہیں چلا کہ تم نے اپنے اس عہدہ کو خوش اسلوبی کے ساتھ سنبھالا ہے یا نہیں لہٰذا جس وقت میرا یہ فرمان تمہارے پاس پہنچے فوراً جس قدرمال غنیمت تمہارے خزانے میں جمع ہے سب کو اونٹوں پرلدوا کر اوراپنے ساتھ لے کر مدینہ منورہ چلے آؤ اور میرے سامنے حاضرہوجاؤ۔”
دربارخلافت کا یہ فرمان پڑھ کر فوراً ہی آپ اٹھ کھڑے ہوئے اوراپنی لاٹھی میں اپنی چھوٹی سی مشک اورخوراک کی تھیلی اورایک بڑاپیالہ لٹکا کر لاٹھی کندھے پر رکھی اور ملک شام سے پیدل چل کر مدینہ منورہ پہنچے اوردربارخلافت میں حاضر ہوگئے اور امیر المؤمنین کو سلام کیا۔ امیر المؤمنین نے ان کو اس خستہ حالی میں دیکھاتو حیران رہ
گئے اورفرمایا: کیوں اے عمیربن سعد!تمہارا حال اتنا خراب کیوں ہے ؟کیا تم بیمار ہوگئے تھے ؟یا تمہار ا شہر بدترین شہر ہے ؟یا تم نے مجھے دھوکہ دینے کے لیے یہ ڈھونگ رچایاہے ؟امیر المؤمنین کے ان سوالوں کو سن کر انہوں نے نہایت ہی متانت اور سنجیدگی کے ساتھ عرض کیا: اے امیرالمؤمنین!کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کے چھپے ہوئے حالات کی ”جاسوسی”سے منع نہیں فرمایا؟آ پ نے یہ کیوں فرمایا کہ میرا خراب حال ہے؟کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ میں بالکل تندرست وتوانا ہوں اوراپنی پوری دنیا کو اپنے کندھوں پراٹھائے ہوئے آپ کے دربا رمیں حاضرہوں۔ امیر المؤمنین نے فرمایا :اے عمیربن سعد!دنیا کاکون سا سامان تم لے کر آئے ہو ؟میں تو تمہارے ساتھ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا ہوں ۔ آپ نے عرض کیا:اے امیر المؤمنین!دیکھئے یہ میری خوراک کی تھیلی ہے ، یہ میری مشک ہے جس سے میں وضو کرتاہوں اوراسی میں اپنے پینے کا پانی رکھتاہوں اوریہ میرا پیالہ ہے اوریہ میری لاٹھی ہے جس سے میں اپنے دشمنوں سے بوقت ضرورت جنگ بھی کرتاہوں اورسانپ وغیرہ زہریلے جانوروں کو بھی مارڈالتا ہوں۔ یہ ساراسامان میری دنیا نہیں ہے تو اورکیا ہے ؟یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا: اے عمیربن سعد!خدا تم پر اپنی رحمت نازل فرمائے تم تو عجیب ہی آدمی ہو۔
پھر امیر المؤمنین نے رعایا کا حال دریافت فرمایاا ور مسلمانوں کی اسلامی زندگی اور ذمیوں کے بارے میں پوچھ گچھ فرمائی تو انہوں نے جواب دیا کہ میری حکومت کا ہر مسلمان ارکان اسلام کا پابند اوراسلامی زندگی کے رنگ میں رنگا ہوا ہے اورمیں ذمیوں سے جزیہ لے کر ان کی پوری پوری حفاظت کرتاہوں اورمیں اپنے عہدہ کی ذمہ داریوں کو نباہنے کی بھرپور کوشش کرتارہاہوں ۔
پھر امیر المؤمنین نے خزانہ کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا کہ خزانہ کیسا؟ میں ہمیشہ مالدارمسلمانوں سے زکوٰۃ وصدقات وصول کر کے فقراء ومساکین میں تقسیم کردیا کرتاہوں اگر میرے پاس فاضل مال بچتا تو میں ضروراس کو آپ کے پاس بھیج دیتا۔
پھر امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عمیر بن سعد!تم ”حمص”سے مدینہ منورہ تک پیدل چل کر آئے ہو اگر تمہارے پاس کوئی سواری نہیں تھی تو کیا تمہاری سلطنت کی حدود میں مسلمانوں اورذمیوں میں بھلاآدمی کوئی بھی نہیں تھا جو تم کو سواری کا ایک جانور دے دیتا؟ آپ نے عرض کیا: اے امیرالمؤمنین ! میں نے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے یہ بھی سنا ہے کہ میر ی امت میں کچھ ایسے حاکم ہوں گے کہ اگر رعایا خاموش رہے گی تو یہ حکام ان کو برباد کریں گے اوراگررعایا فریاد کرے گی تو یہ حکام ان کی گردنیں اڑادیں گے اورمیں نے رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے یہ بھی سنا ہے کہ تم لوگ اچھی باتوں کا حکم دیتے رہواور بری باتوں سے منع کرتے رہو ورنہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مسلط فرمادے گا جو بد ترین انسان ہوں گے ۔ اس وقت نیک لوگوں کی دعائیں مقبول نہیں ہوں گی ۔ اے امیرالمؤمنین!میں ان برے حاکموں میں سے ہونا پسند نہیں کرتا اس لئے مجھے پیدل چلنا گوارا ہے مگر اپنی رعایا سے کچھ طلب کرنا یا ان کے عطیوں کو قبول کرنا ہر گز ہرگز پسند نہیں ہے ۔
اس کے بعد امیر المؤمنین نے فرمایا: اے عمیر بن سعد!میں تمہاری کارگزاریوں سے بے حد خوش ہوں اس لئے تم اپنی گورنری کے عہدہ پر بحال ہوکر پھر حمص جاؤاور وہاں جاکر حکومت کرو۔ آپ نے نہایت ہی لجاجت کے ساتھ گڑ گڑا کر عرض کیا: اے امیر المؤمنین !میں آپ کو خدا کا واسطہ دے کر اب اس عہدہ کو قبول کرنے سے معافی کا
طلب گارہوں اوراب میں ہرگزہرگز کبھی بھی اس اہم عہدہ کو قبول نہیں کرسکتا لہٰذاآپ مجھے معاف فرمادیجئے ۔
یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایاکہ اچھا اگر تم اس عہدہ کو قبول نہیں کرسکتے ہو تو پھر میری طرف سے اجازت ہے کہ تم اپنے گھروالوں میں جا کر رہو ۔چنانچہ یہ مدینہ منورہ سے تین دن کی مسافت کی دوری پر ایک بستی میں جہاں ان کے اہل وعیال رہتے تھے جاکر مقیم ہوگئے ۔
اس واقعہ کے کچھ دنوں کے بعد امیر المؤمنین نے ایک سو اشرفیوں کی ایک تھیلی اپنے ایک مصاحب کو جس کا نام ”حبیب”تھا ،یہ کہہ کر دی کہ تم عمیر بن سعد کے مکان پر جاکر تین دن تک مہمان بن کر رہو پھر تیسرے دن یہ تھیلی میری طرف سے ان کی خدمت میں پیش کر کے کہہ دینا کہ وہ ان اشرفیوں کو اپنی ضروریات میں خرچ کریں۔
چنانچہ حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشرفیوں کی تھیلی لے کر حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان پر پہنچے اورامیر المؤمنین کا سلام عرض کیا ۔ آ پ نے سلام کا جواب دیا اورامیر المؤمنین کی خیریت دریافت کی اوران کی حکمرانی کی کیفیت کے بارے میں استفسار کیا۔ پھر امیر المؤمنین کے لیے دعائیں کیں ۔
حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین دن تک ان کے مکان پر مقیم رہے اور ہر روز کھانے میں دونوں وقت ایک ایک روٹی اورزیتوں کا تیل ان کو ملتا رہا۔ تیسرے دن حضرت عمیربن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:اے حبیب!اب تمہاری مہمانی کی مدت ختم ہوگئی لہٰذا آج اب تم اپنے گھر جاسکتے ہو۔ ہمارے گھرمیں بس اتناہی خوراک کا سامان تھا جو ہم نے خود بھوکے رہ کر تم کو کھلادیا ۔ یہ سن کر حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

نے اشرفیوں کی تھیلی پیش کردی اور کہا کہ امیر المؤمنین نے آپ کے خرچ کے لیے ان اشرفیوں کو بھیجا ہے ۔ آ پ نے تھیلی ہاتھ میں لے کر یہ ارشادفرمایا : ”اے حبیب!میں رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے سرفراز ہوا لیکن اس وقت دنیا کی دولت سے میرا دامن کبھی داغدار نہیں ہوا پھر میں نے حضرت امیر المؤمنین ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت اٹھائی لیکن ان کے دور میں بھی دولت دنیا کی آلودگیوں سے میں محفوظ ہی رہا لیکن یہ زمانہ میرے لئے بدترین دور ثابت ہوا کہ میں امیر المؤمنین کے حکم سے مجبورہوکر بادل ناخواستہ ”حمص”کا گورنربنااوراب امیر المؤمنین نے یہ دنیا کی دولت میرے گھر میں بھیج دی ہے۔ ”
اتناکہتے کہتے ان کی آواز بھراگئی اوروہ چیخ مار کر زارزاررونے لگے اوران کے آنسوؤں کی دھار ان کے رخسار پر موسلادھار بارش کی طرح بہنے لگی اور انہوں نے اشرفیوں کی تھیلی واپس کردی۔ یہ دیکھ کر گھر میں سے ان کی بیوی صا حبہ نے کہا کہ آپ اس تھیلی کو واپس نہ کیجئے کیونکہ یہ جانشینِ پیغمبر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عطیہ ہے ۔ اس کو رد کردینے سے حضرت امیر المؤمنین کی بہت بڑی دل شکنی ہوگی اوریہ آپ کی شان کے لائق نہیں ہے کہ آپ حضرت امیرالمؤمنین کے قلب کو صدمہ پہنچا ئیں ۔ اس لئے آپ اس تھیلی کو لے کرحاجت مندوں کو دے دیجئے ۔ بیوی صا حبہ کے مخلصانہ مشورہ کو قبول کرتے ہوئے آپ نے تھیلی اپنے پاس رکھ لی اور فوراً ہی فقراء ومساکین کو بلاکر تمام اشرفیوں کو تقسیم کردیا اور اس میں سے ایک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھا۔
حضرت حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس منظر کو دیکھ کر حیران رہ گئے اورمدینہ منورہ پہنچ کر جب حضرت امیر المؤمنین سے ساراماجراعرض کیا توامیر المؤمنین پر بھی رقت
طاری ہوگئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اوردیر تک روتے رہے ۔ پھر جب ان کے آنسو تھم گئے توفوراً ہی ان کی طلبی کے لئے ایک فرمان لکھا اورایک قاصد کے ذریعے یہ فرمان ان کے گھر بھیج دیا۔
حضرت عمیر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمان پڑھ کر ارشادفرمایا کہ امیر المؤمنین کے حکم کی اطاعت مجھ پر واجب ہے ۔یہ کہا اور فوراً پیدل مدینہ منورہ کے لئے گھر سے نکل پڑے اور تین دن کا سفر کر کے دربارخلافت میں حاضرہوگئے ۔
امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عمیربن سعد!جو اشرفیاں میں نے تمہارے پاس بھیجی تھیں ان کو تم نے کہاں کہاں خرچ کیا؟عرض کیا:اے امیر المؤمنین!میں نے اسی وقت ان سب اشرفیوں کو خدا کی راہ میں خرچ کردیا۔
امیر المؤمنین حیر ت واستعجاب کے عالم میں ان کا منہ دیکھتے رہ گئے ۔ پھر اپنے فرزند حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے فرمایا کہ تم بیت المال میں سے دوکپڑے لاکر عمیر بن سعد کو پہنا دو اورایک اونٹ پرکھجوریں لادکر ان کو دے دو۔ آپ نے عرض کیا: اے امیر المؤمنین!کپڑوں کو تو میں قبول کرلیتاہوں کیوں کہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں مگر کھجوریں میں ہرگز نہ لوں گا کیونکہ میں ایک صاع کھجوریں اپنے مکان پر رکھ آیاہوں جو میری واپسی تک میرے اہل وعیال کے لیے کافی ہیں ۔ پھر حضرت عمیربن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر المؤمنین سے رخصت ہوکر اپنے مکان پر چلے آئے اور اس کے چند ہی دنوں بعد ان کا وصال ہوگیا۔
جب امیر المؤمنین کو آپ کی رحلت کی خبر پہنچی تو آپ بے اختیار روپڑے اور حاضر ین سے فرمایا کہ اب تم سب لوگ اپنی اپنی بڑی تمناؤں کو میرے سامنے بیان
کرو ۔ فوراً ہی تمام حاضرین نے اپنی اپنی بڑی سے بڑی تمناؤں کو ظاہر کردیا۔ سب کی تمناؤں کا ذکر سن کر آپ نے فرمایا: لیکن میری سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ کاش ! عمیر بن سعدجیسے صاف باطن وپاک باز اورپیکراخلاص چند مسلمان مجھے مل جاتے تو میں ان سے مسلمانوں کے کاموں میں مددلیتا۔
اسکے بعد آپ نے حضرت عمیربن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے دعائے مغفرت فرمائی اوریہ کہا کہ اللہ تعالیٰ عمیر بن سعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ (1)
(کنزالعمال،ج۱۶،ص۱۶۲تا۱۶۶مختصرا)

Exit mobile version