حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصاری ہیں اورحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پھوپھا ہیں ۔ یہ اپاہج تھے ۔ یہ جنگ احدکے دن اپنے فرزندوں کے ساتھ جہاد کے لیے آئے تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان کو لنگڑا نے کی بناء پر میدان جنگ

میں اترنے سے روک دیا۔ یہ بارگاہ رسالت میں گڑگڑا کر عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ ! عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجھے جنگ میں لڑنے کی اجازت دے دیجئے ۔ میری تمنا ہے کہ میں بھی لنگڑاتا ہوا جنت میں چلا جاؤ ں ۔ ان کی بے قراری اورگریہ وزاری کو دیکھ کر رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا قلب انتہائی متأثر ہوگیا اورآپ نے ان کو جنگ کرنے کی اجازت دے دی۔ یہ خوشی سے اچھل پڑے اور کافروں کے ہجوم میں گھس کر دلیرانہ جنگ کرنے لگے یہاں تک کہ شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ (1)
(مدارج النبوۃ،ج۲،ص۱۲۴)

کرامت
لاش میدان جنگ سے باہر نہیں گئی

لڑائی ختم ہوجانے کے بعد جب حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی حضرت ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہا میدان جنگ میں گئیں تو ان کی لاش کو اونٹ پر لاد کر دفن کرنے کے لیے مدینہ منورہ لاناچاہا تو ہزاروں کوششوں کے باوجود وہ اونٹ مدینہ کی طرف نہیں چلا بلکہ وہ میدان جنگ ہی کی طرف بھاگ بھاگ کر جاتا رہا ۔ حضرت ہند رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب درباررسالت میں یہ ماجراعرض کیاتو آپ نے فرمایا کہ کیا عمرو بن جموح نے گھر سے نکلتے وقت کچھ کہا تھا؟حضرت ہند نے عرض کیا کہ جی ہاں !وہ یہ کہہ کر گھر سے نکلے تھے : اَللّٰھُمَّ لَا تَرُدَّنِیْ اِلٰی اَھْلِیْ (اے اللہ !عزوجل مجھ کو میدان جنگ سے اپنے اہل وعیال میں واپس آنا نصیب مت کر)آپ نے ارشادفرمایا کہ یہی و جہ ہے کہ

اونٹ مدینہ منورہ کی طرف نہیں چل رہا ہے لہٰذا تم ان کو مدینہ لے جانے کی کوشش مت کرو۔ (1)(مدارج النبوۃ،ج۲،ص۱۲۴)

تبصرہ

اللہ اکبر!کیا ٹھکانا ہے اس جذبہ عشق اورجوش جہاد کا اور کیا کہنا اس شوق شہادت کا۔سبحان اللہ ؎
دو قدم بھی چلنے کی ہے نہیں طاقت مجھ میں
عشق کھینچے لئے جاتا ہے میں کیاجاتاہوں
خدا کی شان دیکھئے کہ ان کی تمنا پوری ہوگئی جہاد بھی کرلیا ، شہادت سے بھی سرفراز ہوگئے اورمیدان جنگ ہی میں ان کا مدفن بھی بن گیا۔ یہ سچ ہے ؎
جو مانگنے کا طریقہ ہے اس طرح مانگو
درِ کریم سے بندے کو کیا نہیں ملتا

Exit mobile version