حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عاصم بن ثابت بن ابی الافلح انصاری یہ انصار میں قبیلہ اوس کے مایہ ناز سپوت ہیں۔ بہت ہی جانباز اوربہادر صحابی ہیں ۔ انہوں نے جنگ بدر میں بے مثال جرأت وبہادر ی کا مظاہرہ کیا اورکفار قریش کے بڑے بڑے نامور سرداروں کو قتل کردیا۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند حضر ت عاصم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا ہیں ۔ ۴ ھ میں غزوۃالرجیع کی جنگ میں یہ کفار سے دست بدست لڑتے ہوئے اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ شہید ہوگئے ۔(2)(اسدالغابہ،ج۳،ص۷۳)
ان کی مندرجہ ذیل دوکرامتیں بہت ہی مشہور ہیں جو نہایت ہی مستند ہیں ۔
شہد کی مکھیوں کا پہرہ
چونکہ آپ نے جنگ بدر کے دن کفار مکہ کے بڑے بڑے نامی گرامی سورماؤں اورنامور سرداروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا اس لئے جب کفار مکہ کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو ان کافروں نے چندآدمیوں کو اس لئے مقام رجیع میں بھیج دیا تاکہ انکے بدن
کا کوئی ایسا حصہ (سروغیرہ)کاٹ کر لائیں جس سے یہ شناخت ہوجائے کہ واقعی حضرت عاصم قتل ہوگئے ۔چنانچہ چند کفار ان کی لاش کی تلاش میں مقام رجیع تک پہنچ گئے مگر وہاں جاکر ان کافروں نے اس شہید مرد کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں کے جھنڈنے ان کی لاش کے اردگرداس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک کسی کا پہنچناہی ناممکن ہوگیا ہے اس لئے کفار مکہ ناکام ونامراد ہوکر مکہ واپس چلے گئے ۔(1) (بخاری، ج۲،ص۵۶۹وزرقانی ، ج۲،ص۷۳)
سمندر میں قبر
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ مکہ کی ایک کافرہ عورت سلافہ بنت سعدکے دوبیٹوں کوحضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جنگ احدمیں قتل کرڈالا تھا،اس لئے اس عورت نے جوش انتقام میں یہ قسم کھارکھی تھی کہ اگر مجھ کو عاصم بن ثابت کا سرمل گیا تو میں ان کی کھوپڑی میں شراب پیوں گی۔ چنانچہ اس نے کچھ لوگوں کو بھیجا تھا کہ تم ان کا سرکاٹ کر لاؤ، میں اس کو بہت بڑی قیمت دے کر خریدلوں گی۔ اس لالچ میں چند کفار مقام رجیع تک پہنچے مگر جب انہوں نے شہد کی مکھیوں کا گھیرادیکھاتوحواس باختہ ہوگئے مگر یہ چند لالچی لوگ اس انتظار میں وہاں ٹھہر گئے کہ جب کبھی بھی یہ شہد کی مکھیاں اڑ جائیں گی تو ہم ان کا سرکاٹ کر لے جائیں گے ۔ خدا کی شان کہ نہایت ہی زور دار بارش ہوئی اور پہاڑوں سے برساتی نالہ بہتا ہوا اس میدان میں پہنچا اوراس زور کا ریلا آیا کہ کفار جان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے اورآپ کی مقدس لاش پانی
کے بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی سمندر میں پہنچ گئی ۔
روایت ہے کہ جس دن عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا تھا اسی دن خداسے یہ عہد کیا تھا کہ میں نہ تو کسی کافر کے بدن کو ہاتھ لگاؤں گا نہ کسی کافر کو موقع دوں گا کہ وہ میرے بدن کو چھوسکے ۔ اللہ اکبر!خدا کی شان کہ زندگی بھر تو ان کا یہ عہدپورا ہوتاہی رہا مگر شہادت کے بعد بھی خدا وند قدوس نے ان کے اس عہد کو پورا فرمادیا کہ کفاران کے مقدس بدن کو ہاتھ نہ لگا سکے ۔ پہلے شہد کی مکھیوں کا پہرہ لگادیا پھر برساتی نالوں نے ان کے بد ن مبارک کو ان کے مدفن تک پہنچا دیا۔ (1)
(حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۹بحوالہ بیہقی وکنزالعمال ، ج۱۶،ص۱۷۸)
تبصرہ
حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان دونوں کرامتوں کو پڑھ کر غور فرمائيے کہ اللہ تعالیٰ کا شہداء کرام پر کتنا فضل عظیم ہوتاہے اورراہ خدا میں جان فدا کرنے والوں کو رب العزت جل جلالہ کے دربار عالیہ سے کیسی کیسی عظیم الشان کرامتوں کے نشان عطاکئے جاتے ہیں ۔ وفات کے بعد بھی ان کے تصرفات بصورت کرامات جاری رہتے ہیں ۔ لہٰذا شہیدوں سے عقیدت ومحبت اوران کا ادب واحترام واجب العمل اورلازم الایمان ہوتاہے ۔