حضرت سیِّدُنا سری سقطی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کاوصال:
حضرت سیِّدُنا جنید بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی فرماتے ہیں کہ” میں حضرت سیِّدُنا سری سقطی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے انتقال کے وقت آپ کی خدمت میں حاضرہوا، آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جن کے دل کو اللہ عزَّوَجَلَّ کے خوف اور عشقِ الٰہی نے جلا دیاتھا۔ میں نے عرض کی: ”اپنے آپ کو کیسا پاتے ہیں؟”تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے یہ شعر پڑھا:
کَیْفَ أشْکُوْ إلٰی طَبِیْبِیْ مَا بِیْ وَالَّذِیْ بِیْ أصَابَنِیْ مَنْ طَبِیْبِیْ
ترجمہ:۔۔۔۔۔۔میں اپنے طبیب سے اس بیماری کی شکایت کیسے کروں جس میں اس نے خود ہی مجھے مبتلاکیاہے۔
پھر میں نے پنکھا لیا تاکہ آپ کو ہوا دوں تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”پنکھے کی ہوا اس شخص کو کیسے راحت پہنچائے گی جس کادل جل رہاہو؟”پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے چند اشعار پڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
”دل جل رہاہے،آنسو بہہ رہے ہیں، غم جمع ہو رہے ہیں اور صبر ٹوٹ رہاہے۔ اس شخص کو کیسے اطمینان آئے جس کے لئے راحت وسکون کی کوئی جگہ ہی نہ ہو کیونکہ وہ تو بے چینی و اضطراب اور عشقِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں گرفتار ہے۔”
پھر آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ذکر الٰہی عَزَّوَجَلَّ کرتے ہوئے داعئ اَجَل کو لبیک کہااور اس دنیائے فانی سے کوچ فرما گئے۔
پیارے اسلامی بھائیو!اطاعت کی مٹھاس میں سے تم نے کیا تیار کیا تاکہ تم موت کا کڑوا گھونٹ پی سکو؟ اور موت کے آنے سے پہلے تقویٰ کے توشہ میں تم نے کون سی چیز آگے کر رکھی ہے ؟اور کس چیز نے حق کی آواز سننے سے غافلوں کے کانو ں پر پردہ ڈال رکھا ہے؟اے تنہائی میں گناہ کرنے والے!کاش! تو نے خلوت اختیار نہ کی ہوتی۔ کتنے ہی وعظ ونصیحت کرنے والے اہلِ غفلت کوپکاررہے ہیں مگر وہ نصیحت قبول نہیں کرتے۔چنانچہ،
اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:
وَ اَنۡذِرْہُمْ یَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِیَ الْاَمْرُ ۘ وَ ہُمْ فِیۡ غَفْلَۃٍ وَّ ہُمْ لَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿39﴾
ترجمۂ کنزالایمان :اور انہیں ڈرسناؤ پچھتاوے کے دن کا،جب کام ہو چکے گااور وہ غفلت میں ہیں،اور وہ نہیں مانتے۔(پ16، مریم:39)