حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی توبہ:
منقول ہے، جب حضرت سیِّدُنا آدم علٰی نبیناوعلیہ الصلٰوۃوالسلام نے ممنوعہ درخت سے کھایااور آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام کو رب عَزَّوَجَلَّ سے کیا ہوا وعدہ بھلادیا گیاتوجنَّتی لباس علیحدہ ہوگیا۔ وہاں کی ہر چیز آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام سے نامانوس ہو گئی۔ چنانچہ، آپ علیہ الصلٰوۃوالسلام جلدی سے بھاگتے ہوئے جنَّتی درختوں کے پتوں میں چھپ گئے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے پوچھا:”اے آدم! کیا تم مجھ سے بھاگتے ہو؟”عرض کی:”نہیں، اے میرے رب عَزَّوَجَلَّ !بلکہ مجھے تجھ سے حیاء آتی ہے۔” تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: ”کیا میں نے تجھے اپنے دستِ قدرت سے پیدانہیں کیا؟ کیامیں نے تیرے لئے ملائکہ کو سجدہ کرنے کاحکم نہ دیا؟کیا میں نے تجھ میں اپنی طرف کی خاص روح نہ پھونکی؟ کیا میں نے تجھے اپنے قرب میں جگہ عطا نہ فرمائی؟ کیا میں نے تیرے لئے اپنی جنت مباح نہ کی؟ پس یہاں سے الگ ہو جا کیونکہ لغزش والا یہاں نہیں رہتا۔” اس پرحضرت سیِّدُناآدم علیہ الصلٰوۃ والسلام جس
قدر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے چاہا، روتے رہے۔پھرعرض کی:”اے میرے معبود!اگرتومجھ پررحم نہ کریگاتوکون کریگا؟”تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے وحی فرمائی کہ یوں دعا کر: ”سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَا ۤاِلٰہَ اِلَّا ۤ اَنْتَ عَمِلْتُ سُوْءً ا وَظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَتُبْ عَلَیَّ اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّا بُ الرَّحِیْمُ یعنی اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! تو ہر عیب سے پاک ہے اور تعریف کے لائق تیری ہی ذات ہے، تیرے سواکوئی معبودنہیں،مجھ سے لغزش ہوئی اور میں نے اپنی جان پر زیادتی کی پس تومیری توبہ قبول فرما۔ بے شک تو بہت توبہ قبول فرمانے والااورمہربان ہے۔” (مذکورہ کلمات کے متعلق) حضرت سیِّدُنا مجاہدعلیہ رحمۃ اللہ الواحد اور مفسِّرین کے ایک گروہ کا قول ہے کہ ” یہ وہ کلمات ہیں جو حضرت سیِّدُنا آدم علیہ الصلٰوۃوالسلام نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے سیکھے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ علیہ والسلام کی توبہ قبول فرمائی۔”