حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ
یہ خاندان قریش کے بہت ہی نامور اشراف میں سے ہیں ۔ ان کی والدہ حضرت بی بی لبابۂ صغری رضی اللہ تعالیٰ عنہاام المؤمنین حضرت بی بی میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی بہن تھیں ۔ یہ بہادری اورفن سپہ گری وتدابیر جنگ کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے انکی اوران کے باپ ولید کی اسلام دشمنی مشہورتھی ۔ جنگ بدر اور جنگ احد کی لڑائیوں میں یہ کفار کے ساتھ رہے اوران سے مسلمانوں کو بہت زیادہ جانی نقصان پہنچا مگر ناگہاں ان کے دل میں اسلام کی صداقت کا ایسا آفتاب طلوع ہوگیا کہ ۷ھ میں یہ خود بخود مکہ سے مدینہ جاکر درباررسالت میں حاضر ہوگئے اور دامن اسلام میں آگئے اور یہ عہد کرلیا کہ اب زندگی بھرمیری تلوار کفار سے لڑنے کے لئے بے نیام رہے گی چنانچہ اس کے بعد ہر جنگ میں انتہائی مجاہدانہ جاہ وجلال کے ساتھ کفار کے مقابلہ میں شمشیربکف رہے یہاں تک كه ۸ھ میں جنگ موتہ میں جب حضرت زید بن حارثہ وحضرت جعفربن
ابی طالب وحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم تینوں سپہ سالاروں نے یکے بعد دیگرے جام شہادت نوش کرلیا تو اسلامی فوج نے ان کو اپنا سپہ سالار منتخب کیااورانہوں نے ایسی جاں بازی کے ساتھ جنگ کی کہ مسلمانوں کی فتح مبین ہوگئی ۔ اوراسی موقع پر جب کہ یہ جنگ میں مصروف تھے حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مدینہ منورہ میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے ان کو ”سیف اللہ”(اللہ کی تلوار)کے خطاب سے سرفراز فرمایا ۔ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے سراٹھایاتو انہوں نے ان معرکوں میں بھی خصوصاًجنگ یمامہ میں مسلمان فوجوں کی سپہ سالاری کی ذمہ داری قبول کی اورہر محاذپر فتح مبین حاصل کی ۔ پھر امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے دوران رومیوں کی جنگوں میں بھی انہوں نے اسلامی فوجوں کی کمان سنبھالی اوربہت زیادہ فتوحات حاصل ہوئیں ، ۲۱ھ میں چند دن بیماررہ کر وفات پائی ۔(1) (اکمال ،ص ۵۹۳وکنزالعمال جلد۱۵وتاریخ الخلفاء)