حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یہ مدینہ منورہ کے باشندہ ہیں اورانصار کے قبیلہ اوس سے انکا خاندانی تعلق ہے ۔ ان کا باپ ابو عامر اپنے قبیلہ کا سردار تھا اورزمانہ جاہلیت میں اس کی عبادت کی کثرت کو دیکھ کرعام طور پر لوگ اس کو ابو عامر راہب کہا کرتے تھے ۔جب حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اورپورا مدینہ اور اطراف حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے قدموں پر قربان ہونے لگا تو مدینہ کے دو شخصوں پر حسد کا بھوت سوارہوگیا۔ ایک عبداللہ بن ابی ، دوسرے ابو عامر راہب ۔لیکن عبداللہ بن ابی نے تو اپنی دشمنی کو چھپائے رکھا اورمنافق بن کر مدینہ ہی میں رہا لیکن ابو عامر راہب حسد کی آگ میں جل بھن کر مدینہ سے مکہ چلا گیا اورکفار مکہ کو بھڑکا کرمدینہ منورہ پر حملہ کے لیے تیار کیا چنانچہ ۳ھ ؁میں جب جنگ احد ہوئی تو ابو عامر کفار کے لشکر میں شامل

تھا اورکفار کی طرف سے لڑرہا تھا مگر اس کے بیٹے حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرچم اسلام کے نیچے نہایت ہی جواں مردی اورجوش و خروش کے ساتھ کفار سے لڑ رہے تھے۔ابو عامر راہب جب تلوارگھماتا ہوا میدان میں نکلا تو حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ!صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنی تلوار سے اپنے باپ ابو عامر کاسرکاٹ کر لاؤں مگر حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی رحمت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کا سر کاٹے اس لئے آپ نے اجازت نہیں دی مگر حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جوش جہاد میں اس قدر آپے سے باہر ہوگئے تھے کہ سر ہتھیلی پر رکھ کر انتہائی جانبازی کے ساتھ لڑتے ہوئے قلب لشکر تک پہنچ گئے اورکفار کے سپہ سالار ابو سفیان پر حملہ کردیااور قریب تھا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تلوار ابو سفیان کا فیصلہ کردے مگر اچانک پیچھے سے شداد بن الاسود نے جھپٹ کر وار کو روکا اور حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہید کردیا۔ (1)
(اسدالغابہ،ج۲،ص۶۷ومدارج النبوۃ،ص۱۲۳)

کرامت
غسیل الملائکہ

حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں نے انہیں غسل دیاہے ۔ جب ان کی بیوی سے ان کا حال دریافت کیا گیا تو انہوں نے یہ بتایا کہ وہ جنگ احد کی رات میں اپنی بیوی کے ساتھ

سوئے تھے اورغسل کی حاجت ہوگئی تھی مگر وہ رات کے آخری حصہ میں دعوت جنگ کی پکار سن کر اس خیال سے بلا غسل میدان جنگ کی طرف دوڑپڑے کہ شاید غسل کرنے میں اللہ کے رسول کی پکار پر دوڑنے میں دیر لگ جائے ۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے شہادت کے بعد ان کوغسل دیا،ورنہ شہید کو غسل دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ اسی واقعہ کی بناء پر حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غسیل الملائکہ (فرشتوں کے نہلائے ہوئے )کہا جاتاہے ۔(1)
(مدارج النبوۃ،ج۲ومشکوۃ شریف وغیرہ)

تبصرہ

فرشتوں نے حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت کے بعد غسل دیا۔ یہ آپ کی بہت بڑی کرامت اورنہایت ہی عظیم الشان فضیلت ہے ۔ چنانچہ آپ کے قبیلہ والوں کو اس پر بہت بڑا فخر اورناز تھا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمارے قبیلہ کے ایک عدیم المثال فرد ہیں کہ جن کو فرشتوں نے نہلایا ۔ اس تفاخر کے سلسلے میں منقول ہے کہ قبیلہ اوس کے لوگوں نے قبیلہ خزرج والوں سے کہا کہ دیکھ لو حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غسیل الملائکہ ہمارے قبیلۂ اوس کے ہیں اور حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہد کی مکھیوں نے جن کی لاش پر پہرہ دیا تھاوہ بھی ہمارے قبیلہ اوس کے ہیں اور حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی وفات پر عرش الٰہی ہل گیا وہ بھی ہمارے قبیلہ اوس کے ہیں اور حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی اکیلے کی گواہی دو گواہوں کے برابر ہے وہ بھی ہمارے قبیلہ اوس ہی کے ہیں ۔ یہ سن کر قبیلہ خزرج کے لوگوں نے کہا کہ ہمارے
قبیلۂ خزرج والوں کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں ہمارے قبیلہ کے چارآدمی حافظ قرآ ن وقاری ہوئے اورتمہارے قبیلہ میں اس وقت تک کوئی بھی پورا حافظ قرآن نہیں ہوا۔ دیکھ لو حضرت زید بن ثابت ، حضرت ابو زید وحضرت ابی بن کعب وحضرت معاذ بن جبل (رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین) یہ چاروں حفاظ ہمارے قبیلۂ خزر ج کے سپوت ہیں ۔(1)(اسدالغابہ،ج۲،ص۶۸)

Exit mobile version