حضرت حفصہ بنت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا
بعثت سے پانچ برس پہلے جب قریش خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے پیدا ہوئیں ۔ پہلے خنیس بن حذیفہ سہمی کے نکاح میں تھیں ۔ان ہی کے ساتھ مدینہ کو ہجرت کی۔ حضرت خنیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے غزوۂ بدر میں کئی زخم کھائے۔ غزوہ کے بعد ان ہی زخموں کی وجہ سے انتقال فرماگئے۔
حضرتخنیسرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی شہادت کے بعد حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اپنی بیٹی کے نکاح کی فکر ہوئی۔فتح بدر کے دن حضرت رُقیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے حضرت عمر فاروق نے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں حفصہ کا نکاح تم سے کردیتا ہوں ۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔پھر چند روز کے بعد کہہ دیا کہ میرا ارادہ ان ایام میں نکاح کرنے کا نہیں ہے۔بعد ازاں حضرت فاروق نے حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے ذکر کیا مگر وہ چپ ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ اس پر حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو رنج ہوا۔اس کے بعد آنحضرتصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خواستگاری کی اور شعبان ۳ ھ میں نکاح ہوگیا۔ نکاح کے بعد حضرت صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضرت فاروق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا کہ میری بے التفاتی کی وجہ صرف یہ تھی جو مجھے معلوم تھا کہ رسول اللّٰہصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حفصہ کا ذکر کیا تھامیں حضور کا راز اِفشاء کرنا نہ چاہتا تھا۔ اگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حفصہ سے نکاح نہ کرتے تو میں قبول کرلیتا۔
حضرت حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سے ساٹھ حدیثیں مروی ہیں جن میں سے صرف پانچ بخاری میں ہیں ۔
انہوں نے شعبان ۴۵ ھ میں حضرت معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے عہد خلافت میں انتقال فرمایا۔ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کا گورنر تھانماز جنازہ پڑھائی اور بنو حزم کے گھر سے مغیرہ کے گھر تک جنازہ کو کندھا دیااور مغیرہ کے گھر سے قبر تک حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ شرف حاصل کیا۔ ( ۱)
________________________________
1 – شرح الزرقانی مع المواہب اللدنیۃ، المقصد الثانی ۔۔۔إلخ ، الفصل الثالث فی ذکر ازواجہ الطاہرات ۔۔۔إلخ ، ج ۴، ص۳۹۳،۳۹۵۔علمیہ